🌎دلچسپ معلومات🌎

3.8K subscribers

About 🌎دلچسپ معلومات🌎

*❤️ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُه‌ 😍* 💖 𝗪𝗲𝗹𝗰𝗼𝗺𝗲 𝘁𝗼 𝗖𝗵𝗮𝗻𝗻𝗲𝗹 😊 *✅ اس چینل پر صرف معلوماتی پوسٹ شیئر کی جاتی ہے جو پوری فیملی ایک ساتھ دیکھ سکے 🌼* *🥀 مـــنــــجـانـــــــــب ↙️* 🌹 𝗔𝗱𝗺𝗶𝗻𝗶𝘀𝘁𝗿𝗮𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗧𝗲𝗮𝗺 ↘️ *🌎 دلچسپ معلومات 🌎*

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:16:45 AM

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قسط 3.. پیشکش........🌹آزادالفت🌹 پچھلی قسط میں خانوادہ ابراھیم علیہ السلام کی ھجرت اور پھر ننھے اسمائیل علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نیچے سے زم زم کے چشمے کے پھوٹ پڑنے کا ذکر کیا گیا.. یہ چشمہ دراصل مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں زندگی کی نوید تھا.. پہلے قبیلہ جرھم جو پانی کی تلاش میں عرب کے صحراؤں میں پھر رھا تھا زم زم کے چشمہ کے پاس قیام پذیر ھوا اور پھر کچھ عرصہ بعد ایک اور قبیلہ بنی قطورا بھی حضرت ھاجرہ کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا.. اور یوں مکہ جس کا قدیم اور اصل نام بکہ تھا (سورہ آل عمران).. ایک باقائدہ آبادی کا روپ اختیار کرگیا.. اگلے 15 ' 20 سال میں چند اھم واقعات ظہور پذیر ھوۓ.. ان میں سے ایک تو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا وہ خواب ھے جس میں انہیں حضرت اسمائیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ھوا.. یقیننا" یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمائیل علیہ السلام کی ایک عظیم آزمائش تھی.. حضرت ابراھیم علیہ السلام اللہ کا حکم پاکر مکہ تشریف لاۓ اور اپنے بیٹے حضرت اسمائیل علیہ السلام سے اپنے خواب کا ذکر کیا.. سعادت مند اور فرماں بردار بیٹے نے جو اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھے یہ کہہ کر اپنی رضامندی ظاھر کردی کہ اگر یہ اللہ کا حکم ھے تو پھر مجھے قبول ھے آپ حکم ربی کو پورا کریں.. اور پھر عین اس وقت جب کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام حضرت اسمائیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے والے تھے , اللہ نے ان کو آزمائش میں کامیاب پاکر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ایک مینڈھے سمیت زمین پر بھیجا اور پھر حضرت اسمائیل علیہ السلام کی جگہ اس مینڈھے کی قربانی کی گئی.. اللہ کو حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمائیل علیہ السلام کا یہ فعل اتنا پسند آیا کہ پھر تا قیامت اس قربانی کی یاد میں حج پر قربانی فرض کردی اور تب سے ھر سال یہ سنت ابراھیمی جاری ھے اور عید الاضحی' کے دن لاکھوں مسلمان اللہ کی راہ میں جانور قربان کرکے اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ھیں.. حضرت اسمائیل علیہ السلام مکہ میں ھی فوت ھوۓ اور ایک روایت کے مطابق وہ اور ان کی والدہ حضرت ھاجرہ بیت اللہ کے ساتھ حجر (حطیم) میں مدفون ھیں.. واللہ اعلم.. دوسرا اھم واقعہ خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر تھی.. خانہ کعبہ حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور یہ زمین پر اللہ کا پہلا گھر تھا مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی عمارت بھی سطح زمین سے معدوم ھوگئی اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے زمانہ میں اس کا کوئی نشان تک ظاھر نہ تھا.. لیکن پھر اللہ کے حکم پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی خانہ کعبہ کی بنیادوں کی طرف نشاندھی کی اور آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسمائیل علیہ السلام کے ساتھ ملکر خانہ کعبہ کی پرانی بنیادوں پر تعمیر کی.. اللہ کا یہ گھر ایسا سادہ تعمیر ھوا کہ اس کی نہ چھت تھی , نہ کوئی کواڑ اور نہ ھی کوئی چوکھٹ یا دروازہ.. کعبہ کو "کعبہ" اس کی ساخت کے مکعب نما ھونے کی بنا پر کہا جاتا ھے.. عربی میں چھ یکساں پہلوؤں والی چیز معکب کہلاتی ھے.. چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تعمیر مکعب حالت میں تھی تو اسے کعبہ کہا جانے لگا.. یاد رھے کہ موجودہ خانہ کعبہ چار کونوں والا ھے جسے قریش مکہ نے اس وقت تعمیر کیا جب ایک سیلاب میں خانہ کعبہ کی عمارت منہدم ھوگئی تھی.. اس کا ذکر آگے آۓ گا.. تیسرا اھم واقعہ قبائل جرھم اور بنی قطورا کا حضرت ابراھیم علیہ السلام کی تبلیغ پر دین حنیف یعنی دین ابراھیمی قبول کرلینا تھا.. خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تولیت یعنی سارا مذھبی انتظام قبیلہ جرھم کے حوالے کردیا.. بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی سے حضرت اسمائیل علیہ السلام کی شادی ھوئی.. جب کچھ پشتوں بعد نسل اسمائیل علیہ سلام پھلی پھولی تو پھر خانہ کعبہ کا سارا انتظام خود آل اسمائیل نے سنبھال لیا.. کچھ عرصہ گزرا تو ایک اور قبیلہ "ایاد" مکہ پر حملہ آور ھوا اور شھر پر زبردستی قبضہ کرلیا.. اور اس دوران بنی اسمائیل کے بہت سے قبائل کو مکہ سے نکلنا بھی پڑا.. تاھم بعد میں یمن سے آنے والے ایک اور قبیلہ بنو خزاعہ نے مکہ کو بنی ایاد سے آزاد کرالیا.. حضرت اسمائیل علیہ السلام کی نسل سے "قصی بن کلاب" وہ نامور بزرگ گزرے ھیں (جن کی شادی بنو خزاعہ کے رئیس کی بیٹی سے ھوئی تھی) جنہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت واپس لینے کے لیے جدو جہد شروع کی اور بالآخر بنو خزاعہ کی بہت مخالفت کے باوجود اس مقصد میں کامیاب ھوۓ.. انہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت کا انتظام پھر سے ملنے پر قدیم عمارت گرا دی اور خانہ کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کرایا اور پہلی بار کجھور کے پتوں کی چھت بھی ڈالی.. درحقیقت قصی بن کلاب ھی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مکہ کو ایک خانہ بدوشانہ شھر سے بدل کر ایک منظم ریاست کی شکل دی.. انہیں بجا طور پر مکہ کا مطلق العنان بادشاہ کہا جاسکتا ھے جن کا ھر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھا.. تاھم انہوں نے دیگر قبائل کے سرکردہ افراد کو اپنی مشاورت میں شامل رکھا جبکہ مکہ کا انتظام و انتصرام چلانے کے لیے مختلف انتظامی امور کو چھ شعبوں میں تقسیم کیا اور اپنی اولاد میں ان عہدوں کی تقسیم کی.. یہ نظام بڑی کامیابی سے اگلے 150 سال سے زائد عرصہ تک چلا اور پھر بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جب مکہ فتح ھوا تو اسے اسلامی اصولوں اور بنیادوں پر تبدیل کردیا گیا.. ===========>جاری ھے..

