Hamza Shafqaat
Hamza Shafqaat
June 1, 2025 at 09:33 AM
چلتن کی پہاڑیوں سے سرمئی شام شفق کے پھول دامن میں سمیٹے سٹاف کالج ، کوئٹہ کے سبزہ زار میں اتر رہی تھی ، فضا کی خنکی یوں راحت آمیز ہو رہی تھی کہ ایک ہمدمِ دیرینہ ابدالین کیلئے الوداعی افطار ڈنر کا اہتمام تھا ، جہاں ایک طرف حاضرین محفل گرم جوشی سے محو گفتگو تھے تو دوسری جانب اشتہا انگیز کھانے کی خوشبو روزہ داروں کا دامن کھینچ رہی تھی، دن بھر کی تھکان سے ٹوٹتے بدن آرام کی جستجو میں تھے جب اچانک شام کی خامشی کو چیرتی ہوئی فون کی گھنٹی بجی. کمشنر صاحب آپ کہاں ہیں ؟ ڈی جی پی ڈی ایم اے کی آواز میں غیر معمولی ہیجان اور سنسناہٹ تھی افطار۔۔سٹاف کالج ، میں نے تیزی سے کہا۔ پھر جو کچھ دوسری طرف سے کیا گیا وہ بہت اعصاب شکن تھا " ٹرین ہائی جیک ہو گئی ہے ، حالات بہت خراب ہیں ! میرے پورے بدن میں سنسناہٹ دوڑ گئی ، میں نے قدرے توقف کیا ، سوچا یہ تو کچھ مبالغہ آمیزی لگ رہی ہے ، یہ کوئی ہالی وڈ کی فلم ہے ؟ بھلا حقیقی زندگی میں ٹرین کیسے ہائی جیک ہو سکتی ہے ؟ ابھی میں گو مگو کی کیفیت میں تھا کہ اسی ہنگام ایک اور کال موصول ہوئی ، جو کہ کنٹرول روم سے تھی ، سر ! جلدی پہنچیں ، ہمیں آپ کی ضرورت ہے ، میں نے کھانے کی میز کی طرف دیکھا ، کھانوں کے رنگ میری آنکھوں کے سامنے دھندلا گئے ، لمحوں کے اندر ایک برق لہرائی اور میں وہاں سے روانہ ہو گیا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس رات کے سناٹے سے جو آواز پیدا ہو گی وہ تاریخ کے گنبد میں ہمیشہ گونجتی رہے گی کنٹرول روم پہنچا تو ماحول پر گہری سنجیدگی طاری تھی مگر ہر کوئی بروئے کار آ چکا تھا ، سب محکموں سے لوگ موجود تھے ، آئی ایس آئی ، سی ٹی ڈی ، ایف سی ، ریلوے ، پولیس ۔ سپاٹ چہرے ، لب بستہ آوازیں ، اور آنکھیں سامنے سکرین پر جمی ہوئی جہاں ایک ساکن ٹرین کو مچھ کے نزدیک ویرانے میں دکھایا گیا تھا ، اس ملال آمیز خاموشی میں بھی ہم میں سے ہر ایک کا ذہن میدان ِ کارزار بنا ہوا تھا ، وقت تھم سا گیا تھا آخر کار وہاں سات جوانوں کی آمد ہوئی ، خاموش طبع مگر بولتی آنکھوں والے ، جیسے کسی تاریخی معرکے میں کچھ دیو مالائی کردار ہوتے ہیں مگر یہ تو جیتے جاگتے انسان تھے ، یہ ضرار کے کمانڈوز تھے ! زمین جن کی ہیبت سے کانپتی ہے ، فلک جن کے رعب کو جھک کر سلام کرتا ہے ، جن کے سینوں پہ زخم پھول بن کھل اٹھتے ہیں ، جن کی آرزوئے شہادت کو دیکھ کر موت بھی رشک کرتی ہے ، پہاڑ جیسی خامشی اور آہنی عزم ، شاہین صفت آنکھیں ، نرم دمِ گفتگو ، گرم دمِ جستجو ان میں سے ایک کے بازو پر پٹی بندھی تھی ، دریافت کرنے پر اس نے ایک شان ِ بے نیازی سے جواب دیا ، دو دن پہلے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک معرکے میں گولی لگی تھی، جب اسے کہا گیا کہ اسے تو آرام کرنا چاہیے اس