احباب خانقاہ سراجیہ - Ahbab Khanqah Sirajia
احباب خانقاہ سراجیہ - Ahbab Khanqah Sirajia
June 14, 2025 at 04:48 AM
خواجہ محمد پارسا رحمہ اللہ اور تصوف کی اصطلاحات: صرف الفاظ یا حقیقی عرفان؟ اکثر لوگ جب تصوف کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے کچھ خاص اصطلاحات، جیسے "فنا"، "بقا"، "مشاہدہ"، "مکاشفہ"، "وحدت الوجود" وغیرہ آتی ہیں۔ بہت سے طالبانِ حق کو یہ غلط فہمی بھی ہو جاتی ہے کہ ان اصطلاحات کو حفظ کر لینا اور ان کی لغوی تعریفات جان لینا ہی علمِ تصوف کے حصول کے لیے کافی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تصوف کا علم محض الفاظ اور تعریفوں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا روحانی سفر ہے جس میں ان اصطلاحات کا حقیقی مفہوم دل کے تجربات اور احوال سے آشکار ہوتا ہے۔ صوفیائے کرام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب تک بندہ ان روحانی مقامات سے خود فیض حاصل نہ کرے، ان اصطلاحات کو رٹ لینے سے تصوف کا حقیقی علم حاصل نہیں ہوتا۔اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے خواجہ محمد پارسا قدس سرہ [ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کا اجل خلیفہ] اپنی شہرہ آفاق تصنیف "فصل الخطاب" میں فرماتے ہیں: "یہ برگزیدہ گروہ (اللہ ان سے راضی ہو ) اپنی ایسی مخصوص اصطلاحات رکھتا ہے جن میں وہ منفرد ہیں، اور ان کے درمیان کچھ ایسے کلمات اور عبارات رائج ہیں جو وہ ایک دوسرے سے گفتگو کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ ان عبارات و کلمات کے مضامین اور ان کی حقیقتوں کا کُنہ اشارے سے بھی بیان نہیں کیا جا سکتا، چہ جائیکہ کھلے الفاظ میں ان کا اظہار کیا جائے۔ کیونکہ قلوب کے مکاشفات اور اسرار کے مشاہدات کو حقیقت کے ساتھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، اور انہیں وہی جانتا ہے جس نے ان احوال کو برتا ہو اور ان مقامات کو حاصل کیا ہو۔چونکہ ان کے علوم مکاشفات و مشاہدات کے علوم ہیں اور وہ الہامی علم ہے نہ کہ حفظی، اس لیے ان کی اصطلاحات اور کلمات بھی ان کی صفات، احوال اور کمالات کے مناسب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ادیبوں، فقہاء اور دیگر اہل علم میں سے کوئی ایسا گروہ نہیں جس کے پاس کوئی علم ہو مگر ان کی اپنی ایک اصطلاح ہوتی ہے جسے ان کا غیر (دَخیل) ان کے اہل کی تعلیم اور وضاحت کے بغیر نہیں جان سکتا، اور یہ (معاملہ)ضروری ہے۔ سوائے اس خاص طریقے (تصوف) کے اہل کے کیونکہ جب کوئی سچا طالب اس طریقے میں داخل ہوتا ہے اور اسے ان کی اصطلاحات کا کوئی علم نہیں ہوتا، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے فہم کی آنکھ کھول دیتا ہے اور وہ اپنے رب عز و جل سے اپنے ابتدائی ذوق اور وجدان میں علم حاصل کرتا ہے، تو وہ (اس گروہ کے افراد) اپنی ان اصطلاحات میں گفتگو کرتے ہیں جنہیں ان کے سوا یا ان سے علم حاصل کرنے والے، یا ان کے مشائخ کی خدمت کرنے والے، یا ان کی کتابوں کی پیروی کرنے والے، یا ان کے محققین کے حکایات کا مطالعہ کرنے والے کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تو یہ سچا طالب ان کی ہر بات کو سمجھ جاتا ہے گویا کہ وہ خود ان اصطلاحات کا بانی ہے ( کیونکہ وہ خود ان کیفیات سے گزرتا ہے چاہے بطور وصول ہو یا حصول ہو۔حاشیہ از صوفی برائے نام) اور اسے یہ بات اپنی طرف سے اجنبی نہیں لگتی، بلکہ وہ اس علم کو اپنے اندر ایک ضروری (اور مستقل بغیر کسی تذبذب والا)علم پاتا ہے جسے وہ رد نہیں کر سکتا، اور گویا کہ وہ اسے ہمیشہ سے جانتا تھا، اور اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اسے کیسے حاصل ہوا، بغیر اس طریقے کے اہل کی تعلیم و وضاحت کے۔" خواجہ محمد پارسا رحمہ اللہ کا یہ کلام اس حقیقت کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ تصوف کا علم حفظی نہیں بلکہ الہامی ہے۔ یعنی اسے صرف کتابوں سے پڑھ کر یا اصطلاحات رٹ کر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل میں القا ہوتا ہے، جب بندہ صدق دل سے اس راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ عام علوم کی طرح تصوف کی اصطلاحات کو سیکھنے کے لیے کسی استاذ کی توجیہ و تشریح کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ جب سالک پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذوق اور وجدان کے دروازے کھلتے ہیں تو وہ ان اصطلاحات کے حقیقی معنی و مفہوم کو یوں سمجھ جاتا ہے جیسے وہ خود ان کا بانی ہو۔ یہ علم اسے اپنے اندر ایک لازمی اور فطری حقیقت کی طرح محسوس ہوتا ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچے صوفیاء ہمیشہ عملی راہنمائی اور روحانی تربیت پر زور دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصطلاحات صرف اشارے ہیں حقیقی وارداتِ قلبی کی طرف۔ جب تک سالک ان واردات سے گزرتا نہیں، ان اصطلاحات کا ادراک محض ایک فکری عمل رہتا ہے جو روحانی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ تصوف کا راستہ ایک باطنی سفر ہے جہاں استاد کا کام اصطلاحات سکھانا نہیں بلکہ طالب کو ایسے اعمال اور احوال سے روشناس کرانا ہے جن سے اس کے قلب پر حقائق کا پردہ اٹھ سکے۔ لہٰذا، جو شخص تصوف کو صرف کتابوں اور اصطلاحات تک محدود سمجھتا ہے، وہ درحقیقت اس سمندر کے کناروں پر ہی بھٹک رہا ہے، اس کے گہرائیوں میں اتر نہیں پاتا۔ تصوف کا حقیقی ادراک اسی وقت ممکن ہے جب سالک اپنی ذات کو فنا کرکے اللہ کے عشق میں غرق ہو جائے اور الہامی علم کے چشمے اس کے قلب میں پھوٹ پڑیں۔ ننگِ آنام صوفی برائے نام 11جون 2025
❤️ 👍 20

Comments