🌎دلچسپ معلومات🌎
February 5, 2025 at 05:36 PM
صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر.29 "لڑکی جو فلسطین سے آئ تهی"" ترتیب و پیشکش👇👇👇 ..........🌹آزادالفت🌹 سلطان ایوبی نے سرحد کے ساتھ ساتھ گشتی پہرے کا انتظام کر رکھا تھا۔ ان میں سے تین دستوں کا ہیڈ کواٹر سوڈان اور مصر کی سرحد سے چار پانچ میل اندر کی طرف تھا ۔ ہیڈ کواٹر کے خیمے ایسی جگہ نصب کیے گیے تھے جہاں آندھیوں سے بچنے کی اوٹ تھی مگر اس آندھی نے ان کے خیمے اُکھاڑ پھینکے تھے ۔ گھوڑوں اور اونٹوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا ۔ آندھی رُکی تو سپاہی خیمے وغیرہ سنبھالنے میں مصروف ہو گئے ۔ ان تین دستوں کا کمانڈر ایک تُرک احمد کمال تھا ۔ وہ ایک خوبرو اور گورے رنگ کا تنو مند مرد تھا ۔ وہ بھی آندھی رُکتے ہی باہر آگیا اور ساز و سامان اور جانوروں کا جائزہ لے رہا تھا۔ فضا گرد سے صاف ہوگئی تھی ۔ ایک سپاہی نے ایک طرف اشارہ کر کے اسے کہا …… ''کماندار! وہ گھوڑا اور سوار ہمارا تو نہیں ؟''…… ''ہم نے ابھی لڑکیوں کو فوج میں شامل نہیں کیا''۔ احمد کمال نے جواب دیا …… وہ لڑکی معلوم ہوتی ہے۔ بال بکھرے ہوئے صاف نظر آرہے تھے ۔ وہ اسی سپاہی کو ساتھ لے کر دوڑ پڑا ۔ ایک گھوڑا سر نیچے کیے نہایت ہی آہستی آہستی آرہا تھا ۔ اسے چارے کی بو آئی تو ہیڈ کواٹر کے گھوڑوں کی طرف چل پڑا۔ گھوڑے پر ایک لڑکی اس طرح سوار تھی کہ اس کے بازو گھوڑے کی گردن کے ادھر ادھر تھے اور لڑکی آگے کو اس طرح جھکی ہوئی تھی کہ اس کاسر گھوڑے کی گردن سے ذرا پیچھے تھا ۔ لڑکی کے بال بکھر کر آگے آگئے تھے۔ احمد کمال کے پہنچنے تک گھوڑا وہاں بندھے ہوئے گھوڑوں کے پاس جا کر ان کا چارہ کھانے لگا تھا ۔ احمد کمال نے لڑکی کے پائوں رکابوں سے نکا لے اور اسے گھوڑے سے اتار کر بازوں پر اُٹھا لیا ۔ سپاہی نے کہا ……''زندہ ہے ۔ فرنگی معلوم ہوتی ہے ۔ اس کے گھوڑے کو پانی پلاو ''…… وہ لڑکی کو اپنے خیمے میں لے گیا۔ لڑکی کے بال ریت سے اٹے ہوئے تھے۔ احمد کمال نے اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے پھر منہ میں پانی کے قطرے ٹپکانے لگا ۔ لڑکی نے آنکھیں کھول دیں ۔ دو چار لمحے احمد کمال کو حیرت سے دیکھتی رہی اور اچانک اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔ احمد کمال کا رنگ گورا دیکھ کر اس نے انگریز ی میں پوچھا …… ''میں فلسطین سے ہوں ؟''…… احمد کمال نے سر ہلا کر اسے سمجھانا چاہا کہ میں یہ زبان نہیں سمجھتا ۔ لڑکی نے عربی زبان میں پوچھا …… ''تم کون ہو ؟ میں کہا ں ہوں ؟'' ''میں اسلامی فوج کا معمولی سا کماندار ہوں ''۔ احمد کمال نے جواب دیا ……''اور تم مصر میں ہو ''۔ لڑکی کی آنکھیں اُبل پڑیں اور وہ اس قدر گھبرائی جیسے پھر بے ہوش ہوجائے گی ۔ احمد کمال نے کہا …… '' ڈرو نہیں ۔ سنبھالو اپنے آپ کو ''…… اس نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کہا ……''میں جان گیا ہوں کہ تم فرنگی ہو ۔ میری مہمان ہو ۔ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ''…… اس نے ایک سپاہی کو بلایا اور لڑکی کے لیے پانی اور کھانا منگوایا۔ لڑکی نے لپک کر پانی کا پیالہ اُٹھا لیا اور منہ سے لگا کر بے صبری سے پینے لگی۔ احمد کمال نے پیالہ اس کے ہونٹوں سے ہٹا کر کہا ……''آہستہ ۔ پہلے کھانا کھا لو ۔ پانی بعد میں پینا ''…… لڑکی نے گوشت کا ایک ٹکڑا اُٹھالیا۔ پھر وہ کھانا کھاتی رہی او پانی پیتی رہی ۔ ا س کے چہرے پر رونق واپس آگئی ۔ احمد کمال نے ایک خیمہ الگ لگوا رکھا تھا جو اس کا غسل خانہ تھا ۔ وہاں پانی کی کمی نہیں تھی ۔ خیمہ گاہ ایک نخلستان کے قریب تھی ۔ احمد کمال نے کھانے کے بعد لڑکی کو غسل والے خیمے میں داخل کر کے پردے باندھ دئیے۔ لڑکی نے غسل کرلی لیکن وہ بہت ہی خوف زدہ تھی کیونکہ وہ اپنے دشمن کی پناہ میں آگئی تھی جہاں اسے اچھے سلوک کی توقع نہیں تھی ۔ اس کے ذہن میں بچپن سے یہ ڈالا جاتا رہا تھا کہ مسلمان وحشی ہوتے ہیں اور عورت کے لیے تو وہ درندے ہیں ۔ اس خوف کے ساتھ اس پر حبشیوں کا ، مگر مچھوں کا اور صحرائی آندھی کا خوف طاری تھا۔ اپنے ساتھ کی دونوں لڑکیوں کی موت اور و ہ بھی ایسی بھیانک موت ، اس کے رونگٹے کھڑے کر رہی تھی۔ اس نے غسل کرتے ہوئے بڑی شدت سے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنے ناپاک وجود کو دھونے کی کوشش کر رہی ہے جسے دنیا کا پانی پاک نہیں کر سکتا ۔ اس نے کسمپرسی کی حالت میں تنگ آ کر اپنے آپ کو صورت حال کے حوالے کر دیا ۔ احمد کمال نے دیکھ لیا تھا کہ ایسے حسن اور ایسے دلگداز جسم والی لڑکی معمولی لڑکی ۔ مصر کے اس حصے میں ایسی فرنگی لڑکی کیسے آسکتی تھی ؟ اس نے لڑکی سے پوچھا تو لڑکی نے جواب دیا کہ وہ قافلے سے بچھڑ گئی ہے۔ آندھی میں گھوڑا بے لگام ہوگیا تھا۔ احمد کمال ایسے جواب سے مطمئن نہیں ہوسکتا تھا ۔اس نے تین چار اور سوال کیے تو لڑکی کے ہونٹ کانپنے لگے ۔ احمد کمال نے کہا ……''اگر تم یہ کہتی کہ تم اغوا کی ہوئی لڑکی ہو اور آندھی نے تمہیں چھڑا دیا ہے تو شاید میں مان جاتا ۔ تمہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا ''۔ اتنے میں اس سپاہی نے جو احمد کمال کے ساتھ تھا ۔ خیمے کا پردہ اُٹھایا اور ایک تھیلا اور ایک مشکیزہ احمد کمال کو دے کر کہا کہ یہ اس لڑکی کے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ احمد کمال تھیلا کھولنے لگا تو لڑکی نے گھبرا کر تھیلے پر ہاتھ رکھ لیا ۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ احمد کمال نے تھیلا اسے دے کر کہا …… ''لو اسے خود کھول کر دکھاو''۔ لڑکی کی زبان جیسے گنگ ہوگئی تھی ۔ اس نے بچوں کے انداز سے تھیلا پیٹھ پیچھے کر لیا ۔ احمد کمال نے کہا ''یہ تو ہو نہیں سکتا کہ میں تمہیں کہہ دوں کہ جاو چلی جاو ۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روکوں، لیکن ایک ایسی لڑکی کو آبادیوں سے دور اکیلی گھوڑے پر بے ہوشی کی حالت میں بھٹکتی ہوئی پائی گئی ہے اسے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔ یہ میرا انسانی فرض ہے ۔ مجھے اپنا ٹھکانہ بتادو۔ میں تمہیں اپنے سپاہیوں کے ساتھ حفاظت سے پہنچادوں گا ۔ اگر نہیں بتاو گی تو تمہیں متشبہ لڑکی سمجھ کر قاہرہ اپنی حکومت کے پاس بھیج دوں گا۔ تم مصر ی نہیں ہو۔ تم سوڈانی بھی نہیں ہو ''۔ لڑکی کے آنسو بہنے لگے۔ وہ جس مصیبت سے گزر کر آئی تھی اس کی دہشت اور ہولناکی اس پر پہلے ہی غالب تھی ۔ اس نے تھیلا احمد کمال کے آگے پھینک دیا ۔ احمد نے تھیلا کھولا تو اس میں سے کچھ کھجوریں ، دو چار چھوٹی موٹی عام سی چیزیں نکلیں اور ایک تھیلی نکلی۔ یہ کھولی تو اس میں سے سونے کے بہت سے سکے اور ان میں سونے کی باریک سی زنجیر کے ساتھ چھوٹی سی سیاہ لکڑی کی صلیب نکلی ۔ احمدکمال اس سے یہی سمجھ سکا کہ لڑکی عیسائی ہے ۔ اسے غالباً معلوم نہیں تھا کہ جو عیسائی مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے صلیبی لشکر میں شامل ہوتا ہے وہ ایک صلیب پر حلف اُٹھاتا ہے اور چھوٹی سی ایک صلیب ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہے ۔ احمد کمال نے اسے کہا کہ اس تھیلے میں میرے سوال کا جواب نہیں ہے ۔ ''اگر میں یہ سارا سونا تمہیں دے دوں تو میری مدد کرو گے ؟''لڑکی نے پوچھا ۔ کیسی مدد ؟ ''مجھے فلسطین پہنچا دو ''۔ لڑکی نے جواب دیا ……''اور مجھ سے کوئی سوال نہ پوچھو''۔ ''میں فلسطین تک بھی پہنچا دوں گا لیکن سوال ضرور پوچھوں گا ''۔ ''اگر مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھو تو اس کا الگ انعام دوں گی ''۔ ''وہ کیا ہوگا ؟'' ''گھوڑا تمہیں دے دوں گی ''۔ لڑکی نے جواب دیا…… ''اور تین دنوں کے لیے مجھے اپنی لونڈی سمجھ لو ''۔ احمد کمال نے اس سے پہلے ہاتھ میں کبھی اتنا سونا نہیں اُٹھایا تھا اور اس نے ایسا حیران کن حسن اور جسم بھی نہیں دیکھا تھا ۔ اس نے اپنے سامنے پڑے ہوئے سونے کے چمکتے ہوئے ٹکڑوں کو دیکھا پھر لڑکی کے ریشمی بالوں کو دیکھا جو سونے کی تاروں کی طرح چمک رہے تھے ، پھر اس کی آنکھوں کو دیکھا جن میں وہ طلسماتی چمک تھی جو بادشاہوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا کر تی ہے ۔ وہ تنو مند مرد تھا کماندار تھا۔ ان دستوں کا حاکم تھا جو سرحد پر پہرہ دے رہے تھے۔ اسے روکنے، پوچھنے اور پکڑنے والا کوئی نہ تھا مگر اس نے سکے تھیلی میں ڈالے، صلیب بھی تھیلی میں رکھی اور تھیلی لڑکی کی گود میں رکھ دی ۔ ''کیوں ؟''لڑکی نے پوچھا ……''یہ قیمت تھوڑی ہے؟'' ''بہت تھوڑی ''۔ احمد کمال نے کہا ……''ایمان کی قیمت خدا کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ''……لڑکی نے کچھ کہنا چاہا لیکن احمد کمال نے اسے بولنے نہ دیا اور کہا …… ''میں اپنا فرض اور اپنا ایمان فروخت نہیں کر سکتا ۔ سارا مصر میرے اعتماد پر آرام کی نیند سوتا ہے ۔ تین مہینے گزرے سوڈانیوں نے قاہرہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اگر میں یہاں نہ ہوتا اور اگر میں ان کے ہاتھ اپنا ایمان فروخت کر دیتا تو یہ لشکر قاہرہ میں داخل ہو کر تباہی برپا کر دیتا ۔ تم مجھے اس لشکر سے زیادہ خطرناک نظر آتی ہو ۔ کیا تم جاسوس نہیں ہو ؟'' ''نہیں !'' ''تم یہی بتا دو کہ تمہیں آندھی نے کسی ظالم کے پنجے سے بچایا ہے یا تم آندھی سے بچ کر نکلی ہو ؟''……لڑکی نے بے معنی سا جواب دیا تو احمد کمال نے کہا ……''مجھے تمہارے متعلق یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو ۔ میں تمہیں کل قاہرہ کے لیے روانہ کر دوں گا ۔ وہاں ہمارا جاسوسی اور سراغرسانی کا ایک محکمہ ہے وہ جانے اور تم جانو ۔ میرا فرض پورا ہوجائے گا ''۔ ''اگر اجازت دو تو میں اس وقت ذرا آرام کرلوں ''۔ لڑکی نے کہا ……''کل جب قاہرہ کے لیے مجھے روانہ کرو گے تو شاید تمہارے سوالوں کا جواب دے دوں''۔ لڑکی رات بھر کی جاگی ہوئی اور دن کے ایسے خوفناک سفر کی تھکی ہوئی تھی ۔ لیٹی اور سو گئی ۔ احمد کمال نے دیکھا کہ وہ نیند میں بڑبڑاتی تھی۔ بے چینی میں سر ادھر ادھر مارتی تھی اور ایسے پتہ چلتا تھا جیسے خواب میں رو رہی ہو ۔ احمد کمال نے اپنے ساتھیوں کو بتادیا کہ ایک مشکوک فرنگی لڑکی پکڑی گئی ہے جسے کل قاہرہ بھیجا جائے گا۔ اس کے ساتھی احمد کمال کے کردار سے واقف تھے ۔ کوئی بھی ایسا شک نہیں کر سکتا تھا کہ اس نے لڑکی کو بد نیتی سے اپنے خیمے میں رکھا ہے۔ اس نے لڑکی کا گھوڑا دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ گھوڑا اعلیٰ نسل کا تھا اور جب اس نے زین دیکھی تو اس کے شکوک رفع ہوگئے ۔ زین کے نیچے مصر کی فوج کا نشان تھا ۔ یہ گھوڑا احمد کمال کی اپنی فوج کا تھا ۔ حبشیوں نے آندھی کی وجہ سے تعاقب ترک کردیا تھا ۔ وہ واپس زندہ پہنچ گئے تھے۔ پروہت نے فیصلہ دے دیا تھا کہ لڑکیاں آندھی میں ماری گئی ہوں گی ۔ لہٰذا تعاقب میں کسی کو بھیجنا بیکار ہے۔ وقت بھی بہت گزر گیا تھا ۔ لیکن رجب پر آفت نازل ہو رہی تھی ۔ اس سے حبشی بار بار یہی ایک سوال پوچھتے تھے ۔ ''لڑکیاں کہاں ہیں ؟''…… اور قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ حبشیوں نے اسے اذیتیں دینی شروع کردیں ۔ تلوار کی نوک سے اس کے جسم میں زخم کرتے اور اپنا سوال دہراتے تھے۔ حبشیوں نے اس کے ساتھیوں کو بھی درختوں کے ساتھ باندھ دیا اور ان کے ساتھ بھی یہی ظالمانہ سلوک کر نے لگے۔ رجب کو خدا اپنی قوم اور ملک سے سے غداری کی سزا دے رہا تھا ۔رات کو بھی اسے نہ کھولا گیا ۔ اس کا جسم چھلنی ہوگیا تھا ۔ احمد کمال کے خیمے میں لڑکی سوئی ہوئی تھی ۔ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے جاگی تھی ۔ احمد کمال نے اسے کھانا کھلایا تھا ۔ اس کے بعد وہ پھر سو گئی تھی ۔ اس سے دو تین قدم دور احمد کمال سویا ہوا تھا۔ رات گزرتی جا رہی تھی ۔ خیمے میں دیا جل رہا تھا ۔ اچانک لڑکی کی چیخ نکل گئی ۔ احمد کمال کی آنکھ کھل گئی۔ لڑکی بیٹھ گئی تھی ۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا ۔ چہرے پر گھبراہٹ تھی ۔ احمد کمال اس کے قریب ہوگیا ۔ لڑکی تیزی سے سرک کر اس کے ساتھ لگ گئی اور روتے ہوئے بولی ……''ان سے بچائو ۔ وہ مجھے مگر مچھوں کے آگے پھینک رہے ہیں ۔ وہ میرا سر کاٹنے لگے ہیں ''۔ ''کون؟'' ''وہ بھدے حبشی ''۔لڑکی نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا ……''وہ یہاں آئے تھے''۔ احمد کمال کو حبشیوں کی قربانی کا علم تھا ۔اسے شک ہوا کہ اسے شاید قربانی کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ اس نے لڑکی سے پوچھا تو لڑکی نے بازو احمد کمال کے گلے میں ڈال دئیے ۔ کہنے لگی۔ '' مت پوچھو ۔ میں خواب دیکھ رہی تھی '' …… احمد کمال دیکھ رہا تھا کہ وہ تو بہت ہی ڈری ہوئی تھی ۔اس نے اسے تسلیاں دیں اور یقین دلایا کہ یہاں سے اسے اُٹھانے کے لیے کوئی نہیں آئے گا ۔ لڑکی نے کہا …… '' میں سو نہیں سکوں گی ۔ تم میرے ساتھ باتیں کرسکتے ہو ؟ میں اکیلی جاگ نہیں سکوں گی ۔ میں پاگل ہو جائوں گی ''۔ احمد کمال نے کہا …… ''میں تمہارے ساتھ جاگتا رہوں گا ''…… اس نے لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا ……''جب تک میرے پاس ہو تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ''۔ اس نے اس پر عمل بھی کر کے دکھا دیا ۔ لڑکی کے ساتھ اس نے حبشیوں کے معتلق یا اس کے متعلق کوئی بات نہ کی نہ پوچھی ۔ اس ترکی اور مصر کی باتیں سناتا رہا ۔ لڑکی اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی ۔ احمد کمال کا لب و لہجہ شگفتہ تھا اس نے لڑکی کا خوف دور کر دیا اور لڑکی سو گئی۔ لڑکی کی آنکھ کھلی تو صبح طلوع ہو رہی تھی ۔ ان نے دیکھا کہ احمد کمال نماز پڑھ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی احمد کمال نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور آنکھیں بند کرلیں ۔ لڑکی اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی رہی ۔ احمد کمال فارغ ہوا تو لڑکی نے پوچھا ……''تم نے خدا سے کیا مانگا تھا ؟'' ''بدی کے مقابلے کی ہمت!''احمد کمال نے جواب دیا ۔ ''تم نے خدا سے کبھی سونا اور خوبصورت بیوی نہیں مانگی ؟'' '' یہ دونوں چیزیں خدا نے مانگے بغیر مجھے دے دی تھیں ''…… احمد کمال نے کہا ''لیکن ان پر میرا کوئی حق نہیں ۔ شاید خدا نے میرا امتحان لینا چاہا تھا ''۔ ''تمہیں یقین ہے کہ خدا نے تمہیں بدی کا مقابلہ کرنے کی ہمت دے دی ہے ؟'' ''تم نے نہیں دیکھا ؟''…… احمد کمال نے جواب دیا ۔ ''تمہارا سونا اور تمہارا حسن مجھے اپنی راہ سے ہٹا نہیں سکے ۔ یہ میری کوشش اور اللہ کی دین ہے ''۔ ''کیا خدا گناہ معاف کردیا کرتا ہے ؟''لڑکی نے پوچھا ۔ ''ہاں !ہمارا خدا گناہ معاف کر دیا کرتا ہے ''۔ احمد کمال نے جواب دیا ……''شرط یہ ہے کہ گناہ بار بار نہ کیا جائے ''۔ لڑکی نے سر جھکا لیا ۔ احمد کمال نے اس کی سسکیاں سنیں تو اس کا چہرہ اوپر اُٹھایا ۔ وہ رو رہی تھی ۔ لڑکی نے احمد کمال کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کئی بار چوما۔ احمد کمال نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ۔ لڑکی نے کہا…… ''آج ہم جدا ہوجائیں گے ۔ تم مجھے قاہرہ بھیج دو گے ۔ میں اب آزادنہیں ہو سکوں گی ۔ میرا دل مجبور کر رہا ہے کہ تمہیں بتا دوں کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آئی ہوں ۔ پھر تمہیں بتاوں گی کہ اب میں کیا ہوں ''۔ ٭ ٭ ٭ جاری ھے
❤️ 👍 7

Comments