
Maulana Fazl ur Rehman
365.3K subscribers
Verified ChannelAbout Maulana Fazl ur Rehman
President Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

جو کچھ پاکستان کے بارڈرز پہ ہو رہا ہے یہ آج سے نہیں بلکہ چالیس سال سے ہو رہا ہے اور اگر چالیس سال کا عرصہ نہ گنیں تو گزشتہ بیس سال سے ایک ہی علاقے پر جنگ فوکس کی گئی ہے، جس سے جغرافیائی تبدیلیوں کی نشاندہی ہوتی ہےاور یہ پہاڑوں کا وہ منطقہ ہے جو عالمی جنگ کا سبب بنا ہے، جہاں روس اور امریکہ نے قبضہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن افغانوں نے لڑ کر ان کو نکال دیا۔ آج چائنا کی بھی خواہش ہے کہ میری رسائی افغانستان تک ہو سکے، افغانستان اور ہمارے فاٹا وخیبر پختون خواہ کے علاقوں میں دو قسم کے معدنیات ہیں، ایک وہ معدنیات جس کے ساتھ عام لوگوں کی معیشت کا تعلق ہے گیس کوئلہ تیل چاندی کاپر وغیرہ وغیرہ کچھ وہ پتھر بھی ہیں کہ جو خلا میں جانے والے راکٹوں اور میزائلوں میں استعمال ہوتے ہیں، جو ساڑھے چار سو کی ہیٹ پر بھی تحلیل نہیں ہوتے، اس سے الٹا جائیں تو اتنی سخت سردی میں بھی وہ منجمد نہیں ہوتے، اس کی ضرورت امریکہ کو بھی ہے، اس کی ضرورت چائنا کو بھی ہے، اس کی ضرورت رشیا کو بھی ہے۔ وہ ان علاقوں تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ہمارے ان وسائل پر کہ جن کے ساتھ بڑی قوتوں کے مفادات وابستہ ہیں جو ان کی میزائلوں میں استعمال ہونگے، ان کے راکٹوں میں استعمال ہوں گے اور اس کے لیے وہ تگ ودو کر رہے ہیں کہ کس طرح اس علاقے پر اپنا ہاتھ مظبوط کر لیا جائے، کوئی عجب نہیں اگر ٹرمپ غزہ کے بارے میں یہ بات کہہ سکتا ہے تو اس کے ایجنڈے پر یہ بھی ہو کہ قبائلی علاقے پر ہم قبضہ کر لیں، یہاں کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں، پاکستان کا عمل دخل ہم ختم کر دیں۔ وہاں ویسے بھی اس کی رٹ کمزور ہو چکی ہے اور پھر اس کے بعد وہ یہی سے ہمارے معدنیات کو بھی لے جائیں اور افغانستان کو بھی ڈیل کرے، تہران کو بھی ڈیل کرے، انڈیا پہ بھی راج کرے، پاکستان کو بھی کرے اور چائنا کو بھی کرے۔ یہ جغرافیائی تبدیلیوں کے وہ خطرات ہیں جن کو ہم محسوس کر رہے ہیں، ہمارے قبائلی علاقوں میں جنگیں ہو رہی ہیں، کرم ایجنسی میں جنگیں ہو رہی ہیں، کیا ریاست پر کسی کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہاں کی صورتحال کو بہتر بنائیں، ایک طرف آپ نے ان کو ضم کر دیا ضم کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہاں خوشحال آنی چاہیے تھی۔ وہاں باغ بہار ہونا چاہیے تھا، وہاں سبزا ہونے چاہیے تھا، وہاں دودھ کی نہریں اور شہد کی نہریں بہنی چاہیے تھی، الٹا ہمارے علاقے بھی خوار ہو گئے، وہاں کا امن بھی ہم سے چھن گیا، وہاں کی خوشیاں بھی ہم سے چھن گئی،ایک سال کے اس پورے عرصے میں باجوڑ جہاں سے ہم اپنی پارٹی کے نوے جنازے بیک وقت، روزانہ ہمارے دو دو تین تین جنازے اٹھ رہے ہیں۔ قبائل کا بڑا جرگہ میرے پاس آیا، باجوڑ کا جرگہ میرے پاس آیا ہے، افریدیوں کے جرگہ میرے پاس آیا ہے، مہمند کا جلسہ میرے پاس آیا ہے، شنواری، اورکزئی، کرم، وزیروں، داوڑ، محسود، ایک ایجنسی ایسی نہیں ہے کہ جن کے لوگ جرگہ لے کر میرے گھر نہ آئے ہوں ایک ہی بھیک مانگ رہے ہیں کہ ہمیں امن دو، آپ بتائیں میں کہاں سے امن دوں۔ پارلیمنٹ کی نہیں سنتا کوئی تو میرے ایک آدمی کی کیا سنے گا، ابھی پشاور میں تمام قبائل کا جرگہ ہوا ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں امن دو۔ ہم دربدر ہوچکے ہیں، دو ہزار دس سے وہ لوگ مہاجر ہیں، اپنے ملک کے اندر مہاجر ہیں، بھیک مانگ رہے ہیں، وہ قبائل جو اپنے روایات رکھتے ہیں، جن کی خواتین گھروں سے باہر نہیں نکلتی، آج وہ گلی کوچوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی ہیں، تمہیں اپنے پشتونوں کے اور ان کی روایات کیا اور ان کی عزت کی کوئی لحاظ نہیں، تمہیں اپنے بلوچوں کی عزت کا کوئی لحاظ نہیں ہے، پالیساں صحیح لوگوں کے حوالے کرو تاکہ معاملات بہتری کی طرف جانا شروع ہو جائیں،ہم ملک کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں، ہم پوری طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن معاملہ پارلیمنٹ طے کرے گی، سویلین قیادت کے اوپر ہمیں اعتماد کرنا چاہیے، ورنہ پھر یہی ہوگا کہ آئے روز پارلیمان میں بھی ہنگامہ آرائی، نہ کوئی مشترکہ سوچ، نہ کسی مسئلے پر سنجیدہ ڈیبیٹ، نہ کوئی معاملہ فہمی، نہ ہی اس کی طرف آگے بڑھ سکیں گے۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں خطاب

