Maulana Umrain Mahfuz Rahmani
Maulana Umrain Mahfuz Rahmani
June 8, 2025 at 12:43 AM
_*استاذ الحفاظ حافظ محمد یاسین ملیؒ ایک شفیق اور مہربان استاذ*_ `آج مورخہ ۸,ذی الحجہ معہدملت کےاستاذالحفاظ حافظ محمد یاسین ملّیؒ کا یوم وفات ہے٬اسی مناسبت سےحافظ صاحبؒ کےشاگرد رشیدشیخ طریقت حضرت مولانا محمدعمرین محفوظ رحمانی صاحب کا اپنےمشفق استاذ کی وفات حسرت آیات پرلکھاگیااثرانگیزمضمون نذرقارئین ہے` میرے والد ماجد حضرت مولانا محفوظ الرحمن قاسمی ممتاز عالم دین تھے، بلند اوصاف کے مالک، بہترین خوبیوں کے حامل ! ان کانمایاں وصف قرآن کریم سے ان کا والہانہ تعلق تھا، انہوں نے کم عمری میں حصول علم کے لیے اپنا گاؤں (برگدواضلع بستی) چھوڑ دیا تھا، مختلف مدرسوں سے ہوتے ہوئے بالآخر وہ دارالعلوم دیوبند پہنچے ،اور کم عمری ہی میں علوم و معارف میں امتیاز حاصل کیا، فراغت کے وقت بھی وہ کم عمر تھے یہی کوئی اٹھارہ انیس برس کے ،پھر انہوں نے تکمیل ادب کا کورس بھی کیا، مدرس بن کرمدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں وارد ہوئے تو ان کا عنفوان شباب تھا۔ فقط بیس سال کی عمر میں محنت و مشقت کے مرحلے گزار کر انہوں نے علوم نبوت سے اپنے سینے کو آباد کر لیا تھا۔ درجہ عالمیت میں شریک ہونے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند میں انہیں حفظ قرآن پاک کا موقع نہ ملا، اب مدرس بن جانے کے بعد حافظ قرآن بن جانے کی خواہش نے زور پکڑا۔ نئی جگہ قدم جمتے جماتے کئی سال بیت گئے، یہاں تک کہ پہلے بیٹے (محمود الرحمن) کی ولادت بھی ہوگئی اور وہ شیرخوارگی کے زمانے میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ پھر دوسرے بیٹے مسعود الرحمن کی پیدائش ہوئی۔ یہ ستر کی دہائی کے تیسرے سال کی بات ہے۔ اب والد محترم نے اس طور پر قرآن مجید کا حفظ شروع کیا کہ وہ نومولود بچے کے باپ تھے، اولاد سے کسے محبت نہیں ہوتی،والد ماجد تو بڑے ہی شفیق، گہری محبت رکھنے والے،اور اولاد پر جان چھڑکنے والے انسان تھے۔ ” مسعودبھیا“ کو گود میں لے کر قرآن مجید یاد کیا کرتے تھے،ایک طرف مدرسے میں تدریسی خدمت جاری تھی،اور دوسری طرف قران مجید کا حفظ بھی شروع تھا، اپنے ذوق و شوق قرآن مجید سے والہانہ تعلق کی بنیاد پر جلد ہی حفظ قران کی سعادت میسر آئی۔ پھر مدت العمر قرآن مجید سے ایسا گہرا اور والہانہ تعلق رہا جسے انعام ربانی اور فضل یزدانی کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔وہ روزانہ ایک منزل قرآن پاک پڑھنے کے عادی تھے، اباجی مرحوم نے خود تو جوانی کے زمانے میں تدریسی خدمت کیساتھ حفظ کیا لیکن اپنی اولاد کے سلسلے میں یہ ترتیب بنائی کہ سب سے پہلے انہیں قرآن مجید یاد کرایا جائے۔ چنانچہ ہم آٹھ بھائیوں بہنوں کی تعلیم کا آغاز ناظرہ اورحفظ قرآن ہی سے ہوا۔ بہنیں تو حفظ قرآن کی مشقت نہ سہ سکیں اور اباجی مرحوم نے انہیں درجہ عالمیت میں شریک کردیا اور ماشاء اللہ تینوں بہنیں عالمہ بنیں۔ البتہ ہم پانچویں بھائیوں کو حفظ قرآن کی سعادت حاصل ہوئی۔فا لحمدللہ علی ذلک! یادش بخیر! یہ عاجز و ناکارہ ابا جی مرحوم کا چہیتا تھا، عمر کے آخری حصہ تک ان کے تخت پر سونے کی سعادت اسے ہی میسر رہی، بچپن کی عمر کھیل کود میں گزری عمر کا ساتواں سال ختم ہو رہا تھا تب تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا مگر بے قاعدہ، آٹھویں سال میں کچھ باقاعدگی آئی۔ اباجی مرحوم مدرسہ بیت العلوم کے شیخ الحدیث اور صدر مدرس تھے اس رشتے سے اساتذہ کرام بھی لحاظ خیال کیا کرتے تھے، کبھی درجے میں حاضر ہوتا کبھی تعلیم کا ناغہ رہتا۔ بہر حال تعلیم کا قافلہ لشتم پشتم چلتا رہا،یہاں تک کہ عمر کے آٹھویں سال ابا جی مرحوم نے تعلیم پر خصوصی توجہ دینا شروع کی۔ ان کی توجہ کی برکت کہیے یا پھر فیضان نظر !کہ لاابالی طالب علم پڑھنے کا شوقین بن گیا۔ خوب یاد ہے کہ رمضان المبارک میں والدمرحوم نے خود ناظرہ قرآن کی تعلیم دی، اور اگلے سال حفظ کا سلسلہ شروع کرادیا۔ بیت العلوم میں میرے استاذ حفظ جناب حافظ عبدالرحیم صاحب زید مجدہ(اب رحمتہﷲعلیہ)تھے۔ اباجی مرحوم کو بڑی چاہت تھی کہ میں جلد از جلد اچھا اور عمدہ حافظ قرآن بن جاؤں، زیادہ زبانی نصیحت کرنا ابا جی کی مرحوم کی عادت نہیں تھی، اس کے باوجود کبھی کبھی مجھے بڑے میٹھے لہجے، پرخلوص الفاظ اور محبت آمیزجملوں میں جلد حافظ قرآن بننے کی ترغیب دیتے۔ وہ مجھ سے وقتاً فوقتاً قرآن مجید کا حفظ کیا ہوا حصہ سن بھی لیا کرتے تھے۔ خوب یاد ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے سورہ کہف کا وہ حصہ مجھے سے پڑھوایا جو حضرت موسیٰ اور خضر علیہ السلام سے متعلق ہے، چند آیتیں پڑھ کر میں اٹکنے لگا، تو اباجی مرحوم نے خود تلاوت فرمائی اور مجھے سورۂ کہف کا متعلق حصہ سنایا،بعض باتیں حافظہ کی لوح پر نقش ہوجاتی ہیں، اور نقش بھی کالحجر!جو مٹائے نہ مٹے،جو بھلائے نہ بھولے، یہ بات بھی میرے ذہن میں اس طرح محفوظ ہے جیسے کل کا واقعہ ہو، اور وہ منظر بھی نگاہ کے سامنے ہے کہ وہ اپنے کمرے کی چوکھٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور چوکھٹ سے نیچے سیڑھی پر یہ عاجز و ناکارہ اور ابا جی مرحوم قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے ہیں۔ حفظ قرآن میں نے عمر کے دسویں سال میں شروع کیا اور اباجی مرحوم کی ترغیب سے اکیس پارہ سات آٹھ مہینے میں یاد کیا۔ ابھی حفظ کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ابا جی مرحوم کی وفات کا دلدوز سانحہ پیش آیا، ۱۸ جمادی الاخری ۱۴۱۹ ھ بمطابق ۱۲ اگست ۱۹۹۷ ءمنگل کی سہ پہر کو ابا جی پانچ چھ مہینے کی علالت کے بعد محض پچاس سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ دس سال کے ایک بچے کے لیے یہ بہت ہی غم انگیز سانحہ تھا، اس حادثہ فا جعہ کا ذہن و دماغ پر بہت برا اثر پڑا۔ اباجی جیسی شفیق ہستی کی رحلت نے دنیا کی ہر چیز سے دل کو سرد کردیا،جمادی الاخریٰ کے بعد سے رمضان تک کا عرصہ جیسے تیسے بیت گیا اس کے بعد عظیم عالم ربانی اور مرشد روحانی محی السنۃ حضرت شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئیؒ(جن سے ہم لوگوں کے خاندانی مراسم تھے) کے ایما پر میرے ماموں جان حضرت مولانا شعیب صاحب مظاہری نوراللہ مرقدہ (نائب ناظم مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی و خلیفہ حضرت والا ہردوئی)نے مجھے اور برادر مکرم مفتی محمد حسنین نعمانی صاحب زید مجدہم کو پڑھائی کے لیے مدرسہ اشرف المدارس بلوا لیا۔ ۱۹۹۸ کا سال مدرسہ اشرف المدارس میں بڑے نورانی اور پاکیزہ ماحول میں گزرا، اہل علم واقف ہیں کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں تجوید و قرات اور تصحیح قرآن کا بڑا اہتمام تھا، چنانچہ وہاں پہنچ کر ہم لوگوں کو دوبارہ تجوید قرات کی تعلیم لینی پڑی، پھر اس کے بعد حفظ قرآن کا سلسلہ جاری ہوا۔ قرآن مجید کا جو اکیس پارہ یہاں سے یاد کرکے گیا تھا، اسی کا اعادہ مدرسہ اشرف المدارس میں کیا گیا۔ اور کوئی شک نہیں کہ تجوید و قرات کی تعلیم اور وہاں کے نورانی ماحول میں حفظ قرآن کے اعادہ اور دور کا بڑا فائدہ حاصل ہوا۔ حضرت شاہ ابرارالحق صاحب رحمۃاﷲعلیہ کی محبتوں اور شفقتوں سے جو وافر حصہ ملا اور زندگی کا سرمایہ بن گیا اس کا کہنا ہی کیا! سماگئی ہیں مجھ میں قیامت کی شوخیاں دوچار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں اسےمحرومی کہہ لیجئےیاپھر نوشتہ تقدیر!