Richz Green Learnings Research & Development With M-A-Khan-Lodhi
Richz Green Learnings Research & Development With M-A-Khan-Lodhi
June 16, 2025 at 01:24 PM
*`🟩🟧-----﷽----🟥🟩`* *Assãlãm O Alāikum* *`Richz Green Agriculture WhatsApp CHANNEL`* CPE *کاٹن مارکیٹ جائزہ رپورٹ* `نسسیم عثمان صاحب` * *روئی کے بھاؤ میں مندی کا رحجان۔* * *کاروبار قدر بہتر۔* * *اسپاٹ ریٹ میں فی من 500 روپے کی کمی۔* * *سندھ و پنجاب میں تقریباً کئی جننگ فیکٹریاں جزوی شروع ہوگئی ہے۔* * *فی الحال 8 ہزار تا 10 گانٹھوں کی پھٹی جننگِ فیکٹریوں میں پہنچ چکی ہے۔* * *حکومت نے بجٹ میں جننگ فیکٹریوں کیلئے کوئی مراعات نہیں دیئے صرف یارن کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا ہے۔ جنرز کو مایوسی ہوئی ہے۔ احسان الحق چیئرمین کاٹن جنرز فورم۔* * *پی سی جی اے نے بجٹ کو مسترد کردیا۔ موجودہ بجٹ کاشتکاروں اور جيننگ انڈسڑی کیلئے زہر قاتل ہے۔ ڈاکٹر جیسومل چیئرمین PCGA.* * *صوبہ سندھ میں بالترتیب روئی کا فی من بھاؤ 16000 تا 16500 اور صوبہ پنجاب میں فی من بھاؤ 16500 تا 17000 روپے چل رہا ہے۔پھٹی کا بھاؤ 7800 تا 8800 روپے چل رہا ہے۔* * *قومی بجٹ میں کپاس کی پیداوار میں اضافے کیلئے اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ ملک سہیل طلعت چیئرمین جنوبی پنجاب پاکستان بزنس فورم* * *زرعی ترقی کیلئے مربوط پالیسی اور زرعی تحقیق کی مالی معاونت ناگزیر ہے۔ ساجد محمود* 👍 📤 📩 📲 ˡᶦᵏᵉ ᶠᵒˡˡᵒʷ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ 🟧🟧🟥🟩🟩🟩🟥🟦🟦 مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے عید الضحی کی طویل تعطیلات کے بعد صوبۂ سندھ و پنجاب میں کئی جننگ فیکٹریاں جزوعی طور پر شروع ہو گئی ہیں مزید فیکٹریاں بھی چلنے کی تیاری کر رہی ہیں پھٹی کی رسد میں اضافہ بھی گاہے گاہے ہو رہا ہے بجٹ میں ٹیکسٹائل سیکٹر اور جینگ سیکٹر روئی اور کپڑے کی درآمد پر سے E F S ختم کیا جائے گا جبکہ جنرز کو امید دلائی گئی تھی کے بجٹ میں جینگ پر عائد کئی ٹیکس ختم کر دیے جائیں گے لیکن بجٹ میں صرف یارن کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا ہے گوکہ APTMA نے ان اقدام کو سراہا ہے لیکن مجموعی طور پر جنرز کو بہت ہی مایوسی ہوئی ہے کیونکہ جنرز پر عائد کئی ٹیکس کو جوں کا توں رکھا ہوا ہے جنرز میں مایوسی ہوئی ہے جنرز پر عائد ٹیکس کا منفی اثر کپاس کے کاشکاروں پر بھی پڑے گا ان کو بھی مایوسی ہوئی ہے کاٹن اور کپڑے کی درآمد پر E F S کی سہولت موجود ہے جس کے منفی اثرات مقامی کپاس پر پڑیں گی کیوں کہ مقامی روئی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے جس کی وجہ سے کپاس کی مارکیٹ میں تیزی نہیں ہو سکے گی جس کے اثرات کپاس کے کاشکاروں پر پڑیں گے کیوں کہ روئی کا بھاؤ کم ہونے کی صورت میں پھٹی کے دام بھی کم ہوں گے جبکہ کپاس کے کاشکاروں کی IN PUT زیادہ ہونے کی صورت میں کپاس کی کاشت کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سال ملوں کے بڑے گروپ وافر تعداد میں روئی کے درآمدی معاہدے کر چکے ہیں جس وجہ سے مقامی روئی کی خریداری نسبتاً کم ہوگی جس کی وجہ سے جنرز اور کپاس کے کاشتکاروں کو پھٹی اور روئی خریداری کم ہوگی اور بھاؤ بھی مناسب نہیں ملیں گے۔ صوبہ سندھ و پنجاب میں بالترتیب روئی کا بھاؤ فی من 16000 تا 17000 روپے چل رہا ہے۔ پھٹی 40 کلو کا بھاؤ 7800 تا 8800 روپے چل رہا ہے۔ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 500 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 16200 روپے کے بھاؤ پر بند کیا۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں مندی رہی۔ نیو یارک کاٹن کا وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 65.30 تا 69.06 امریکن سینٹ پر بند کیا۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال 2024-25 کیلئے 60 ہزار 200 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ ویتنام 28 ہزار گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ انڈیا 18 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان 6 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔ سال 2025-26 کیلئے 36 ہزار 100 گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔ ویتنام 25 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔ ترکی 7 ہزار 500 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔ بنگلہ دیش 2 ہزار 200 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔ برآمدات 2 لاکھ 36 ہزار 300 گانٹھوں کی ہوئی۔ ویتنام 59 ہزار 100 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔ ترکی 40 ہزار 800 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان 35 ہزار 800 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔ دریں اثناء وفاقی بجٹ کی جانب سے کپاس اور اس کی ضمنی مصنوعات پر سیلز ٹیکس ختم کرنے اور درآمدی کپاس پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے میں ناکامی کے بعد پاکستان بھر میں کاٹن جننگ اور آئل مل کی صنعتیں شدید مایوسی اور تشویش کا شکار ہیں۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے قائم کردہ دو کمیٹیوں کی مضبوط سفارشات کے باوجود سامنے آیا ہے جس میں مزید فیکٹریوں کے بند ہونے، کپاس کی کاشت میں نمایاں کمی اور کپاس کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کا خدشہ ہے۔ رپورٹس بجٹ کے بعد کپاس کی قیمتوں میں 1,000 روپے فی من کی حیران کن کمی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جنرز کا کہنا ہے کہ کئی سال پہلے متعارف کرائی گئی ایک 'ناقص' ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم (EFS) نے کاٹن، سوتی دھاگے اور گرے کی سیلز ٹیکس فری درآمد کی اجازت دی تھی، جب کہ ان چیزوں کی گھریلو خریداری پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کا کہنا ہے کہ "اس اسکیم کی وجہ سے لاکھوں کاٹن بیلز اور سوتی دھاگے کی درآمد ہوئی، جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بری طرح متاثر ہوئے۔" "اس کے ساتھ ہی، ٹیکسٹائل ملوں نے مقامی طور پر کپاس کی خریداری بند کر دی، جس کی وجہ سے کپاس اور پھٹی (بیج کپاس) کی قیمتوں میں زبردست گراوٹ آئی۔ نتیجتاً، 2024-25 میں پاکستان کی کپاس کی کل پیداوار صرف 5.5 ملین گانٹھوں کی تاریخی کم ترین سطح پر گر گئی، جو کہ اب بھی سب سے کم 2000 گانٹھوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ غیر فروخت شدہ۔" کپاس کی کاشت میں کمی نے بھی پاکستان کو اربوں ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرنے پر مجبور کیا، پنجاب کے ایک اور جنر جنید اقبال نے افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ EFS نے کاٹن جننگ سیکٹر کو اپنے بدترین معاشی بحران میں ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں 800 سے زائد جننگ یونٹس اور کئی سو آئل ملیں بند ہو گئیں۔ حق نے نوٹ کیا کہ ان سفارشات کے اخراج سے روئی کی قیمتوں میں دو دنوں کے اندر اندر 1,000 روپے فی من کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے، جس سے مزید کمی کے خدشے کے ساتھ ان کی قیمت 16,000-16,200 روپے فی من تک گر گئی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے بجٹ کو مسترد کردیا۔ موجودہ بجٹ کاشتکاروں اور جيننگ انڈسڑی کیلئے زہر قاتل ہے۔ زرعی ترقی کے لیے مربوط پالیسی اور زرعی تحقیق کی مالی معاونت ناگزیر ہے: ساجد محمود پاکستان کے معروف کاٹن تجزیہ نگار نسیم عثمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے شعبہ ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے سربراہ ساجد محمود نے کہا ہے کہ ملک کا زرعی شعبہ اس وقت ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے، جس میں پائیدار ترقی کے لیے واضح سمت اور حکمتِ عملی کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ کسان کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے، جبکہ اسے نہ تو فصل کی مناسب قیمت میسر آتی ہے اور نہ ہی منڈی تک رسائی میں آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔ ساجد محمود کے مطابق زرعی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی میں تسلسل کے ساتھ سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث آج بھی زیادہ تر کسان روایتی طریقوں سے کاشتکاری پر مجبور ہیں، جس کا براہِ راست اثر فی ایکڑ پیداوار پر پڑ رہا ہے۔ ساجد محمود کا کہنا تھا کہ کپاس، جو ماضی میں پاکستان کی معیشت، ٹیکسٹائل صنعت اور دیہی معیشت کا مضبوط ستون تھی، اب شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کی بحالی کے لیے مربوط کوششیں اور ایک واضح لائحہ عمل نہایت اہم ہے۔ ساجد محمود نے کہا کہ آبپاشی کا نظام وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو پایا، جبکہ معیاری بیج، کھاد اور دیگر زرعی مداخل کی مناسب قیمتوں پر دستیابی کسانوں کے لیے ایک مسلسل مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) ملک میں کپاس کی تحقیق و ترقی کے لیے کلیدی ادارہ ہے، تاہم بدقسمتی سے اربوں روپے کے کاٹن سیس واجبات اب تک ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ذمے واجب الادا ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان واجبات کو فوری طور پر ریلیز کیا جائے تاکہ کپاس سے متعلق تحقیق کو تقویت دی جا سکے اور جدید ریسرچ کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جا سکے۔ ساجد محمود نے مزید کہا کہ مقامی کپاس اور اس سے حاصل ہونے والے بائی پروڈکٹس پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) بھی کسانوں اور جننگ انڈسٹری پر غیر ضروری بوجھ ہے، جسے فوری طور پر ختم یا کم کرنا چاہیے۔ ان اقدامات سے پیداواری لاگت میں واضح کمی آئے گی اور مقامی سطح پر ویلیو ایڈیشن کے عمل کو فروغ ملے گا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ زراعت جیسے اہم ترین شعبے کی ترقی کے لیے ایک جامع، دیرپا اور زمینی حقائق پر مبنی پالیسی ناگزیر ہے۔ پالیسی سازی کے عمل میں اگر تجربہ کار ماہرین زراعت اور زمینی حقائق سے آشنا افراد کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے، تو نہ صرف کسانوں کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں بلکہ ملکی معیشت بھی اس اہم شعبے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ *`جزاک اللّہ خیراً کثیرا واجراً کبیرا واحسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ`* `کاپی پیسٹ پوسٹ کا مقصد اپنی معلومات کے علاوہ دوسروں کے تجربات مشاہدات سے آگاہ کرنا ہے علم و تجربات کی باتیں کسی کی بھی ہو اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ضرور ملتا ہے لازمی نہیں میرے سمیت اور بھی کئی دوست اس پوسٹ میں بتائی گئی سب باتوں سے متفق ہوں شاید کہ کسی کو اگر میری بات سمجھ یا پسند نہ آتی ہو دوسروں کی کہی گئی بات پسند یا سمجھ آجائے` *مقصد صرف اور صرف زراعت کا علم پھیلانا ہے تاکہ زراعت میں بھتری اور خوشحالی لائی جائے* `تاکہ میرے ملک کے کسان علم و فراست کے ساتھ سوچ سمجھ کر اپنے فیصلے خود کر سکیں` *بھیڑ چال یا کسی کو دیکھا دیکھی میں کیے گئے فیصلے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں* دلیل کے ساتھ اختلاف رائے رکھنا سب کا حق ہے جزاک اللّہ خیرا محمد آصف خان لودھی 0346 9686 786 *`🟩🟧-----﷽----🟥🟩`* *Assãlãm O Alāikum* *`رچ گرین ایگرنومی زرعی موضوعات پر مبنی واٹس ایپ چینل`*6 🟧🟧🟥🟩🟩🟩🟥🟦🟦 `کاشتکار کا چینل جو رکھے آپ کو باخبر حقائق پر مبنی تازہ ترین زرعی خبریں ملکی اور غیرملکی زرعی ماہرین کے زراعت پر حقائق پر مبنی تجزیے گندم کپاس دهان کماد 6 مکئی دیگر اجناس اور فصلوں کے تازہ ترین ریٹس موسم کا حال فصلات کی کاشت و برداشت کھادوں پیسٹی سائیڈز زرعی انسٹرومنٹس زرعی` `Inputs & Outputs` `لوازمات کے بارے میں معلومات اور ان کی قیمتوں کا اتار چڑھاوں تو جوائن کیجیے آپ کا اپنا واٹس چینل جس کا فوکس صرف اور صرف زراعت کے موضوعات پر ہے` https://whatsapp.com/channel/0029VafEYIP72WU1oLy6iq3k جزاک اللہ خیرا عقل کل نہیں دلیل کے ساتھ اختلاف رائے رکھنا سب کا حق ہے محمد آصف خان لودھی 0346 9686 786
Image from Richz Green Learnings Research & Development With M-A-Khan-Lodhi: *`🟩🟧-----﷽----🟥🟩`* *Assãlãm O Alāikum* *`Richz Green Agriculture W...
😂 1

Comments