
Rekhta
February 8, 2025 at 04:03 PM
چشمِ ساقی کی ، عنایات پہ پابندی ہے
اِن دِنوں وقت پہ ، حالات پہ پابندی ہے
بِکھری بِکھری ہُوئی زُلفوں کے فَسانے چھیڑو
مَے کشو ! عہدِ خرابات پہ پابندی ہے
دِل شکن ہو کے چلے آئے، تِری محفِل سے
تیری محفِل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے
دَرد اُٹھا ہے لہُو بن کے اُچھلنے کے لیے
آج کہتے ہیں کہ جَذبات پہ پابندی ہے
ہر تمنا ہے ، کوئی ڈُوبتا لمحہ جیسے
ساز مغموم ہیں ، نَغمات پہ پابندی ہے
کہکشاں بامِ ثریّا کے تَلے سوئی ہے
چاند بے رَنگ سا ہے، رات پہ پابندی ہے
آگ سینوں میں لگی ، ساغر و مینا چھلکے
کوئی کہتا تھا ، کہ بَرسات پہ پابندی ہے
(دَرویش شاعر)
ساغرؔ صدیقی ¹⁹⁷⁴-¹⁹²⁸