❤️ 5
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:09:39 AM

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر.48۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ " ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ترتیب و پیشکش👇👇👇 ............🌹آزادالفت🌹 '' اسے زندہ باہر نہ جانے دیتا''۔میں اس کے پیچھے اسی لیے آیا تھا کہ یہ یہاں سے زندہ نہ نکل سکے''۔ عثمان صارم نے کہا اور امام کو اپنا خنجر دکھا کر کہنے لگا… ''خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرا خنجر صلیب پر روک لیا تھا۔ یہ آدمی پاگل نہیں، عیسائی اور یہودی بھی نہیں، یہ مسلمان ہے۔ صلاح الدین ایوبی کا پیغام لایا ہے''… اس نے بوڑھے امام کو سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا… ''میں اس پیغام پر عمل کروں گا۔ آج شام سے ہی بسم اللہ کررہا ہوں لیکن ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے۔ کیا آپ ہماری قیادت کریں گے؟ یہ سوچ لیں کہ صلیبی حکومت کو خبر مل گئی تو سب سے پہلے امیر کی گردن اڑائی جائے گی''۔ ''کیا مسجد میں کھڑے ہوکر میں کہنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ میں قوم سے الگ رہوں گا؟''۔ امام نے جواب دیا۔ ''لیکن یہ فیصلہ قوم کرے گی کہ میں امیر اور قائد بننے کے قابل ہوں یا نہیں، میں خدا کے گھر میں کھڑا یہ عہد کرتا ہوں کہ میری دانش، میرا مال میری اولاد اور میری جان اسلام کے تحفظ اور فروغ کے لیے اور صلیب کو روبہ زوال کرنے کے لیے وقف ہوگئی ہے… میرے عزیز بیٹے صلاح الدین ایوبی کے پیغام کا ایک ایک لفظ ذہن میں بٹھا لو۔ اس نے ٹھیک کہا ہے کہ نوجوان قوم اور مذہب کا مستقبل ہوتے ہیں۔ وہ اسے روشن بھی کرسکتے ہیں اور وہ آوارہ ہوکر اسے تاریک بھی کرسکتے ہیں۔ جب کوئی نوجوان صلیبیوں اور یہودیوں کی بے حیائی کا دلدارہ ہوکر لڑکیوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو وہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کی اپنی بہن بھی اس جیسے نوجوانوں کی بری نظر کا شکار ہورہی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں قومیں تباہ ہوتی ہیں… میرے نوجوان بیٹے! خدا کے اس گھر میں عہد کرو کہ تم صلاح الدین ایوبی کے پیغام پر عمل کرو گے''۔ عثمان صارم نے گھر جاکر اپنی بہن النور کو الگ بٹھا کر سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا… ''النور! ہمارا مذہب اور ہمارا قومی وقار تم سے بہت بڑی قربانی مانگ رہا ہے۔ آج سے اپنے آپ کو پردہ نشین لڑکی سمجھنا چھوڑ دو۔ مسلمان لڑکیوں تک یہ پیغام پہنچا کر انہیں اس جہاد کے لیے تیار کرلو۔ میں تمہیں خنجر، تیر کمان اور برچھی کا استعمال سکھا دوں گا۔ احتیاط یہ کرنی ہے کہ کسی کو شک بھی نہ ہو کہ ہم لوگ کیا کررہے ہیں''۔ ''میں ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہوں''۔ النور نے کہا …''میں اور میری تمام سہیلیاں تو پہلے ہی سوچ رہی ہیں کہ ہم اپنی آزادی اور اپنی قوم کے لیے کیا کرسکتی ہیں۔ ہم تو مردوں کے منہ کی طرف دیکھ رہی ہیں''۔ عثمان صارم نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کے متعلق جتنی خبریں یہاں مشہور کی جاتی ہیں، وہ سب جھوٹی ہوتی ہیں۔ تمام مسلمان گھرانوں میں جاکر عورتوں کو صحیح خبریں سنائو۔ عثمان صارم نے اسے صحیح خبریں سنائیں اور یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں میں غدار اور صلیبیوں میں مخبر بھی ہیں۔ اس نے بہن کو ایسے تین چار گھرانے بتائے اور کہا کہ ان عورتوں کو ہاتھ میں لو اور انہیں بتائو کہ ان کے آدمی غدار ہیں۔ انہیں یہ بھی کہو کہ عیسائی اور یہودی لڑکیوں کے پیار سے بچو۔ ان کا پیار محض دھوکہ ہے۔ ''کیا میں رینی کو یہاں آنے سے روک دوں؟'' …عثمان صارم نے کہا … ''وہ بہت تیز اور ہوشیار لڑکی ہے''۔ رینی ایک نوجوان عیسائی لڑکی تھی، عثمان صارم کے گھر سے تھوڑی ہی دور اس کا گھر تھا۔ اس کا باپ شہری انتظامیہ کے کسی اونچے عہدے پر فائز تھا۔ لڑکی کا پورا نام رینی الیگزینڈر تھا۔ وہ النور کی سہیلی بنی ہوئی تھی، عثمان صارم کے ساتھ بھی اس نے گہرے مراسم پیدا کرلیے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ عثمان صارم ابھی اس کے قریب نہیں ہوا تھا، یہ وجیہہ جوان سمجھتا تھا کہ یہ عیسائی لڑکی ہے اور یہاں جاسوسی کرنے آتی ہے۔ اس نے رینی کو کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرلیتا تھا تاکہ اسے شک نہ ہو۔ اب جب اسے یہ ضرورت پیش آئی کہ رینی اس کے گھر نہ آیا کرے تو رینی کو یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہوگیا کہ اب ہمارے گھر نہ آیا کر و مگر اسے روکنا ضروری تھا کیونکہ وہ گھر میں اپنی بہن کو جنگی ٹرینگ دینا چاہتا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اس گھر میں اب کیا کیا راز آئیں گے۔ اس نے سوچ سوچ کر یہ طریقہ پسند کیا کہ النور سے کہا کہ رینی جب کبھی آئے تم یہ کہہ کر باہر چلی جایا کرو کہ کسی سہیلی کے گھر جا رہی ہوں۔ اس طرح اسے ٹالتی رہو، وہ خود ہی آنا چھوڑ دے گی۔ کرک شہر کے لوگ اس پاگل کی باتیں کررہے تھے جو مسلمانوں کی تباہی کی پیشن گوئی کرتا پھر رہا تھا۔ غیر مسلموں کو وہ بہت ہی اچھا لگا تھا۔ سب اسے ڈھونڈتے پھرتے تھے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سرکاری طور پر بھی اسے تلاش کیا جارہا تھا کیونکہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ان کا جذبہ سرد کرنے کے لیے اس پاگل کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔ وہ اسی رات کہیں لاپتہ ہوگیا تھا۔ دس بارہ روز اس کی تلاش ہوتی رہی۔ صلیبی حکام نے شہر کے باہر بھی گھوڑ سوار دوڑا دیئے۔ انہیں توقع تھی کہ وہ اس شہر سے کہیں دوسرے شہر جارہا ہوگا مگر وہ کسی کو نہ ملا اور دس بارہ دن گزر گئے۔ ان دس بارہ دنوں میں عثمان صارم نے النور اور اس کی تین سہیلیوں کو ہتھیاروں کا استعمال سکھا دیا۔ اس نے انہیں تیغ زنی بڑی محنت سے سکھائی۔ اس کے علاوہ اس نے مسلمان نوجوانوں کو درپردہ سلطان ایوبی کا پیغام سنا کر زمین دوز محاذ پر جمع کرلیا۔ ان نوجوانوں نے ان مسلمان کاریگروں کو تیار کرلیا جو برچھیاں اور تیرکمان وغیرہ بناتے تھے۔ یہ سب صلیبیوں کے ملازم تھے۔ وہ اپنے لیے کوئی ہتھیار نہیں بنا سکتے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کاریگروں نے گھروں میں چوری چھپے ہتھیار بنانے شروع کردیئے۔ یہ بہت ہی خطرناک کام تھا۔ پکڑے جانے کی صورت میں صرف سزائے موت ہی نہیں تھی بلکہ مرنے سے پہلے صلیبی درندوں کی بھیانک اذیتیں تھیں۔ وہاں کوئی مسلمان کوئی معمولی سے جرم میں یامحض شک میں پکڑا جاتا تو اس سے پوچھا جاتا تھا کہ مسلمان گھرانوں کے اندر کیا ہورہا ہے اور جاسوس کہاں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کے جسم کو روئی کی طرح دھننا شروع کردیتے تھے۔ کاریگر جو ہتھیار بناتے تھے وہ عثمان صارم جیسے نوجوان رات کو مختلف گھروں میں چھپا دیتے تھے۔ دن کے وقت لڑکیاں برقعہ نما لبادوں میں خنجر اور تیرکمان چھپا کر مسلمانوں کے گھروں میں لے جاتی رہتی تھی مگر ہتھیار بنانے اور گھروں میں پہنچانے کی رفتار بہت سست تھی۔ ادھر سلطان ایوبی کو ایک جاسوس نے اطلاع دے دی کہ کرک اور مضافات کے مسلمانوں تک اس کا پیغام پہنچ گیا ہے اور وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے زمین دوز محاذ بنا لیاہے۔ یہ اطلاع لانے والا بھی ایک ذہین اور نڈر جاسوس تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ جاسوس جس نے سلطان ایوبی کا پیغام عثمان صارم تک پہنچایا تھا پاگل کے روپ میں کامیاب رہا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس اطلاع پر بہت خوش تھا۔ اس نے کہا … ''جس قوم کے نوجوان بیدار ہوجائیں اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی''۔ ''اس کامیابی نے میرا حوصلہ بڑھا دیا ہے''۔ شعبہ جاسوسی کے نائب زاہدان نے کہا …''اگر آپ اجازت دیں تو میں مقبوضہ علاقے کے نوجوانوں کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے اتنا بھڑکا سکتا ہوں کہ وہ شعلے بن کر کرک اور یروشلم کو آگ لگا دیں گے''۔ ''اور اس آگ میں وہ خود بھی جل مریں گے''۔ سلطان ایوبی نے کہا …''میں نوجوانوں کو شعلے نہیں بنانا چاہتا۔ میں ان کے سینوں میں ایمان کی چنگاری سلگانا چاہتا ہوں۔ نوجوانوں کو بھڑکانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ ان میں سے کوئی اشرفی کی چمک اور لالچ سے تمہارے ہاتھ میں کھیلنے لگے گا اور زیادہ تعداد ان کی ہے جو جذباتی الفاظ اور جوشیلے نعروں سے بھڑک اٹھتے ہیں پھر تم ان سے جو کچھ کرانا چاہتے ہو کرالو۔ انہیں آپس میں بھی لڑا سکتے ہو۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ جاہل اور گنوار ہیں اور ان کا اپنا دماغ ہی نہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ خون کا جوش کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس عمر میں ذہن عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے اور عمل صالح کی طرف بھی۔ تم نوجوان ذہن کو جو بھی تحریک اور اشتعال دے دو وہ اسی کا اثر قبول کرلے گا۔ تمہارے دشمن ہماری قوم کے ابھرتے ہوئے ذہن میں عیاشی اور جنسی لذت کے جراثیم ڈال رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم انہیں جہاد کی طرف مائل کرکے دشمن کے خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ تم یہ کوشش کرو کہ نوجوان بھڑکیں نہیں بلکہ سردر ہیں اور سوچیں، رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھیں کہ اپنے آپ کو جانو اپنے دشمن کو پہچانو۔ ان کی سوچیں بدل دو۔ ان میں قومیت کا احساس پیدا کرو۔ یہ نوجوان قوم کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہیں بھڑکا کر جلنے سے بچائو۔ انہیں مردانہ دانشمندی نہیں، دانائی یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں دشمن کو مروائو لیکن دشمن کا تصور واضح کرو۔ کوئی مسلمان مجھے برا بھلا کہے تو وہ نہ اسلام کا دشمن ہے، نہ غدار ہے، وہ میرا دشمن ہے۔ میں اسے قانون کا سہارا لے کر سزا نہیں دوں گا جو اسلام در سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ ملت کا قانون ملت کے امیر کے ذاتی استعمال کے لیے نہیں ہوتا۔ غداری کی سزا اسے دی جاتی ہے جو ملک اور قوم کی جڑیں کاٹے اور دین کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرے۔ خواہ حکمران خود ہی اس کا مجرم ہو۔ وہ غدار ہے اور سزا کا مستحق''۔ ''اس صورت میں جبکہ وہاں نوجوان تیار ہوگئے ہیں ہم انہیں کس طرح استعمال کریں''۔ زاہدان نے پوچھا۔ ''انہیں جوش میں نہ آنے دو''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا… ''ان کی سوچیں بیدار کرو، وہاں کے حالات کے مطابق وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ جذبات کے غلبے کے تحت نہ سوچیں، وہاں اور زیادہ ذہین جاسوس بھیجو اور یہ یاد رکھو زاہدان کہ دشمن ہمیں نہیں ہمارے نوجوان بچوں کا کردار بگاڑنے کی کوشش کررہا ہے یا ہمارے ان حاکموں کا جن کے ذہن بچوں کی طرح خام ہیں۔ کسی بھی قوم کو جنگ کے بغیر شکست دینا چاہو تو اس کے نوجوانوں کو ذہنی عیاشی میں ڈال دو۔ یہ قوم اس حد تک تمہاری غلام ہوجائے گی کہ اپنی مستورات تمہارے حوالے کرکے اس پر فخر کرے گی۔ صلیبی اور یہودی ہماری قوم کو اسی سطح پر لانے کی کوشش کررہے ہیں'' … سلطان ایوبی کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔ اس نے زاہدان سے کہا … ''میں نے کسی سے کہا تھا کہ کرک کے ان مسلمانوں تک جو ہتھیار بنا رہے ہیں، آتش گیر مادہ پہنچا دو یا انہیں بتا دو کہ یہ کس طرح بنتا اور استعمال ہوتا ہے''۔ ''وہ انہیں بتا دیا گیا ہے''۔ زاہدان نے جواب دیا … ''اطلاع ملی ہے کہ مسلمانوں نے یہ مادہ تیار کرنا شروع کردیا ہے''۔کرک میں ایسے حالات فوراً ہی پیدا ہوگئے جن میں وہاں کے نوجوانوں کو خود ہی سوچنا اور عمل کرنا پڑا۔مقبوضہ علاقوں میں صلیبیوں نے قافلے لوٹنے کا بھی سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ قافلے اتنے عام نہیں تھے۔ تاجر اور دیگر سفر کرنے والے اکٹھے ہوتے رہتے تھے۔ ان کی تعداد ڈیڑھ دو سو ہوجاتی تو قافلے کی صورت میں چلتے تھے۔ یہ ایک حفاظتی اقدام ہوتا تھا۔ قافلے کے ساتھ لڑنے والے مسلح افراد بھی ہوتے تھے۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی افراط ہوتی تھی۔ تاجروں کا بے شمار مال اور دولت ہوتی تھی۔ قافلے میں چند ایک کنبے بھی ہوتے تھے۔ یہ لوگ نقل مکانی کرتے تھے۔ صلیبی استبداد میں آئے ہوئے مسلمان اکثر وہاں سے ہجرت کرکے مسلمانوں کی حکمرانی کے علاقوں میں جاتے رہتے تھے۔ اتنے بڑے قافلے کو چند ایک ڈاکو نہیں لوٹ سکتے تھے۔ قافلے والے مقابلہ کرتے تھے۔ صلیبیوں نے یہ کام اپنی فوج کے سپرد کیا تھا۔ انہیں اگر کسی قافلے کی اطلاع مل جاتی تو اپنی فوج کے ایک دو دستوں کو صحرائی لوگوں کے بھیس میں بھیج کر اسے لوٹ لیتے تھے۔ قافلوں میں صرف مسلمان ہوتے تھے۔ یہ جرم ان صلیبی بادشاہوں نے بھی کرایا اور لوٹے ہوئے مال سے حصہ وصول کیا، جنہیں آج تاریخ میں صلیبی جنگوں کا ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس جرم میں مسلمان امراء بھی شامل تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستوں کے حکمران تھے۔ ان کے پاس فوج بھی تھی۔ لٹے ہوئے قافلوں کے دوچار آدمی فریاد لے کر ان حکمرانوں کے دربار میں جاتے تھے تو ان کی سنوائی نہیں ہوتی تھی کیونکہ ان حکمرانوں کو بھی صلیبی لڑکیوں، شراب اور تھوڑے سے سونے کی صورت میں حصہ دیا کرتے تھے۔ اگر یہ حکمران چاہتے تو صلیبی ڈاکوئوں کا قلع قمع کرسکتے تھے مگر انہوں نے صلیبی ڈاکوئوں کو ایسی کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ یہ ڈاکو ان کی ریاستوں کے اندر بھی آکر لوٹ مار کر جاتے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں اندھا کرکے یہ فائدہ بھی اٹھایا کہ ان کی ریاستوں کے سرحدی علاقے ہڑپ کرتے گئے۔ انہوں نے بعض چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو مسلسل ڈاکوئوں سے پریشان کرکے جزیہ بھی وصول کرنا شروع کردیا تھا۔ اس طرح سلطنت اسلامیہ سکڑتی چلی جارہی تھی۔ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی ان مسلمان ریاستوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ان حکمرانوں کو وہ صلیبیوں سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔ ایک بار نورالدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں کئی اور باتوں کے علاوہ ان چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمرانوں کے متعلق لکھا تھا… ''ان مسلمان حکمرانوں نے اپنی عیش وعشرت کے لیے اپنی ریاستیں صلیبیوں کے پاس گروی رکھ دی ہیں۔ وہ کفار سے تحفے اور زروجواہرات اور اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکیاں لیتے اور اسلام کا نام ڈبوتے جارہے ہیں۔ یہ مسلمان کفار سے زیادہ ناپاک اور خطرناک ہیں۔ وہ بادشاہی کے نشے میں بدمست ہیں اور صلیبی ان کی جڑوں میں داخل ہوگئے ہیں۔ صلیبیوں کوشکست دینے سے پہلے ضروری ہوگیا ہے کہ ان مسلمان ریاستوں پر قبضہ کرکے انہیں سلطنت اسلامیہ میں مدغم کیا جائے اور خلافت بغداد کے تحت لایا جائے۔ اس کے بغیر اسلام کا تحفظ ممکن نہیں''۔ ان خطروں کے باوجود کبھی کبھی کوئی بہت بڑا قافلہ صحرا میں جاتا نظر آجاتا تھا۔ کرک سے چند میل دور سے ایک قافلہ گزر رہا تھا۔ اس میں ایک سو سے زیادہ اونٹ تھے۔ بہت سے گھوڑے بھی تھے، قافلے میں تاجروں کا مال تھا اور چند ایک کنبے تھے۔ ایک کنبہ ایسا بھی تھا جس میں دو جوان لڑکیاں تھیں، یہ بہنیں تھیں۔ قافلہ حسب معمول مسلمانوں کا تھا۔ کرک کے علاقے سے قافلہ گزر رہا تھا تو صلیبیوں کو پتا چل گیا۔ انہوں نے اپنی فوج کا ایک دستہ بھیج دیا جس نے دن دہاڑے قافلے پر جا حملہ کیا۔ قافلے کے گھوڑ سواروں نے مقابلہ تو بہت کیا مگر صلیبیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہاں ریت خون سے لال ہوگئی۔ صلیبیوں نے بچوں تک کو کاٹ ڈالا۔ پندرہ سولہ جواں سال مسلمان رہ گئے۔ انہیں قیدی بنا لیا گیا۔ دونوں لڑکیوں کو پکڑ لیا۔ اونٹوں اور گھوڑوں کو مال واسباب سمیت کرک لے گئے۔ یہ قافلہ جب کرک میں داخل ہوا تو آگے آگے قیدی تھے۔ ان کے پیچھے دو گھوڑوں پر دو لڑکیاں سوار تھیں جن کا لباس بتاتا تھا کہ مسلمان ہیں۔ ان کے پیچھے صلیبی تھے جن کے چہروں پر نقاب تھے اور ان کے پیچھے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطار تھی۔ لڑکیاں رو رہی تھیں۔ کرک کے شہری تماشا دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے، وہ تالیاں پیٹتے اور قہقہے لگاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لٹا ہوا یہ قافلہ مسلمانوں کا ہے اور قیدی بھی مسلمان ہیں۔ ان قیدیوں میں ایک جواں سال قیدی آفاق نام کا تھا۔ دونوں مغویہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں۔ آفاق زخمی بھی تھا، اس کی پیشانی اور کندھے سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ لٹے ہوئے قافلے کے آگے آگے شہر میں داخل ہوا تو تماشائیوں کو دیکھ کر اس نے بلند آواز سے کہا… ''کرک کے مسلمانو! ہمارا تماشا دیکھ رہے ہو؟ ڈوب مرو۔ ان لڑکیوں کو دیکھو، یہ میری نہیں تمہاری بہنیں ہیں۔ یہ مسلمان ہیں''۔ ایک صلیبی نے پیچھے سے اس کی گردن پر گھونسہ مارا، وہ منہ کے بل گرا۔ اس کے ہاتھ رسیوں سے پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ایک قیدی نے اسے اٹھایا تو آفاق پھر چلایا… ''کرک کے مسلمانو! یہ تمہاری بیٹیاں ہیں''… اسے دو تین نقاب پوشوں نے پیٹنا شروع کردیا۔ اس کی بہنیں چیخ چیخ کر رو رہی تھیں اور فریادیں کرتی تھیں… ''خدا کے لیے ہمارے بھائی کو نہ مارو، ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، اسے نہ مارو''… ایک بہن چلا رہی تھی… ''آفاق خاموش ہوجائو، تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے''… مگر آفاق چپ نہیں ہورہا تھا۔ تماشائیوں میں مسلمان بھی تھے جو اپنا خون پی رہے تھے مگر بے بس تھے۔ ان کی غیرت ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتی جارہی تھی اور وہ دیکھ رہے تھے۔ ان میں نوجوان مسلمان بھی تھے اور ان میں عثمان صارم بھی تھا۔ اس نے اپنے نوجوان دوستوں کی طرف دیکھا۔ سب کی آنکھیں لال تھیں اور دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ عثمان صارم تھوڑی دور تک اس قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ آگے ایک غریب سا موچی بیٹھا تھا جو لوگوں کے جوتے مرمت کیا کرتا تھا۔ اسے کسی مسلمان نے اپنی گھر کی ڈیوڑھی میں سونے کی جگہ دے رکھی تھی۔ دن بھر وہ باہر بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا تھا۔ بدقسمت قافلہ اس کے سامنے سے بھی گزرا۔ اس نے بھی آفاق کی للکار اور لڑکیوں کی آہ وزاری سنی۔ آفاق کے چہرے کو خون سے لال دیکھا، اس پر صلیبیوں کا ظلم ہوتا بھی دیکھا لیکن اس طرح دیکھا جیسے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اس موچی کو نہ کبھی کسی نے مسجد میں جاتے دیکھا تھا، نہ گرجے میں۔ وہ یہودیوں کی عبادت گاہ میں بھی کبھی نہیں گیا تھا۔ اس کی طرف وہی توجہ دیتا تھا جسے جوتا مرمت کرانا ہوتا تھا۔ اسے کبھی کسی نے بولتے نہیں سنا تھا، وہ خلق کا راندہ ہوا انسان تھا جسے صلیبیوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسلامیوں کے ساتھ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ عثمان صارم چلتے چلتے اس موچی کے قریب سے گزرنے لگا تو رک گیا۔ قیدی آگے نکل گئے تھے، اونٹ جارہے تھے۔ جب آخری اونٹ گزر گیا تو عثمان صارم نے دونوں جوتے اتار کر موچی کے آگے رکھ دیئے اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ موچی کسی کا جوتا مرمت کررہا تھا، اس نے عثمان صارم کو سر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ عثمان نے ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی میں کہا… ''ان دونوں لڑکیوں کو آج رات آزاد کرانا ہے''۔ ''جانتے ہو، یہ لڑکیاں رات کو کہاں ہوں گی؟'' … موچی نے سراٹھائے بغیر اتنی دھیمی آواز میں پوچھا کہ عثمان صارم کے سوا کوئی اور نہیں سن سکتا تھا۔ ''جانتا ہوں''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''صلیبی بادشاہوں کے پاس ہوں گی لیکن ہم میں سے کسی نے بھی وہ جگہ اندر سے نہیں دیکھی''۔ ''میں نے دیکھی ہے''۔ موچی نے اپنے کام میں مگن رہ کر کہا… ''وہاں سے لڑکیوں کو نکالنا ممکن نہیں''۔ ''تم کس مرض کی دوا ہو؟''… عثمان صارم نے ایسے لہجے میں کہا جس میں جذبات کا لرزہ اور غصہ تھا۔ کہنے لگا ''ہماری رہنمائی کرو اگر ہم لڑکیوں تک پہنچ گئے اور پکڑے گئے تو لڑکیوں کی گردنیں کاٹ دیں گے۔ انہیں صلیبیوں کے پاس نہیں رہنے دیں گے''۔ ''کتنے جوانوں کی قربانی دے سکتے ہو؟'' موچی نے پوچھا''۔ ''جتنے جوان مانگو گے''۔ ''کل رات''۔ ''آج رات''۔ عثمان صارم نے دبدبے سے کہا… ''آج ہی رات برجیس! آج ہی رات''۔ ''امام کے پاس پہنچو''۔ موچی نے کہا۔ ''کتنے جوان؟'' برجیس موچی نے سوچ کر کہا… ''آٹھ… ہتھیار سن لو۔ خنجر۔ برجیس موچی نے سوچ کر کہا… ''آٹھ… ہتھیار سن لو۔ خنجر۔ آتش گیر مادہ''۔ عثمان صارم نے اپنے جوتے پہنے اور چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ عثمان صارم نے راستے میں اپنے سات ہم جولیوں کو گھروں سے بلا کر انہیں امام کے گھر پہنچنے کو کہا اور خود امام کے گھر چلا گیا۔ یہ اسی مسجد کا امام تھا جس میں عثمان صارم کی ملاقات ''پاگل'' سے ہوئی تھی۔ عثمان نے ہی امام کو اپنی زمین دوز جماعت کی امامت پیش کی تھی جسے جماعت کے ہر فرد نے قبول کرلیا تھا۔ یہ لوگ کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے اور لائحہ عمل تیار کرتے تھے۔ اب ان دو مغویہ لڑکیوں کا مسئلہ سامنے آگیا تو عثمان صارم نے ان کی رہائی کا ارادہ کرلیا جو دراصل خودکشی کا ارادہ تھا۔ وہ موچی کے کہنے کے مطابق امام کے گھر چلا گیا۔ امام بے چینی سے اپنی ڈیوڑھی میں ٹہل رہا تھا۔ عثمان صارم کو دیکھ کر رک گیا اور پوچھا …''عثمان! تم نے اس قیدی کی للکار سنی تھی؟ معلوم ہوتا تھا، وہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں''۔ ''میں اسی للکار پر لبیک کہنے آیا ہوں محترم امام!'' عثمان صارم نے کہا… ''برجیس آرہا ہے اور میرے سات دوست بھی آرہے ہیں''۔ ''تم کیا کرو گے؟'' امام نے پوچھا… ''تم کرہی کیا سکو گے؟… میں جانتا ہوں کہ ہماری بے شمار لڑکیاں کافروں کے قبضے میں ہیں مگر ان دو لڑکیوں نے مجھے امتحان میں ڈال دیا ہے''۔ اس نے منہ اوپر کرکے گہری آہ بھری اور کہا… ''یاخدا مجھے صرف ایک رات کے لیے جوان کردے یا آج ہی رات میری جان لے لے۔ اگر میں زندہ رہا تو تمام عمر ان لڑکیوں کی آہ وزاری مجھے سنائی دیتی رہے گی اور میں پاگل ہوجائوں گا''۔ ''ہمیں اپنی دانش کی روشنی دکھائیں''۔ عثمان صارم نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ ہم آپ کو ایک رات سے زیادہ بے چین نہیں رہنے دیں گے''۔ عثمان صارم کے دو ساتھی اندر آئے، امام نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور تینوں سے مخاطب ہوکر کہا… ''آج یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میری دانش جواب دے گئی ہے۔ مجھے اس طرح بے قابو نہیں ہونا چاہیے لیکن کوئی غیرت کو للکارے تو جذبے بھڑک اٹھتے ہیں۔ جنہیں مطمئن کرنے کے لیے جوان ہونا ضروری ہوتا ہے… لیکن میرے بچو! میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں، مجھ میں اب برداشت کی قوت نہیں رہی تم جو کچھ کرنے کا ارادہ کرو سنبھل کر کرنا''۔ ایک ایک کرکے سات نوجوان جمع ہوگئے اور ان کے فوراً بعد موچی آگیا۔ اس نے بوری اٹھا رکھی تھی جس میں پرانے جوتے اور اوزار تھے۔ اس نے بوری پھینکی اور کمر سیدھی کی۔ وہ ہنس پڑا۔ وہ جب سیدھا کھڑا ہوا تو کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ وہ موچی ہے جو دنیا کی گہما گہمی سے رشتہ توڑے ہوئے راستے میں بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا ہے۔ اس وقت جب وہ امام کے گھر میں تھا اور دروازہ بند ہوچکا تھا وہ موچی نہیں برجیس تھا… علی بن سفیان کے محکمہ جاسوسی کے ایک خفیہ شعبے کا تجربہ کار اور نہایت عقل مند جاسوس… اس نے امام سے کہا … ''یہ لڑکے آج ہی ان دونوں لڑکیوں کو صلیبیوں کی قید سے آزاد کرانے پر تلے ہوئے ہیں، اس کام میں صرف پکڑے جانے کا یا ناکامی کا ہی خطرہ نہیں بلکہ یقینی موت کا خطرہ ہے''۔ ''ہم یہ خطرہ قبول کرتے ہیں محترم برجیس!''… ایک نوجوان نے کہا… ''آپ اس فن کے استاد ہیں، ہماری رہنمائی کریں''۔ ''اگر عقل کی بات سنیں تو میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں''… برجیس نے کہا … ''صلیبیوں کے پاس بہت سی مسلمان لڑکیاں ہیں، ان میں سے بعض کو انہوں نے بچپن میں قافلوں اور گھروں سے اغوا کیا تھا اور انہیں اپنی تعلیم وتربیت دے کر ہمارے خلاف جاسوسی اور تمہاری کردار کشی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ تم لوگ ایک ایک لڑکی کو تو آزاد نہیں کراسکتے اگر تم سب میرے فن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوتو میں کہوں گا کہ دو لڑکیوں کی خاطر تم جیسے آٹھ جوان قربان کردینا عقل مندی نہیں۔ بربادری اور تحمل ضروری ہے''۔ ''میں تحمل کو کس طرح قبول کرسکتا ہوں؟''… عثمان صارم نے بھڑک کر کہا۔ ''میری طرح''۔ برجیس نے کہا… ''کیا میں پیشے کا موچی ہوں؟ میں جب مصر میں ہوتا ہوں تو میری سواری کے لیے عربی گھوڑا تیار رہتا ہے اور میرے گھر میں دو ملازم ہیں مگر یہاں تین مہینوں سے راستے میں بیٹھا لوگوں کے غلیظ جوتے مرمت کرتا رہتا ہوں… میں تمہیں دو لڑکیوں کی آزادی کے لیے پورے کرک اور اس سے آگے کے بہت وسیع علاقے کو آزاد کرانے کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں، برداشت کرو، انتظار کرو''۔ عثمان صارم اور اس کے ساتوں دوست برداشت کی حدوں سے نکل چکے تھے۔ ان کی باتوں سے پتا چلتا تھا کہ ان میں انتظار کی بھی ہمت نہیں رہی۔ وہ کسی کی رہنمائی کے بغیر ہی اس جگہ پر حملہ کرنے کو تیار تھے جہاں توقع تھی کہ لڑکیاں ہوں گی( ۔ انہوں نے امام کی بھی باتیں سننے سے انکار کردیا۔ آخر برجیس نے انہیں بتایا کہ اس کے دو جاسوس اس جگہ معمولی ملازم ہیں جہاں صلیبی حکمران رات کو اکٹھے ہوتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ یہ دونوں جاسوس عیسائیوں کے بھیس میں شوبک کی فتح کے بعد وہاں سے بھاگنے والے عیسائیوں کے ساتھ آئے تھے۔ انہیں یہاں نوکری مل گئی تھی اور وہ کامیاب جاسوسی کررہے تھے۔ ''تم سب نے وہ عمارت دیکھی ہے جہاں وہ صلیبی حکمران جو ہماری فوج کے خلاف لڑنے کے لیے برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے آئے ہوئے ہیں، رہتے ہیں۔ اس عمارت میں ایک بڑا کمرہ ہے جہاں وہ شام کے بعد اکٹھے ہوتے، شراب پیتے اور ناچتے ہیں۔ ان کی تفریح کے لیے لڑکیاں موجود ہوتی ہیں۔ وہ آدھی رات تک وہاں ادھم مچاتے رہتے ہیں۔ تم نے دیکھا ہے کہ وہ جگہ ذرا بلندی پر ہے جہاں سے پورا شہر نظر آتا ہے۔ وہاں فوج کا پہرہ بھی ہوتا ہے۔ اس عمارت تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کوئی عام آدمی بلکہ کوئی خاص شہری بھی اس عمارت کے قریب نہیں جاسکتا۔ میں یہ معلوم کرسکتا ہوں کہ یہ دو لڑکیاں کہاں ہوں گی مگر ان تک رسائی کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ہماری فوج باہر سے ابھی حملہ کردے۔ اس صورت میں تمام حکمران اور فوجی حکام اس عمارت سے چلے جائیں گے اور حملہ روکنے میں لگ جائیں گے مگر آج رات حملہ نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ صلاح الدین ایوبی کب حملہ کریں گے''۔ ''ضرورت حملے کی ہے''۔ امام نے برجیس سے وضاحت چاہی… ''دوسرے لفظوں میں ضرورت یہ ہے کہ اس عمارت میں جو لوگ ہیں وہ وہاں سے چلے جائیں اور لڑکیاں وہیں رہ جائیں۔ اس صورت میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس عمارت میں داخل ہوکر لڑکیوں کو اٹھا لائیں''۔ ''جی ہاں!'' برجیس نے اپنے تجربے کی بناء پر خود اعتمادی سے کہا۔ ''اگر شہر کے اندر کوئی بڑا ہی شدید اور خطرناک قسم کا ہنگامہ ہوجائے، کہیں آگ لگ جائے اور آگ جنگی سازوسامان کو لگے تو شاید حکمران اور دیگر لوگ وہاں سے نکل کر موقع واردات پر چلے جائیں''۔ برجیس گہری سوچ میں کھوگیا۔ اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو باری باری دیکھا اور کچھ دیر بعد کہا… ''ہاں میرے مجاہدو! اگر ایک جگہ آگ لگا سکتے ہو تو لڑکیوں کی رہائی کی صورت پیدا ہوسکتی ہے''۔ ''جلدی بتائو محترم!'' … عثمان صارم نے بے صبر ہوکر پوچھا… ''کہاں آگ لگانی ہے، کہو تو سارے شہر کو آگ لگادیں''۔ ''تم سب نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں صلیبیوں کی فوج کے گھوڑے بندھے رہتے ہیں؟'' برجیس نے کہا… ''وہاں اس وقت کم وبیش چھ سو گھوڑے ایک جگہ بندھے ہوئے ہیں، باقی مختلف جگہوں پر ہیں۔ ان کے قریب اتنی ہی تعداد میں اونٹوں کی بندھی ہوئی ہے۔ ان سے ذرا ہی پرے گھوڑوں کے خشک گھاس کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ اس سے تھوڑا ہٹ کر فوج کے خیموں کے ڈھیر پڑھے ہیں، وہاں گھوڑا گاڑیاں بھی کھڑی ہیں اور ایسا سامان بے شمار پڑا ہے، جسے فوراً آگ لگ سکتی ہے مگر اس کے اردگرد سنتری گھوم پھر رہے ہوتے ہیں وہاں سے رات کے وقت کسی کو گزرنے کی اجازت نہیں۔ اگر تم اس گھاس اور خیموں کے انباروں کو آگ لگا سکو تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ صلیبی حکمران ساری دنیا کو بھول کر وہاں پہنچ جائیں گے۔ گھاس، کپڑے اور لکڑی کے شعلے آسمان تک جائیں گے۔ سارے شہر پر خوف طاری ہوجائے گا۔ آگ لگانے کے ساتھ ہی اگر تم زیادہ سے زیادہ گھوڑوں کو کھول دو تو وہ ڈر کر ایسا بھاگیں گے کہ لوگوں کو کچلتے پھریں گے مگر سوچنا یہ ہے کہ آگ کون لگائے گا؟ گھوڑے کون کھولے گا؟ اور آگ لگانے کے لیے وہاں پہنچا کس طرح جائے گا؟'' ''فرض کرلو، آگ لگ گئی'' ایک نوجوان نے کہا… ''اس عمارت میں تم میرے بغیر نہیں جاسکو گے وہاں میرے دو ساتھی موجود ہیں۔ وہ مجھے بتا دیں گے کہ لڑکیاں کہاں ہیں مگر یہ بھی سوچ لو کہ لڑکیوں کو اٹھا لائیں گے تو انہیں کہیں چھپانا بھی ہوگا اور اس کے بعد کرک کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ صلیبی یقین ہی نہیں کریں گے کہ یہ مسلمان کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتاہے''۔ ''مسلمان پہلے کتنے کچھ آرام میں ہیں؟''… امام نے کہا… ''میں مشورہ دیتا ہوں کہ ہم یہ کام کر گزریں۔ صلیبیوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ مسلمان کتنا ہی مجبور اور بے بس کیوں نہ ہو وہ غلام نہیں رہ سکتا اور اس کا وار جگر چاک کردیا کرتا ہے''۔ : برجیس تو تھا ہی کمانڈو قسم کا جاسوس، وہ کئی راز معلوم کرکے سلطان ایوبی تک پہنچا چکا تھا لیکن اسے اس قسم کی تخریب کاری کا کوئی موقع نہیں ملا تھا۔ وہ ایسی شدید کارروائی کو ضروری سمجھتا تھا تاکہ صلیبیوں کو معلوم ہوجائے کہ مسلمان کیا کرسکتا ہے۔ اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے کی دو کڑیاں بہت نازک تھیں۔ ایک یہ کہ آگ لگانے کے لیے تین چار لڑکیاں جائیں، وہ سنتری سے کسی اعلیٰ فوجی حاکم کا پتہ پوچھیں اور سنتری کو مارڈالیں، برجیس نے لڑکیوں کو بھیجنے کی اس لیے سوچی تھی کہ عورت، خصوصاً نوجوان لڑکی، جو تاثر پیدا کرسکتی ہے، وہ کوئی مرد نہیں کرسکتا۔ مرد شک پیدا کرسکتا ہے۔ دوسرا خطرناک مرحلہ یہ آیا کہ کتنے نوجوان صلیبی حکمرانوں کی عمارت پر حملہ آور ہوں۔ برجیس اور امام نے متفقہ طو رپر کہا کہ زیادہ نہ ہوں۔ یہی آٹھ ہوں تو بہتر ہے کیونکہ زیادہ ہجوم نظر آسکتا ہے اور کسی نہ کسی کے پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہوگا۔ پھر یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی دلیر لڑکیاں کہاں سے ملیں گی۔ عثمان صارم نے کہا کہ ایک اس کی بہن النور ہوگی، ایک اور نوجوان نے کہا کہ دوسری اس کی بہن ہوگی۔ باقی چھ نوجوانوں میں کسی کی بہن نہیں تھی۔ امید ظاہر کی گئی کہ یہ دو لڑکیاں اپنی اپنی ایک سہیلی کو ساتھ لے لیں گی۔ برجیس نے ان لڑکیوں کو ان کا کام سمجھانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ سورج غروب ہوگیا تھا۔ امام مسجد ایک طرف چلا گیا، باقی سب ایک ایک کرکے باہر نکلے۔ سب سے آخر میں برجیس باہر نکلا۔ وہ پھر وہی موچی تھا جسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ وہ جھکا جھکا اس طرح مری ہوئی چال چلا جارہا تھا جیسے ساری دنیا کے رنج وغم کا بوجھ اس کے کندھوں پر گر پڑا ہو۔ ٭ ٭ ٭ عثمان صارم اپنے گھر سے ابھی کچھ دور تھا کہ اسے رینی الیگزینڈر مل گئی۔ وہ عثمان کی بہن النور کی گہری سہیلی بنی ہوئی تھی۔ دونوں بہن بھائی چاہتے تھے کہ وہ ان کے گھر نہ آیا کرے لیکن عثمان صارم اسے اچانک گھر آنے سے روک کر کسی شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ رینی اس کے ساتھ بے تکلف ہونے کی کوشش کیا کرتی تھی جس سے عثمان کو یہ خیال بھی آتا تھا کہ وہ اس کا کردار خراب کرکے اس کا قومی جذبہ مارنا چاہتی ہے۔ اس شام رینی راستے میں مل گئی۔ اس نے مسکرا کر دیکھا اور رکنا نہ چاہا مگر رینی رک گئی اور اس کا راستہ روک لیا۔ عثمان صارم کو ایسا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ایک عیسائی لڑکی کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کرتا پکڑا گیا تو سزا پائے گا۔ وہ جانتا تھا کہ صلیبی اور یہودی انہیں دیکھ کر خوش ہوں گے کہ ان کی ایک لڑکی مشتبہ مسلمان نوجوان کو اپنا گرویدہ بنا رہی ہے۔ وہ بھی رک گیا اور بولا… ''میں ذرا جلدی میں ہوں رینی''۔ ''تمہیں کوئی جلدی نہیں عثمان!''… رینی نے دوستانہ لہجے میں کہا… ''کیا تم اتنی آسانی سے مجھ سے پیچھا چھڑا سکو گے؟''۔ ''میں تم سے پیچھا چھڑانے کی تو نہیں سوچ رہا''۔ ''جھوٹ نہ بولو عثمان!'' رینی نے مسکرا کر کہا… ''میں تمہارے گھر سے آرہی ہوں، تمہاری بہن نے مجھے صاف کہہ دیا ہے کہ یہاں اب کم آیا کرو، عثمان ناراض ہوتا ہے… کیوں عثمان! یہ بات تم نے خود کیوں نہ کہہ دی؟''۔ عثمان صارم کی ذہنی حالت کچھ اور تھی، وہ جلدی میں تھا اور اس کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ وہ ٹالنے کے لیے کوئی موزوں جواب نہ سوچ سکا۔ اس کے منہ سے وہی بات نکل گئی جو اس کے دل میں تھی۔ اس نے کہا… ''رینی! معلوم نہیں میں خود کیوں نہ تمہیں کہہ سکا کہ ہمارے گھر نہ آیا کرو۔ اب سن لو۔ ہماری آپس میں کتنی ہی محبت کیو نہ ہو ہم قومی لحاظ سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ تم ذاتی محبت کی بات کرو گی مگر میں قومی محبت کا قائل ہوں جو صلیب اور قرآن مجید میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ میرا وطن ہے۔ تمہاری قوم یہاں کیا کررہی ہے؟… جب تک تمہاری قوم کے آخری آدمی کا بھی وجود یہاں رہے گا ہم ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے… میرے دل میں جو کچھ تھا، وہ تمہیں بتا دیا ہے''۔ ''اور میرے دل میں جو کچھ ہے وہ بھی سن لو''۔ رینی نے کہا… ''میرے دل سے تمہاری محبت نہ صلیب نکال سکتی ہے، نہ قرآن مجید۔ میں جب تک تمہیں دیکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ تمہیں مسکراتا دیکھتی ہوں تو میری روح بھی مسکرا اٹھتی ہے۔ سن لو عثمان ! اگر تم نے مجھے اپنے گھر آنے سے روکا تو ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہوگا''۔ ''تم مجھے دھمکی دے سکتی ہو، تم حکمران قوم کی لڑکی ہونا!'' عثمان صارم نے تحمل سے کہا۔ ''اگر میرے دماغ میں حکمرانی کا نشہ ہوتا تو تم یہاں نہ کھڑے ہوتے، قید خانے میں گل سڑ رہے ہوتے''۔ رینی نے کہا… ''تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ مجھے تمہارے متعلق کچھ معلوم نہیں؟ کہو تو تمہاری زمین دوز کارروائیوں کی تفصیل سنا دوں۔ کہو تو تمہارے گھر سے وہ سارے خنجر، تیروکمان اور آتش گیر مادہ برآمد کرادوں جو تم نے اپنے گھر میں میری قوم اور میری حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے چھپا رکھا ہے اور جو تمہیں گھر میں رکھنے کی اجازت نہیں۔ النور کو تم تیغ زنی سکھا رہے ہو اور تمہارے ساتھ جو دوست ہمارے خلاف کام کررہے ہیں، ان میں سے کئی ایک کو جانتی ہوں لیکن عثمان! تم نہیں جانتے کہ تمہارے اور قید خانے کے درمیان میرا وجود حائل ہے۔ تم جانتے ہوکہ میرا باپ کون ہے اور وہ کیا نہیں جانتا اور کیا نہیں کرسکتا۔ وہ پانچ مرتبہ گھر میں بتا چکا ہے کہ عثمان کی گرفتاری ضروری ہوگئی ہے۔ میں نے پانچوں مرتبہ باپ سے منت کرکے کہا ہے کہ عثمان کی بہن میری بڑی پیاری سہیلی ہے اور اس کا باپ ایک ٹانگ سے معذور ہے۔ دو تین بار میرے باپ نے مجھے ڈانٹ کر کہا ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ تعلق توڑ دوں، مجھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمان اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ ا تنی زیادہ محبت اور مروت کی جائے لیکن میں ماں باپ کی اکیلی اولاد ہوں، وہ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے''۔جاری ہے