کہ یوپی کےسخت موسم کاتحمل نہیں ہوا،عمربھی کم تھی اورجسم بھی زراکمزورسا ،اباجی مرحوم کی رحلت کا غم والم اس پر مستزاد،باربار بیمارہوتارہایہاں تک کہ سال بھر کےبعدجب واپس ہواتوکریم وشفیق والدہ نےیہ فیصلہ فرمادیاکہ اگلے سال دوبارہ حصول تعلیم کے لیے اشرف المدارس نہیں جاناہے،اب قرعہ فال اشاعت العلوم اکل کنواں کےنام نکلا،لیکن وہاں بھی تعلیم مقدرنہیں تھی اس لیےشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد حنیف ملیؒ کےایماءپرمعہدملت،مالیگاؤں میں داخلہ لےلیاگیا،اس وقت معہدملت میں حفظ کےدو درجات تھے،ایک کےاستاذ حافظ مختار احمدملّی زیدمجدہم تھےاور دوسرےکےاستاذ حافظ محمد یاسین ملّی رحمۃ اﷲعلیہ، بھائی صاحب حافظ مختار صاحب کےدرجےمیں داخل ہوئے،اور مجھےحافظ محمد یاسین ملّی رحمۃ اﷲعلیہ کےدرجےمیں شرکت کی سعادت میسرآئی ٬یہ عمرکا بارہواں سال تھا،اکیس پارےحفظ ہوچکےتھے،تجویدوقرأت میں بھی پختگی حاصل تھی،حافظہ بھی بحمداللّٰہ مضبوط تھا،کھیلتےکودتےنوپارےحفظ ہوگئے،اور اسی سال حافظ صاحبؒ کےیہاں دوربھی مکمل ہوگیا۔ حافظ صاحب مرحوم ملنسار شخص تھےطلباء پرشفیق بھی تھے،اور قرآن مجید انہیں خوب پختہ یاد تھا، مشہورتھاکہ جب وہ تراویح میں قرآن مجید سناتےہیں تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ کوئی ٹیپ ریکارڈ ہے جوچلادیاگیاہے،پرانےطرز واندازمیں قرآن مجید کی تلاوت کرتےتھے،اورتیزرفتاری سےآیتیں پڑھتے چلےجاتےتھے،انہوں نےمحنت سےقرآن مجید یاد کیاتھا،اور درجہ حفظ کےاستاذ بننےکی سعادت حاصل ہوئی تھی،اس لیےہمیشہ سابقہ قرآن مجیدہی سےرہتا،اس کی وجہ سےبھی ان کا حفظ تازہ اور پختہ تھااور وہ رواں دواں قرآن مجید پڑھاکرتےتھے،مجھےنہیں یاد پڑتاکہ ان کےپاس پڑھائی کےزمانےمیں کبھی ناغہ کرنےیا یاد نہ کرنےیاپھرکسی شرارت پرمجھےسزاملی ہو،اباجی مرحوم کےوصال کےبعدمجھے پڑھنےمیں ایسی یکسوئی ہوئی کہ اور سب چیزوں کی طرف سے ذہن ہٹ گیا،خیال آتاتھاکہ اباجی مرحوم جیسابنتا ہوا دیکھناچاہتےتھے،مجھےویسابنناچاہیے،محنت سےپڑھتاتھا،استاذکی عزت کرتاتھا،درجے کے ساتھیوں سے میل جول کم رکھتاتھا،زیادہ تر وقت یاد کرنےاوریادکیےہوئےکورٹنےمیں گزرتا، گھر کےقریب اباجی مرحوم نےمسجد کی بنیادرکھی تھی،جسےحکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحبؒ کےنام سے منسوب کیاگیاتھا،چھوٹی سی مسجد تھی،آس پاس رہنےوالےبھی کم تھے،زیادہ ترمسجدخالی ہی رہتی تھی،اسی میں میں نےڈیرہ جمالیاتھا، میراگھرمسجد سےکوئی سو سواسو گزکےفاصلےپرہوگا،درمیان میں کوئی دوسرا گھر نہیں تھا،مسجدمیں بلند آوازسے تلاوت کرتاتھا تو گھرتک تلاوت کی آوازسنائی دیتی تھی،والدہ ماجدہ (اﷲتعالی ان کےسایہ عاطفت کوصحت و عافیت کےساتھ دیرتک قائم رکھے)اب بھی کبھی کبھی گھرکےبچوں کو نصیحت کرتے ہوئے اس عاجزوناکارہ کی پڑھائی کےاس زمانےکی مثال دیاکرتی ہیں،کہ یہ مسجد میں تلاوت کرتا تھااور آوازیہاں تک سنائی دیتی تھی،بحمداللّٰہ اس زمانےکی محنت کااب تک اثراورفائدہ محسوس ہوتاہے۔ درجہ حفظ کےبعدعالمیت میں داخلہ ہوا،اورسات سال پڑھ ک۲۰۰۶ءمیں معہدملت سے سندفراغت حاصل ہوئی ٬عام طورپردرجہ عالمیت میں شریک ہوجانےوالےاپنےحفظ کےاساتذہ سےتعلق کم ہی رکھتےہیں ،لیکن حافظ محمد یاسین صاحب ملّی رحمۃ اﷲعلیہ سے عالمیت کےدورمیں بھی تعلق رہااور وہ برابر توجہ فرماتےرہے،پھرفراغت کےبعدعملی سرگرمیوں میں حصہ لینےکی شروعات ہو ئی٬تب بھی ان کی محبت وشفقت سایہ فگن رہی ،میرےجن چنداساتذہ کرام نےزندگی کےہرمرحلےمیں مختلف نشیب وفراز اوراتارچڑھاؤ کےمواقع پر مجھ پراپنی محبت نچھاورکی ان میں سے سرفہرست حافظ محمد یاسین صاحب ملّی رحمۃ اﷲ علیہ بھی تھے،کہیں میراکوئی اہم خطاب ہوتا،یاکوئی اچھامضمون قلمبندہوتا،یاکسی منصب سے سرفراز کیاجاتا،یا پھرحرمین شریفین کی حاضری میسرآتی تومبارکباد دینےمیں سب سےآگےحافظ محمد یاسین صاحب ملّی رحمۃاﷲعلیہ ہوتےتھے۔ حافظ محمد یاسین صاحب ملی رحمۃ اللہ علیہ کے مزاج میں فطری طور پر بڑی سادگی تھی ،وہ ٹیپ ٹاپ، نمود و نمائش اور تعمیر شخصیت کے جذبے سے دور تھے،اپنے آپ میں مگن رہنے کی عادت تھی ،زندگی کے سر دو گرم کو جھیل جانے اور مصائب و آلام پر صبر کی خو تھی،کسی مجلس میں پہنچے تو بے تکلف کسی جگہ بیٹھ گئے،چاہے وہ اسٹیج ہو یا پھر سامعین و حاضرین کی عام نشست ،تقریر کے بالکل عادی نہیں تھے،کبھی بہت سخت ضرورت کے وقت تقریر کرتے تو جملے مربوط ہوتے ،اور ٹھہر ٹھہر کر اچھی گفتگو کرتے ،لکھنے کا بھی شوق تھا،جب معہدملت کا پندرہ روزہ ترجمان ’’ گلشن ‘‘شائع ہوتا تھا،اس میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے ،پھر جب ماہنامہ گلشن نعمانی کا اس فقیر کی ادارت میں اجرا ءہوا تو وہ مزید اہتمام سے مضامین لکھنے لگے،جب مضمون لکھتے تو خود مضمون کے ساتھ تشریف لاتے ،یا پھر دفتر پہنچا کر مجھے فون کردیتے ،لکھنے کی زیادہ مشق نہیں تھی ،اس لیے جملے کہیں کہیں غیر مربوط ہوتے ،اس لیے عندالملاقات یا فون پر یہ ضرور کہتے کہ مضمون کی اصلاح کردیجئے گا،مجھے اس جملے سے اس تعلق کی وجہ سے جو اُن سےتھاشرمندگی بھی ہوتی ،انہوںنے حج وعمرہ پر سلسلہ وار مضامین لکھے،پھر وہ کتابی شکل میں شائع بھی ہوئے،بات نکلی ہے تو یہ تذکرہ نامناسب نہیں ہوگا کہ انہیں حرمین شریفین سے بڑی محبت تھی،وہاں کا ذکر اکثر زبان پر ہوتا،کئی مرتبہ حج اور عمرہ کی سعادت بھی انہیں حاصل ہوئی ،وہ بار بار یہ کہا کرتے تھے کہ کلام اللہ اور بیت اللہ کا گہرا رشتہ ہے،کلام اللہ کا حامل پر خلوص ہوتو بیت اللہ کی حاضری اسے ضرور نصیب ہوتی ہے،ایک مرتبہ اپنے سب صاحب زادوں