New Kashmir Digital Media 📸✍️ WhatsApp Channel

New Kashmir Digital Media 📸✍️

1.0K subscribers

About New Kashmir Digital Media 📸✍️

News Anchor and Broadcast journalist from conflict side of kashmir. Facebook profile official https://www.facebook.com/profile.php?id=100083273022547 Watsapp : 03444538544 Follow us for daily updates

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

New Kashmir Digital Media 📸✍️
New Kashmir Digital Media 📸✍️
2/5/2025, 5:18:09 PM

*دیکھنا پچھتاوا نہ رہ جائے۔۔۔!!* سانپ نے مرغی کو کاٹ لیا، زہر اس کے جسم کو جلا رہا تھا۔ مرغی نے اپنی پناہ گاہ یعنی مرغی خانے میں پناہ لینے کی کوشش کی۔۔۔ لیکن دوسری مرغیوں نے اسے نکال دینا بہتر سمجھا تاکہ زہر نہ پھیلے۔ مرغی لنگڑاتے ہوئے چلی گئی، باہری درد سے زیادہ اندر کی تکلیف سے روتی ہوئی۔ وہ سانپ کے کاٹنے سے نہیں، بلکہ اپنے خاندان کی طرف سے اگنور کرنے اور ان کی بےحسی و حقارت سے زیادہ دکھی تھی، جب کہ اسے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ وہ چلی گئی، بخار میں تپتی ہوئی، ایک ٹانگ گھسیٹتے ہوئے، سرد راتوں کے رحم و کرم پر۔ ہر قدم پر ایک آنسو گرتا۔ مرغی خانے میں موجود دوسری مرغیاں اسے دور جاتا دیکھتی رہیں، اور اسے افق میں گم ہوتا ہوا دیکھ کر کچھ نے کہا: جانے دو۔۔۔ وہ ہم سے دور جا کر مر جائے گی۔ اور جب وہ مرغی آخرکار افق کی وسعت میں گم ہو گئی، تو سب نے یقین کر لیا کہ وہ مر چکی ہے۔ کچھ نے تو آسمان کی طرف دیکھا، گدھوں کو اڑتا دیکھنے کی امید میں۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک دن ایک ہمنگ برڈ / پرندہ مرغی خانے آیا اور خبر دی۔۔۔ تمہاری بہن زندہ ہے! وہ ایک دور کی غار میں رہتی ہے۔ وہ صحت یاب ہو گئی ہے، لیکن سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے ایک ٹانگ کھو چکی ہے۔ اسے کھانے کی تلاش میں مشکل ہو رہی ہے اور اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ خاموشی چھا گئی اور پھر بہانے شروع ہو گئے۔۔۔ — میں نہیں جا سکتی، میں انڈے دے رہی ہوں۔۔۔ — میں نہیں جا سکتی، میں دانہ ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔ — میں نہیں جا سکتی، مجھے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنی ہے۔۔۔ ایک ایک کر کے سب نے انکار کر دیا۔ پرندہ بغیر کسی مدد کے غار کی طرف لوٹ گیا۔ پھر وقت گزرتا گیا۔ بہت بعد میں، پرندہ دوبارہ آیا، لیکن اس بار افسوسناک خبر کے ساتھ۔۔۔ — تمہاری بہن وفات پا چکی ہے۔۔۔ وہ غار میں اکیلی مر گئی۔۔۔ کوئی اسے دفنانے یا اس کا ماتم کرنے والا نہیں۔ اس لمحے، سب پر بوجھ آ گیا۔ مرغی خانے میں گہرے افسوس کی لہر دوڑ گئی۔ انڈے دینے والی مرغیاں رک گئیں۔ دانہ ڈھونڈنے والوں نے بیج چھوڑ دیئے۔ بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی مرغیوں نے انہیں ایک لمحے کے لیے بھلا دیا۔ پچھتاوے نے کسی بھی زہر سے زیادہ تکلیف دی۔ انہوں نے خود سے پوچھا: "ہم پہلے کیوں نہ گئے؟" اور بغیر فاصلہ دیکھے راستے کو ناپے، سب غار کی طرف روانہ ہو گئے، روتے اور افسوس کرتے ہوئے۔ اب ان کے پاس اسے دیکھنے کی وجہ تھی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ جب وہ غار پہنچے، تو انہیں مرغی نہیں ملی۔۔۔ صرف ایک خط ملا جس میں لکھا تھا۔۔۔ "زندگی میں، اکثر لوگ آپ کی مدد کے لیے سڑک پار نہیں کرتے، لیکن آپ کو دفنانے کے لیے دنیا عبور کر لیتے ہیں۔ اور جنازوں پر زیادہ تر آنسو درد کے نہیں، بلکہ پچھتاوے اور شرمندگی کے ہوتے ہیں۔" سبق: دوسروں کی زندگی میں ان کے مشکل وقت میں مدد کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتاوا رہ جائے۔ For more such posts. 🇫 🇴 🇱 🇱 🇴 🇼 _*& Share Channel*_ *the Motivational Hubb channel on watsapp 📣🎙️* https://whatsapp.com/channel/0029Va9UYjD7T8ben5SkfT45