🙏 ❤️ 🌹 4
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:26:46 AM

قسط 5.. حضرت ھاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے.. چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمی' سے ھوئی مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ھاشم کا انتقال ھوگیا.. ان کی وفات کے بعد ان کا ایک بیٹا پیدا ھوا جس کا نام " شیبہ " رکھا گیا مگر چونکہ شیبہ کو ان کے چچا مطلب بن عبد مناف نے پالا پوسا تو شیبہ کو عبدالمطلب (مطلب کا غلام) کہا جانے لگا اور پھر انہیں تاریخ نے ھمیشہ اسی نام سے یاد رکھا.. حضرت عبدالمطلب بے حد حسین جمیل , وجیہہ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے.. اللہ نے انہیں بےحد عزت سے نوازا اور وہ قریش مکہ کے اھم ترین سردار بنے.. ایک مدت تک ان کی اولاد میں ایک ھی بیٹا تھا جن کا نام حارث تھا.. حضرت عبدالمطلب کو بہت خواھش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ھوں چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے.. اللہ نے ان کی دعا اور منت کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس یا بارہ بیٹے پیدا ھوئے جن میں سے ایک جناب حضرت عبداللہ تھے.. آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹ بیٹے تھے اور نہ صرف اپنے والد کے بلکہ پورے خاندان کے بہت چہیتے تھے.. حضرت عبدالمطلب کو ان سے بہت محبت تھی.. دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی.. چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے.. جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا.. حضرت عبدالمطلب یہ دیکھ کر بہت پریشان ھوۓ کیونکہ شدت محبت کی وجہ سے ان کا دل نہ چاھتا تھا کہ حضرت عبداللہ کو قربان کردیں مگر چونکہ وہ منت مان چکے تھے تو اس کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاھتے تھے.. چنانچہ حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے.. یہ دیکھ کر خاندان بنو ھاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا ' بہت پریشان ھوۓ.. وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاھنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا.. چنانچہ جب اس کاھنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ.. عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دیے جاتے ھیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا.. چنانچہ ایسے ھی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا.. اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا.. حضرت عبداللہ کی شادی بنو زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف کی بیٹی جناب حضرت آمنہ سے ھوئی جن کے بطن سے تاجدار دوجہان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ھوئی.. اس سے پہلے کہ ھم کا باقائدہ آغاز کریں ضروری ھے کہ پیج میمبرز کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت قریش مکہ کے مذھبی , سیاسی , معاشرتی , معاشی اور تمدنی حالات سے روشناس کرایا جاۓ.. نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ سے صرف پچاس دن پہلے ظہور پذیر ھونے والے واقعہ "عام الفیل" سے بھی آگاہ کیا جاۓ جب حبشی نژاد "ابرھہ" خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ھوا.. ===========>جاری ھے..

❤️ 5
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:25:09 AM

میں اللّٰہ کی پناہ مانگتا ہوں...ان آنکھوں سے جو ہماری زندگیوں پر نظر رکھتی ہیں...جیسے وہ ہماری تباہی کا انتظار کر رہی ہوں...اور ان نفسوں سے جو ہماری کامیابی پر اداس ہوتی ہیں...جیسے وہ ہماری راہ میں رکاوٹ بننا چاہتی ہوں...میں اللّٰہ کی پناہ مانگتاہوں...ان دلوں سے جو حسد کی بیماری سے بھرے ہیں...اور وہ ہماری چیزوں کی خواہش کرتے ہیں...حالانکہ ان کے پاس بھی بہت کچھ ہے...! یا اللّٰہ...! ہمیں ان سے بچااور اپنی مخلوق کے شر سے محفوظ رکھ...اور انہیں اپنی ذات میں ہی مشغول کر دے...!!!

❤️ 🤲 6
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:03:08 AM
Post image
🌹 1
Image
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:26:22 AM

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قسط 4.. پچھلی قسط میں قصی بن کلاب کا ذکر کیا گیا.. ایک روایت کے مطابق انہی کا لقب قریش تھا جس کی وجہ سے ان کی آل اولاد کو قریش کہا جانے لگا جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق قصی بن کلاب سے چھ پشت پہلے بنی اسمائیل میں "فہر بن مالک" ایک بزرگ تھے جن کا لقب قریش تھا.. خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ قصی بن کلاب اور ان کی اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی عزت و سیادت حاصل ھوگئی تھی اور پھر اس قریش (آل قصی بن کلاب) نے خود کو اس کے قابل ثابت بھی کیا.. قصی بن کلاب نے نہ صرف خانہ کعبہ کا جملہ انتظام و انتصرام کا بندوبست کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مکہ کو باقائدہ ایک ریاست کا روپ دے کر چھ مختلف شعبے قائم کیے اور انہیں قابل لوگوں میں تقسیم کیا جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا اور یہی نظام بعث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بڑی کامیابی سے چلایا گیا.. اس تقسیم کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد حضرت ھاشم کو سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے کا کام) , عمارۃ البیت (حرم میں نظم و ضبط قائم رکھنا اور احترام حرم کا خیال رکھنا) اور افاضہ (حج کی قیادت کرنا) کی خدمات سونپی گئیں جو ان کے بعد بنو ھاشم کے خاندان میں نسل در نسل چلتی رھیں.. حضرت ھاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے.. نہائت ھی جلیل القدر بزرگ تھے.. انہوں نے شاہ حبشہ اور قیصر روم سے بھی اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرلیے تھے جبکہ مختلف قبائل عرب سے بھی معاھدات کرلیے.. ان کی اس پالیسی کی وجہ سے قریش کے باقی قبائل میں بنو ھاشم کو ایک خصوصی عزت و احترام کا مقام حاصل ھوگیا تھا.. ان کے علاوہ میدان جنگ میں فوج کی قیادت اور علم برداری کا شعبہ خاندان بنو امیہ کے حصے میں آیا.. لشکر قریش کا سپہ سالار بنو امیہ سے ھی ھوتا تھا چنانچہ "حرب" جو حضرت ھاشم کے بھتیجے امیہ کے بیٹے تھے' ان کو اور انکے بیٹے حضرت ابوسفیان کو اسی وجہ سے قریش کے لشکر کی قیادت سونپی جاتی تھی.. جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو تیم بن مرہ کو اشناق یعنی دیوانی و فوجداری عدالت , دیت و جرمانے کی وصولی اور تعین کی ذمہ داری سونپی گئی.. اس کے علاوہ شعبہ سفارت حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں آیا.. ان کا کام دوسرے قبائل کے ساتھ مذاکرات , معاھدات اور سفارت کاری تھا.. بنو مخزوم جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا.. ان کے حصے میں "قبہ و اعنہ" کا شعبہ آیا.. ان کا کام قومی ضروریات کے لیے مال و اسباب اکٹھا کرنا اور فوجی سازو سامان اور گھوڑوں کی فراھمی تھا.. قریش کے گھڑسوار دستے کا کمانڈر بھی اسی قبیلے سے ھوتا تھا.. اپنا وقت آنے پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مدتوں شہہ سوار دستوں کی کمان نہائت خوش اسلوبی سے سنبھالی.. اسی طرح باقی پانچ شعبوں کی ذمہ داری مختلف قبائل قریش کے حوالے کردی گئی.. ===========>جاری ھے..

❤️ 3
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:31:35 AM

💢حرمین شریفین کی انتظامیہ کی جانب سےایک تقریب منعقد کی گئی جس میں مسجد نبوی کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کے بارے میں مکمل وضاحت کی گئی “ تشریح وتوضیح:- گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔ وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں، لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔ روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔ گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔ مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔ یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔ العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔ اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔ یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں----واللہ اعلم بالصوا

Post image
❤️ 👍 😂 🫀 ♥️ 💞 🤪 🫡 41
Image
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:27:32 AM

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قسط 6.. کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ھاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا..؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا..؟ اللہ نے ان پر پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کھنگر مٹی کی) کنکریاں پھینکتے تھے.. اس طرح اللہ نے ان کو کھاۓ ھوۓ بھوسے کی طرح کردیا.. سورہ الفیل.. آیت 1 تا 5.. واقعہ اصحاب الفیل حضرت محمد مصطفی' صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارکہ والے سال یعنی 571 عیسوی میں پیش آیا جب یمن کا حبشی نژاد عیسائی حکمران "ابرھہ بن اشرم" 60 ھزار فوج اور 13 ھاتھی لیکر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ھوا.. ابرھہ بن اشرم آغاز میں اس عیسائی فوج کا ایک سردار تھا جو شاہ حبشہ نے یمن کے حمیری نسل کے یہودی فرماں روا "یوسف ذونواس" کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کو بھیجی جس نے 525 عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی.. ابرھہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ھوۓ بالآخر یمن کا خود مختار بادشاہ بن بیٹھا لیکن کمال چالاکی سے اس نے براۓ نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کیے رکھی اور اپنے آپ کو نائب شاہ حبشہ کہلواتا رھا.. ابرھہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا.. اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی جبکہ اس کا دوسرا ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا.. اس مقصد کے اس نے یمن کے دارالحکومت "صنعاء" میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا جسے عرب مؤرخین "القلیس" اور یونانی "ایکلیسیا" کہتے ھیں.. اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد تھے.. ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ھوجاتا تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی , وہ یمن کے حبشی عیسائیوں کے ھاتھ آ جاتی.. ابرھہ نے پہلے شاہ جبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھر یمن میں علی الاعلان منادی کرادی کہ " میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا کی طرف موڑے بغیر نہ رھوں گا.." اس کے اس اعلان پر غضب ناک ھو کر ایک عرب (حجازی) نے کسی نہ کسی طرح ابرھہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کرڈالی.. اپنے کلیسا کی اس توھین پر ابرھہ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کعبہ کو گرا نہ دوں.. اس کے بعد سنہ 570 عیسوی کے آخر میں وہ 60 ھزار فوج اور 13 جسیم ھاتھی لیکر یمن سے مکہ پر حملہ آور ھونے کے ارادے سے نکلا.. راستے میں دو عرب سرداروں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر شکست کھائی اور ابرھہ کسی طوفان کی طرح مکہ کے مضافاتی مقام "المغمس" میں پہنچ گیا.. یہاں ابرھہ کے لشکر نے پڑاؤ ڈالا جبکہ چند دستوں نے اس کے حکم پر مکہ کے قریب میں لوٹ مار کی اور اھل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی بھی لوٹ لیے گئے جن میں مکہ کے سردار اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ھاشم کے دو سو اونٹ بھی تھے.. اس کے بعد ابرھہ نے ایک ایلچی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا اور اس کے ذریعے اھل مکہ کو پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ھوں بلکہ اس گھر (کعبہ) کو گرانے آیا ھوں.. اگر تم نہ لڑو تو میں تمھاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا.. حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا.. "ھم میں ابرھہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ھے.. کعبہ اللہ کا گھر ھے وہ چاھے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا.." ایلچی نے کہا.. "آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں.." وہ اس پر راضی ھوگئے.. حضرت عبدالمطلب بہت خوبصورت اور شاندار شخصیت کے مالک تھے.. ابرھہ ان کی مردانہ وجاھت سے اتنا متاثر ھوا کہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا.. پھر آپ سے پوچھا.. "آپ کیا چاھتے ھیں..؟" انہوں نے کہا.. "میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ھیں میں اپنے ان اونٹوں کی واپسی چاھتا ھوں.." ابرھہ ان کی بات سن کر سخت متعجب ھوا اور کہا.. "آپ مجھ سے اپنے دوسو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو کررھے ھیں مگر اس بیت اللہ کا ذکر نہیں کرتے جو آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی بنیاد ھے.. میں اسے گرانے آیا ھوں مگر آپ کو اس کی کوئی فکر ھی نھیں.." یہ سن کر حضرت عبدالمطلب نے کہا.. "ان اونٹوں کا مالک میں ھوں اس لیے آپ سے ان کی واپسی کی درخواست کررھا ھوں.. رھا یہ گھر تو اس گھر کا مالک اللہ ھے وہ اس کی حفاظت خود کرے گا.." ابرھہ نے متکبرانہ انداز میں کہا.. "کعبہ کو اب آپ کا اللہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا.." حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا.. "یہ معاملہ آپ جانیں اور اللہ.. لیکن یہ اس کا گھر ھے اور آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ھونے دیا.. " یہ کہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اٹھ گئے اور ابرھہ سے واپس لیے گئے اونٹ لیکر مکہ آگئے.. ===========>جاری ھے..