قطر:جمعیۃ علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی خالد مشعل سے ملاقات

جےیوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قطر میں حماس رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں جاری مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات،اسلم غوری مولانا فضل الرحمان نے حماس رہنماؤں کو پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کیا،اسلم غوری پاکستانی عوام کے دل اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں،مولانا فضل الرحمان مولانا فضل الرحمان نے شہداء کی تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعاء کی،اسلم غوری اسرائیل جنگی مجرم ، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے،مولانا فضل الرحمان فلسطینی مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے منتظر ہیں،ڈاکٹر مشعل فلسطینی مسلمانوں کو دوائیوں ،خیموں اور راشن کی اشد ضرورت ہے،ڈاکٹر خالد مشعل مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی،اسلم غوری جے یو آئی کارکن اور پاکستانی عوام مشکل وقت میں فلسطینی بھائیوں کا تعاون کریں،مولانا فضل الرحمان کی اپیل گذشتہ روز مولانا فضل الرحمان کی حماس کی مرکزی مجلس شوری کے سربراہ ابو عمر سے ملاقات ہوئی تھی ملاقات میں علامہ راشد محمود سومرو،مفتی ابرار احمد اور حماس رہنما ڈاکٹر ظہیر ناجی بھی موجود تھے میڈیا سیل جمعیۃ علماء اسلام پاکستان

جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے مولانا فضل الرحمان کی حماس رہنماؤں سے ملاقات ۔ترجمان جے یو آئی جےیوآئی وفد حماس کی مجلس شوری سے ملاقات کی ۔اسلم غوری جےیوآئی وفد کی قیادت مولانا فضل الرحمن اور حماس کی مجلس شوری کے سربراہ ابو عمر دونوں وفود کی قیادت کر رہے تھے ترجمان جے یو آئی ملاقات میں غزہ و فلسطین کی تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال ۔اسلم غوری جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کی حماس رہنماؤں کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی ۔اسلم غوری فلسطین آزاد ریاست ہے ، اسرائیلی قبضے کی حمایت نہیں کی جاسکتی ۔مولانا فضل الرحمان مسجد اقصی اور فلسطین کی آزادی کے لئے فلسطینی عوام کی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان مولانا فضل الرحمان کے تعاون پر ان کے شکر گذار ہیں ۔سربراہ مجلس شوریٰ حماس مولانا فضل الرحمان اور جے یو آئی امت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہی ہے ۔سربراہ مجلس شوری گھروں کی تعمیر ،خیموں ،دوائیوں اور رمضان میں سحر وافطار کے لئے پاکستانی عوام اور امت مسلمہ تعاون کی اپیل کرتے ہیں ۔ابو عمر پاکستانی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں سے بھرپور تعاون کریں ۔مولانا فضل الرحمان جے یو آئی وفد میں مولانا راشد محمود سومرو اور مفتی ابرار احمد خان شامل ۔ میڈیا سیل جے یو آئی پاکستان

