
Nigarishat Book Store
377 subscribers
About Nigarishat Book Store
گھر بیٹھے ہندوستان میں کہیں سے بھی علمی، فکری، تحقیقی درسی و غیر درسی کتابوں کے لیے نگارشات بک اسٹور دیوبند سے رابطہ کریں
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

کتاب کا نام: قافلہ کیوں لٹا؟ عالم اسلام کی تاریخ پر ایک مجتہدانہ نظر (تصنیف: تمیم انصاری....ترجمہ: محمد ذکی کرمانی) صفحات: 490 قیمت: 595₹ آل انڈیا فری ڈیلیوری ملنے کا پتہ: نگارشات بک اسٹور دیوبند https://wa.me/+918791519573 ''یہ ایک عظیم کتاب ہے اور تمیم انصاری ایک عظیم مصنف۔ بعض کتابیں مطالعے کے دوران ہی قاری کا نقطہ نظر تبدیل کرتی جاتی ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں اس کیفیت سے دوچار ہوا جو آج سے چالیس سال قبل مشہور اردو نقاد حسن عسکری کو پڑھتے ہوئے مجھ پر طاری ہوئی تھی۔ یعنی مغرب سے ہٹ کر ایک ایسے بیانیہ کا وجود اور اس کی فعالیت کا احساس جسے ہم اپنا کہہ سکیں۔ ارتقا شخصی ہو یا قومی، ملی بیانیوں کا اِدرَاک وہ پہلاقدم ہے جسے اٹھائے بغیر ارتقا کا یہ سفر طے نہیں ہو سکتا۔ چودہ سو سالہ تاریخ کو ایک ایسے بیانیہ کی لڑی میں پِرونا جو اَپنا ہو، اور ایک واضح وابستگی کے ساتھ اس طرح تجزیہ کرنا کہ معروضیت کہیں قربان نہ ہو نے پائے، اس کا وہ وَصف ہے جس نے اِس کتاب اور (اس کے) مصنف (دونوں)کو ایک ممتاز مقام عطا کر دیا ہے۔'' (ص 9) ملنے کا پتہ: نگارشات بک اسٹور دیوبند https://wa.me/+918791519573 ہر طرح کی علمی، فکری اور تحقیقی کتابوں سے آگاہی کے لیے واٹس ایپ چینل ضرور فالو کریں👇 https://whatsapp.com/channel/0029Vaf3eUJFHWq98AplTh2Q

Negarishat Book Store نگارشات بک اسٹور دیوبند کے قیام کے پندرہ ماہ بعد اللہ کے فضل و کرم سے بک اسٹور کے اسٹاک میں کتابیں رکھنے کے لیے مزید دو الماریاں بنوا لی گئی ہیں۔ اہلِ علم و ادب سے درخواست ہے کہ وہ ایسی ادبی کتابوں کی رہنمائی کریں جو طلبۂ مدارس اور بالخصوص زبان و ادب کے شائقین کے لیے مفید ہوں۔ ساتھ ہی یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مکتبے میں کتابیں موضوعات کے اعتبار سے ترتیب وار رکھی جائیں تاکہ طالبِ کتب کو اپنے موضوع کی کتابوں کے انتخاب میں آسانی ہو۔ کچھ تصاویری جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔ ہم ابھی عید الاضحیٰ کے موقع سے وطن کے سفر پر ہیں۔ بقرعید کے بعد بہتر سے بہتر کی سعی کی جائے گی_علاوہ ازیں، آپ ہندوستان میں گھر بیٹھے، کہیں سے بھی اپنی ضرورت اور پسندیدہ کتابوں کی خریداری کے لیے ہمارے بک اسٹور سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ #عبدالرحمن قاسمی #پروپرائٹر، نگارشات بک اسٹور دیوبند 5 جون 2025ء

#خود کو پسند پر متحرک رکھیے (نفسیات٬ چھٹی قسط) محمد شمس قمر تصور کیجیے ایک باغ ہے، جس میں رنگ برنگے پھول کھل رہے ہیں۔ اچانک ان پھولوں پر وقت سے پہلے خزاں کے اثرات پڑ جائیں، تو باغ کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح طلبہ کی زندگی میں اگر نفسیاتی مسائل آجائیں تو ان کی ذہانت، محنت اور کامیابی کی چمک دھندلا جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جو معصومیت آنکھوں میں ہو، جو چمک چہرے پر ہو اور جو اُمید دل میں ہو، وہ اکثر طالب علم کے سینے میں چھپی ہوتی ہے۔ لیکن یہی سینہ جب دباؤ، ناکامی، اور سماجی توقعات سے لبریز ہو جائے، تو مسکراہٹ چھن جاتی ہے، اور دل کا آنگن اجڑ سا جاتا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں آج کا طالب علم صرف کتابوں کے بوجھ تلے نہیں دبا ہے ، بلکہ وہ ذہنی اور نفسیاتی چٹانوں تلے بھی کچلا جا رہا ہے۔ طالب علم کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ بنتا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اندر کے خلفشار، دباؤ، مایوسی، اور الجھنوں سے کیسے نمٹے؟ جب ذہنی الجھنیں بڑھتی ہیں تو پڑھائی سے دل ہٹتا ہے، اعتماد کمزور ہوتا ہے، اور زندگی بے رنگ لگنے لگتی ہے۔ آپ اپنے آس پاس دو طرح کے طلبہ پاتے ہیں ، ایک وہ طالب علم ہے جو خوش مزاج ہے، والدین کا فرماں بردار، اساتذہ کا چہیتا، اور دوستوں کا محبوب ہے ۔ اس کی زندگی میں الفت ، محبت، اور اعتماد ہے۔ ایسے طالب علم کی شخصیت ایک کھلا آسمان ہے، جس میں کامیابی کے پرندے آزادی سے پرواز کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طالب علم ہے جس کے چہرے پر الجھن ہے، مزاج میں تلخی، اور دل میں مایوسی ہے ۔ گھر کا ماحول کشیدہ، اسکول میں تنہائی، اور ہر دن ایک نیا زخم ہے ۔ ایسے طالب علم کے اندر ایک جنگ چل رہی ہوتی ہے، جو اسے باہر سے کمزور اور اندر سے ٹوٹا ہوا بنا دیتی ہے۔ یہ جو دو طرح کے طلبہ آپ دیکھ رہے ہیں ،اور دو طرح کا فرق آپ محسوس کر رہے ہیں دراصل یہ اس وجہ سے ہے کہ طلبہ دو طرح کی تحریکات کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے ایک تحریک ان طلبہ کو پرامید اور کامیابیوں سے قریب تر کرتی ہے تو وہیں دوسری تحریک ان طلبہ کو کمزور مایوس اور شکست سے دوچار کردیرتی ہے_ 1. ان دو تحریکوں میں سے پہلی قسم: "بچاؤ کی تحریک" (Away from Motivation) – یعنی انسان کسی ناپسندیدہ یا نقصان دہ چیز سے بچنے کے لیے کام کرتا ہے۔ 2. دوسری قسم: "چاہت کی تحریک" (Towards Motivation) – یعنی انسان کسی پسندیدہ یا مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ دونوں اقسام کا اپنا اپنا کردار ہے، لیکن طویل مدتی کامیابی اور ذہنی سکون کے لیے "چاہت کی تحریک" پر توجہ مرکوز کرنا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ آئیے ایک مثال سے اسے سمجھتے ہیں۔ فرض کریں آپ ایک طالب علم ہیں اورآپ اچھے نمبرات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر آپ کی تحریک "بچاؤ کی تحریک" ہو، تو آپ شاید ناکامی کے خوف، والدین کی ڈانٹ، یا کسی امتحان میں ناکام ہونے سے بچنے کی کوشش میں محنت کریں گے۔ اگرچہ یہ خوف وقتی طور پر آپ کو متحرک رکھ سکتا ہے، لیکن جیسے ہی دباؤ کم ہوگا، آپ کا جذبہ بھی کمزور ہو جائے گا، کیونکہ آپ کی تحریک منفی بنیاد پر قائم تھی۔ دوسری طرف، اگر آپ کی تحریک "چاہت کی تحریک" ہو جیسے آپ ایک کامیاب انجینئر بننا چاہتے ہوں یا اپنے خوابوں کے ادارہ میں داخلہ لینا چاہتے ہوں ، تو آپ کے پاس ایک واضح اور مثبت مقصد ہوگا۔ اگرچہ راستے میں رکاوٹیں آئیں گی، لیکن آپ اپنے رویے اور محنت کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہوں گے۔ "بچاؤ کی تحریک" کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ اس چیز سے دور ہو جاتے ہیں جس سے آپ ڈرتے تھے، تو آپ کی تحریک ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً، بعض طلبہ صرف امتحان کے قریب پڑھتے ہیں تاکہ ناکامی سے بچ سکیں۔ امتحان ختم ہوتے ہی وہ پھر سے لاپروائی کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے طویل مدتی کامیابی متاثر ہوجاتی ہے۔ جب کہ "چاہت کی تحریک" آپ کو مسلسل محنت پر آمادہ رکھتی ہے۔ ہر نیا قدم، ہر نئی مہارت، ہر نئی کامیابی آپ کو اپنے خواب کے قریب لاتی ہے۔ اگر آپ کا مقصد سافٹ ویئر ڈویلپر بننا ہے، تو ہر نئی پروگرامنگ زبان سیکھنے کے ساتھ آپ کی تحریک اور عزم کو بلندی حاصل ہوگی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کسی آزمائش میں ناکام ہو بھی جائیں، تب بھی آپ اپنی کوشش جاری رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا مقصد واضح اور مثبت ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ کا مقصد اچھا مدرس بننا ہے تو جیسے جیسے آپ تدریسی مہارتیں سیکھتے ہیں، طلبہ کے ساتھ بہتر تعلقات بناتے ہیں، اور تعلیمی مواد کو مؤثر انداز میں پیش کرنا سیکھتے ہیں، ویسے ویسے آپ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اورآپ کی تحریک بڑھتی جاتی ہے۔ نتیجہ کے وقت ، "چاہت کی تحریک" ذہنی دباؤ کا سبب نہیں بنتی، بلکہ آپ کے ذہن کو مثبت اور پرجوش رکھتی ہے۔ جب آپ اپنے مقصد پر مرکوز ہوتے ہیں تو چیلنجز بھی آپ کو ترقی کے مراحل محسوس ہوتے ہیں۔ آپ صرف کسی بری چیز سے بچنے کی فکر نہیں کرتے، بلکہ کسی عظیم چیز کو حاصل کرنے کی لگن میں رہتے ہیں، جو آپ کو ذہنی طور پر زیادہ مستحکم اور پرعزم رکھتی ہے۔ ہمارے طلبہ کی زندگی میں ان دونوں اقسام کے فرق کو روزمرہ کی مثالوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آپ صرف والدین کی ناراضگی سے بچنے کے لیے پڑھتے ہیں، تو شاید آپ امتحان میں کامیاب ہو جائیں، مگر آپ کو حقیقی خوشی محسوس نہیں ہوگی۔ لیکن اگر آپ اپنے شوق، مقصد اور مستقبل کی بہتری کے لیے محنت کرتے ہیں، تو یہ مثبت وژن نہ صرف آپ کو کامیابی دے گا بلکہ آپ کی ذہنی صحت بھی بہتر رہے گی۔ نتیجتاً، آپ کو چاہیے کہ آپ "چاہت کی تحریک" کو اپنائیں۔ اس بات پر غور کریں کہ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ صرف اس پر کہ آپ کس چیز سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہی مثبت تحریک آپ کو آپ کی مکمل صلاحیت تک پہنچنے میں مدد دے گی۔ یاد رکھیے! زندگی میں کامیابی صرف ذہانت، وسائل یا نصیب سے نہیں آتی — بلکہ سب سے اہم چیز تحریک ہے۔ وہ اندرونی آگ، جو سرد حالات میں بھی انسان کو گرم رکھتی ہے۔ جو تھکن کے باوجود ہمت بندھاتی ہے، اور جو وقت کی آزمائش میں بھی انسان کے ارادوں کو بکھرنے نہیں دیتی۔ ہاں! سبھی طلبہ اس مقام پر بھی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے مستقبل اور چاہت کے مطابق فیصلہ کر سکیں تو اگر آپ بھی اسی کشمکش میں ہیں تو اس کے متعلق تدبیریں اور ہدایات راقم کے مضمون ' فیصلہ سازی' کے عنوان سے پانچویں قسط میں ملاحظہ فرمائیں٬ اس کا مطالعہ ان شاءاللہ فائدہ مند ثابت ہوگا اور مستقبل کے تحریکی فیصلے میں معاون ہوگا_ (مستفاد از : نفسیاتی صحت جدید نقطہ نظر اور اسلامی رہنمائی ۔۔۔ایس امین الحسن)