दीन सिखाओ बेटी बचाओ
दीन सिखाओ बेटी बचाओ
June 18, 2025 at 06:40 AM
*اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرو!* سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ انصار کے ایک معزز صحابی تھے، جو نہ مالدار تھے، نہ کسی مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے، نہ کوئی اعلیٰ عہدہ رکھتے تھے۔ ان کے رشتہ دار بھی زیادہ نہیں تھے اور رنگت بھی کچھ ہلکی سنہری تھی۔ مگر ان کا دل اللہ کے رسول ﷺ کی محبت سے بھرپور تھا۔ وہ اکثر بھوکے، پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑے پہنے، اللہ کے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم حاصل کرتے اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے۔ ایک دن اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے شفقت بھرے انداز میں پوچھا: ’’یَا جُلَیْبِیبُ! أَلَا تَتَزَوَّجُ؟‘‘ (جلیبیب! کیا تم شادی نہیں کرو گے؟) جلیبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اللہ کے رسول! مجھ جیسے آدمی سے کون شادی کرے گا؟‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے پھر سوال دہرایا: ’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ نہ میرے پاس مال ہے، نہ جاہ و جلال!‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے تیسری بار یہی سوال کیا: ’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘ جلیبیب رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: ’’اللہ کے رسول! میری شکل بھی اچھی نہیں، نہ میرا خاندان بڑا ہے، نہ کوئی دولت ہے۔‘‘ تب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اِذْھَبْ إِلَی ذَاکَ الْبَیْتِ مِنَ الأَْنْصَارِ وَقُل لَّھُم: رَسُولُ اللّٰہِﷺ یُبْلِّغُکُمُ السَّلَامَ وَیَقُولُ: زوِّجُونِي ابْنَتَکُمْ۔‘‘ (کسی انصاری کے گھر جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ اللہ کے رسول ﷺ تمہیں سلام بھیج رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی میری شادی کرو۔) جلیبیب رضی اللہ عنہ خوشی سے ان انصاری کے گھر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب گھر کے لوگ باہر آئے تو انہوں نے پوچھا: ’’کون؟‘‘ جلیبیب نے کہا: ’’میں جلیبیب ہوں۔‘‘ مالکِ گھر نے دریافت کیا: ’’کیا چاہتے ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟‘‘ جلیبیب نے جواب دیا: ’’اللہ کے رسول ﷺ تمہیں سلام بھیج رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ’’اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں سلام بھیجا ہے، یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔‘‘ پھر جلیبیب نے آگے کہا: ’’اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو۔‘‘ صاحبِ خانہ نے کہا: ’’ذرا انتظار کرو، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرتا ہوں۔‘‘ وہ اندر گئے اور ماں سے بات کی۔ ماں نے سختی سے منع کیا: ’’نہیں! قسم اللہ کی، میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی، نہ مال، نہ جاہ و جلال، نہ خوبصورت چہرہ۔‘‘ لڑکی گھر میں یہ بات سن رہی تھی اور سمجھ گئی تھی کہ یہ حکم کس کا ہے۔ وہ سوچنے لگی کہ اگر اللہ کے رسول ﷺ اس رشتے پر راضی ہیں تو یقیناً میرے لئے اس میں بھلائی ہے۔ وہ والدین کی طرف دیکھ کر بولی: ’’أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ أَمْرَہٗ؟ ادْفَعُونِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فَإِنَّہُ لَنْ یُضَیِّعَنِی۔‘‘ (کیا تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کو ٹالنا چاہتے ہو؟ مجھے اللہ کے رسول ﷺ کے حوالے کر دو، وہ مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔) اس کے بعد وہ قرآن کی اس آیت کی تلاوت کرنے لگی: ’’ وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-(الأحزاب 33:36)‘‘ (کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے امور میں کوئی اختیار نہیں رہتا۔) لڑکی کے والد اللہ کے رسول ﷺ کے حضور حاضر ہوئے اور عرض کی: ’’اللہ کے رسول! آپ کا حکم ہمارے لئے قابل قبول ہے، آپ کا مشورہ ہمارے لئے مقدس ہے۔‘‘ جب رسول اکرم ﷺ کو لڑکی کے پاکیزہ جواب کا پتہ چلا تو آپ نے دعا کی: ’’اللَّھُمَّ صُبَّ الخَیْرَ عَلَیْھَا صُبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَھَا کَدًّا۔‘‘ (اے اللہ! اس لڑکی پر خیر و بھلائی کے دروازے کھول دے اور اس کی زندگی کو پریشانیوں سے بچا۔) پھر حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ سے اس کی شادی ہوئی۔ مدینہ منورہ میں ایک گھرانہ قائم ہوا جو تقویٰ اور پرہیزگاری پر مبنی تھا، جہاں مسکنت اور محتاجی کے باوجود ذکر و اذکار کا ماحول تھا، جہاں نماز اور نفلی روزوں میں دل کو سکون ملتا تھا۔ رسول اکرم ﷺ کی دعا کی برکت سے ان کی زندگی میں خوشحالی آ گئی۔ روایت ہے: ’’فَکَانَتْ مِنْ أَکْثَرِ الأَْنْصَارِ نَفَقَۃً وَمَالًا‘‘ (انصار میں سب سے زیادہ خرچ کرنے والا گھرانہ یہی تھا۔) ایک جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ’’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘‘ (کیا تمہیں کوئی ساتھی غائب ہے؟) صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں، فلاں فلاں غائب ہیں۔ پھر فرمایا: ’’لٰکِنِّي أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا فَاطْلُبُوهُ۔‘‘ (لیکن مجھے جلیبیب نظر نہیں آ رہا، اسے تلاش کرو۔) وہ جنگ کے میدان میں تلاش کیا گیا۔ وہاں سات دشمنوں کی لاشیں اس کے ارد گرد تھیں، گویا وہ ساتوں سے لڑا اور انہیں ہلاک کیا، پھر خود شہید ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ اس منظر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’قَتَلَ سَبْعَۃً ثُمَّ قَتَلُوہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ۔‘‘ (اس نے سات کو مارا، پھر وہ اسے مار ڈالے۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔) پھر آپ ﷺ نے اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں رکھا۔ (صحیح مسلم: 2472)

Comments