KASHKOL e URDU
KASHKOL e URDU
June 17, 2025 at 05:53 AM
*ایرا۔ن کے ساتھ ہمدردی اور عَقیدے کا عُقدہ* *سید احمد اُنیس ندوی* پیغمبر خاتم ﷺ کی نبوت کا پانچواں سال تھا۔ مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کرنے والے بڑی کشمکش کے دور سے گزر رہے تھے۔ اسلام غالب نہیں ہوا تھا۔ خفیہ طریقے پر خاموش محنتوں کا دور تھا۔ مکہ مکرمہ سے ہزاروں میل فاصلے پر دو طاقتیں بر سر پیکار تھیں۔ ایک طرف مجوسی تھے جو آتش پرست تھے, دوسری طرف نصاریٰ تھے جو اپنے کو سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں حق اور باطل کی براہ راست کشمکش تھی۔ روم اور فارس کی اس جنگ میں دونوں میں سے کوئی دینی اعتبار سے حق پر نہیں تھا۔ لیکن مکہ مکرمہ کے مشرکین کو مجوسیوں سے شرک اور آتش پرستی کی بنیاد پر ایک خاص ہمدردی تھی، اور دوسری طرف دین و مذہب کے بعض حصوں میں قرب کی بنیاد پر مکہ مکرمہ کے اہل ایمان کو روم کے نصاریٰ سے ہمدردی تھی۔ اور یہ ہمدردی صرف دلوں میں مخفی نہیں تھی، بلکہ علی الاعلان تھی۔ یہاں تک کہ جب فارس کے مجوسی غالب آۓ تو مسلمانوں کو سخت رنج ہوا اور مشرکین نے اہل اسلام کو شکست کے طعنے دیے۔ اہل اسلام پر اس کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ رب کائنات نے تسلی دیتے ہوۓ سورہ روم کی ابتدائی آیات نازل فرما دیں اور آئندہ چند سالوں میں روم فاتح ہوگا, یہ خوش خبری سنا دی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ جو نہایت نرم اور متحمل مزاج شخصیت کے حامل تھے، وہ بھی اُن حالات سے اس درجے متاثر تھے کہ قرآن مجید نے جیسے ہی رومی عیسائیوں کی فتح کی خوش خبری سنائی انھوں نے مکہ مکرمہ کے بازاروں میں اور عام مجمع میں جا کر اس کا اعلان کر دیا بلکہ ابی بن خلف سے اس بات پر شرط لگا لی۔ یہ تمام تر تفصیلات تفسیر کی تمام کتابوں میں سند کے ساتھ مذکور ہیں۔ بندہ نے اس وقت بطور خاص معارف القرآن از مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کا مطالعہ کیا ہے۔ *اب میں آپ سے پوچھتا ہوں !* کیا روم کے نصاریٰ مسلمان تھے ؟ کیا مسلمانوں کو یہ کہہ کر مطمئن ہو جانا چاہیے تھا کہ یہ دو بد عقیدہ دشمنوں کی لڑائی ہے، ہمارا اس سے کیا واسطہ ؟ کیا حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ (معاذ اللہ) جذباتی ہو گۓ تھے ؟ کیا روم کی شکست پر مسلمانوں کو جو رنج ہوا وہ (معاذ اللہ) عقیدے کے سلسلے میں عدم حساسیت کا نتیجہ تھا ؟ مجھے لگتا ہے کہ ایک عام مسلمان بھی ان سوالوں کے جوابات دے سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان خوب جانتے تھے کہ نہ تو مجوسی مسلمان ہیں اور نہ نصاری مسلمان ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ اس وقت ہمارا جس قوم سے مقابلہ ہے وہ مکہ مکرمہ کے بدترین مشرکین ہیں، اور ان کو شرک کی بنیاد پر فارس والوں سے ہمدردی ہے۔ وہیں دوسری طرف نصاری ہیں جو بگاڑ کے ساتھ ہی سہی لیکن عقیدہ توحید کا دَم بھرتے ہیں، اور ان کو مسلمانوں کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں فارس کی فتح دراصل نفسیاتی طور پر مشرکین کی فتح ہے اور نصاری کی فتح نفسیاتی طور پر اہل اسلام کے لیے باعث تقویت ہے, اور مستقبل پر اس کے گہرے اثرات پڑنے والے ہیں۔ ورنہ ہزاروں کلومیٹر فاصلے پر ہونی والی اس جنگ سے یوں جذباتی تعلق ہونے کے کوئی معنے نہیں رہ جاتے۔ اب آئیے موجودہ منظرنامے پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ حالیہ قضیہ میں اہل غ۔زہ اور حما۔س کے ساتھ ایر۔ان کا جو عملی اور عسکری تعاون ہے, اس کا انکار خود حما۔س کی قیادت کو جھوٹا ثابت کرنے کے مرادف ہے۔ اہل غ۔زہ کی قیادت ایک موقعے پر نہیں بلکہ متعدد موقعوں پر اس بات کا صاف صاف اظہار کر چکی ہے کہ ہمارا عملی اور عسکری تعاون سب سے زیادہ ایر۔ان نے کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف ایر۔ان کی تیار کردہ مختلف تنظیموں نے لبنان سے لے کر یمن تک سب سے زیادہ استقامت کے ساتھ اسر۔ائیل کا مقابلہ کیا ہے۔ آپ غور کریں پچھلی چند دہائیوں میں ایران سے لبنان سے تک شیعہ قیادت کا کس بری طرح خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئ۔ حما۔س کی طرح یہ قیادت بھی یکے بعد دیگرے قربانیاں پیش کرتی رہی۔ اس وقت صہیو۔نی اسر۔ائیل کے ساتھ سب سے زیادہ دوستی صلیبی اور مشرک حکام کی ہے۔ مشرک عوام بھی بالکل کھل کر ان کے ساتھ ہے۔ اسر۔ائیل کے مظالم پر یہ سب ناچتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور اس کو اپنا مقتدا اور رہبر تسلیم کرتے ہیں۔ پورا میڈیا اور سوشل میڈیا اس پر گواہ ہے۔ ان سب کی تمام تر ہمدردیاں اسر۔ائیل کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف جب ایر۔ان اقدام کرتا ہے اور کارروائی کرتا ہے تو اہل غ۔زہ جو بلاشبہ حق کا استعارہ ہیں، وہ خوش ہوتے ہیں۔ عالم اسلام مسرور ہوتا ہے۔ اور یہود و نصاری سے لے کر مشرکین تک سب بلبلاتے اور حلق پھاڑتے ہیں۔ ایر۔ان کی شکست کو اسلام کی شکست تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ایران والے بھی اللہ عز و جل کو رب مانتے ہیں۔ رسالت اور آخرت کا تصور رکھتے ہیں۔ قرآن مجید کو ہدایت کی کتاب مانتے ہیں۔ کعبة اللہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ نماز, روزہ, زکات, حج ادا کرتے ہیں۔ امت کی غالب اکثریت شدید نظریاتی اور عقیدے کے اختلاف کے باوجود ان کو مسلمان شمار کرتی ہے۔ ایسے میں جب کہ اصل معرکہ وقت کے دجاجلہ سے اور اسلام کے ازلی ابدی کٹر دشمنوں سے ہو, اور ان دجاجلہ کے ساتھ مشرکین کی ہمدردی صرف اسلام دشمنی قدرے مشترک ہونے کی بنیاد پر ہو, اور فتح و شکست کا نفسیاتی بلکہ حقیقی اثر براہ راست اہل حق پر پڑنا یقینی ہو, ایسے وقت میں اس معرکے کو محض اپنے دو دشمنوں کا جھگڑا کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرنا اور اعراض کرنا بڑی عجیب سی بات ہے۔ اس وقت اسلامی حمیت اور دینی غیرت کا یہ تقاضہ ہے کہ وقت کے دجاجلہ کا مقابلہ کرنے والوں کا ساتھ دیا جاۓ۔ ان کے لیے مکمل ہدایت, استقامت اور نصرت کی دعا کی جاۓ, اور وہ مباحث نہ چھیڑے جائیں جن کا موجودہ منظرنامہ ہرگز متقاضی نہیں ہے۔ کیونکہ خوب یاد رکھیے ! اگر ایر۔ان کا مکمل سقوط ہو گیا تو پھر اب پورے خطے اور منطقے میں وقت کے فراعنہ و دجاجلہ کے خلاف دو لفظ بولنے والا بھی کوئی باقی نہیں رہے گا, چہ جائیکہ اس کے علاقوں اور آبادیوں پر ضرب کاری لگانے والے اور "تخریب بلاد" کی کوششیں کرنے والے نظر آئیں۔ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کا جو اقتباس گردش میں ہے, وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ کیونکہ جس وقت وہ بات لکھی گئ وہ حالات اور منظرنامہ بالکل کچھ اور تھا۔ اُس وقت ایر۔ان میں خمینی صاحب کا انقلاب ایک خالص مذہبی اور دینی انقلاب کی شکل میں سامنے آیا تھا اور منظم طریقے پر اس کا زبردست پروپیگنڈہ دنیا بھر میں کیا جا رہا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ غیر شعوری طور پر اس سے متاثر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ ایسے وقت میں اُن بزرگوں نے زبان و قلم کے ذریعے جو کوششیں فرمائیں وہ بلاشبہ اس وقت کی اہم ضرورت تھیں۔ اب موجودہ حالات میں صرف اُس ایک اقتباس کی نشر و اشاعت اس خاص پس منظر میں بالکل غلط ہے۔ حضرت مولانا نے جس خاص تناظر میں وہ لکھا تھا، اگر وہ حضرت مولانا کا ہمہ وقتی, ہمہ جہتی بالکل عام اور عمومی رویہ ہوتا تو پھر بھارت کے سخت ترین حالات میں حضرت مولانا علی میاں ندویؒ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت اس طور پر کبھی قبول نہ فرماتے کہ ان کا "نائب" غالبا تا زندگی ایک شیعہ عالم ہو اور وہ اُن کے برابر میں بیٹھ کر ملت اسلامیہ ہندیہ کی قیادت کرے۔ حضرت مولانا کی زندگی پڑھیے ! عالمی حالات کے تناظر میں ان کی مختلف پروگراموں میں شیعہ مجتہدین کے ساتھ ملاقاتیں بھی رہیں اور رابطہ بھی رہا۔ اسی طرح حضرت مولانا کے شہر لکھنؤ اور بطور خاص پرسنل لا بورڈ کے تناظر میں شیعہ اہل علم سے رابطے اور تعلقات بھی رہے, اور اس کا اصل سبب ملی مسائل اور متفق علیہ امور تھے۔ اس ملی رفاقت اور رابطے میں عقیدہ اور نظریہ کبھی بھی زیر بحث نہیں آیا اور مباحثہ و مجادلہ کا سبب نہ بنا۔ تو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی بات "اہل" اور "محل" کی رعایت کے ساتھ ہوتی ہے تو وہ مفید ہوتی ہے۔ ورنہ پھر خلط اور فکری زلات کا سبب بنتی ہے۔ میں تمام قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ بالکل غیر جانبدار ہو کر سورہ روم کی ابتدائی آیات کی تفسیر پڑھیں۔ حالیہ قضیہ میں اہل حق اور ان میں بطور خاص اہل غز۔ہ کا رخ دیکھیں۔ دوسری طرف یہود و نصاری کی سازشیں اور مشرکین کی ہمدردیوں پر نگاہ رکھیں۔ جو آپ کی "ہم عقیدہ" حکومتیں ہیں، ان کا فکری اور عملی زوال دیکھیں پھر خود فیصلہ کریں کہ کیا آپ کو غیر جانب دار رہنا ہے ؟ یا اہل غ۔زہ کی خوشی میں خوش ہونا ہے ؟ یا خدانخواستہ اہل غ۔زہ کو غمزدہ دیکھنا ہے ؟ اور یہود و نصاری کے ساتھ مشرکین کی خوشی میں (معاذ اللہ) خوش ہونا ہے ؟ دین میں "کلمة سواء" کی بنیاد پر اس قضیہ میں آپ کی ہمدردی اور اس کا اظہار کس کے ساتھ ہونا چاہیے ؟
👍 ❤️ 😮 🙏 😂 38

Comments