
Ak Foundation Channel
531 subscribers
About Ak Foundation Channel
Follow this channel A Save life
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

ایک چمڑا رنگنے والا اتفاق سے عطاروں کے بازار میں پہنچا تو یکا یک گر کر بے ہوش ہوگیا اور ہاتھ ٹیڑھے ہوگئے۔ عطروں کی خوشبو جو اس کے دماغ میں گھسی تو چکرا کر گر پڑا۔ اسی وقت لوگ جمع ہوگئے۔ کسی نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا اور کسی نے عرقِ گلاب لاکر چھڑکا۔ اور یہ نہ سمجھے کہ اسی خوشبو نے یہ آفت ڈھائی ہے ۔کوئی سر اور ہتھیلیوں کو سہلاتا اور سوندھی مٹی بھگو کر سنگھاتا۔ ایک لوبان کی دھونی دیتا تو دوسرا اس کے کپڑے اتار کر ہوا دیتاتھا۔ آخر جب کسی تدبیر سے ہوش میں نہ آیا تو دوڑ کر اس کے بھائی بندوں کو خبر کی کہ تمہاری قوم کا آدمی فلاں بازار میں بے ہوش پڑا ہے۔ کچھ نہیں معلوم کہ یہ مرگی کا دورہ اس پر کیوں کر پڑ گیا یا کیا بات ہوئی کہ وہ سرِ بازار چلتے چلتے اس طرح گر پڑا۔ اس چمڑا رنگنے والے کا ایک بھائی بڑا فطرتی اور ہوشیار تھا۔ یہ قصّہ سنتے ہی دوڑا آیا ۔ تھوڑا سا کتّے کا گُو آستین میں چھپائے بھیڑ کو چیر کر روتا پیٹتا اس تک پہنچا۔ لوگوں سے کہا کہ ذرا ٹھہرو مجھے معلوم ہے کہ یہ بیماری کیوں کر پیدا ہوئی اور سبب معلوم ہوجانے پر بیماری کا دور کرنا آسان ہوجاتاہے۔ اصل میں وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے دماغ کی ایک ایک رگ میں بدبو تہہ بہ تہہ بسی ہوئی ہے۔ وہ مزدوری کی خاطر صبح سے شام تک گندگیوں اور بدبوؤں میں چمڑے رنگتا رہتا ہے چونکہ سالہا سال سے گندگی میں بسر کرتا ہے اس لیے بہت ممکن ہے کہ عطر کی خوشبو ہی نے اس کو بے ہوش کردیا ہو۔ غرض اس جوان نے سب کو ہٹا دیا تاکہ اس کےعلاج کو کوئی دیکھنے نہ پائے۔ جیسے کوئی بھیدی کھس پھس کرتا ہے اسی طرح منہ اس کے کان کے پاس لے گیا اور بدبودار کپڑا اس کی ناک پر رکھ دیا۔ جونہی یہ بدبو بے ہوش کے دماغ میں پہنچی اس کا سٹرا ہوا دماغ بدبو سے از سرِ نو تازہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ مردے میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ہوشیار ہوگیا۔ دوستو! جس کو مشکِ نصیحت سے فائدہ نہ ہو سمجھ لو کہ وہ گناہوں کی بو، سونگھنے کا عادی ہوگیا ہے۔ مأخذ : کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 150)

🦋 ٭بچپن میں لڑکیوں کو گڑیا پسند ہوتی ہے🧚🏻 اور لڑکوں کو گاڑیاں مگر بڑے ہو کر لڑکے گڑیا پسند کرنے لگتے ہیں اور لڑکیاں گاڑیاں🚘 اسے کہتے ہیں مکافات عمل🤣🤣🤣 اگر بات سچ ہے تو : 🤣 اگر نہیں تو : 👍

ایک پروفیسر ٹرین میں سفر کر رہا تھا کہ ایک کسان ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ پروفیسر کو لگا کہ سفر لمبا ہے، کیوں نہ کچھ ذہنی ورزش کر لی جائے؟ اس نے کسان کی طرف دیکھا، جو بڑے مزے سے مونگ پھلی کھا رہا تھا، پروفیسر (عینک ٹھیک کرتے ہوئے): "چلو ایک گیم کھیلتے ہیں! میں تم سے ایک سوال پوچھوں گا، اگر تم جواب نہ دے سکے تو مجھے 100 روپے دینا ہوں گے۔ پھر تم مجھ سے سوال پوچھو گے، اگر میں نہ بتا سکا تو میں تمہیں 500 روپے دوں گا۔" کسان (سوچتے ہوئے): "یعنی یا تو 100 کا نقصان یا 500 کا فائدہ؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ بکری پالوں، دودھ ملے تو ٹھیک، نہ ملے تو گوشت کا فائدہ! ٹھیک ہے، چلو کھیلتے ہیں!" پروفیسر (اکڑ کر): "زمین اور چاند کے درمیان فاصلہ کتنا ہے؟" کسان نے ایک لمحے کا بھی ضائع کیے بغیر جیب سے 100 روپے نکالے اور پروفیسر کے ہاتھ پر رکھ دیے، جیسے کوئی عام سی بات ہو۔ پروفیسر (حیران ہو کر): "تم نے سوچا بھی نہیں؟" کسان (مسکراتے ہوئے): "ارے بھائی، میرا دماغ حساب کتاب کے لیے نہیں، کھیت جوڑنے کے لیے بنا ہے!" اب کسان کی باری تھی۔ کسان (شرارتی انداز میں): "ایسا کون سا جانور ہے جو پہاڑ چڑھتے وقت تین ٹانگوں والا ہوتا ہے اور نیچے آتے وقت چار ٹانگوں والا؟" پروفیسر کا دماغ ایک دم بریک فیل ٹرک کی طرح الٹنے لگا۔ اس نے سوچا، شاید کوئی نایاب جانور ہوگا، مگر ایسا سننے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ اس نے ذہن پر زور ڈالا، فلسفے میں گھس گیا، نوٹس کھنگالے، اور تو اور، بغل میں بیٹھے مسافر کی طرف بھی مدد کے لیے دیکھنے لگا۔ آخر کار، پورے پندرہ منٹ کی کشمکش کے بعد، اس نے مایوس ہو کر کسان کو 500 روپے دے دیے۔ کسان نے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ سجائی، رقم لی، اور مزے سے سونے لگا۔ مگر پروفیسر کے لیے یہ ہار برداشت کرنا مشکل تھا! اس نے کسان کو ہلایا اور بولا: "یار، مجھے بھی تو بتاؤ کہ وہ جانور کون سا ہے؟" کسان نے آنکھیں کھولیں، ایک لمبی جمائی لی، جیب سے 100 روپے نکالے، پروفیسر کو دیے، اور بغیر کچھ بولے پھر سو گیا! پروفیسر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، اور باقی سفر وہ کھڑکی سے باہر دیکھ کر اپنی قسمت کو کوستا رہا! @highlight 🧸😴

ھم ”تربوز“ خریدتے ہیں مثلاً پانچ کلو کا ایک دانہ.. جب اسے کھاتے ھیں تو پہلے اس کاموٹا چھلکا اتارتے ھیں.. پانچ کلو میں سے کم ازکم ایک کلو چھلکا نکلتا ہے.. یعنی تقریبا بیس فیصد.. کیا ھمیں افسوس ھوتا ہے؟ کیا ھم پریشان ھوتے ھیں؟ کیا ھم سوچتے ھیں کہ ھم تربوز کو چھلکے کے ساتھ کھا لیں؟.. نہیں بالکل نہیں.. یہی حال کیلے، مالٹے کا ہے.. ھم خوشی سے چھلکا اتار کر کھاتے ھیں.. حالانکہ ھم نے چھلکے سمیت خریدا ھوتا ہے.. مگر چھلکا پھینکتے وقت تکلیف نہیں ھوتی.. ھم مرغی خریدتے ھیں.. زندہ، ثابت.. مگر جب کھانے لگتے ھیں تو اس کے بال، کھال اور پیٹ کی آلائش نکال کر پھینک دیتے ھیں.. کیا اس پر دکھ ہوتا ہے؟.. نہیں.. تو پھر چالیس ہزار میں سے ایک ہزار دینے پر.. ایک لاکھ میں سے ڈھائی ہزار دینے پر کیوں ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے؟.. حالانکے یہ صرف ڈھائی فیصد بنتا ہے.. یعنی سو روپے میں سے صرف ڈھائی روپے.. یہ تربوز، کیلے، آم اور مالٹے کے چھلکے اور گٹھلی سے کتنا کم ہے.. اسے ”زکوۃ“ فرمایا گیا ہے.. یہ پاکی ہے.. مال بھی پاک.. ایمان بھی پاک.. دل اور جسم بھی پاک.. اتنی معمولی رقم یعنی چالیس روپے میں سے صرف ایک روپیہ.. اور فائدے کتنے زیادہ.. اجر کتنا زیادہ.. برکت کتنی زیادہ #SyedJunaidAliShah #mostviral #trendingnow #islamic #fb #fypシ #postoftheday #beauty

