
MG News
February 13, 2025 at 03:40 PM
یوکرین جنگ :
ٹرمپ کا پوتین اور زیلنسکی سے تبادلہ خیال
امریکا
آرمينيا
یوکرائن
رائٹرز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز فون پر یوکرین جنگ کے پیش منظر پر روسی صدر پوتین سے گفتگو کی ہے۔ اس گفتگو کے بعد انہوں نے یوکرینی صدر زیلنسکی کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کیا۔
ٹرمپ کی طرف سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے 'میرا اور پوتین کا اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ دونوں طرف کی ٹیمیں فوری طور پر مذاکرات شروع کریں اور ہم اس کا آغاز صدر زیلنسکی کو فون کر کے کر رہے ہیں۔ تاکہ میں زیلنسکی کو بتا سکوں کہ کیا بات چیت ہوئی اور میں فوری طور پر کیا کرنے جا رہا ہوں۔'
دوسری جانب کریملین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ صدر پوتین اور ٹرمپ نے ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے اور پوتین نے ٹرمپ کو ماسکو آنے کی دعوت دی ہے۔
ٹرمپ کافی عرصہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ یوکرین کی جنگ کو جلد ختم کریں گے اور یہ کہے بغیر کہ یہ کام کیسے مکمل ہوگا کریں گے۔
بدھ کے روز اس فون کال سے پہلے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے کہا ' 'یوکرین کی سرحدوں کو 2014 کی سرحد پر وپس لانے کی بات غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ امریکی انتظامیہ نے یوکرین کے لیے نیٹو ممبر شپ کا نہیں سوچا ہے کیونکہ یہ مسئلے کا حل نہں ہے۔'
امریکی وزیر دفاع نیٹو ہیڈکوارٹر برسلز میں بدھ کے روز اپنے یوکرینی فوجی اتحادیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پیٹ ہیگستھ نے اس موقع پر بڑا واضح اور دوٹوک بیان جاری کیا کہ نئی امیرکی انتظامیہ کی تین سالوں پر پھیلی یوکرین جنگ کے بارے کیا رائے ہئے۔
امریکی وزیر دفاع نے کہا 'ہم بھی آپ کی طرح یوکرین کو خودمختار و خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم ہم چاہتے ہیں کہ یہ تسلیم کر کے شروع کیا جائے کہ 2014 کی یوکرینی سرحدوں کی بحالی ایک غیرحقیقت پسندانہ سوچ ہے۔ ' وہ یوکرین اور نیٹو کے 40 ارکان کے نمائندوں کی موجودگی میںب رسلز میں گفتگو کر رہے تھے۔
ہیگستھ نے کہا 2014 کے دور کی سرحدوں کی بحالی کا ہدف حاصل کرنے کا مطلب تنہائی میں سوچنا ہے اور جنگ کو مزید لمبا کرتے چلے جانا ہے ۔ جس سے مصائب بڑھتے رہیں گے۔
خیال رہے فروری 2022 میں شروع ہونے والی اس جنگ سے اب تک صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ اور زیادہ تر مغربی رہنماؤں نے پوتین کے ساتھ کوئی براہ راست بات چہت نہیں کی ہے کہ پوتین نے یہ حملہ کیوں کیا اور جنگ کیوں چھیڑی۔
جنگ کے پہلے سال میں یوکرین روس کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہا ۔ روس کی یہ پسپائی یوکرینی دارالحکومت کیف کے اردگرد کے علاقوں سے ہوئی اور یوکرین نے روس کا زیر قبضہ لیا ہوا بڑا علاقہ واپس لے لیا۔ لیکن روس زیادہ تر علاقوں میں اب بھی غلبہ رکھتا ہے۔ خاص طو پر 2023 کے بعد سے آہستہ آہستہ اس کی پوزیشن اس حوالے سے بہتر ہوئی کہ جنگ جاری رہی اور ہلاکتیں ہوتی رہیں ۔ یہ ہلاکتیں اب دونوں طرف کے ہزاروں فوجیوں کی صورت میں ہو چکی ہیں اور یوکرین کے شہر تباہی کے مناظر پیش کرتے ہیں۔
حالیہ انٹرویوز میں مختلف رہنماؤں کی گفتگوؤں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یوکرین کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑ رہی ہے کہ اسے نیٹو کی ممبرشپ فوری نہیں مل رہی۔ البتہ اسے فوجی حمایت اور اسلحہ کی ضرورتوں کے حصول پر توجہ کرنی چاہیے۔
زیلنسکی نے بدھ کے روز کہا ہے 'اگر یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بنتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین نیٹو کو اپنی سرزمین پر تعمیر کرے گا۔ اس لیے ہمیں ایک ایسی فوج کی ضرورت ہے جو تعداد کے لحاظ سے بھی روس کا مقابلہ کر سکے۔ 'زیلنسکی کا یہ انٹرویو بدھ کے روز 'دی اکانومسٹ' میں شائع ہوا ہے۔
زیلنسکی نے کہا 'اس مقصد کے لیے ہمیں وسائل اور اسلحہ چاہیے اور ہم امریکہ سے یہ مطالبہ کریں گے کہ وہ ہمارے سمانے اپنا پلان بھی ظاہر کرے۔ '
ادھر برسلز میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے اپنے تبصرے میں کہا 'یوکرین کو مستقبل میں زیادہ تر اسلحہ یورپی اتحادیوں کی طرف سے آئے گا۔
#روس
#امریکہ
#یوکرین
#teampakistancyberforce
❤️
1