❤️ 5
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/23/2025, 7:04:23 AM

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر.47۔ " رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ" ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ترتیب و پیشکش👇👇👇 ............🌹آزادالفت🌹 مصر کے قائم مقام امیر تقی الدین نے صلیبیوں کی نظریاتی یلغار کو بروقت فوجی کارروائی سے روک دیا اور اس خفیہ اور پراسرار اڈے کو ہی مسمار کردیا جہاں سے یہ فتنہ اٹھا تھا مگر وہ مطمئن نہیں تھا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ یہ اسلام کش زہر قوم کی رگوں میں اتر گیا ہے۔ اس صلیبی تخریب کاری کو سوڈان سے پشت پناہی مل رہی تھی اور سوڈانیوں کو صلیبیوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ تقی الدین نے اس اڈے کو بھی تباہ کرنے کے لیے سوڈان پر حملے کی تیاریاں تیز کردیں۔ سلطان ایوبی نے وہاں بھی جاسوس بھیج رکھے تھے جن کی جانبازانہ کوششوں سے وہاں کے بڑے نازک رازمل رہے تھے مگر ان رازوں سے جو فائدہ سلطان ایوبی اٹھا سکتا تھا، وہ اس کے بھائی تقی الدین کے بس کی بات نہیں تھی۔ دونوں بھائیوں کا جذبہ تو ایک جیسا تھا لیکن دونوں کی ذہانت میں بہت فرق تھا۔ دونوں بھائی جس کارروائی کا فیصلہ کرتے تھے وہ شدید ہوتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ سلطان ایوبی محتاط رہتا تھا اور تقی الدین بے صبر ہوکر احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا تھا۔ اسے جب فوجی مشیروں نے کہا کہ سوڈان پر حملے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے لیکن محترم ایوبی سے مشورہ لے لینا ضروری ہے تو تقی الدین نے اپنے مشیروں کے اس مشورے کو مسترد کرتے ہوئے کہا… ''کیا آپ لوگ امیر محترم کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بغیر کچھ سوچ نہیں سکتے اور کچھ کرنہیں سکتے؟ کیا آپ بھول گئے ہیں کہ مصر سے اتنی دور محترم ایوبی کس طوفان میں گھرے ہوئے ہیں؟ اگر ہم نے ان سے مشورے اور فیصلے کا انتظار کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سوڈانی حملے میں پہل کرکے ہم پر سوار ہوجائیں گے''۔ ''آپ ابھی حملے کا حکم دیں''۔ ایک نائب سالار نے کہا… ''فوج اسی حالت میں رسد کے بغیر کوچ کرجائے گی لیکن اتنی بڑی اور اتنی اہم مہم کے لیے گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ہم کوچ کی تیاری کے تمام تر انتظامات بہت تھوڑے وقت میں کرلیں گے۔ آپ محترم ایوبی کو اطلاع ضرور دے دیں تاکہ وہ اور محترم نورالدین زنگی ادھر بھی دھیان رکھیں''۔ تقی الدین چند ایسے عناصر اور کوائف کو نظر انداز کررہا تھا جو اس کے حملے کو ناکام کرسکتے تھے۔ ایک یہ کہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے جاسوس مصر میں موجود تھے جو یہاں کی نقل وحرکت دیکھ رہے تھے۔ تقی الدین کی کمزوری یہ بھی تھی کہ اس کے دشمن کے جاسوس مسلمان بھی تھے جو انتظامیہ اور فوج میں اونچے عہدوں پر فائز تھے۔ اس کے مقابلے میں تقی الدین کے جاسوس سوڈانیوں کے پالیسی سازوں اور حکام تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ سلطان ایوبی نے ١١٦٩ء میں مصر کی جس سوڈانی فوجی کو بغاوت کے جرم میں توڑ دیا تھا۔ اس کے کئی ِایک کمان دار اور عہدے دار سوڈان میں تھے۔ وہ سلطان ایوبی کی جنگی چالوں سے واقف تھے۔ انہوں نے انہی چالوں کے مطابق اپنی فوج کی تربیت کی تھی۔ صلیبیوں نے انہیں نہایت اچھا اسلحہ اور ضرورت سے زیادہ جنگی سامان دے رکھا تھا۔ یہ گھر کے بھیدی تھے تقی الدین نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ سوڈان کے جس علاقے میں پیش قدمی کرنے جارہا ہے۔ وہ ایک وسیع صحرا ہے جہاں پانی خطرناک حد تک کم ہے اور وہ مقام جہاں حملہ کرنا ہے، اتنا دور ہے جہاں تک رسد کو خطرے میں ڈالے بغیر رواں رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ مصر کے اندرونی حالات کو قابو میں رکھنے اور تخریب کاری کے انسداد کے لیے بھی فوج درکار تھی مگر تقی الدین اس قدر بھڑکا ہوا تھا کہ اس نے مکمل طور پر نیک نیتی اور اسلامی جذبے کی شدت کے زیر اثر حملے کی تیاریاں شروع کردیں اور سلطان ایوبی کو اطلاع نہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی اس خودمختاری میں وہی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا۔ اسے احساس تھا کہ سلطان ایوبی کا مقابلہ تند اور تیز طوفان سے ہے اور صلیبی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا اہتمام کیے ہوئے ہیں۔ اس نے جو کچھ سوچا تھا درست تھا۔ اس وقت سلطان ایوبی کرک سے آٹھ نو میل دور ایک چٹانی علاقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کیے ہوئے تھے۔ یہ اس کا عارضی قیام تھا۔ وہ اپنے ہیڈکوارٹر کو خانہ بدوش رکھا کرتا تھا جس مقام پر اسے حملہ کرانا یا شب خون مروانا ہوتا، وہ اس کے قریب رہتا اور حملہ کرنے والے دستے کے کمانڈر کو بتا دیا کرتا تھا کہ وہ ان کی واپسی کے وقت کہاں ہوگا، اس کے چھاپہ مار )کمانڈو جانباز( صلیبی فوج کی تمام تر کمک تباہ کرچکے تھے۔ چھاپہ ماروں کے چھوٹے چھوٹے گروہ اس صلیبی فوج کے لیے ناگہانی مصیبت بنے ہوئے تھے جو صحرا میں پھیلی ہوئی تھی۔ صلیبیوں کا نقصان تو بہت ہورہا تھا لیکن چھاپہ ماروں کی شہادت غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی۔ دس جانباز جاتے تو تین چار واپس آتے تھے۔ یہ رپورٹیں بھی ملنے لگی تھیں کہ صلیبیوں نے ایسے انتظامات کرلیے ہیں جو شب خون اور چھاپے کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ لہٰذا اب چھاپہ ماروں کو جان کی بازی لگانی پڑتی تھی۔ سلطان ایوبی اب اپنی چالیں اور فوجوں کا پھیلائو بدلنے کی سوچ رہا تھا۔ ''معلوم ہوتا ہے کہ صلیبی مجھے آمنے سامنے آنے پر مجبور کررہے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے اپنے فوجی نائبین سے کہا… ''میں انہیں کامیاب نہیں ہونے دوں گا اور میں اب اپنے اتنے زیادہ جوان مروانے سے بھی گریز کروں گا''۔ ''میں چھاپہ مار دستوں کی نفری میں اضافہ کرنے کا مشورہ دوں گا''۔ ایک نائب نے کہا… ''اور میں یہ بھی مشورہ دوں گا کہ ہمیں دشمن کی قوت کو صرف اس لیے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری فوج میں جذبہ زیادہ ہے۔ جذبہ سپاہی کو بے جگری سے لڑا کر مروا سکتا ہے، فتح کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ صلیبیوں کے مقابلے میں ہماری نفری بہت کم ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ صلیبی فوج کا بیشتر حصہ زرہ پوش ہے''۔ سلطان ایوبی مسکرایا اور بولا… ''لوہا جو انہوں نے پہن رکھا ہے، وہ انہیں نہیں ہمیں فائدہ دے گا۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ صلیبی کوچ کرتے ہیں تو رات کو کرتے ہیں یا صبح کے وقت؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دھوپ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، سورج اوپر اٹھتا ہے تو اس کی تمازت زرہ بکتر کو انگاروں کی طرح گرم کردیتی ہے۔ زرہ پوش سپاہی اور سوار لوہے کے خود اور آہنی سینہ پوش اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوہے کا وزن ان کی حرکت کی تیزی ختم کردیتا ہے۔ میں انہیں دوپہر کے وقت لڑائوں گا۔ جب ان کے سروں پر رکھا ہوا لوہا ان کا پسینہ نکال کر ان کی آنکھوں میں ڈالے گا اور وہ اندھے ہوجائیں گے۔ آپ نفری کی کمی کو متحرک طریقۂ جنگ سے اور جذبے سے پورا کریں''۔ اتنے میں سلطان ایوبی کے انٹیلی جنس کے سربراہ علی بن سفیان کا ایک نائب زاہد ان آگیا۔ اس کے ساتھ دو آدمی تھے۔ سلطان ایوبی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان دونوں آدمیوں کو اس نے بٹھایا اور پوچھا… ''کیا خبر ہے؟'' دونوں نے اپنے اپنے گریبان کے اندر ہاتھ ڈالے اور لکڑی کی بنی ہوئی وہ صلیبیں باہر نکالیں جو ان کی گردنوں سے بندھی ہوئی تھیں۔ وہ صلیبی نہیں مسلمان تھے۔ اپنے آپ کو صلیبی ظاہر کرنے کے لیے وہ صلیبیں گلے میں لٹکا لیتے تھے۔ دونوں نے صلیبیں اتار کر نیچے پھینک دیں۔ ان میں سے ایک نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ یہ دونوں جاسوس تھے جو کرک سے واپس آئے تھے۔ پہلے بھی ذکر آچکا تھا کہ کرک فلسطین کا ایک قلعہ بند شہر تھا جس پر صلیبیوں کا قبضہ تھا۔ صلیبی شوبک نام کا ایک قلعہ سلطان ایوبی کے ہاتھ ہار چکے تھے۔ وہ کرک کسی قیمت پر دینا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے دفاعی انتظامات بڑے ہی سخت کردیئے تھے جن میں ایک بندوبست یہ تھا کہ وہ قلعہ بند ہوکر نہیں لڑنا چاہتے تھے۔ شوبک سے جب عیسائی اور یہودی باشندے مسلمانوں کے ڈر سے کرک بھاگ رہے تھے، اس وقت سلطان ایوبی نے اپنی فوج اور انتظامیہ کو یہ حکم دیا تھا کہ بھاگنے والے غیر مسلموں کو روکیں اور انہیں واپس لاکر ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں لیکن سلطان ایوبی نے ایک خفیہ حکم یہ بھی دیا تھا کہ زیادہ تر باشندوں کو جانے دیں۔ اس حکم میں راز یہ تھا کہ غیر مسلم باشندوں میں سلطان کے جاسوس بھی جارہے تھے۔ اپنے جاسوس دشمن کے اس شہر میں اور مضافات میں جس پر تھوڑے عرصے بعد حملہ کرنا تھا بھیجنے کا یہ موقع نہایت اچھا تھا۔ مسلمان جاسوس عیسائی اور یہودی پناہ گزینوں کے بھیس میں کرک چلے گئے تھے۔ وہاں کے مسلمان باشندوں کو ساتھ ملا کر انہوں نے خفیہ اڈے بنا لیے تھے۔ وہ وہاں سے اطلاعات بھیجتے رہتے تھے۔ سلطان ایوبی ذاتی طور پر ان کی رپورٹیں سنا کرتا تھا۔ اس روز دو جاسوس آئے تو سلطان ایوبی نے انہیں فوراً اپنے خیمے میں بلا لیا اور باقی سب کو باہر نکال دیا۔ جاسوسوں کی رپورٹ میں صلیبیوں کی فوج کی نقل وحرکت اور ترتیب کے متعلق اطلاعات تھیں۔ سلطان ایوبی ان کے مطابق نقشہ بناتا رہا۔ اس دوران اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جاسوسوں نے جب کرک کے مسلمان باشندوں کی بے بسی اور مظلومیت کی تفصیل سنائی تو سلطان کے چہرے پر نمایاں تبدیلی آگئی۔ ایک بار تو وہ جوش میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور خیمے میں ٹہلنے لگا۔ جاسوسوں نے اسے بتایا کہ شوبک سے صلیبی شکست کھا کرکرک پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ سلطان ایوبی کو بہت سے حالات کا تو پہلے سے علم تھا، ان دو جاسوسوں نے اسے بتایا کہ اب وہاں بازار میں جن مسلمانوں کی دکانیں ہیں، وہ بہت پریشان ہیں۔ غیر مسلم تو ان کی دکانوں پر جاتے ہی نہیں، مسلمانوں کو بھی ڈرادھمکا کر ان کی دکانوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے۔ عیسائی اور یہودی مسجدوں کے سامنے اونٹ، گھوڑے اور دیگر مویشی باندھ دیتے ہیں۔ اذان اور نماز پر کوئی پابندی نہیں لیکن جب اذان ہوتی ہے تو غیر مسلم شور مچاتے، ناچتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ جاسوسوں نے بتایا کہ مسلمانوں کا قومی جذبہ ختم کرنے کے لیے وہاں اس قسم کی افواہیں زوروشور سے پھیلائی جارہی ہیں کہ صلاح الدین ایوبی اتنا شدید زخمی ہوکر دمشق چلا گیا ہے کہ اب تک مرچکا ہوگا اور یہ بھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کمان کی کمزوری کی وجہ سے صحرا میں بکھر گئی ہے اور سپاہی مصر کی طرف بھاگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ مسلمان اب کرک پر حملہ کرنے کے قابل نہیں رہے اور بہت جلدی شوبک بھی صلیبیوں کو واپس ملنے والا ہے اور یہ بھی کہ سوڈانی فوج نے مصر پر حملہ کردیا ہے اور مصر کی فوج سوڈانیوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ جاسوسوں نے بتایا کہ اب علی الصبح پادری، مسلمان محلوں میں گھومتے پھرتے اور ہر مسلمان گھر کے دروازے پر گھنٹیاں بجاتے، اپنے مذہبی گیت گاتے اور مسلمانوں کو دعائیں دیتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب کا اور کوئی پرچار نہیں کرتے۔ یہ پرچار وہاں کی عیسائی اور یہودی لڑکیاں کرتی ہیں جو مسلمان نوجوانوں کو جھوٹی محبت کا جھانسہ دے کر ان کے ذہن تباہ کررہی ہیں۔ یہ لڑکیاں مسلمان لڑکیوں کی سہیلیاں بن کر انہیں اپنی آزادی کی بڑی ہی دلکش تصویر دکھاتی اور انہیں بتاتی ہیں کہ مسلمان فوج جو علاقہ فتح کرتی ہے وہاں مسلمان لڑکیوں کو بھی خراب کرتی ہے۔ ان رپورٹوں میں سلطان ایوبی کے لیے کوئی بات نئی نہیں تھی۔ ابتداء میں اس کے جاسوس اسے کرک کے مسلمانوں کی حالت زار بتا چکے تھے، وہاں کے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ سلطان ا یوبی اور اس کی فوج کے خلاف کوئی حوصلہ شکن افواہ نہیں سننا چاہتے تھے لیکن وہاں جو بھی بات ان کے کانوں میں پڑتی تھی حوصلہ شکن ہوتی تھی۔ وہ ڈرتے بات نہیں کرتے تھے۔ ان کے گھروں کی دیواروں کے بھی کان تھے۔ وہ اکٹھے بیٹھنے سے بھی ڈرتے تھے۔ جنازے اور بارات کے ساتھ بھی جاسوس ہوتے تھے اور مسجدوں میں بھی جاسوس ہوتے تھے۔ ان کی بد نصیبی تو یہ تھی کہ جاسوسی ان کے اپنے مسلمان بھائی کرتے تھے۔ وہ اپنے گھروں میں بھی سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔ کسی مسلمان کے خلاف صرف یہ کہہ دینا کہ وہ صلیبی حکومت کے خلاف ہے، اسے بیگار کیمپ میں بھیجنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ ''لیکن سالار اعظم!'' ایک جاسوس نے کہا… ''اب وہاں ایک اورچال چلی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک ہونے لگا ہے۔ صلیبی حکومت نے اس کی ایک مثال یہ پیش کی ہے کہ ایک عیسائی حاکم نے ایک مسجد کو بوسیدہ حالت میں دیکھا تو اس کی مرمت کا حکم دیا اور اپنی نگرانی میں مرمت کرادی۔ انہوں نے بیگار کیمپ کے مسلمانوں کو رہا تو نہیں کیا لیکن کچھ سہولتیں دے دی ہیں۔ روزمرہ مشقت کا وقت بھی کم کردیا ہے لیکن ان کے کانوں میں یہی ڈالا جاتا ہے کہ تم نے صلیب کے خلاف بہت بڑا جرم کیا ہے پھر بھی تم پر رحم کیا جارہا ہے۔ یہ پیار اور محبت کا ہتھیار بڑا ہی خطرناک ہے۔ اس جھوٹے پیار سے غیرمسلم مسلمان نوجوانوں کو نشے اور جوئے کا عادی بناتے جارہے ہیں اگر ہم نے حملے میں وقت ضائع کیا تو کرک کے مسلمان اگر مسلمان ہی رہے تو برائے نام مسلمان ہوں گے ورنہ وہ قرآن سے منہ موڑ کر گلے میں صلیب لٹکا لیں گے۔ اس صورت میں وہ اس وقت ہماری کوئی مدد نہیں کریں گے جب ہم کرک کا محاصرہ کریں گے۔ اس پیار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے اور گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں۔ ابھی تک مسلمانوں کا جذبہ قائم ہے اور وہ ثابت قدم رہنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک غیر مسلموں کے پیار کو قبول نہیں کیا مگر وہ زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے''۔ یہی وہ صورت حال تھی جس کی تفصیل سن کر سلطان ایوبی پریشان ہوگیا تھا۔ اسے یہ اطلاع بہت تکلیف دے رہی تھی کہ مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کررہے ہیں۔ اس کے لیے پریشانی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مقبوضہ علاقے میں صلیبیوں نے مسلمانوں کے خلاف پیار کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کی کردار کشی کا بھی عمل شروع ہوگیا تھا۔ ان دونوں سے زیادہ خطرناک وہ افواہیں تھیں جو وہاں کے مسلمانوں میں اسلامی فوج کے خلاف پھیلائی جارہی تھیں۔ اس نے اپنے نظام جاسوسی کے نائب زاہدان کو بلایا اور پوچھا… ''کیا تم نے ان کی باتیں سن لی ہیں؟'' ''ایک ایک لفظ سنا اور انہیں آپ کے پاس لایا ہوں''۔ زاہدان نے جواب دیا۔ ''علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلا لوں؟''۔ سلطان ایوبی نے پوچھا … ''یا تم اس کی جگہ پر کرسکو گے؟ یہ معاملہ نازک ہے۔ دشمن کے شہر میں مسلمانوں کو افواہوں اور دشمن کے زہریلے پیار سے بچانا ہے''۔ ''علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلانے کی ضرورت نہیں'' … زاہدان نے جواب دیا… ''حسن بن عبداللہ کو بھی ان کے ساتھ رہنے دیں۔ مصر کے حالات اچھے نہیں، ملک تخریب کاروں اور غداروں سے بھرا پڑا ہے۔ کرک کے مسئلے کو میں سنبھال لوں گا''۔ ''تم نے کیا سوچا ہے؟'' … سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا۔ وہ دراصل زاہدان کا امتحان لے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ زاہدان مخلص اور محنتی سراغ رساں ہے اور اپنے شعبے کے سربراہ علی بن سفیان کا شاگرد ہے۔ اس پر سلطان کو پورا پورا اعتماد تھا پھر بھی وہ یقین کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ یہ شاگرد اپنے استاد کی کمی پوری کرے گا۔ اس نے زاہدان کا جواب سنے بغیر کہا… ''زاہدان! میں نے میدان جنگ میں شکست نہیں کھائی، یہ خیال رکھنا کہ میں اس محاذ پر بھی شکست نہیں کھانا چاہتا جس پر صلیبیوں نے حملہ کیا ہے۔ میں کرک کے مسلمانوں کو اخلاقی اور نظریاتی تباہی سے بچانا چاہتا ہوں''۔ ''آپ جانتے ہیں کہ کرک میں ہمارے جاسوس موجود ہیں''… زاہدان نے کہا … ''میں انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کروں گا۔ وہ وہاں کے مسلمانوں کو آپ کے متعلق اور ہماری فوج اور مصر کے متعلق صحیح خبریں سناتے رہیں گے اور انہیں آپ کا پیغام دیں گے''۔ ''وہاں کی مسلمان عورتوں میں قومی جذبے کی کمی نہیں''۔ ایک جاسوس بول پڑا، اس نے کہا… ''ہم جوان لڑکیوں سے کہیں گے کہ وہ گھر گھر جاکر عورتوں کے ذہن صاف کرتی رہیں گی۔ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ وہاں کی لڑکیاں لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں''۔ ''عورتیں اگر گھر اور بچوں کی تربیت کا محاذ سنبھالے رکھیں تو اسی سے اسلام کے فروغ اور سلطنت اسلامیہ کی توسیع میں بہت مدد ملے گی'' … سلطان ایوبی نے کہا۔ ''انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کرو کہ مسلمان گھرانوں میں اور بچوں میں غیراسلامی اثرات داخل نہ ہونے دیں۔ میں اس کوشش میں مصروف ہوں کہ کرک پر جلدی حملہ کردوں اور شوبک کی طرح وہاں کے بھی مسلمانوں کو آزاد کراوں'' … اس نے زاہدان سے پوچھا … ''اس مقصد کے لیے کسے کرک بھیجو گے؟'' ''انہی دونوں کو''۔ زاہدان نے جواب دیا …''یہ آنے جانے کے راستوں اور طریقوں سے واقف ہوچکے ہیں اور وہاں کے حالات اور ماحول سے مانوس ہیں''۔ یہ دونوں آدمی غیر معمولی طور پر ذہین جاسوس تھے۔ سلطان ایوبی نے انہیں ہدایات دینی شروع کردیں۔ ٭ ٭ ٭ کرک میں مسلمان باشندوں پر پیار کا جو ہتھیار چلایا جارہا تھا وہ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جرمن نژاد ہرمن کی چال تھی۔ وہ شوبک کی شکست کے بعد صلیبی حکمرانوں پر زور دے رہا تھا کہ کرک کے مسلمانوں کو پیار کا دھوکہ دے کر صلیب کا وفا دار بنایا جائے یا کم از کم صلاح الدین ایوبی کے خلاف کردیا جائے۔ صلیبی حکمران مسلمانوں سے اتنی زیادہ نفرت کرتے تھے کہ ان کے ساتھ جھوٹا پیار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ تشدد اور درندگی سے مسلمانوں کا قومی جذبہ اور وقار ختم کرنے کے قائل تھے۔ ہرمن اپنے فن کا ماہر تھا۔ انسانوں کی نفسیات سمجھتا تھا۔ اس نے صلیبی حکمرانوں کو بڑی مشکل سے اپنا ہم خیال بنایا اور یہ پالیسی مرتب کرالی کہ شہر اور مضافات کے اس علاقے کے مسلمانوں کو جو صلیبی استبداد میں ہے، جسے مشتبہ اور جاسوس سمجھا جائے اورجس مسلمان کے خلاف ذرا سی بھی شہادت ملے اسے گرفتار کرکے غائب کردیا جائے لیکن ہر مسلمان شہری کو دہشت زدہ نہ کیا جائے۔ اس پالیسی کی بنیادی شق یہ تھی کہ لڑکیوں کے ذریعے مسلمان لڑکیوں کو بے پردہ کیا جائے اور مسلمان لڑکیوں کو ذہنی عیاشی اور نشے کا عادی بنا دیا جائے۔ مختصر یہ ہے کہ ان کی کردار کشی کا انتظام کیا جائے۔ لہٰذا اس پالیسی پر عمل شروع کردیا گیا تھا۔ ابتداء افواہوں سے کی گئی تھی۔ ہرمن نے یہ منظوری بھی لے لی تھی کہ مسلمانوں میں غداری کے جراثیم پیدا کرنے کے لیے خاصی رقم خرچ کی جائے۔ چند ایک مسلمانوں کو خوبصورت اور تندرست گھوڑوں کی بگھیاں دے کر انہیں شہزادہ بنا دیا جائے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف مخبری اور ان میں افواہیں پھیلانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ انہیں شاہی دربار میں وقتاً فوقتاً مدعو کرکے ان کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا جائے۔ ان کی مستورات کو بھی مدعو کرکے ان کی عزت کی جائے کہ وہ اپنی اصلیت اور اپنا مذہب ذہن سے اتار دیں۔ ہرمن نے کہا تھا … ''اگر آپ مسلمان کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو اس کے دماغ میں بادشاہی کا کیڑا ڈال دیں۔ انہیں گھوڑے اور بگھیاں دے کر اس کے دامن میں چند ایک اشرفیاں ڈال دیں۔ پھر وہ بادشاہی کے نشے میں آپ کے اشاروں پر ناچے گا۔ شراب بھی پئے گا اور اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں برہنہ کرکے آپ کے حوالے کردے گا۔ اگر آپ مسلمان کا مستقبل تاریک کرنا چاہتے ہیں تو یہ نسخہ آزمائیں۔ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب پھر بتاتا ہوں کہ یہودیوں نے مسلمانوں کی اخلاقی تباہی کے لیے اپنی لڑکیاں پیش کی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا دشمن یہودی ہے۔ اسلام کی جڑیں تباہ کرنے کے لیے یہودی اپنی بیٹیوں کی عزت اور اپنی پونجی کا آخری سکہ بھی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں''۔ یہودیوں میں خطرہ یہ تھا کہ وہ اسی خطے کے رہنے والے تھے، اس لیے مسلمانوں کی زبان بولتے تھے اور ان کے رسم ورواج اور گھریلو زندگی سے بھی واقف تھے۔ ان کی شکلیں اور کئی دیگر کوائف ملتے جلتے تھے۔ کوئی یہودی لڑکی مسلمانوں کا لباس پہن کر کسی مسلمان گھر میں جا بیٹھے تو اسے بلاشک وشبہ مسلمان سمجھ لیا جاتا تھا۔ اس مشابہت سے یہودی پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے اور اسلامی معاشرت میں غیر اسلامی زہر داخل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ جس روز سلطان ایوبی نے دو جاسوسوں کو ہدایات دیں اور زاہدان سے کہا تھا کہ وہ کرک میں جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کو صحیح خبریں پہنچائے اس سے بیس روز بعد کرک میں ایک پاگل اور مجذوب اچانک کہیں سے نمودار ہوا۔ اس نے ہاتھ میں لکڑی کی بنی ہوئی گز بھر لمبی صلیب اٹھا رکھی تھی، جسے وہ اوپر کرکے چلاتا تھا… ''مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے، شوبک میں مسلمان اپنی بیٹیوں کی عصمت دری کررہے ہیں۔ مصر میں مسلمانوں نے شراب پینا شروع کردی ہے۔ خدائے یسوع مسیح نے کہا ہے کہ اب یہ قوم روئے زمین پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ مسلمانو! نوح کے دوسرے طوفان سے بچنا چاہتے ہوتو صلیب کے سائے میں آجائو۔ اگر صلیب پسند نہیں تو خدائے یہودہ کے آگے سجدہ کرو۔ مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں''۔ لباس اور شکل وصورت سے وہ اچھا بھلا لگتا تھا لیکن باتوں اور انداز سے پگلا معلوم ہوتا تھا۔ اس کی داڑھی بھی تھی، لمبا چغہ پہن رکھا تھا، سرپر پگڑی اور اس پر رومال ڈالا ہوا تھا جو کندھوں پر بھی پھیلا ہوا تھا۔ اس کے چہرے اور کپڑوں پر گرد تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے۔ اس کے پائوں گرد آلود تھے۔ اسے کوئی روکتا اور بات کرتا تھا تو وہ رک جاتا تھا لیکن کوئی جواب نہیں د یتا تھا۔ کوئی بات جیسے سنتا سمجھتا ہی نہیں تھا۔ سوال کوئی بھی پوچھو وہ اپنا اعلان دہرانے لگتا تھا… ''مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے وغیرہ''… کسی نے بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ عیسائی اس لیے خوش تھے کہ اس نے ہاتھ میں صلیب اٹھا رکھی تھی اور خدا یسوع مسیح کا نام لیتا تھا۔ یہودی اس لیے خوش تھے کہ وہ خدائے یہودہ کا نام لیتا تھا اور دونوں کی یہ خوشی مشترک تھی کہ وہ مسلمانوں کی تباہی کی خوشخبری سنا رہا تھا۔ صلیبی فوج کے چند ایک سپاہیوں نے اس کی للکار سنی تو انہوں نے قہقہہ لگایا۔ شہری انتظامیہ کی فوج )جو بعد میں پولیس کہلائی( نے اسے دیکھا تو اسے پاگل کہہ کر نظر انداز کردیا۔ مسلمانوں میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ اس کا منہ بند کرتے۔ مسلمان اس کے منہ سے اپنی تباہی کا اعلان سن کر ڈر بھی گئے تھے اور انہیں غصہ بھی آیا تھا مگر کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ مجذوب شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گھوم رہا تھا اور اس اعلان کو دہراتا جارہا تھا … ''مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجائو، تمہاری تباہی کا وقت آگیا ہے۔ مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں''۔ کہیں کہیں وہ یہ بھی کہتا تھا… ''کرک میں مسلمانوں کی فوج نہیں آئے گی۔ ان کا صلاح الدین ایوبی مرچکا ہے''۔ بعض اوقات وہ اوٹ پٹانگ اور بے معنی فقرے سے بولتا تھا جو ثابت کرتے تھے کہ وہ پاگل ہے۔ بچے اس کے پیچھے پیچھے چلے جارہے تھے۔ بڑے عمر کے آدمی بھی کچھ دور تک اس کے پیچھے پیچھے چلتے اور رک جاتے تھے۔ وہاں سے چند اور آدمی اس کے پیچھے چل پڑتے تھے۔ مسلمان اسے غصے کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے اور اپنے بچوں کو اس کے پیچھے جانے سے روکتے تھے۔ صرف ایک مسلمان تھا جو اس پاگل کے پیچھے پیچھے جارہا تھا۔ وہ پاگل سے دس بارہ قدم دور تھا۔ یہ ایک جواں سال مسلمان تھا۔ راستے میں دو عیسائی نوجوانوں نے اسے طعنے دیئے، ایک نے اسے کہا …''عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں آجائو''۔ اس نے انہیں قہر بھری نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔ ان عیسائیوں کو معلوم نہیں تھا کہ عثمان کے پاس ایک خنجر ہے اور وہ اس پاگل کو قتل کرنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے جارہا ہے۔ اس کا پورا نام عثمان صارم تھا۔ اس کے ماں باپ زندہ تھے اور اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جس کا نام النور صارم تھا۔ اس لڑکی کی عمر بائیس تئیس سال تھا۔ عثمان اس سے تین چار سال بڑا تھا جو جوشیلا جوان تھا۔ اسلام کے نام پر جان نثار کرتا تھا۔ صلیبی حکومت کی نظر میں وہ مشتبہ بھی تھا کیونکہ وہ مسلمان نوجوانوں کو صلیبی حکومت کے خلاف زمین دوز کارروائیوں کے لیے تیار کرتا رہتا تھا۔ وہ ابھی کوئی جرم کرتا پکڑا نہیں گیا تھا۔ اس نے جب اس پاگل کی آواز سنی تو باہر نکل آیا۔ پاگل اتنی بڑی صلیب بلند کیے مسلمانوں کے خلاف بلند آواز میں واہی تباہی بکتا جارہا تھا۔ عثمان صارم نے یہ بھی نہ دیکھا یہ تو کوئی پاگل ہے۔ اس نے صلیب دیکھی اور پاگل کے الفاظ سنے تو اس پر دیوانگی طاری ہوگئی۔ اپنے گھر جاکر اس نے خنجر لیا اور کُرتے کے اندر ناف میں اڑس کر پاگل کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ وہ اسے ایسی جگہ قتل کرنا چاہتا تھا جہاں اسے کوئی پکڑ نہ سکے۔ وہ صلیبیوں کے خلاف مزید کارروائیوں کے لیے زندہ رہنا چاہتا تھا۔ وہ پاگل سے دس بارہ قدم پیچھے چلتا گیا اور اس کا اعلان سنتا گیا۔ جب دو عیسائیوں نے اسے طعنے دیئے اور ایک نہ کہا کہ عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں آجائو تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس کے دل میں قتل کا ارادہ اور زیادہ پختہ ہوگیا۔ پاگل کے پیچھے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں اور بچوں کا جلوس جمع ہوگیا تھا۔ قتل کا یہ موقعہ اچھا نہیں تھا۔ دن گزرتا گیا اور پاگل کی آواز دھیمی پڑتی گئی۔ اس کے پیچھے چلنے والے کم ہوتے گئے۔ سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ ایک مسجد آگئی۔ پاگل مسجد کے دروازے میں بیٹھ گیا اور اس نے صلیب اوپر کرکے کہا… ''اب یہ گرجا ہے، مسجد نہیں ہے'' … اس وقت عثمان صارم اس کے قریب جاکھڑا ہوا۔ اسے اچھی طرح احساس تھا کہ یہ بے شک پاگل ہے لیکن اس کے قتل کی سزا بھی موت ہوگی کیونکہ اس نے صلیب اٹھا رکھی ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا رہا ہے۔ عثمان صارم نے پاگل کے قریب ہوکر دھیمی آواز میں کہا … ''یہاں سے فوراً اٹھو اور اپنی صلیب کے ساتھ غائب ہوجائو ورنہ صلیبی یہاں سے تمہاری لاش اٹھائیں گے''۔ پاگل نے اسے نظر بھر کر دیکھا، اس کے سامنے بہت سے بچے کھڑے تھے، اس نے عثمان صارم کی دھمکی کا جواب دیئے بغیر بچوں کو ڈانٹ کر بھاگ جانے کو کہا۔ بچے ڈر کر بھاگ گئے تو پاگل مسجد کے اندر چلا گیا۔ عثمان صارم کے لیے یہ موقعہ بہت اچھا تھا۔ اس نے کچھ سوچے بغیر چوکڑی بھری، دروازے کے اندر گیا اور دروازہ بند کردیا۔ اس نے بہت تیزی سے خنجر نکالا مگر وار کرنے لگا تو پاگل نے گھوم کر دیکھا۔ عثمان کے خنجر کا وار اپنی طرف آتا دیکھ اس نے صلیب آگے کرکے وار صلیب پر لیا اور کہا… ''رک جائو جوان، اندر چلو، میں مسلمان ہوں''۔ عثمان صارم نے دوسرا وار نہ کیا۔ پاگل جوتے اتار کر مسجد کے اندرونی کمرے میں چلا گیا۔ اس نے صلیب اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اندر جاکر اس نے عثمان صارم سے نام پوچھا اور کہا … '' میں مسلمان ہوں، میری باتیں غور سے سن لو۔ مجھے بتائو کہ تم کب سے میرے پیچھے آرہے ہو؟'' ''میں سارا دن تمہارے پیچھے پھرتا رہا ہوں''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''مگر مجھے قتل کا موقعہ نہیں مل رہا تھا''۔ ''تم مجھے قتل کیوں کرنا چاہتے ہو؟'' پاگل نے پوچھا۔ ''کیونکہ میں اسلام اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''تم پاگل ہویا نہیں، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا''۔ پاگل نے اس سے کئی اور باتیں پوچھیں، آخر اس نے کہا… ''مجھے تم جیسے ایک جوان کی ضرورت تھی۔ اچھا ہوا کہ تم خود ہی میرے پیچھے آگئے۔ میرا خیال تھا کہ مجھے اپنے مطلب کا کوئی مسلمان بڑی مشکل سے ملے گا۔ میں صلاح الدین ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہوں۔ میں نے یہ ڈھونگ صلیبیوں کو دھوکہ دینے کے لیے رچایا ہے۔ میں نے اس بھیس میں سفر کیا ہے۔ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ یاد رکھو کہ مسجد میں کوئی صلیبی آگیا تو میں پھر وہی بکواس شروع کردوں گا جو دن بھر کرتا رہا ہوں۔ تم غور سے سنتے رہنا جیسے تم مجھ سے متاثر ہورہے ہو۔ میں بہت تیزی سے بولوں گا۔ شام کی نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مسلمانوں میں صلیبیوں کے بھی جاسوس ہیں۔ میں نمازیوں کے آنے تک اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں''۔ عثمان صارم نے کبھی جاسوس نہیں دیکھا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ غیرمعمولی طور پر ذہین جاسوس ہے جس نے اسے چند سوال پوچھ کر پہچان لیا ہے کہ یہ جوان قابل اعتماد ہے۔ جاسوس نے اسے کہا… ''اپنے جیسے چند ایک جوان اکٹھے کرو اور کچھ مسلمان لڑکیوں کو بھی تیار کرو۔ تمہیں ہر ایک مسلمان گھرانے میں یہ پیغام پہنچانا ہے کہ صلاح الدین ایوبی زندہ ہے اور وہ اپنی فوجوں کے ساتھ یہاں سے صرف آدھے دن کی مسافت جتنا دور ہے۔ اس کی تمام فوج کرک پر حملہ کرنے کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ اس فوج نے صلیبی فوج کے ناک میں دم کررکھا ہے۔ مصر میں حالات پر سکون ہیں، وہاں صلیبیوں نے جو تخریب کاری کی تھی وہ جڑ سے اکھاڑ دی گئی ہے''۔ ''صلاح الدین ایوبی کب حملہ کرے گا؟''… عثمان صارم نے پوچھا۔ ''ہم اس کی راہ دیکھ رہے ہیں، ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ تم باہر سے حملہ کرو گے تو ہم صلیبیوں پر اندر سے حملہ کریں گے۔ خدا کے لیے جلدی آئو''۔ ''تحمل سے کام لو جوان!'' …جاسوس نے کہا… ''پہلے صلاح الدین ایوبی کا پیغام سن لو اور یہ ہر ایک نوجوان کے ذہن پر نقش کردو۔ ایوبی نے کہا ہے کہ کرک کے مسلمان نوجوانوں سے کہنا کہ تم ملک اور مذہب کے پاسبان ہو۔ میں نے پہلی جنگ لڑکپن میں لڑی تھی اور محاصرے میں لڑی تھی۔ فوج کی کمان میرے چچا کے پاس تھی، اس نے مجھے کہا تھا کہ محاصرے میں گھبرانہ جانا۔ اگر تم اس عمر میں گھبرا گئے تو تمہاری ساری عمر گھبراہٹ اور خوف میں گزرے گی۔ اگر اسلام علم بردار بننا چاہتے ہو تو یہ علم آج ہی اٹھا لو اور دشمن کی دیواریں توڑ کر نکل جائو پھر گھوم کر آئو اور دشمن پر جھپٹ پڑو۔ میں گھبرایا نہیں۔ تین مہینوں کے محاصرے نے ہمیں فاقہ کشی بھی کرائی لیکن ہم محاصرہ توڑ کر نکل آئے اور ہم نے جس خوراک سے پیٹ بھرے وہ دشمن کی رسد سے چھینی ہوئی خوراک تھی۔ ہمارے جو گھوڑے محاصرے میں بھوک سے مر گئے تھے، ہم نے ان کی کمی دشمن کے گھوڑوں سے پوری کی۔ ''صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ میری قوم کے بیٹوں سے کہنا کہ تم پر دشمن نے پیار کے ہتھیار سے حملہ کیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کا دوست نہیں ہوسکتا۔ صلیبی میدان جنگ میں ٹھہر نہیں سکے، ان کے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں، اس لیے وہ اب مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی نسل کے ذہن سے قومیت اور مذہب نکالنے کے جتن کررہے ہیں۔ انہوں نے جو ہتھیار استعمال کیا ہے وہ بڑا ہی خطرناک ہے۔ یہ ہے ذہنی عیاشی، کاہلی اور کوتاہی۔ تم میں یہ تینوں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے عیسائی اور یہودی ایک ہوگئے ہیں۔ یہودی اپنی لڑکیوں کے ذریعے تم میں حیوانی جذبہ بھڑکا رہے ہیں اور تمہیں نشے کا عادی بنا رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ حیوانی جذبے اور نشے سے تمہاری عاقبت خراب ہوگی اور موت کے بعد تم جہنم میں جائو گے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کردار کی یہ خرابیاں تمہارے لیے اس دنیا کو ہی جہنم بنا دیں گی۔ تم جسے جنت کی لذت سمجھتے ہو وہ جہنم کا عذاب ہے۔ تم صلیبیوں کے غلام ہوجائو گے جو تمہاری بہنوں کو بے آبرو کرتے پھریں گے۔ تمہارے قرآن کے ورق گلیوں میں اڑیں گے اور تمہاری مسجدیں اصطبل بن جائیں گی۔ ''صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنی روایات کو نہ بھولو۔ صلیبی ایک طرف تم پر تشدد کررہے ہیں اور دوسری طرف تمہیں دولت اور گھوڑا گاڑیوں کا لالچ دے رہے ہیں۔ مسلمان ان عیاشیوں کا قائل نہیں ہوتا… تمہاری دولت تمہارا کردار اور ایمان ہے۔ یہ صلیبیوں کی شکست کا ثبوت ہے کہ وہ تمہاری تلوار سے خوف زدہ ہوکر اتنے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو بے حیا بنا کر تمہیں اپنا غلام بنانے کے جتن کررہے ہیں۔ میری قوم کے بیٹو! اپنے کردار کو محفوظ رکھو، آپنے آپ کو قابو میں رکھو، ظالم حکمران دراصل کمزور حکمران ہوتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین میں سے کسی کو ظلم وتشدد سے زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی کو دولت کا لالچ دے کر۔ تم ظلم وتشدد سے بھی نہ ڈرو اور کسی لالچ میں بھی نہ آئو۔ تم قوم کا مستقبل ہو۔ ہم قوم کا ماضی ہیں۔ دشمن تمہارے ذہنوں سے تمہارا اور رخشندہ ماضی نکال کر اس میں اپنے نظریات اور مفادات کی سیاہی بھرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اسلام کا مستقبل تاریک ہوجائے۔ اپنی اہمیت پہچانو۔ دشمن تمہیں صرف اس لیے اپنے تابع کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ تم سے خائف ہے۔ اپنی نظر آج پر نہیں کل پر رکھو کیونکہ تمہارے دشمن کی نظر تمہارے مذہب کے کل پر ہے۔ تم نے د یکھ لیا ہے کہ کفار تمہارا کیا حال کررہے ہیں۔ اگر تم ذہنی عیاشی میں پڑ گئے تو تمام تر ملت اسلامی کا یہی حشر ہوگا''۔ جاسوس نے سلطان ایوبی کا پیغام بہت تیزی سے عثمان صارم کو سنا دیا اور اسے عمل کے طریقے بتانے لگا۔ اس نے کہا …''سالار اعظم نے خاص طور پر کہا ہے کہ اپنے اوپر جوش اور جذبات کا غلبہ طاری نہ کرنا۔ عقل پر جذبات کو غالب نہ آنے دینا۔ اشتعال سے بچنا، اپنے آپ پر قابو رکھنا۔ احتیاط لازمی ہے۔ جاسوس نے اسے بتایا کہ وہ اور اس کے دو ساتھی کسی نہ کسی روپ میں اسے خود ہی ملتے رہیں گے اور یہ رابطہ قائم رہے گا۔ فوری طور پر ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھروں میں چوری چھپے کمانیں، تیر اور برچھیاں بنائیں اور گھروں میں چھپا کر رکھیں، عورتوں کو گھروں کے اندر ہی خنجر اور برچھی مارنے اور وار سے بچنے کے لیے طریقہ سکھائیں۔ یہودی لڑکیوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں، ان کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ کریں جس سے انہیں کوئی شک پیدا ہو۔ اپنے طور پر کوئی جنگی کارروائی نہ کریں۔ پہلے منظم ہوجائیں پھر قیادت بنائیں۔ ہر ایک فرد کا ذرا سا بھی عمل قائد کی نظر میں ہونا چاہیے اور کسی فرد کا کوئی اقدام قائد کی اجازت کے بغیر نہ ہو''۔ سورج غروب ہونے لگا تھا۔ مسجد کا پیش امام آگیا۔ اسے دیکھتے ہی جاسوس نے صلیب اٹھائی اور دوڑتا ہوا باہرنکل گیا۔ باہر سے پھر وہی اعلان سنائی دینے لگا… ''مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجائو، تمہارا اسلام مر گیا ہے''… امام نے عثمان صارم کو قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا… ''یہ یہاں کیا کررہا تھا؟ اور تم نے اسے اندر کیوں بٹھا رکھا تھا؟ اسے ہلاک کیوں نہ کردیا؟ تمہاری رگوں میں مسلمان باپ کا خون جم گیاہے؟ میں اتنا بوڑھا نہ ہوتا تو یہاں سے اسے زندہ باہر نہ جانے دیتا''۔ جاری ھے...