ہم نے چالیس سال میں کونسی جنگ لڑی ہے؟ہم نے اپنی فوج اور ریاست کو جنگوں میں دھکیلا ہے، دنیا کے ہر جنگجو کےپاؤں کے نشان پاکستان کی سرزمین سے ہوکر گذرتے تھے اور دنیا کہتی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے ، کیا ہم اس محاذ سے نکل چکے ہیں ؟ لڑائی میں کوئی افغانی مر جاتا ہے تو ہم افغانستان پر سارا غصہ نکال دیتے ہیں،تاکہ قوم ہماری غلطیوں پر بات نہ کرسکے اور پڑوسی ملک کو مجرم سمجھتی رہے۔ ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا چاہئے، جنرل مشرف کے دور میں امریکی صدر کلنٹن انڈیا آرہا تھاتوپاکستان کی سر زمین پر پاؤں رکھنے کے لئے تیار نہیں تھا اور کہا تھا کہ پاکستان میں ڈکٹیٹر کی حکومت ہے، اسے تملے کئے گئے اور دو گھنٹے کے لئے اس شرط پر آئے کہ ڈکٹیٹر کے ساتھ کوئی تصویر نہیں بنوائیں گے، پھر جب نائن الیون ہوا تو امریکہ کے لئے پاکستان کی سرزمین بچھا دی گئی، فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کئے گئے اور نام نہاد اتحاد کے حامی بن گئے، کیا کبھی طالبان نے ہمیں کہا کہ آپ کے اڈوں سے امریکی جہازہماری فضاؤں میں کیوں اڑ رہے ہیں؟ آج ہم نے اپنے تجربہ اور ذمہ دار ریاست کے طورپر ان کو چلانا ہے، الیکشن سے پہلے میں ریاست کو اعتماد میں لے کر مشاورت کا ساتھ ایک ایجنڈا لے کر طالبان کی دعوت پر افغانستان گیا اور ایجنڈے کے ہر نقطے پر ان کو قائل کیا، پھر کس نے اس سب پر پانی پھیرا ؟ میں ذاتی حیثیت میں وہاں گیا تھا اس کے بعد اسٹیٹ ٹو اسٹیٹ بات چیت ہونی تھی، لیکن یہ سب کیوں نہیں ہوا ؟ ہم نے ستر سالسے کشمیر کی سرحد پر انڈیا کے ساتھ نبرد آزما ہیں، اب ایک اور سرحد ہم کھو رہے ہیں، ہم نے ریاست کی مٹی کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے اسکے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کیا لیکن ہماری ریاست کے کرتا دہرتا اتنے نا اہل ثابت ہوئے کہ کئے کرائے کو بھی نہیں سنبھال سکے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں خطاب

ٹرمپ کو ن ہوتے ہیں کہ وہ کسی آزاد قوم اور ان کی سرزمین پر قبضہ کرنےکی بات کررہے ہیں ؟ ایک آزاد قوم کو دوسرے ملکوں میں مہاجر بنانے کی بات کررہے ہیں، ٹرمپ کا کا کٹھ پتلی پندرہ مہینے سے فلسطینیوں کا قتل عام کر کے انسانی جرم کا مرتکب ہوا ہے،اگر صرف دو تین شہروں میں فوجی کاروائی کے نتیجے میں قتل ہونے والوں کے پاداش میں صدام حسین کو لٹکایا جا سکتا ہے تو اس پاداش میں جہاں نیتن یاہو کو سرعام پھانسی ملنی چاہیے تھی اس کو آج امریکہ فلسطینیوں کے خون پر ان کو سپورٹ کر رہا ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب دنیا میں یہودی در بدر ہو گئے اور جرمنوں کے ہاتھوں پٹ گئے تو اس زمانے میں لیگ آف نیشنز اقوام متحدہ میں قرارداد پاس کی کہ ان دربدر شدہ یہود یوں کو جگہ دینا ان کو از سرِ نو بسانا یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے، بین الاقوامی ذمہ داری قرار دے کر صرف فلسطین کی سرزمین کو اس کے لیے کیوں خاص کیا گیا؟ کسی ملک نے ان کو جگہ نہیں دی اور سب کو اکٹھا کر کے فلسطین کی سرزمین میں لایا گیا، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کسی شہری کو، کسی یہودی کو جبراً کہیں آباد نہیں کیا جائے گا، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کسی سرزمین پر سرزمین والوں سے پوچھے بغیر جبرا ان کو آباد نہیں کیا جا سکتا، یہودیوں کو بھی جبراً لا کر آباد کیا گیا، فلسطین سے بھی جبراً زمین لی گئی اور وہاں ان کو آباد کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطین Over Populated Area ہے یہاں مزید کسی کو آباد کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اس کے باوجود Over Populated Area پر ان کو آباد کیا گیا، قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور ہے اس پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، اس معاشی لحاظ سے کمزور ترین ملک پر اتنی بڑی یہودی آبادی کا بوجھ ڈال دیا گیا، اور آج تک یہ صرف بوجھ ہی نہیں بلکہ ان کی پیٹھ میں گھونپا ہوا چھرا ہے، خنجر ہے جو آج بھی ہمارے جسم کو چھو رہا ہے اور ہمارے جسم سے لہو بہہ رہا ہے۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں خطاب