❤️ 😂 😢 😹 4
New Kashmir Digital Media 📸✍️
New Kashmir Digital Media 📸✍️
2/9/2025, 4:22:32 PM

https://www.facebook.com/share/v/1BDLDcovTe/?mibextid=rS40aB7S9Ucbxw6v کشمیر میں پی ٹی آئی کا احتجاج،سیاسی گہما گہمی ،کارکنان پر لاٹھی چارج کس کے کہنے پر ہوا مزید دیکھیں اس پوسٹ میں

New Kashmir Digital Media 📸✍️
New Kashmir Digital Media 📸✍️
2/13/2025, 12:10:11 PM

*شب براءت کا حکم* سوال میرا سوال 15 شعبان کے حوالے سے ہے۔ اہلِ سنت شعبان کی پندرھویں شب کو مسنون اعمال بجا لاتے ہیں۔ لیکن آج کل بعض لوگ بحث میں الجھتے رہتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں میری بہن بھی 15 شعبان کی عبادات پر اعتراض کرتی ہیں۔ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں کہ 15 شعبان کی شرعی لحاظ سے کیا حیثیت ہے؟ اور اس شب کے بارے میں کیا روایات وارد ہوئی ہیں؟ اگر اس حوالے سے کوئی تحریر ہو تو براہ کرم اس کی طرف رہنمائی فرمائیں! جواب شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“ دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔“ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟ ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں: ۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔ ۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔ ۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔ بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔ مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:فتاویٰ بینات،جلد :اول،صفحہ:۵۵۲تا۵۵۷،مطبوعہ:مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔ فقط واللہ اعلم فتوی نمبر : 143609200039 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

❤️ 😂 2
New Kashmir Digital Media 📸✍️
New Kashmir Digital Media 📸✍️
2/22/2025, 4:26:52 PM

اگر کسی کو یاد ہو تو میئر بلدیہ سید سکندر گیلانی صاحب نے تمام موبائل کمپنیوں کو اپنی سروس بہتر بنانے یکم فروری کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ اگر سروس بہتر نہ ہوئی تو تمام کمپنیوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی کوئی میئر صاحب کو یاد کرا دے کہ اج 16 فروری ہو گئی ہے اور تمام کمپنیوں کی نیٹ سپیڈ 2 جی سے بھی کم ہے برائے مہربانی کوئی عملی اقدام بھی اٹھائیں

😂 👍 ❤️ 8
New Kashmir Digital Media 📸✍️
New Kashmir Digital Media 📸✍️
2/2/2025, 8:47:14 AM

