
Aik Mukhbir
June 16, 2025 at 03:19 PM
جلال الدین خوارزم شاہؒ — آخری مردِ مجاہد، جو طوفان کے آگے ڈٹا رہا
تاریخ کے صفحات میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو ماضی کی گرد میں چھپ جاتے ہیں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو صدیوں بعد بھی گرجتے ہیں — جلال الدین خوارزم شاہ انہی میں سے ایک تھا۔ ایک ایسا مجاہد، ایک ایسا سپہ سالار، جس نے چنگیز خان جیسے خونخوار طوفان کو للکارا۔ جس نے اپنے زخموں کو ڈھال بنا کر، اپنی غیرت کو تلوار کی دھار میں ڈھال کر، ترک و اسلام کی عظمت کی آخری قندیل روشن رکھی۔ جلال الدین خوارزم شاہ کا اصل نام جلال الدین منکبرنی تھا۔ وہ خوارزم شاہی سلطنت کے عظیم حکمران علاؤالدین محمد خوارزم شاہ کا بیٹا تھا۔ ان کی تعلیم اسلامی، عربی، فقہی اور جنگی تربیت کا امتزاج تھی۔ دربارِ خوارزم میں اس زمانے کے جید علما، فقہا اور سپاہی موجود تھے۔ جلال الدین نے قرآن، حدیث اور جنگی فنون بچپن سے سیکھے۔ بہادری، حکمت، اور غیرت اُن کی گھٹی میں پڑی تھی۔ 1219ء میں چنگیز خان نے تجارت کی آڑ میں سفیروں کا ایک قافلہ خوارزم بھیجا۔ مگر خوارزم شاہ نے ان سفیروں کو قتل کروا دیا، جس پر چنگیز خان کا قہر آسمان بن کر ٹوٹا۔ 1220ء میں منگول افواج نے خوارزم کو روند ڈالا۔ سلطنت بکھر گئی، بادشاہ محمد خوارزم شاہ ایک جزیرے میں پناہ لے کر فوت ہو گیا، مگر… ایک جوان سال شہزادہ باقی تھا — جلال الدین۔
چنگیز خان نے اُسے حقیر جانا، مگر وہ جانتا نہ تھا کہ جلال الدین وہ مردِ آہن ہے جو شکست کی راکھ سے اٹھتا ہے، اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتا ہے۔ نیشاپور، غزنی، ہرات، اصفہان — سب منگولوں کے قدموں تلے آ چکے تھے، مگر جلال الدین نے پروان کی جنگ میں چنگیز کے بیٹے کو شکست دی، اور دنیا کو دکھا دیا کہ اسلام کا آخری سپاہی ابھی زندہ ہے۔ جلال الدین کو جب غزنی سے نکلنا پڑا، تو اُس نے اپنے خاندان کو لے کر دریائے سندھ کی طرف رخ کیا۔ چنگیز خان نے تعاقب کیا۔ دریا کے کنارے ایک عظیم معرکہ ہوا — جنگِ سندھ۔ جلال الدین نے آخری دم تک لڑا۔ جب سب کچھ لُٹ گیا، اور دشمن چاروں طرف سے چھا گیا، تو جلال الدین نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا، اور دریائے سندھ کو عبور کر گیا۔ چنگیز خان حیرت سے اُس کی بہادری کو دیکھتا رہ گیا اور اپنے بیٹوں سے کہا:
"باپ اگر ایسے بیٹے پیدا کرتا ہے تو سلطنت چھن بھی جائے تو افسوس کی بات نہیں۔"
جلال الدین نے سندھ، ملتان، اور ایران میں کئی سال تک منگولوں سے لڑائیاں کیں، مگر اسے کبھی وہ حمایت نہ ملی جو وہ چاہتا تھا۔ مسلمان بادشاہوں نے اُس کی قربانیوں کی قدر نہ کی، اور بالآخر 1231ء میں ایک کرد قاتل کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اُس کی قبر کا علم آج تک نہیں — مگر اُس کی عظمت، غیرت اور جرأت تاریخ کے سینے میں ہمیشہ زندہ ہے۔

❤️
1