ایک ساس ڈاکٹر کے پاس گئی اور اس نے ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دوا دیں کہ اس مرتبہ میری بہو کا بیٹا ہی ہو، دو بیٹیاں پہلے ہیں، اب تو بیٹا ہی ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر نے جواب دیا، میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔ ساس نے کہا کہ پھر کسی اور ڈاکٹر کا بتا دیں؟ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی، میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔ اس موقع پر لڑکی کا سسر بولا کہ وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو۔۔۔ ڈاکٹر نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ جعلی ڈاکٹر ہوگا، اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم، وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔ اب لڑکی کے شوہر نے کہا کہ اس کا مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟ آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟ تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں گی، بیٹا کیوں ضروری ہے؟ ویسے آپ بھی عام انسان ہیں۔ آپ کی نسل میں ایسی کیا بات ہے جو بیٹے کے ذریعے ہی لازمی چلنی چاہیے؟ سسر نے کہا کہ میں سمجھا نہیں؟ ڈاکٹر نے کہا کہ ساہیوال کی گائیوں کی ایک مخصوص نسل ہے جو دودھ زیادہ دیتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک گائے بچ جاتی ہے تو پریشان ہونا چاہیے کہ اس سے آگے نسل نہ چلی تو زیادہ دودھ دینے والی گائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ 🐮 طوطوں کی ایک مخصوص قسم باتیں کرتی ہے بالفرض اس نسل کی ایک طوطی بچ جاتی ہے تو فکر ہونی چاہیے کہ اگر یہ بھی مر گئی تو اس نسل کا خاتمہ ہو جائے گا۔🦜 آپ لوگ عام انسان ہیں باقی چھ سات ارب کی طرح آخر آپ لوگوں میں ایسی کون سی خاص بات ہے؟ یہ بات سن کر سسر نے کہا کہ ڈاکٹرصاحب کوئی نام لینے والا بھی تو ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر نے ان سے سوال کیا کہ آپ کے پَردادے کا کیا نام ہے؟ اس موقع پر سسر بس اتناکہہ سکا کہ وہ، میں، ہممممم، ہوں وہ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے پتہ ہے آپ کو نام نہیں آتا، آپ کے پردادا کو بھی یہ ٹینشن ہو گی کہ میرا نام کون لے گا اور آج اُس کی اولاد کو اُس کا نام بھی پتہ نہیں. ویسے آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نام کوئی لے یا نہ لے۔ آپ کو کیا فرق پڑے گا؟ آپ کا نام لینے سے قبر میں پڑی آپ کی ہڈیوں کو کون سا سرور آئے گا علامہ اقبال کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا، آج بھی نصاب میں ان کا ذکر پڑھایا جاتا ہے ایدھی صاحب مر گئے لیکن نام ابھی بھی زندہ ہے اور رہے گا۔ غوروفکر کیجئے لہذا بیٹی اور بیٹوں میں ہرگز فرق نہ کریں، بیٹا اگر نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے.

