Urdu Islamic Stories
Urdu Islamic Stories
February 5, 2025 at 02:05 PM
ہیر رانجھا قسط نمبر 2 نہیں بھائی ! میں اب جھنگ کی ہیر سیال لے کر ہی آؤں گا۔ بھابھی نے طعنہ مارا ہے تو پھر میں بھی اسے ہیر لا کر دکھاؤں گا۔ رانجھے نے اپنے بڑے بھائی سے باز و چھڑوایا اور گھرے سے باہر آ گیا۔ وہ اپنے ساتھ واحد چیز ونجلی لایا تھا۔ اس نے جوش جذبات میں آکر اپنے بھائیوں کو ہیر کا کہہ تو دیا تھا لیکن اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ دریائے چناب کے کنارے کنارے چلتا رہا۔ وہ سارا دن چناب کے کنارے کنارے دونجلی بجا تا آوارہ گردی کرتارہتا۔ دریائے چناب کے کنارے کافی پھلدار درخت تھے۔ وہ درختوں کے پھل کھا لیتا اور دریا سے مچھلی بھی پکڑ کر اسے آگ پر بھون کر کھا لیتا۔ رانجھے کے دن ایسے ہی کے کنارے کنارے گزرتے رہے۔ آخر کار پھرتے پھراتے ایک دن وہ ہیر کے گاؤں پہنچ گیا۔ ہیر کا گاؤں جھنگ میں دریائے چناب کے کنارے آباد تھا۔ گاؤں سے باہر ایک بہت بڑا جنگل تھا جو چناب کے کنارے کنارے کئی سو کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ اسے مقامی زبان میں بیلا کہتے تھے۔ ہیر کے گاؤں کے سبھی لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے یا پھر پھنسیں چرانے کا کام کرتے تھے۔ ہیر کا والد چو چک سیال گاؤں کا ایک زمیندار تھا۔ اس کے پاس پچاس کے قریب بھینسیں تھیں جنہیں بیلے میں چرایا جاتا تھا۔ رانجھا پھرتے پھراتے بیلے میں پہنچا تو اسے جنگل میں ایک خوبصورت پلنگ نظر آیا۔ رانجھا چونکہ سفر کرتے کرتے تھک گیا تھا ، اسے پلنگ نظر آیا تو وہ پلنگ پر لیٹ گیا۔ اسے لیٹتے ہی نیند آ گئی۔ رانجھے کی آنکھ پھر ہیر کی چھڑی سے ہی کھلی ۔ وہ پلنگ ہیر کا تھا اور ہیرا اپنے علاوہ اور کسی کو بھی اس پلنگ پر سونے نہیں دیتی تھی ۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلتی ہوئی پہلے میں آئی تو اسے اپنے پلنگ پر کوئی اجنبی چادر اوڑھے سوتا ہوا نظر آیا۔ ہیر اسے دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئی۔ اس نے ایک چھڑی اٹھائی اور زور سے اجنبی مسافر کو ماری۔ رانجھا تڑپ کر اٹھا تو اس کی نظریں ہیر کے چہرے پر پڑیں۔ رانجھے کو ایسا لگا جیسے جھنگ کے پہلے میں چودھویں کا چاند نکل آیا ہو ۔ رانجھا اپنی پلکیں جھپکانا ہی بھول گیا۔ جبکہ دوسری طرف ہیر کا بھی یہی حال تھا۔ اس نے ایک چھڑی سوتے ہوئے رانجھے کو ماری تھی لیکن دوسری چھڑی مارنے کے لیے اس کا ہاتھ ہوا میں ہی اٹھا ہوا رہ گیا۔ ہیرا سے دوسری چھڑی بھی مارنا چاہتی تھی لیکن کوئی انجانی طاقت اسے روک رہی تھی۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ رانجھے کو ایسا لگ رہا تھا جیسے پوری کائنات کی گردش ہی رک گئی ہو۔ ہیر کا حسن پورے جھنگ میں مشہور تھا۔ کشمیر کی پہاڑیوں سے نکلنے والے دریائے چناب کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سینکڑوں کلومیٹر بنتے تھے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بستے تھے۔ لاکھوں حسین لڑکیاں تھیں لیکن ہیر سیال کا حسن ان سب سے الگ تھا۔ وہ سب سے حسین تھی۔ رانجھے کو چودھویں کا چاند بھی ہیر کے حسن کے آگے حقیر نظر آ رہا تھا۔ وہ کسی عقیدت مند کی طرح ہیر کے چہرے کی زیارت کر کر رہا تھا۔ نی ہیرے ! مارکیوں نہیں رہی ہوں اجنبی کو، وہ تمہارے پلنگ پر بیٹھا ہوا ہے؟“ ہیر کی سہیلی شہر زاد نے کندھے سے پکڑ کر ہلایا تو ہیر خیالات کی دنیا سے باہر آگئی۔ اس کا رانجھے کو مارنے کے لیے اٹھا ہوا ہاتھ نیچے آگیا۔ پردیسیوں کو مارتے نہیں ہیں۔۔۔ میں تو پردیسی ہوں جو آپ کے علاقے کی طرف آگیا ہوں ۔“ رانجھے نے ہیر کی سہیلی سے کہا۔ اس کی نظریں ابھی تک ہیر کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ اجنبی مسافر بغیر اجازت کے کسی کی چیز استعمال نہیں کرتے اور تم ہماری اجازت کے بغیر ہمارے پلنگ پر سو گئے تھے ۔“ غلطی ہو گئی مٹیارے ! تھکا ہوا تھا اس لئے تمہارے خالصتاً پنجابی لہجے میں کہا اور ہیر کے پلنگ سے نیچے اتر گیا۔ کہاں سے آئے ہو اجنبی مسافر ؟“ ہیر نے اس سے سوال کیا۔ جنگل میں بھٹکنے والے مسافروں کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔۔۔ لڑکی ! جہاں چار دن کی خوشی ملتی ہے وہیں گھر بنا لیتے ہیں ۔ رانجھے کے لہجے میں حد درجہ سنجیدگی تھی۔ اچھا! ونجلی تو ایسے پکڑی ہوئی ہے جیسے تخت ہزارے کا رانجھا ہو! ہیر کی سہیلی شہرزاد نے اس پر طنز کیا اور وہ  سب واپس گاؤں کی طرف جانے لگیں ۔ رانجھے نے ایک نظر گاؤں کی طرف جاتی ہوئی ہیر پر ڈالی اور ونجلی کو ہونٹوں سے لگا کر پھونک ماری۔ ونجلی کے سوراخوں سے انتہائی مسحور کن آواز نکلی تو ہیر کے چلتے قدم ڑک گئے۔ ونجلی کی آواز میں ایک جادو تھا جس نے ہیر کے چلتے قدم روک دیئے تھے۔ رانجھے نے ونجلی بجائی تو ہیر کے لیے تھی لیکن اس کی آواز نے ہیر کی سہیلیوں کو بھی رکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ‏جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور  کہانیاں سننے کے لیے ہمارے یوٹیوب چینل اردو اسلامک کہانیاں کو سبسکرائب کریں https://youtu.be/t7gIMBjjQo4?t=31&si=Gf3JMZW2MUjusIVb
❤️ 👍 🙏 62

Comments