Behramlogy
Behramlogy
February 13, 2025 at 05:53 AM
**بلوچستان میں میٹرک کے امتحانات میں بیروکریسی کا کردار: ایک نظر** بلوچستان میں تعلیمی نظام کی حالت زار پر ہر سال نئی رپورٹس اور تجزیے سامنے آتے ہیں، مگر حکومت کی طرف سے کوئی خاص اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ جب میٹرک کے امتحانات کا موسم آتا ہے، تو اچانک صوبے کی بیروکریسی جاگ اٹھتی ہے اور اس امتحانی عمل کو سنبھالنے کے لئے ہزاروں افسران تعینات کر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بیروکریسی اور حکومتی ادارے متحرک ہو جاتے ہیں، مگر سال بھر کی خاموشی کا یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ آخر حکومت اور ادارے پورے سال کیوں سست روی کا شکار رہتے ہیں؟ بلوچستان کے تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے مختلف اسٹڈیز اور تحقیق کی گئی ہے اور حکومت کو متعدد بار سفارشات بھی دی جا چکی ہیں، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس کے باوجود، صوبے میں 30 لاکھ سے زائد بچے اور بچیاں اسکول جانے سے محروم ہیں اور ان کے لیے کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ہزاروں "گھوسٹ سکولز" اور اساتذہ موجود ہیں، جن کے بارے میں کوئی حکومتی ادارہ کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔ تعلیمی اداروں کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اسکولوں کی عمارات خستہ حال ہیں، ٹوائلٹس کی کمی ہے، اور سلیبس بھی کئی دہائیوں پرانا ہے۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے تعلیمی نظام کا امتحانی نظام بھی انگریزوں کے دور کا ہے، جس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس کے تحت بیروکریسی اور سیاسی نمائندے، جن کے پاس وسائل ہیں، اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل نہیں کرتے۔ ان کے بچے ہمیشہ ان اسکولوں سے دور رہتے ہیں جو سرکاری طور پر عوام کو تعلیم فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اب جبکہ میٹرک کے امتحانات کا موسم آیا ہے، ہزاروں افسران کو ان امتحانات کی نگرانی کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔ ان افسران کے رہائش، سفری اخراجات اور کھانے پینے پر کروڑوں روپے خرچ ہوں گے، جو بلوچستان کے محدود بجٹ پر مزید بوجھ ڈالیں گے۔ ان افسران کے دیگر معمولی کام کون کرے گا؟ ایک مثال کے طور پر، اگر کسی شخص کو سول سیکریٹریٹ میں اہم کام کے لیے جانا ہو، تو وہاں یہ کہا جائے گا کہ سیکرٹری صاحب ایک مہینے کے لیے امتحانات کی نگرانی میں مصروف ہیں۔ اسی طرح، دیگر افراد بھی مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں کیونکہ یہ افسران اپنے امتحانی فرادی معاملات میں محصور ہوتے ہیں۔ اگر بیروکریسی اتنی شفاف ہوتی تو بلوچستان کا شمار کرپٹ ترین صوبوں میں نہ ہوتا۔ اور اگر کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز اتنے مؤثر ہوتے، تو شاید وہ صوبے میں سیکورٹی کے مسائل پر قابو پا سکتے۔ جب خواتین اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں، تو ایسے افسران سے توقع رکھنا کہ وہ نقل کو روکنے میں کامیاب ہوں گے، ایک معقول بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بیماری کی جڑ کو ختم نہیں کیا جائے گا، مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ امتحانات کے دوران بیروکریسی کی تیزرفتاری اس بات کی غماز ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات کو درست نہیں کر پا رہی۔ یہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب ان اداروں کے فعال ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر سال بھر کی سستی اور خاموشی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ حکومت اور بیروکریسی کا فوکس کہیں اور ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام میں تبدیلی اور اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور محض امتحانات کے وقت کی مصنوعی سرگرمیوں سے آگے بڑھ کر تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ تحریر: میر بہرام لہڑی (سماجی ورکر) #میربہرام_لہڑی #mirbehramlehri #education

Comments