Saile Rawan
June 10, 2025 at 01:54 PM
اردو اور دینی مدارس
محسن خان ندوی کلکتہ
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ، نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
بہت چھوٹی سی عمر تھی جب والدہ مجھے اور میری باجی کو یسرنا القرآن اور اردو کا قاعدہ و اردو کی پہلی از مولوی اسماعیل میرٹھی پڑھاتی تھیں اور کچھ یاد تو نہیں بس اتنا یاد ہے کہ اردو کی کتاب پڑھتے وقت ہم اس میں جو گردان ہے خوب مزے لے لے کر رٹتے تھے بَد بِد بُد بَس بِس بُس بَط بط بُط وغیرہ اور
یا رب دل دے سن لے مت ڈر چپ رہ ۔
پھر جب اسکول کی لائف شروع ہوئی تو عصری تعلیم میں کچھ ایسے غرق ہوئے کہ اردو زبان ہی بھول چکے تھے برسوں بعد تبلیغی جماعت کی برکت سے فضائل اعمال کی تعلیم کا موقع ملا امی کی پڑھائی ہوئی اسی اردو کا سہارا لے کر اٹک اٹک کر اردو پڑھنے لگا اور "تعلیم‛‛ کرنے لگا۔
قسمت نے یاوری کی اور مادر علمی دار العلوم ندوہ العلماء جیسے عظیم الشان ادارے میں مشفق و مربی اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا کی توفیق میسر آئی خصوصی اول میں اردو زبان کو لے کر بہت دقتیں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اوپر سے نحو صرف کی فارسی آمیزش کتابوں نے اور الجھایا یہاں تو حال یہ تھا کہ ہم Male اور Female اور استری لنگ و پولنگ پڑھ کر گئے تھے اور وہاں اردو کی مذکر و مؤنث ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ظلم بالائے ظلم فارسی کا شعر
معرب آں باشد کہ گر دد باربار
مبنی آں باشد کہ ماند برقرار
پڑھنا پڑتا تھا پڑھنا کیا رٹا مارنا پڑتا تھا ۔
ہمارے اردو کے محترم و مکرم استاذ حضرت مولانا عزیز الرحمان صاحب ندوی رحمہ ﷲ جن کی محنت و شفقت اور Method of Teaching نے ہم اردو سے نا آشنا طلبہ کو اردو زبان سکھا دی ۔
بلا شبہ مولانا اردو کے ممتاز استاذ تھے چھوٹے سے چھوٹے اور آسان سے آسان لفظ کا معنی بتاتے۔
اور اس طرح ہم لوگوں نے مولوی اسماعیل میرٹھی کی کتاب سے ہی اردو زبان لکھنا پڑھنا سیکھا اور جب زبان پر پکڑ ہو گئی تو اردو کے دسترخوان سے ادب کی چاشنی کا مزا ملنا شروع ہوا علامہ شبلی نعمانی ، علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا عبد الماجد دریابادی اور خاص طور پر دار المصنفین سے شائع ہونے والی اردو کتب کے مطالعہ میں جو مزا ملتا تھا وہ دوسرے ادیبوں میں کم ہی ملتا تھا اور اس زبان و ادب کا شعور خالصتا دینی مدرسہ کی ہی دین ہے ۔
مجھ سمیت بہت سارے طالبان علوم نبوت کو مدرسہ سے ہی اردو زبان و ادب سیکھنے کا موقع ملا اور وہی آج اردو کی جی جان سے خدمت بھی کر رہے ہیں بلا معاوضہ اور بے غرض۔
جب ندوہ سے فارغ ہو کر تعلیمی میدان میں اترا تو حیرت کی انتہا نا رہی کہ دس بارہ سالوں تک اردو میڈیم سے پڑھنے والے طلبہ و طالبات کو اردو ادب تو خیر جانے ہی دیں زبان تک نہیں آتی املا کی غلطیاں تو ان کو معاف ہی سمجھیں ایک پیراگراف خود سے لکھنے کی صلاحیت نہیں ۔
آیے دن اردو میں آنرس کر رہے طلبہ و طالبات سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ان کو اردو کی ہوا چھو کر نہیں گزرتی ادب تو بہت دور کی بات ہے ۔
بہت ذمہ داری کے ساتھ یہ سطریں لکھ رہا ہوں کہ بعض اردو کے پی ایچ ڈی ہولڈر اور پروفیسرز حضرات کو اردو کے تلفظ میں ایسی بھونڈی غلطی کرتے سنا کر حیران رہ گیا۔
بعض اردو کے بڑے ادیب کہے جانے والے حضرات سے گفت و شنید کا موقع ملا ایک جملہ بغیر انگریزی کی بیساکھی کے نہیں بولتے ہیں ان کے بالمقابل مدارس کے طلبہ کی اکثریت کو فصیح اردو بولتے سنا مدارس کے اساتذہ تو خیر استاذ ہی ہیں اردو کے۔
نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ، نہ یوں رسوائیاں ہوتیں