چھوٹی سی 155 سیکنڈ کی وڈیو ہے مگر پیغام بہت بڑا ہے دیکھ سکو سمجھ سکو تو۔

جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں گائے پر ایک تجربہ کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اسلامی طریقے سے ذبح کرنے پر گائے کو کتنا درد محسوس ہوتا ہے۔ یہ جانچ EEG نامی عمل کے ذریعے کی گئی، جس میں گائے کے دماغ کی برقی لہروں کی پیمائش کی گئی۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گائے کو کسی قسم کا درد محسوس ہوا یا نہیں، اور اگر ہوا تو اس کی شدت کتنی تھی۔ انہوں نے گائے کو تجربے کے لیے تیار کیا، اسے مخصوص آلات سے جوڑا اور پھر ذبح کیا۔ ذبح کے پہلے تین سیکنڈ میں 👇 دماغ کی برقی لہروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ گائے کو کوئی درد محسوس نہیں ہوا۔ اگلے تین سیکنڈز میں یہ دیکھا گیا کہ گائے غشی کی حالت میں چلی گئی اور بے ہوش ہو گئی۔ یہ خون کے تیزی سے بہنے اور دماغ کو خون کی سپلائی رکنے کی وجہ سے ہوا۔ چھ سیکنڈ بعد، EEG نے دماغی لہروں کے بند ہونے کو ریکارڈ کیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ گائے مر چکی تھی اور اسے کسی قسم کا درد محسوس نہیں ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: ہم اکثر قربانی کے جانور کے ذبح کے وقت اس کے درد کے بارے میں سوچتے ہیں اور اس پر افسوس کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حلال ذبح کے طریقے میں شہ رگ، ورید، سانس کی نالی اور خوراک کی نالی کو کاٹا جاتا ہے، لیکن سر کو دھڑ سے الگ نہیں کیا جاتا۔ اس طریقے سے دماغ تک خون اور آکسیجن کی فراہمی رک جاتی ہے، اور قربانی کا جانور چند ہی لمحوں میں غشی کی حالت میں چلا جاتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے۔ سبحان اللہ! قربانی کے جانور کو بے ہوشی کی حالت میں درد کا احساس نہیں ہوتا۔ اس دوران، جانور کے دماغ میں موجود پچوٹری گلینڈ (غدہ نخامیہ) ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے گردوں میں موجود ایڈرینل گلینڈ (غدہ کظرہ) کو سگنل بھیجتا ہے، جو ایڈرینالین خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون خون کے بہاؤ کو تیز کرنے میں مدد دیتا ہے، اور تیزی سے خون بہنے کے نتیجے میں چند منٹوں کے اندر جانور کا جسم خون سے خالی ہو جاتا ہے۔ اسلامی ذبح: تیز اور سب سے رحم دل طریقہ اسلامی ذبح کا طریقہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ جانور کے درد کو کم کرنے کا سب سے تیز اور مہربان طریقہ ہے۔ سبحان اللہ، اس عظیم شریعت کی حکمت پر غور کریں

*◼: چنگیز خان کو زندگی میں دو بڑی جنگوں اور سات چھوٹی جھڑپوں میں شکست ہوئی ، ہر بار مدِ مقابل ایک ہی تھا : سلطان جلال الدین خوارزم شاہ۔ چنگیز خان نے صرف ایک ہی دشمن کو بہادری پر خراج تحسین پیش کیا تھا وہ جلال الدین تھا۔ نور الدین کورلاخ نے درست کہا تھا سلطان جلال الدین مسلم دنیا کا فدیہ تھا۔ یہ نہ ہوتا تو چنگیز خان کے ہاتھوں مسلم دنیا کی تباہی کی داستان زیادہ طویل اور دلفگار ہوتی۔ اُس کا باپ چنگیز سے مقابلے کے لیے اس کا مشورہ مان لیتا تو شاید دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ اُس کے اپنے ہی بھائی سازشیں کر کے تخت پر قابض نہ ہوتے تو شاید پھر بھی تاریخ کی کروٹ کچھ اور ہوتی۔ کیسا انسان تھا ، تخت بھائیوں کے پاس چھوڑ کر جنگل کو نکل گیا کہ سلطنت کسی اور آمائش میں نہ پڑ جائے۔* *شکست کی راکھ سے اس نے عزیمت کا پرچم اٹھایا ۔ کبھی ہزار کبھی پانچ ہزار ، جتنے جنگجو ملتے وہ ان کے ساتھ چنگیز خان کے لیے چیلنج بنا رہا یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب اس کے پاس ایک لشکر جرار تھا۔ اس نے چنگیز خان کو لکھا : تم میرے لیے جنگل جنگل خاک چھان رہے ہو، میں اس وقت یہاں بیٹھا ہوں ۔ تم آؤ گے یا میں آؤں‘‘۔* *میجر ریوٹی نے لکھا ہے چنگیز خان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا اسے کسی نے یوں چیلنج کیا ہو اور چنگیز خان چیلنج قبول کرنے کی ہمت نہ کر سکا ۔ اسے معلوم تھا اگر جلال الدین یوں للکار رہا ہے تو شیر کے منہ میں سر دینا حکمت نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ میرے الفاظ نہیں ، چنگیز خان کے اس تذبذب کی یہ کہانی امیر عطّا نے صدیوں پہلی لکھ دی تھی ۔ وہ لکھتے ہیں شیرِ خوارزم کے اس چیلنج نے چنگیز کو پاگل کر دیا تھا۔ وہ صبح سے شام لشکر کی تیاریوں پر صرف کرنے لگ گیا۔ لیکن پھر بھی اسے تسلی نہیں ہو رہی تھی کہ کیا وہ جلال الدین کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے یا ابھی کچھ کمی رہ گئی ہے۔ اسے معلوم تھا للکارنے والا کون ہے۔ یہاں تک کہ پھر ایک گھوڑے پر سلطان کے لشکر کے سالاروں میں جھگڑا ہو گیا اور پُھوٹ پڑ گئی۔ افغان سالار ناراض ہو کر لشکر لے کر چلا گیا۔ امیر عطا لکھتے ہیں جلال الدین کو خبر ہوئی تو بھاگ کر خیمے سے باہر آیا ، ان کی منتیں کیں ، رویا کہ ایسا نہ کرو ، مسلمانوں کے مستقبل کا خیال کرو لیکن قدرت کو شاید یہی منظور تھا۔لشکر آدھا رہ گیا۔ چنگیز خان تو گویا اسی موقع کے انتظار میں تھا۔ باقی تاریخ ہے۔* *آخری بڑی لڑائی دریائے سندھ کے کنارے ہوئی جب سازشوں اور داخلی جھگڑوں سے نڈھال سلطان جلال الدین تیس ہزار پناہ گزینوں ، تین ہزار گھڑ سواروں اور پانچ سو کے قریب محافظوں کے ساتھ ہندوستان جا رہا تھا کہ چنگیز خان دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ آن پہنچا۔ تین ہزار گھڑ سواروں کا مقابلہ پچاس ہزار گھڑ سواروں سے تھا۔ گلوبل کرونالوجی آف کانفلیکٹ کے مصنف نے لکھا کہ جلال الدین یوں لڑا کہ چنگیز خان حیران رہ گیا۔ اس نے چنگیز کے لشکر کو ادھیڑا اور اس کے مرکز تک جا پہنچا۔ پھر ستر ہزار کی مزید کمک چنگیز کو آن پہنچی۔ زخموں سے نڈھال سلطان گھیرے میں آگیا تو چنگیز نے حکم دیا اسے زندہ گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔ سلطان کے سامنے چنگیز تھا اور پیچھے دریائے سندھ ۔ اُس نے گرفتاری دینے کی بجائے پہاڑ سے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ یہ نسیم حجازی کی نہیں میجر ریوٹی کی روایت ہے کہ چنگیز خان کو اس کے تعاقب میں گھوڑا دریا میں ڈالنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ وہ حیران کھڑا زخمی سلطان کو دیکھتا رہا ، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کوئی یوں بھی کر سکتا ہے۔ پھر اس نے اپنی فوج کے سالاروں کو بلا کر کہا : اس شخص کو دیکھو، اس کی ماں کو اس پر فخر ہونا چاہیے ، کیسا بہادر پیدا کیا۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب سلطان کی ماں وہی پاس دریائے سندھ میں ڈوب رہی تھی۔* *یہ واقعہ ازبک ، فارسی اور ترک لوک داستانوں کا حصہ ہے اور اس کی منظر کشی بھی کی گئی ہے۔ یہ مقام پاکستان میں ہے اور ’’ گھوڑا ترپ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں اور یقین نہیں کرتے کہ کوئی یہاں پہاڑ سے سیدھا نیچے دریا میں گھوڑا کیسے ڈال سکتا ہے۔*

وہ 10 ممالک جہاں جسم فروشی کی شرح سب سے زیادہ ہے 1۔ تھائی لینڈ (بدھ مت) 2۔ ڈنمارک (عیسائی) 3۔ اٹلی (عیسائی) 4۔ جرمنی (عیسائی) 5۔ فرانس (عیسائی) 6۔ ناروے (عیسائی) 7۔ بیلجیم (عیسائی) 8۔ اسپین (عیسائی) 9۔ امریکہ (عیسائی) 10۔ فن لینڈ (عیسائی) وہ 10 ممالک جہاں چوری و ڈکیتی کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ 1۔ ڈنمارک اور فن لینڈ (عیسائی) 2۔ زمبابوے (عیسائی) 3۔ آسٹریلیا (عیسائی) 4۔ کینیڈا (عیسائی) 5۔ نیوزی لینڈ (عیسائی) 6۔ ہندوستان (ہندو) 7۔ انگلینڈ (عیسائی) 8۔ امریکہ (عیسائی) 9۔ سویڈن (عیسائی) 10۔ جنوبی افریقہ (عیسائی) وہ 10 ممالک جہاں شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ 1۔ مالڈووا (عیسائی) 2۔ بیلاروس (عیسائی) 3۔ لیتھوانیا (عیسائی) 4۔ روس (کیمونسٹ+عیسائی) 5۔ جمہوریہ چیک (عیسائی) 6۔ یوکرین (عیسائی) 7۔ آندورا (عیسائی) 8۔ رومانیہ (عیسائی) 9۔ سربیا (عیسائی) 10۔ آسٹریلیا (عیسائی) وہ10 ممالک جہاں قتل ہونے والوں کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ 1۔ ہونڈوراس (عیسائی) 2۔ وینزویلا (عیسائی) 3۔ بیلیز (عیسائی) 4۔ ایل ساوڈور (عیسائی) 5۔ گوئٹے مالا (عیسائی) 6۔ جنوبی افریقہ (عیسائی) 7۔ سینٹ کٹس اینڈ نیوس (عیسائی) 8۔ بہاماس (عیسائی) 9۔ لیسوتھو (عیسائی) 10۔ جمیکا (عیسائی) دنیا میں خطرناک غنڈہ گردی کرنے والے گروپوں کے نام 1۔ یاکوزہ (غیر مسلم) 2۔ ایگبرس (عیسائی) 3۔ واہ سنگ (عیسائی) 4۔ جمیکا پوسی (عیسائی) 5۔ پریمیرو (عیسائی) 6۔ آریائی اخوان (عیسائی) 7۔ خون (عیسائی) 8۔ 18 ویں اسٹریٹ گینگ (عیسائی) 9۔ منگکی (عیسائی) 10 ۔ مارا سالاروتھا (عیسائی) دنیا کے سب سے بڑےمنشیات اسمگلنگ مافیاز 1۔ پابلو اسکوبار(Pablo Escobar )-کولمبیا (عیسائی) 2۔ اماڈو کیریلو) (Amado Carrillo Fuentes)-میکسیکو(عیسائی) 3۔ کارلوس لیہڈر(Carlos Lehder) - جرمن (عیسائی) 4۔ گریسیلڈا بلانکو(Griselda Blanco) -کولمبیا (عیسائی) 5۔ جوکون گزمین- (Joaquín Guzmán) میکسیکو (عیسائی) 6۔ رافیل کیرو-( Rafael Caro Quintero) میکسیکو (عیسائی) تاہم مغربی اور مشرقی میڈیا کا کہنا ہے کہ : اسلام دنیا میں ہر طرح کی دہشت گردی کا سبب ہے اس بنا پر بہت سارے سادہ لوح اور نادان مسلمان بھی ان بے بنیاد اور کھوکھلے دعووں پر یقین کرلیتےہیں۔ آپ اپنی سوچ اور عقل کا کنٹرول دوسروں کے ہاتھ میں نہ دیں اپنے مذہب اسلام پر فخر کیجئیےاسلام خوشحالی ، سلامتی اور امن کا