Aik Mukhbir
Aik Mukhbir
June 14, 2025 at 07:47 AM
جب مشرق سے سورج طلوع ہوتا تھا، ایک نئی صبح عالم اسلام کے دروازے پر دستک دیتی تھی۔ 711ء میں جب اسلامی سلطنت اپنی وسعتوں کو عبور کر رہی تھی، وہ لمحہ آیا جب طارق بن زیاد رحمہ اللہ نے بحرِ روم کی موجوں کو چیرتے ہوئے اندلس (موجودہ اسپین) کی سرزمین پر قدم رکھا۔ وہ ایک غلام زادہ تھا، مگر اس کے دل میں ایمان، عزم اور علم کی دولت تھی — اور یہی دولت بعد میں اندلس کو یورپ کا علمی، تہذیبی اور روحانی مرکز بنا گئی۔ جب وہ جبلِ طارق (جسے آج بھی ان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) پر اترے، تو سپاہیوں کی نگاہیں اپنی کشتیاں دیکھ رہی تھیں — تب طارق نے وہ جملہ کہا جو تاریخ کے سینے میں نقش ہو گیا: "اے لوگو! پیچھے سمندر ہے، اور آگے دشمن — اب صرف فتح یا شہادت!" یہ نہ صرف جنگی حکمتِ عملی تھی، بلکہ اللہ پر کامل ایمان کا اعلان تھا۔ طارق بن زیاد کی قیادت میں آٹھ ہزار مسلم مجاہدین نے لاکھوں عیسائی سپاہیوں کا مقابلہ کیا، اور چند ہی مہینوں میں اندلس کی فضا میں "اللہ اکبر" کی صدائیں گونجنے لگیں۔ صرف ایک فتوحات کا سلسلہ نہیں، بلکہ علم، انصاف، رواداری اور تمدن کا دور شروع ہوا۔ مسلمانوں نے اندلس میں عظیم یونیورسٹیاں، لائبریریاں، اسپتال اور مشاہدہ گاہیں قائم کیں۔ یہ وہی علم تھا جو آگے چل کر یورپ کی نشاۃ الثانیہ (Renaissance) کی بنیاد بنا۔ مگر افسوس، خود طارق بن زیاد کا انجام تاریخ کے صفحات میں دھندلا سا ہے۔ بعض روایات کے مطابق وہ گمنامی میں فوت ہوئے، مگر اُن کے کارنامے اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنے رہے۔
Image from Aik Mukhbir: جب مشرق سے سورج طلوع ہوتا تھا، ایک نئی صبح عالم اسلام کے دروازے پر دست...
❤️ 3

Comments