Behramlogy WhatsApp Channel

Behramlogy

31 subscribers

About Behramlogy

Behramlogy is a platform of two renowned social, human, mental, and journalism professionals. These are Mir Behram Baloch (Sr. Journalist) and Mir Behram Lehri (Social Activist). They have been working in Pakistan for more than 18 years for positive change in all sectors and segments of society. They believe every human has the ability to bring change, just he/she can start from his/her self. They have created a platform for the name of "Behramlogy" on Facebook, X, YouTube, Instagram, and WhatsApp. Their objectives are only to bring positive and correct information around the world to update you. They both are human beings who could make mistakes, it is requested from all for positive feedback and suggestions to strengthen the Platform. Best wishes for Positive Information Mir Behram Baloch & Mir Behram Lehri

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Behramlogy
Behramlogy
2/13/2025, 5:53:14 AM

**بلوچستان میں میٹرک کے امتحانات میں بیروکریسی کا کردار: ایک نظر** بلوچستان میں تعلیمی نظام کی حالت زار پر ہر سال نئی رپورٹس اور تجزیے سامنے آتے ہیں، مگر حکومت کی طرف سے کوئی خاص اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ جب میٹرک کے امتحانات کا موسم آتا ہے، تو اچانک صوبے کی بیروکریسی جاگ اٹھتی ہے اور اس امتحانی عمل کو سنبھالنے کے لئے ہزاروں افسران تعینات کر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بیروکریسی اور حکومتی ادارے متحرک ہو جاتے ہیں، مگر سال بھر کی خاموشی کا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ آخر حکومت اور ادارے پورے سال کیوں سست روی کا شکار رہتے ہیں؟ بلوچستان کے تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے مختلف اسٹڈیز اور تحقیق کی گئی ہے اور حکومت کو متعدد بار سفارشات بھی دی جا چکی ہیں، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس کے باوجود، صوبے میں 30 لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں اسکول جانے سے محروم ہیں اور ان کے لیے کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہزاروں "گھوسٹ سکولز" اور اساتذہ موجود ہیں، جن کے بارے میں کوئی حکومتی ادارہ کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔ تعلیمی اداروں کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اسکولوں کی عمارات خستہ حال ہیں، ٹوائلٹس کی کمی ہے، اور سلیبس بھی کئی دہائیوں پرانا ہے۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے تعلیمی نظام کا امتحانی نظام بھی انگریزوں کے دور کا ہے، جس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس کے تحت بیروکریسی اور سیاسی نمائندے، جن کے پاس وسائل ہیں، اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل نہیں کرتے۔ ان کے بچے ہمیشہ ان اسکولوں سے دور رہتے ہیں جو سرکاری طور پر عوام کو تعلیم فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اب جبکہ میٹرک کے امتحانات کا موسم آیا ہے، ہزاروں افسران کو ان امتحانات کی نگرانی کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔ ان افسران کے رہائش، سفری اخراجات اور کھانے پینے پر کروڑوں روپے خرچ ہوں گے، جو بلوچستان کے محدود بجٹ پر مزید بوجھ ڈالیں گے۔ ان افسران کے دیگر معمولی کام کون کرے گا؟ ایک مثال کے طور پر، اگر کسی شخص کو سول سیکریٹریٹ میں اہم کام کے لیے جانا ہو، تو وہاں یہ کہا جائے گا کہ سیکرٹری صاحب ایک مہینے کے لیے امتحانات کی نگرانی میں مصروف ہیں۔ اسی طرح، دیگر افراد بھی مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں کیونکہ یہ افسران اپنے امتحانی فرادی معاملات میں محصور ہوتے ہیں۔ اگر بیروکریسی اتنی شفاف ہوتی تو بلوچستان کا شمار کرپٹ ترین صوبوں میں نہ ہوتا۔ اور اگر کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز اتنے مؤثر ہوتے، تو شاید وہ صوبے میں سیکورٹی کے مسائل پر قابو پا سکتے۔ جب خواتین اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں، تو ایسے افسران سے توقع رکھنا کہ وہ نقل کو روکنے میں کامیاب ہوں گے، ایک معقول بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بیماری کی جڑ کو ختم نہیں کیا جائے گا، مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ امتحانات کے دوران بیروکریسی کی تیزرفتاری اس بات کی غماز ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات کو درست نہیں کر پا رہی۔ یہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب ان اداروں کے فعال ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر سال بھر کی سستی اور خاموشی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ حکومت اور بیروکریسی کا فوکس کہیں اور ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام میں تبدیلی اور اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور محض امتحانات کے وقت کی مصنوعی سرگرمیوں سے آگے بڑھ کر تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ تحریر: میر بہرام لہڑی (سماجی ورکر) #میربہرام_لہڑی #mirbehramlehri #education

Link copied to clipboard!