کا جواب تھا ، سر ! گولیوں سے زیادہ درد تو ہمیں ٹریننگ کے دوران ہوتا ہے ، سب لاجواب ہو گئے مجھے یوں لگا کہ شیکسپئر کا وہ لافانی قول میرے سامنے مجسم کھڑا ہے " بزدل موت سے پہلے کئی بار مرتا ہے جبکہ بہادر صرف ایک بار ! یہ عام انسان نہیں تھے بلکہ نوع انسانی تہٌور کی جس معراج تک پہنچ سکتی ہے یہ اس کا نمونہ تھے مگر شیطان صفت دشمن بھی تیاری سے آیا تھا فتنتہ الہندو ستان ،، ایک فریب خوردہ انتہا پسند گروہ جو انتشار میں پھلتا پھولتا ہے ، ان کا مقصد صرف قتل کرنا نہیں تھا بلکہ بے محابا دہشت پھیلانا اور قوم کے عزم صمیم کو توڑنا تھا ، ان کے ہاتھ صرف بندوقوں پر نہیں تھے بلکہ وہ ناپاک ہاتھ قوم کی رگ ِ گردن تک پہنچنا چاہتے تھے ، وہ صرف گوشت پوست کے انسانوں پہ حملہ اور نہیں تھے بلکہ وہ ہماری قومی شناخت کو مٹانا چاہتے تھے، میں نے ایک ویڈیو دیکھی ، جس میں ایک شخص بے کسی سے التجا کر رہا تھا ، میں لاہور سے ہوں ، مجھے مت قتل کرو ۔۔۔۔ آہ،،، اس کے بعد ایک ناقابل بیان خامشی مگر یہ انسان نما وحشی درندے نہیں جانتے تھے کہ ضرار ان کے عبرتناک انجام کا خاکہ بنا چکے تھے جب آپریشن کا آغاز ہوا تو ہم جانتے تھے کہ یہ معرکہ موت کے منہ سے زندگی چھیننے کا معرکہ ہے ، خود کش جیکٹس کی موجودگی میں ایک گولی غلط چل جاتی تو سب کچھ راکھ ہو جاتا ، یہاں ایک سپاہی کی وہ بہادری بھی درکار تھی جو ایک موج ِ بلا خیز کی طرح حریف کو پچھاڑ کے رکھ دے اور ایک ماہر سرجن کے دست ِ مسیحائی کی ہنر مندی بھی جو خورد بینی سے یوں نشتر آزمائی کرے کہ فاسد مادہ تو نکل جائے لیکن کہیں رگِ خوں نہ کٹ جائے، بہادری اور مہارت کا یہ امتزاج ایک معجزہ ہے جو تائید ایزدی کے بغیر ممکن نہیں ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز پھر ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں ، چھ گولیاں یک بیک چلتی ہیں اور خود کش جیکٹس پہنے ہوئے چھ دہشت گرد فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ، ایک لمحے کی لغزش ہو جاتی تو شاید یہ داستان سیاہی کی بجائے خون سے لکھی جاتی ، سنائیپرز نشانے باز بھی ہوتے ہیں اور سائینس آشنا بھی ، گولی کس زاویے سے چلے گی ، بلندی ، پستی ، ہوا کا رخ ، ولاسٹی وغیرہ ، یہ سب یہاں بھی تھا مگر ان سب سے زیادہ مردان خدا کا یقین تھا ، یہ ایمان جیومیٹری کی وہ پرکار ہے جو کبھی غلط زاویہ نہیں بناتی نُقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز ان اعصاب شکن لمحات میں کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ نے صورت حال سے نمٹنے میں مرکزی کردار ادا کیا ، مچھ یہاں سے 150 کلومیٹر دور تھا مگر کوئٹہ کی انتظامیہ اور شہری یوں محسوس کر رہے تھے جیسے وہ اس واقعے کا حصہ ہوں ، جیسے ہی واقعے کی اطلاع ملی ڈپٹی کمشنر آفس نے ہائی الرٹ ایمرجنسی کا اعلان کیا ، ہسپتال ، ریسکیو 1122، فائر بریگیڈ ، ریلوے پولیس ، ایدھی سمیت تمام ادارے ایک خودکار نظام کی طرح مستعد اور متحرک ہو گئے ، ڈپٹی کمشنر آفس میں کنٹرول روم بنایا گیا ، ہاٹ لائن پہ فون مستقل بجنے لگا ، لواحقین ایک دردناک کیفیت سے دوچار تھے اور پیاروں کی تلاش میں سسک رہے تھے ، اپنے پیاروں کی زندگی کی موہوم امید لئے وہ گھروں سے نکل آئے تھے اس قیامت صغریٰ میں بالآخر حالات قابو میں آنے لگے شہر کے چار سو پبلک مقامات ، ہسپتالوں اور ریلوے اسٹیشن کی سیکورٹی انتہائی سخت کر دی گئ۔ ہمارا سامنا ایک ایسے دشمن سے تھا جو صرف بندوق سے نہیں لڑ رہا تھا بلکہ زہرآلود پروپیگنڈہ بھی اس کا ہتھیار تھا جس کا نشانہ معصوم شہری تھے حملے کی اطلاع ملتے ہی کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کے رشتہ دار پہنچنے لگے ، کچھ حالت اضطراب میں ننگے پاؤں تھے ، اشکبار آنکھیں ، دعاؤں کیلئے ہاتھ اٹھے ہوئے، امید کے جلتے بجھتے دئیے لئے ، انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ خبر درست تھی، ہم نے سٹیشن کے کچھ حصوں کو عارضی رہائشوں میں بدلا ، کھانا ، پانی ، فرسٹ ایڈ کا سامان اور بستر مہیا کئے ، ان مہمانوں کی تکریم ضروری تھی شاید ان میں سے کئی اپنی زندگی کی سب سے دردناک خبریں سننے والے تھے ایک بزرگ خاتون نے میری آستیں پکڑتے ہوئے سرگوشی کی ، بیٹا ! لگتا ہے وہ زندہ نہیں بچیں گے ، میں جواب نہیں دے سکا یہ جیتے جاگتے انسان تھے جو ایک غیر مرئی جنگ لڑی رہے تھے اور پھر میری زندگی کا ایک جگر شگاف لمحہ آیا مجھے حکم موصول ہوا کہ دہشت گردوں سے بازیاب کروائے گئے مسافروں کا ریلوے اسٹیشن پر استقبال کروں ، میں ڈی جی پی ڈی ایم اے کے ہمراہ سٹیشن پر پہنچا ، پلیٹ فارم ایک جنگی ہسپتال کا منظر پیش کر رہا تھا ، خاک اور خون میں لتھڑے ہوئے لوگ جن کی آنکھیں صدمے سے نڈھال تھیں آہوں اور سسکیوں کے درمیان ، ایک ماں میرے قریب آئی ، میرا دامن پکڑا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی دیکھا ہے میں نے درد کی بانہوں میں درد کو آنسو کی آنکھ سے بھی تھا آنسو ٹپک رہا وہ اپنے بیٹے شاہ زیب کا نام پکار رہی تھیں ، جو ابھی تک نہیں پہنچا تھا ، میرا بیٹا کہاں ہے ؟ دل کو پگھلا دینے والی ایک چیخ بلند ہوئی، لگتا تھا ان کے عمر رسیدہ کندھے کسی صدمے کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے اس ماں کی آواز میں حقیقتا ایسا درد تھا جیسے اس کے جگر کا ایک حصہ اس سے جدا کر دیا گیا ہو ، لخت ِ جگر ، یعنی جگر کا ٹکڑا ، میں بالکل بھول گیا کہ میں کوئی سرکاری افسر ہوں ، ایک لمحے کیلئے بہت بے چارگی محسوس ہوئی ، مگر وہ لمحہ جلد گزر گیا ، میں نے اس بزرگ خاتون کو یقین دلایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم سب اس کے بیٹے کو واپس لائیں گے ، ہر حال میں ، ہر قیمت پر ، ہم نے ایک خصوصی پیغام آپریشن میں مصروف ٹیموں کو بھیجا تاکہ وہ شاہ زیب کی تلاش کی ہر ممکن کوشش کریں وہ رات جیسے پل صراط پر گزری ، مگر نا امیدی کی تیز آندھیوں میں امید کا چراغ روشن رہا اور پھر ایک کال آتی ہے ، شاہ زیب کو زندہ بچا لیا گیا ہے ، ایس ایس جی کمانڈوز نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دہشتگردوں کے چنگل سے آزاد کرا لیا تھا ہم نے شاہ زیب کا یوں استقبال کیا جسے ایک سپاہی محاذ جنگ سے لوٹا ہو ، تھکاوٹ سے چور ، زرد رو اور صدمے سے ٹوٹا ہوا ، اسے کھانا دیا گیا ، گرم بستر بھی اور پھر کچھ دیر کے لئے خلوت تاکہ وہ موت سے واپس زندگی کے سفر کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو سکے پھر ہم خود اسے ماں جی کے پاس لے گئے ، آہ اس منظر کو بیان کرنے کینے کیلئے اگر یونان کا ہومر ، ایران کا فردوسی اور انگلستان کا شیکسپیئر بھی وہاں موجود ہوتے تو وہ بھی قلم پھینک کر اس منظر کا حصہ بن جاتے ماں جی کے لبوں سے ایک چینخ نکلی ، مسرت آمیز اتنی کہ غم کے بادل چھٹنے لگے اور پر جوش اتنی کہ سکوت ِ شب ہوا میں تحلیل ہو گیا یہ صرف آتش و آہن سے بنی ایک ٹرین کی بقا کا مسئلہ نہیں تھا ، بلکہ حملہ آور تو قوم کے عزمِ صمیم پہ ضرب لگانے آئے تھے ، یہ ہماری غیرت ،افتخار اور وقار کی جنگ تھی جسے غازیوں نے بے جگری اور خاموشی سے جیتا ، جنھیں نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پروا اور مقامی انتظامیہ جسے عام حالات میں زیادہ کار آمد نہیں سمجھا جاتا ، اس نے ثابت کیا کہ گورننیس فائلوں کے انبار کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسان شناسی اور انسان دوستی کا نام ہے یہ موت کی قہرناک وادی سے آفتاب زندگی طلوع کرنے کا نام ہے یہ بغداد کی الف لیلی جیسی رات نہیں تھی ، یہ طلسم ِ ہو شربا کی رات بھی نہیں تھی ، لیکن کوئٹہ کی اس رات نے میرے اوپر زندگی کے کئی حقائق منکشف کئے ، میں نے انسانیت کے دو روپ دیکھے ، ایک وہ انسان ہیں جو خدا کے نام پر ناحق جان لیتے ہیں اور ایک وہ جو اسی خدائے ذوالجلال کی تکبیر بلند کرتے ہوئے ، اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ، دوسرے انسانوں کی جان بچاتے ہیں اس معرکہ حق و باطل میں ضرار نے ہمیں فتح دلائی ، ایف سی نے اس فتح کو ممکن بنایا ، اور کوئٹہ نے اس معرکے میں اپنے جان و دل نچھاور کیے یہ کہانی ابھی جاری ہے ، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہم سے امن چھین سکتا ہے ، اور سرزمین ِ پاک پر خوف و دہشت کا راج مسلط کر سکتا ہے تو وہ جان لے کہ تم شروع کر سکتے ہو ، لیکن ختم ہم کریں گے اس رات ہم نے صرف چند انسانی زندگیاں نہیں بچائیں ، بلکہ ہم نے ہم نے خوف سے آزاد رہ کر ہر شہری کا زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا
❤️ 👍 🍆 🙏 13

Comments