
Rekhta
7 subscribers
About Rekhta
This channel is about Urdu + English poetry. Here you can find poetry of your own taste . 🥰
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

نہ فنا مری نہ بقا مری،مجھے اے شکیل نہ ڈھونڈئیے میں کسی کا حسن خیال ہوں میرا کچھ وجود عدم نہیں شکیل بدایونی

یاد آتا ہے روز و شب کوئی ہم سے رُوٹھا ہے بے سبب کوئی لبِ جُو چھاؤں میں درختوں کی وُہ مُلاقات تھی عجب کوئی جب تُجھے پہلی بار دیکھا تھا وُہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی کُچھ خبر لے کہ تیری محفِل سے دُور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی نہ غمِ زندگی ،،، نہ دردِ فراق دِل میں یُونہی سی ہے طلب کوئی یاد آتی ہیں دُور کی باتیں پیار سے دیکھتا ہے جب کوئی چوٹ کھائی ہے بارہا ، لیکن آج تو دَرد ہے عجب کوئی جن کو مِٹنا تھا مِٹ چُکے ناصرؔ اُن کو رُسوا کرے نہ اب کوئی ناصرؔ کاظمی ¹⁹⁷²-¹⁹²⁵ مجموعۂ کلام : (برگِ نَے)

کسی کی غلطی کو نظر انداز کرنے پر یہ مت سمجھیں کہ آپ نے کچھ کھو دیا ہے، یا اس کی زیادتی خاموشی اور مہربانی سے ملی ہے۔ یہ نیک اعمال ہیں جو ایک دن لوٹ کر آئیں گے، اور زندگی ہر اس شخص کو ان کا حق واپس دیتی ہے جو اس کے مستحق ہیں۔ مولانا جلاالدین رومی

امیر تیمور آج سے ساڑھے سات سو سال قبل گڈ گورننس کے اصول بتاتے ہوئے اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں " میں نے چوری کی روک تھام کے لئے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے جو آنے والے حکمرانوں کے لئے سبق بن سکتا ہے وہ یہ کہ جہان کہیں چوری کی واردات ہو تو میں اس علاقے کا داروغہ یا کوتوال کے ہاتھ کٹوا دیتا ہوں ، مجھے یقین ہے کہ جب تک کوئی داروغہ چور کا ہمدرد نہ ہو یا اپنے کام میں غفلت نہ کرے تو اس وقت تک چوری نہیں ہوسکتی ۔ میں نے گداگری کا خاتمہ اس طرح کیا کہ سارے مستحق فقیروں کے لئے سرکاری وظیفہ مقرر کیا ، مستحق فقیر وہ ہیں جو اعضائے بدن کے ناقص ہونے ہا اندھا ہونے کے باعث کام نہیں کرسکتے ۔ میں جانتا تھا جس شخص کو گدائی کی لت پڑ جائے وہ سرکاری وظیفے پر قناعت نہیں کرسکتا اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں آ سکتا اس لئے میں نے وظیفہ حاصل کرنے والے بھکاریوں کو خبردار کر رکھا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ بھیک مانگتے دیکھا تو کسی عذر کے بغیر ان کی گردن اڑا دی جائے گی ۔ آج میری حکمرانی کے پورے علاقے میں آل محمد ص یعنی اولاد رسول میں سے کوئی ایسا نہیں پاؤگے جو معاشی بدحالی کا شکار ہو ، میں نے خمس کے حصے سے جو دراصل رسول و آل رسول کا حصہ ہے تمام مستحق سادات خاندانوں کے لئے وظیفہ مقرر کیا ۔ میرے ملک میں کوئی کسی پر ظلم نہیں کرتا نہ کسی کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی سرکاری کارندہ ، کوتوال یا داروغہ کسی رعایا کے گھر میں گھس جائے اور گزشتہ دور کی طرح اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا کوئی اور چیز رشوت کے طور پر طلب کرے تو میں اس کا سر گردن پہ رہنے نہیں دیتا میں اپنے بیٹوں کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ میرے بعد مسند شاہی پہ بیٹھو تو چوروں ، ڈاکوؤں ، رہزنوں ، اور مجرموں کے ہمدرد سرکاری کارندوں اور غیر مستحق بھکاریوں پہ کبھی رحم نہ کرنا ، خاندان رسالت کا احترام کرنا ، علما ، دانشور ، شعرا اور صنعت کاروں کی حمایت کرنا ، عورتوں اور شراب سے دور رہنا یہ دونوں ام الفساڈ ہے ۔" (تیمور کی بائیو گرافی " میں ہوں تیمور " سے اقتباس )

اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی میں میرؔ کی ہم راز ہوں غالبؔ کی سہیلی دکن کے ولیؔ نے مجھے گودی میں کھلایا سوداؔ کے قصیدوں نے مرا حسن بڑھایا ہے میرؔ کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی غالبؔ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا حالیؔ نے مروت کا سبق یاد دلایا اقبالؔ نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا مومنؔ نے سجائی مرے خوابوں کی حویلی اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی ہے ذوقؔ کی عظمت کہ دیے مجھ کو سہارے چکبستؔ کی الفت نے مرے خواب سنوارے فانیؔ نے سجائے مری پلکوں پہ ستارے اکبرؔ نے رچائی مری بے رنگ ہتھیلی اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے لوگ اپنے دیئے جلانے لگے کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے یہی رستہ ہے اب یہی منزل اب یہیں دل کسی بہانے لگے خود فریبی سی خود فریبی ہے پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے اس بدلتے ہوئے زمانے میں تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے رخ بدلنے لگا فسانے کا لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے ہم تک آئے نہ آئے موسم گل کچھ پرندے تو چہچہانے لگے شام کا وقت ہو گیا باقیؔ بستیوں سے شرار آنے لگے

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی یہاں ارادۂ شرب مدام کس کا تھا اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا داغ دہلوی،

ارادہ روز کرتا ہوں، مگر کچھ کر نہیں سکتا میں پیشہ ور فریبی ہوں، محبت کر نہیں سکتا میں تم سے صاف کہتا ہوں، مجھے تم سے نہیں الفت فقط لفظی محبت ہے، میں تم پہ مر نہیں سکتا محبت کی مسافت نے بہت زخمی کیا مجھ کو ابھی یہ زخم بھرنے ہیں، میں آہیں بھر نہیں سکتا یہاں ہر ایک چہرے پر الگ تحریر لکھی ہے میری آنکھوں میں آنسو ہیں، ابھی کچھ پڑھ نہیں سکتا میں اپنی رات کی زلفوں میں خود چاندی سجاتا ہوں میں اس کی مانگ میں وعدوں کے ہیرے جَڑ نہیں سکتا " بھلے جھوٹا منافق ہوں، بہت دھوکے دئیے، لیکن محبت کی صدا ہوں میں، میں دھوکا کر نہیں سکتا " میں اس گھر کا مقیمی ہوں، جسے اوقات کہتے ہیں میں اپنی حد میں رہتا ہوں، سو آگے بڑھ نہیں سکتا ابھی کچھ شعر رہتے ہیں، مگر لکھنے نہیں ہرگز کسی کی لاج رکھنی ہے، سو ظاہر کر نہیں سکتا.

چشمِ ساقی کی ، عنایات پہ پابندی ہے اِن دِنوں وقت پہ ، حالات پہ پابندی ہے بِکھری بِکھری ہُوئی زُلفوں کے فَسانے چھیڑو مَے کشو ! عہدِ خرابات پہ پابندی ہے دِل شکن ہو کے چلے آئے، تِری محفِل سے تیری محفِل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے دَرد اُٹھا ہے لہُو بن کے اُچھلنے کے لیے آج کہتے ہیں کہ جَذبات پہ پابندی ہے ہر تمنا ہے ، کوئی ڈُوبتا لمحہ جیسے ساز مغموم ہیں ، نَغمات پہ پابندی ہے کہکشاں بامِ ثریّا کے تَلے سوئی ہے چاند بے رَنگ سا ہے، رات پہ پابندی ہے آگ سینوں میں لگی ، ساغر و مینا چھلکے کوئی کہتا تھا ، کہ بَرسات پہ پابندی ہے (دَرویش شاعر) ساغرؔ صدیقی ¹⁹⁷⁴-¹⁹²⁸

شاکر شُجاع آبادی بہت ھی کمال شاعر ھے۔ ایک سے ایک خُوبصُورت کلام پڑھنے کو ملتا ھے شاکر کا۔ نبھا نہ سکیں تاں ، سہارا نہ ڈیویں کوئی خواب میکوں ، اُدھارا نہ ڈیویں زمانے دے رلے جے ماریں تُوں پتھر رَقیباں نُوں اَکھ دا ، اشاره نہ ڈیویں میڈا ہدھتھ پکڑ کے جے ول چھوڑ ڈیویں بھنور اِچ میں ٹھیک آں ، کناره نہ ڈیویں سجن تیڈی نفرت ، ملاوٹ توں پاک اے محبت دا دھوکا ، دوباره نہ ڈیویں عُمر کھپدی ساری ، گزاری اے شاکر بڈیھپےدے وِچ تُوں ، کھپارا نہ ڈیویں. "شاکر شُجاع آبادی"