آپ کا اختیار۔۔۔ ماضی، حال یا مستقبل ایک احمق جزیرے پر سیر کرنے چلا گیا۔ رات کے پچھلے پہر اس کا گھر واپس جانے کو جی چاہا۔ اس نے سامان کشتی میں رکھا اور چپو چلانے شروع کر دیے۔ چپو چلاتے چلاتے صبح ہوگئی اور وہ تھکاوٹ سے چور ہوگیا۔ جب اس نے اپنے سامنے دیکھا تو بہت حیران ہوا کہ منزل کا دُور دُور تک کوئی نشان موجود نہیں ۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہوگئے، کیونکہ وہ کشتی سے بندھی رسی کو کھولے بغیر ساری رات چپو چلاتا رہا تھا اور کشتی اپنی جگہ سے دو انچ کا فاصلہ بھی طے نہیں کر سکی تھی۔ اس مثال کی مانند بے شمار لوگ ماضی کے واقعات، تلخیوں اور ناانصافیوں کا سوچتے رہتے ہیں اور ان کی زندگی کی کشتی اپنی ہی جگہ رہتی ہے۔ وہ ماضی سے بندھی رسی کو نہیں کاٹتے، اس لیے ماضی بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ آپ خود بتایئے کہ اگر کسی شخص کو آگے بڑھنا ہو اور وہ منزل کی طرف کمر کرکے الٹے قدم چلنا شروع ہو جائے تو کیا وہ منزل تک پہنچ جائے گا؟ کبھی نہیں۔ ماضی آپ کو کچھ سبق سکھانے آیا تھا تا کہ آپ ان تجربات کے نتائج کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھ سکیں۔ ہم کسی بھی طاقت کے ذریعے ماضی کو نہیں بدل سکتے۔ گئے دن پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ہاں، ایک چیز ممکن ہے کہ ہم ماضی کی غیر ضروری یادوں اور تلخ تجربات کو بھلا دیں، ان کے مطابق نہ سوچیں اور نہ ان کے متعلق بات کریں۔ زندگی کے ابتدائی ایام کی غلطیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں ذہنی اور جذباتی طور پر پختہ کرتی ہیں۔ اسی طرح کئی لوگ مستقبل کے خوابوں میں گم رہتے ہیں۔ مستقبل کی ابھی کوئی حقیقت نہیں، کل کس نے دیکھا ہے، کل کی فکر نہ کیجیے۔ کل جب آئے گا، تب دیکھا جائے گا۔ آپ کی اصل دولت’’آج‘‘ ہے۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ وقت(حال)، کیوں کہ آپ حال کو بدل کر اپنے مستقبل کو شان دار بنا سکتے ہیں۔ وہ وقت دُور نہیں کہ جب یہ وقت ختم ہوجائے گا۔ آنے والے وقت کو متاثر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ حال میں جینا سیکھیں۔ واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں: ’’ جس نے جوانی میں اپنے مستقبل کا خیال رکھا، اسے بڑھاپے میں حسرتوں کا شمار کم ہی کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ہر لمحہ، ہر دن اور ہر سال آپ کو اللہ حافظ کہہ رہا ہے۔ اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ آپ کتنے پل اور کتنے لمحات زندہ رہے ہیں بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ نے کتنے لمحات اور پلوں میں زندگی بھر دی ہے اور ان سے فائدہ اٹھایا ہے۔ سب سے قیمتی لمحات موجودہ لمحات ہیں۔ حال میں رہتے ہوئے محنت اور کوشش کیجیے، آپ کا مستقبل تاب ناک ہو جائے گا۔ ماضی یاد ہے اور مستقبل خواب، صرف حال ہی حقیقت ہے۔ حال آپ کی توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ عقل مند ماضی کا ماتم کرتا ہے، نہ مستقبل کی فکر بلکہ وہ حال کو نکھارتا ہے، اس لیے وہ بے خوف ہو کر جیتا ہے بے فکری بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔ لوگ کام کرتے ہوئے دماغی طور پر غیر حاضر ہوتے ہیں۔ وہ ماضی کی یادوں میں گم ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کے کام کو پوری توجہ نہیں ملتی اور پھر وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ کھانا کھاتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے، سیروتفریح کے مقامات پر اور فیملی کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے لوگ ذہنی طور پر ماضی کی پریشانیوں یا مستقبل کے اندیشوں میں غرق ہوتے ہیں، اس لیے وہ زندگی سے صحیح طور پر لطف اندوز نہیں ہوتے۔ اداس آدمی سے بات چیت کرکے آپ خود بھی اداس ہو جاتے ہیں۔ اداسی اور نا امیدی ذہن کی توانائی کو بکھیر دیتی ہے۔ پُرسکون حالت میں ذہن زیادہ توانا ہوتا ہے۔ انسان پُرسکون تب ہی ہوتا ہے کہ جب وہ حال میں رہنا سیکھتا ہے۔ دنیا کے تمام روحانی مکاتب حال میں رہنے کی تبلیغ کرتے ہیں، کیونکہ اس طرح آپ اپنی صلاحیتوں سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مستقبل کی پریشانیوں کو دور بھگا دیجیے۔ آج میں رہنا سیکھیے اور قناعت کرتے ہوئے زندگی گزاریے۔ یاد رکھیے، ہمارے پاس جو کچھ ہے اس پر قانع ہونا درست ہے لیکن ہم جو کچھ ہیں، اس پر قناعت کرنا ہرگز درست نہیں۔ ماضی اور مستقبل سے بے نیاز ہو کر کام کیجیے۔ آج کو بہتر کیجیے، کل خود بہ خود بہترین ملے گا۔ وہ مالک جس نے آپ کو کل رزق دیا تھا اور آج بھی آپ کو رزق دے رہا ہے، وہ یقینا آئندہ بھی آپ کو رزق فراہم کرتا رہے گا۔ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ صبر کا دامن پکڑ کر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ سکھ حاصل کرنے کیلئے مطمئن رہیے۔ آج میں جینا سیکھئے کیونکہ اطمینان سب سے بڑی دولت ہے۔ کل جو پھول کھلیں گے، ان کے بیج آج آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے آج ہی یہ بیج بوئیے۔ آپ کو ’’کل‘‘ شان دار ملے گا۔ گو تم بدھ کے بہ قول: ’’ہمارے مستقبل کا دارومدار ہمارے آج کے خیالات اور اعمال پر ہے۔‘‘ جب تک آپ روشن اور قابل رشک مستقبل کیلئے سچے دل سے محنت نہیں کرتے، آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ معجزات کا انتظار نہ کیجیے۔ زندگی عمل سے بنتی ہے، کرشمات سے نہیں۔ اپنے مستقبل کو جنت نظیر بنایئے اور آج سے محنت شروع کیجیے۔!!! For more such posts . 🇫 🇴 🇱 🇱 🇴 🇼 _*& Share Channel*_ *the Motivational Hubb channel on watsapp 📣🎙️* https://whatsapp.com/channel/0029Va9UYjD7T8ben5SkfT45

Link copied to clipboard!