کے ساتھ عمرہ کے لیے گئے،ماشاءاللہ ان کے سب صاحبزادے بھی حافظ قرآن ہیں اور اسی مناسبت سے ان کے گھر کانام ’’بیت الحفاظ‘‘ہے،حرم شریف میں اپنے سب صاحبزادوں کا قرآن پاک سنا ،ذرا سونچئے کہ یہ کیسی خوش نصیبی کا مقام ہے کہ بیت اللہ کے سامنے ایک حافظ قرآن باپ اپنے حافظ قرآن بیٹوں کی زبان سے کلام اللہ سن رہا ہے،اس وقت ان کے دل کی کیا کیفیت رہی ہوگی ،زبان اور دل کس طرح شکر کے احساس سے لبریز ہوں گے،اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو خود اس مرحلے اور کیفیت سے گذرے ۔ حافظ محمد یاسین صاحب ملی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر چھڑا ہے تو یادوں کا ایک دریچہ ذہن میں کھل گیا ہے،زندگی کی چونتیس بہاریں گذر چکی ہیں ،ان سے تعلق کی عمر تقریبا ۲۳؍ سال ہے،_____زمانہ طالب علمی سے ان کی وفات حسرت آیات تک ____اس عرصے میں کتنے واقعات پیش آئے،ان کی شفقتوں سے بار بار بہرہ ور ہوا،سفروں میں ساتھ رہا،سب کو لکھوں تو ایک دفتر تیار ہوجائے ،مگر مشاغل اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ان کی زندگی کی آخری رات کا بڑا حصہ میں ان کے ساتھ رہا، مسجد حضرت عکرمہ ؓمیں ’’سیرت ابراہیمی کا پیغام‘‘ کےموضوع پر جلسہ تھا، اس کے بعد ذکر و دعا کی مجلس بھی تھی، عموماً وہ اس حقیر کے جلسوں اور پروگراموں میں تشریف لاتے تھے ،اس پروگرام میں بھی پہنچے،بڑے دھیان سے تفصیلی خطاب سنا،ذکر اور دعا میں شریک ہوئے ،جانے کیا بات تھی کہ اس دن دعا میں مجھ پر بھی اور سامعین و حاضرین پر بھی بہت رقت طاری تھی،جلسے سے فارغ ہوکر ساتھ ہی کھاناکھایا ،رات کے بارہ سوا بارہ بجے تک ہم لوگ ساتھ تھے ، اگلے دن پھر ایک پروگرام تھا اس میں ملنے کے وعدے کے ساتھ رخصت ہوئے ،لیکن بس وہ ملاقات آخری تھی صبح کو سنائونی آگئی کہ ایکا ایکی حافظ صاحب راہیٔ ملک عدم ہوگئے، نہ کوئی بیماری، نہ کسی قسم کی معذوری،نہ ہاسپٹل کی ضرورت، نہ ڈاکٹر کی حاجت! بس اللہ پاک کا نام لیتے ہوئے ایسی عجلت میں چل دیئے کہ اب تک ان کی رحلت کا یقین نہیں آتا؂ کتنی آساں ہے عدم کی راہ لوگ آنکھ بند کرکے چلے جاتے ہیں ان کے مکان واقع(ہزار کھولی) حاضر ہوا اور کفن میں لپٹی ان کی لاش دیکھی تو دل بے قرار اور آنکھ اشک بار ہوگئی اللہ اللہ !بس یہ آخری دیدار تھا!زبان ِ قلم میں یارا نہیں کہ رنج و اندوہ اور غم و صدمہ کی عکاسی کرسکے، دل سے دعا ہے کہ اللہ پاک حافظ صاحب ؒ کو جنت نصیب کرے،ان کے حسنات کو قبول کرے ان کی سیئات سے درگزر فرمائے اور اعلیٰ علیین میں ان کو جگہ دے۔آمین یا رب العالمین ٭٭٭
❤️ 😢 3

Comments