❤️ 🌹 👍 5
🌎دلچسپ معلومات🌎
2/22/2025, 11:49:30 PM

زمین کی تجزیاتی رپورٹ ایک معلوماتی تحریر ایک سمجھدار کاشتکار یا کچن گارڈنر کو نہ صرف یہ چاہیے کہ وہ اپنی زمین کا ٹیسٹ کروائے بلکہ اسے یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ زمین کے تجزیے کی رپورٹ کا مطلب کیا ہے؟ آئیے آپ کو زمین کے ٹیسٹ کی رپورٹ بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ زمین کی ٹیسٹ رپورٹ کا نمونہ دیکھیے۔ اس رپورٹ میں نمبر شمار اور تفصیل کے بعد حل پذیر نمکیات کا خانہ ہے۔ آئیے سب سے پہلے اسی پر بات کرتے ہیں۔ نمبر 1. حل پذیر نمکیات یا ای سی (EC یا Electrical Conductivity) جس طرح نمک پانی میں حل ہو کر پانی کا حصہ بن جاتا ہے بالکل اسی طرح بہت سے نمکیات زمین میں حل ہو کر مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں. زمین میں حل شدہ انھی نمکیات کو حل پذیر نمکیات یا ای سی کہا جاتا ہے. اگر ان نمکیات کی مقدار ایک حد سے زیادہ ہو جائے تو زمین میں سفید کلر پیدا ہو جاتا ہے. جسے سیم و تھور کہتے ہیں. زمین میں نمکیات کی مقدار یا ای سی 2 درجے (پی پی ایم) تک ہو تو زمین صحت مند سمجھی جاتی ہے. اگر زمین میں موجود نمکیات کی مقدار 2 سے 4 درجے تک ہو تو زمین معمولی کلراٹھی سمجھی جاتی ہے. معمولی کلراٹھی زمین، ہمارے ہاں کاشت کی جانے والی زیادہ تر فصلوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے. لیکن اگر ای سی 4 سے 8 درجے تک ہو تو زمین درمیانی کلراٹھی سمجھی جائے گی. اس طرح کی زمین مکئی، چاول، گنا، کنو اور پھلی دار فصلوں کی کاشت کے لیے زیادہ موزوں سمجھی جاتی ہے۔ زیر نظر رپورٹ میں پہلے سیمپل میں حل پذیر نمکیات 1.7 اور دوسرے میں 1.5 ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین سفید کلر سے پوری طرح پاک ہے. لیکن اگر حل پذیر نمکیات کی مقدار 4 درجے سے زیادہ ہوتی تو پھر زمین کو کلراٹھی تصور کیا جاتا اور سفید سیم و تھور ختم کرنے کے لیے سفارش کی جاتی. عام طور پر کاشتکار جپسم کو کلر کا علاج سمجھتے ہیں. لیکن یاد رکھیں کہ جپسم کا استعمال سفید کلر والی زمینوں کے لیے فائدہ مند نہیں ہے. سفید کلر ختم کرنے کے لیے زمین میں گہرا ہل چلا کر کھیت کو نہری یا ٹیوب ویل کے میٹھے پانی سے بھر دیا جاتا ہے. اس سے زمین میں موجود سفید کلر زمین کی تہہ میں بہہ جاتا ہے اور زمین کلر سے پاک ہو جاتی ہے. کلر زیادہ ہونے کی صورت میں یہی طریقہ بار بار دہرایا جاتا ہے یہاں تک کہ زمین سے کلر کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے. نمبر 2. تعامل یا سائل پی ایچ (Soil pH) زیر نظر رپورٹ میں دوسرا خانہ زمین کی پی ایچ کا ہے. رپورٹ میں درج زمین کی پی ایچ سے پتا چلتا ہے کہ آپ کی زمین کس حد تک تیزابی یا کھارے مزاج کی حامل ہے؟ اگر زمین کی پی ایچ 7 ہو تو زمین معتدل سمجھی جائے گی. اگر پی ایچ 7 سے کم ہو تو زمین تیزابی اور اگر 7 سے زیادہ ہو تو زمین کھارے مزاج کی سمجھی جائے گی. ایک صحت مند زمین کی پی ایچ 7 کے آس پاس ہونی چاہیے. ہمارے ہاں پاکستان میں زیادہ تر زمینوں کی پی ایچ 8 سے اوپر پائی جاتی ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر زمینین کھارا مزاج رکھتی ہیں. اگر زمین کی پی ایچ ساڑھے 7 سے زیادہ ہو تو پودوں کو زمین میں موجود غذائی اجزاء کے حصول میں دقت پیش آتی ہے اور مناسب مقدار میں خوراک حاصل نہ ہونے کے سبب پودا کمزور ہو جاتا ہے اور پیداوار متاثر ہوتی ہے. زمین کی پی ایچ اگر ساڑھے 7 سے 8 درجے تک ہو تو ایسی صورت حال میں پودوں کو زنک، آئرن، مینگانیز اور بوران زمین سے جذب کرنے میں مشکل پیش آتی ہے. اسی طرح اگر پی ایچ 8 سے ساڑھے 8 درجے تک ہو تو پودوں کے لیے زمین سے فاسفورس جذب کرنا مشکل ہو جاتا ہے. مزید یہ کہ مولبی ڈینم کے علاوہ تمام اجزائے صغیرہ پودا زمین سے جذب نہیں کر پاتا. اگر پی ایچ ساڑھے 8 درجے سے اوپر چلی جائے تو زمین بیمار سمجھی جائے گی اور اس بات کا واضح امکان ہوتا ہے کہ زمین کالے کلر سے متاثر ہو چکی ہے. یہی وجہ ہے کہ جس زمین کی پی ایچ ساڑھے 8 سے زیادہ پائی گئی ہو وہاں کاشتکار کو جپسم استعمال کرنے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے. دراصل پی ایچ کو کم کرنے یا کالے کلر کو ختم کرنے کا سب سے آسان اور سستا طریقہ جپسم کا استعمال ہی ہے، البتہ زمین کی پی ایچ سلفر ڈال کر بھی کم کی جا سکتی ہے. پی ایچ کم کرنے کے لیے کاشتکار بیٹری والے تیزاب کا بھی استعمال کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ماہرین تیزاب استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہیں. ان کا کہنا ہے کہ تیزاب ڈالنے سے زمین کی صحت کے کئی اور مسائل جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں. زیر نظر رپورٹ میں پہلے سیمپل کی پی ایچ 8.1 اور دوسرے کی پی ایچ 8.2 ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمین کی پی ایچ زیادہ ہے. اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس زمین میں فاسفورس کھاد آپ ڈال بھی دیں تو پودا اسے آسانی سے جذب نہیں کر پائے گا. مزید یہ کہ اس زمین میں مولبی ڈینم کے علاوہ تمام اجزائے صغیرہ مثلاََ زنک، بوران، آئرن، مینگانیز وغیرہ بھی پودا حاصل نہیں کر پائے گا. لہٰذا زمین کی پی ایچ کم کرنے کے لیے جپسم یا سلفر ڈالنا بہتر ہے. اسی طرح مائیکرو اجزاء زمین میں ڈالنے کی بجائے اگر سپرے کی جائے تو زیادہ فائدہ ہو گا. دراصل کلر کی مکمل تشخیص کے لیے، ای سی اور پی ایچ کے ساتھ ساتھ مزید 2 قسم کے ٹیسٹ بھی ضروری ہوتے ہیں. پہلا ٹیسٹ ای ایس پی (Exchangeable sodium percentage (ESP) اور دوسرا ٹیسٹ ایس اے آر (Sodium Absorption Ratio (SAR) کیا جانا چاہیے. لیکن ہمارے ہاں پنجاب میں سرکاری لیبارٹریوں میں یہ دونوں ٹیسٹ نہیں کیے جاتے. لہذا زمین میں موجود کلر کی تشخیص کے لیے پی ایچ اور ای سی پر ہی انحصار کیا جا تا ہے. نمبر 3. نامیاتی مادہ (Organic Matter) رپورٹ میں اگلا خانہ نامیاتی مادے کا ہے. نامیاتی مادہ دراصل زمین میں ڈالے گئے گوبر اور فصلوں کی گلی سڑی باقیات وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے. نامیاتی مادہ زمین میں موجود نمی اور غذائی اجزاء کو اپنی گود لے لیتا ہے جس کی بدولت نمی و غذائی اجزاء، زمین کی تہہ میں جا کر ضائع ہونے کی بجائے زیادہ دیر تک پودوں کی جڑوں کے آس پاس محفوظ رہتے ہیں. جہاں سے پودا ان غذائی اجزاء کو حاصل کرتا رہتا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ نامیاتی مادہ، نائٹروجن کھاد کے متبادل کے طور پر بھی کام کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ جس زمین میں نامیاتی مادہ زیادہ مقدار میں موجود ہو اس زمین کو نائٹروجن کھاد کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی. پنجاب کی لیبارٹریوں میں براہ راست نائٹروجن معلوم کرنے کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا بلکہ نامیاتی مادے سے ہی زمین میں موجود نائٹروجن کی مقدار کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے. زیر نظر رپورٹ میں پہلے سیمپل کے اندر نامیاتی مادے کی مقدار 0.56 اور دوسرے میں 0.44 فیصد ہے. محکمہ زراعت، حکومت پنجاب کے مطابق اگر زمین میں نامیاتی مادے کی مقدار 0.86 فیصد سے کم ہو تو سمجھا جاتا ہے کہ زمین میں نامیاتی مادے کی کمی ہے. اگر زمین میں نامیاتی مادہ 0.86 سے 1.29 فیصد کے درمیان ہو تو اس مقدار کو تسلی بخش مانا جاتا ہے. جبکہ 1.29 سے زیادہ والی زمین نامیاتی مادے کے لحاظ سے اچھی زمین سمجھی جاتی ہے. زیر نظر رپورٹ کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں نامیاتی مادے کی کمی ہے. یعنی نامیاتی مادہ 0.86 فیصد سے بھی کم ہے. بین الاقوامی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ زمین میں نامیاتی مادے کی مقدار 2 فیصد سے زیادہ ہونی چاہیے چونکہ زیادہ درجہ حرارت اور کم بارشوں والے علاقوں کی زمینوں میں نامیاتی مادہ مسلسل کم ہوتا رہتا ہے لہٰذا ایسے علاقوں میں نامیاتی مادہ 2 فیصد سے اوپر لے کر جانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں. چونکہ پنجاب کی زیادہ تر زمینیں گرم علاقے میں واقع ہیں لہذا اگر آپ کی زمین میں نامیاتی مادہ 1.29فیصد سے زیادہ ہے تو اس تھوڑے کو ہی کافی جانیے. ویسے آج کل کئی ایسے طریقے آ گئے ہیں جن سے گرم اور کم بارشوں والے علاقوں میں بھی نامیاتی مادہ تین چار فی صد تک لے جایا جا سکتا ہے. لیکن یہ طریقے ابھی بہت مہنگے ہیں. نمبر 4. قابل حصول فاسفورس (Available P) اگلا خانہ قابل حصول فاسفورس کا ہے. ویسے تو بیج کے اگنے سے لے کر فصل پکنے تک کے تمام مراحل میں پودے کو فاسفورس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دو مراحل پر پودے کو فاسفورس کا ملنا انتہائی ضروری ہوتا ہے. پہلا موقع وہ ہے جب زمین میں بویا ہوا بیج اگنے کے بعد اپنی جڑیں بنانا شروع کرتا ہے. جڑیں بنانے کے اس مرحلے پر پودے کو فاسفورس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے. اور دوسرے جب پودے کے سٹے یا پھلی وغیرہ میں بیج یا دانے بن رہے ہوتے ہیں تو اس موقع پر بھی پودے کو فاسفورس کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے. اب آپ کو یہ بات بھی سمجھ میں آ گئی ہوگی کہ فاسفورس کھاد ہم بجائی کے وقت ہی کیوں ڈالتے ہیں. اس سے پہلے زمین کی پی ایچ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ اگر زمین کی پی ایچ 8 درجے سے زیادہ ہو تو پودوں کے لیے مٹی سے فاسفورس جذب کرنا مشکل ہو جاتا ہے. زیادہ پی ایچ کی صورت میں آپ جتنی مرضی ڈی اے پی یا ایس ایس پی کھادیں زمین میں ڈالتے چلے جائیں پودا ان کھادوں کو جذب نہیں کر سگے گا اور یہ کھادیں زمین میں ویسی کی ویسی بے کار پڑی رہیں گی. رپورٹ میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ زمین میں فاسفورس کی کتنی مقدار موجود ہے جسے پودا ضرورت پڑنے پر استعمال کر سکتا ہے. واضح رہے کہ زمین میں ایسی فاسفورس کی بھی اچھی خاصی مقدار پڑی ہوتی ہے جسے پودا ضرورت پڑنے پر حاصل نہیں کر سکتا. لہذا رپورٹ میں فاسفورس کی وہی مقدار درج کی جاتی ہے جو پودے کے لیے قابل حصول ہو. اگر رپورٹ میں فاسفورس کی مقدار 8 یا 8 درجے (پی پی ایم) سے کم ہو تو فاسفورس کے لحاظ سے زمین کمزور سمجھی جاتی ہے. اگر فاسفورس کی مقدار 8 سے 15 درجے کے درمیان ہو تو فاسفورس کے لحاظ سے زمین درمیانی سمجھی جاتی ہے. لیکن اگر فاسفورس کی مقدار 15 درجے سے زیادہ ہو تو سمجھا جاتا ہے کہ فاسفورس کے لحاظ سے زمین زرخیز ہے. زیر نظر رپورٹ کے پہلے سیمپل میں فاسفورس 7 اور دوسرے میں 6.3 ہے. اس کا مطلب ہے کہ زمین کے دونوں سیمپل میں فاسفورس 8 سے کم ہے. لہذا اس زمین کو فاسفورس کے لحاظ سے کمزور سمجھا جائے گا. زمینوں میں فاسفورس کی کمی پورا کرنے کے لئے ڈی اے پی یا ایس ایس پی کھادیں وغیرہ ڈالی جاتی ہیں. نمبر 5. قابل حصول پوٹاشیم (Available K) رپورٹ میں اگلا خانہ قابل حصول پوٹاش کا ہے. پوٹاش فصل کے بیج یا دانوں کے وزن اور پھولوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے. مزید یہ کہ پوٹاش کھاد فصل میں بیماریوں اور پانی کی کمی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے. اگر رپورٹ میں پوٹاشیم کی مقدار 80 یا 80 درجے (پی پی ایم) سے کم ہو تو پوٹاشیم کے لحاظ سے زمین کمزور سمجھی جاتی ہے. اگر پوٹاشیم کی مقدار 81 سے 180 درجے کے درمیان ہو تو پوٹاشیم کے لحاظ سے زمین درمیانی سمجھی جاتی ہے. لیکن اگر پوٹاشیم کی مقدار 180 درجے سے زیادہ ہو تو سمجھا جاتا ہے کہ پوٹاشیم کے لحاظ سے زمین زرخیز ہے. زیر نظر رپورٹ کے پہلے سیمپل میں پوٹاش کی مقدار 140 جبکہ دوسرے میں 120 ہے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوٹاش کے لحاظ سے زمین درمیانی ہے. پوٹاشیم کی کمی کو پورا کرنے کے لئے زیادہ تر ایس او پی کھاد استعمال کی جاتی ہے. البتہ بعض فصلوں میں ایم او پی بھی سفارش کی جاتی ہے. نمبر 6. زمین کی قسم اور فیصد سیر شدگی (Saturation Percentage & Texture) ہمارے کاشتکار اپنی زمینوں کے بارے میں خوب جانتے ہوتے ہیں کہ کونسا رقبہ ریتلا ہے، کونسا میرا ہے اور کس ایکڑ کی مٹی چکنی ہے. رپورٹ میں زمین کی قسم کے خانے میں یہی بات درج ہوتی ہے. البتہ ماہرین، زمین کی قسم کا اندازہ زمین کی فیصد سیر شدگی سے لگاتے ہیں. فیصد سیر شدگی دراصل زمین کی پانی پینے کی صلاحیت کو کہتے ہیں. یہ بات تو ایک عام کسان بھی سمجھتا ہے کہ ریتلی زمین کم اور چکنی زمین زیادہ پانی پیتی ہے. اگر آپ کے کھیت کی ایک کلوگرام مٹی 190 ملی لیٹر پانی جذب کر لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زمین کی سیر شدگی 19 فیصد ہے. 19 فی صد تک پانی پینے والی زمین، ریتلی زمین کے زمرے میں آتی ہے. اسی طرح 19 سے 30 فیصد پانی پینے والی زمین ریتلی میرا، 30 سے 45 فیصد پانی پینے والی زمین میرا سے درمیانی بھاری میرا، 45 سے 60 فیصد پانی پینے والی زمین بھاری میرا یا چکنی اور 60 فیصد سے زیادہ پانی پینے والی زمین چکنی زمین سمجھی جاتی ہے. زیر نظر رپورٹ میں پہلے سیمپل میں سیر شدگی 36 فیصد جبکہ دوسرے میں 37 فیصد ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین درمیانی بھاری میرا ہے. ریتلی زمینوں میں چنے، گوارہ، مونگ پھلی اور باجرہ وغیرہ بہتر طور پر کاشت کیے جا سکتے ہیں. اسی طرح بھاری میرا یا چکنی زمینیں چاول اور گنے کی کاشت کے لیے زیادہ موزوں سمجھی جاتی ہیں. جبکہ ریتلی میرا، میرا، درمیانی بھاری میرا اور بھاری میرا زمینوں میں ہر طرح کی فصلیں کاشت کی جا سکتی ہیں. نمبر 7. اجزائے صغیرہ کا ٹیسٹ زیر نظر رپورٹ میں اجزائے صغیرہ کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے. پنجاب میں ڈویژن کی سطح پر قائم مٹی و پانی کی تجزیاتی لیبارٹریوں میں اجزائے صغیرہ ٹیسٹ کرنے کی بھی سہولت موجود ہے. ان اجزاء میں زنک، کاپر، آئرن، مینگانیز اور بوران شامل ہیں. نیچے دیے گئے چارٹ کی مدد سے آپ جان سکیں گے کہ آپ کی زمینیں ان اجزاء کے حوالے سے کمزور ہیں، درمیانی ہیں یا زرخیز ہیں. لیکن جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ اگر زمین کی پی ایچ 8 درجے تک ہو تو پودا مٹی سے زنک، آئرن، مینگانیز اور بوران جذب نہیں کر پاتا. اسی طرح اگر زمین کی پی ایچ ساڑھے 8 سے زیادہ ہو تو پودا ان چاروں اجزاء کے ساتھ ساتھ مٹی سے کاپر بھی جذب نہیں کر پاتا. لہذا اگر آپ کی زمین میں اجزائے صغیرہ کی کمی ہو اور زمین کی پی ایچ بھی 8 یا ساڑھے 8 سے زیادہ ہو تو ان اجزائے صغیرہ کو زمین میں ڈالنے کی بجائے پانی میں حل کر کے فصل پر سپرے کر نا زیادہ بہتر ہے.

Post image
👍 ❤️ 6
Image
Link copied to clipboard!