
STOCK MARKET with SHEHERYAR BUTT
June 18, 2025 at 04:13 AM
ملکی توانائی شعبے نے جون 2025 میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے ساتھ طے شدہ مقدار کے مقابلے میں 28 فیصد کم ریگیسفائیڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) استعمال کی جس کے باعث گیس کمپنی کو شدید عملی اور مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ ایس این جی پی ایل مسلسل اس مسئلے کی نشاندہی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف گیس (پیٹرولیم ڈویژن) اور پاور ڈویژن دونوں کو کررہی ہے۔
اپنے حالیہ بیان میں ایس این جی پی ایل نے واضح کیا کہ توانائی کا شعبہ جون 2025 کے لیے مقرر کردہ 550 ملین مکعب فٹ یومیہ آر ایل این جی کی طلب کے مطابق گیس استعمال نہیں کر رہا۔ حقیقی اوسط کھپت تقریباً 396 ایم ایم سی ایف ڈی رہی جس کے باعث نظام میں اضافی گیس جمع ہورہی ہے۔
ایس این جی پی ایل نے خبردار کیا کہ اگر آر ایل این جی کی کھپت فوری طور پر طے شدہ طلب کے مطابق نہ بڑھائی گئی تو نظام میں دباؤ کی زیادتی ری-گیسفکیشن کے عمل کو متاثر کرسکتی ہے جو دونوں ایل این جی ٹرمینلز پر آپریشن میں خلل کا باعث بنے گی۔ اس صورت میں ایل این جی کارگو کی ترسیل میں تاخیر ہوسکتی ہے جس سے ڈیمرج چارجز اور ٹیک اینڈ پے معاہدوں کے تحت کمپنی کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔ متبادل طور پر کمپنی مقامی گیس فیلڈز سے گیس کی فراہمی میں کٹوتی کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔
ایس این جی پی ایل نے ڈائریکٹوریٹ جنرل (گیس)، پیٹرولیم ڈویژن سے فوری مداخلت کی درخواست کی ہے اور مطالبہ کیا کہ پاور ڈویژن کو فوری طور پر طے شدہ معاہدوں کے مطابق آر ایل این جی کی کھپت یقینی بنانے کے لیے شامل کیا جائے، نیز غیر استعمال شدہ مقدار کو بھی پورا کیا جائے۔ یہ اقدام نظام کی بلا تعطل اور مؤثر کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔
نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی)، جو اب آزاد نظام و مارکیٹ آپریٹر (آئی ایس ایم او) کے طور پر کام کررہا ہے، پاور پلانٹس کی ترسیل اقتصادی میرٹ آرڈر (ای ایم او) کی بنیاد پر کرتا ہے۔ تاہم، متعدد مواقع پر آئی ایس ایم او نے مختلف پاور پلانٹس کی غیر متوقع یا شیڈول بندشوں کے باعث ای ایم او سے انحراف کیا ہے۔
آئی ایس ایم او کا مؤقف ہے کہ پاور پلانٹس کی جزوی آپریشنل استعداد کے مطابق چلانا ان کے متعلقہ پاور پرچیز ایگریمنٹس (پی پی ایز) کی شقوں کے عین مطابق ہے اور تمام آپریشنل فیصلے انہی معاہدوں کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔
تاہم نیپرا کی عوامی سماعتوں کے دوران این پی سی سی کے جنرل منیجر کو اکثر اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ نسبتاً سستے اور مقامی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس کو نظرانداز کرتے ہوئے مہنگے آر ایل این جی سے چلنے والے یونٹس کو ترجیح دیتے ہیں، خصوصاً جب وسطی پنجاب میں بجلی کی بلند ترین طلب کو پورا کرنا مقصود ہو۔