JUI Media Cell
JUI Media Cell
February 9, 2025 at 12:27 PM
*قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی مردان میں میڈیا سے گفتگو* 08 فروری 2025 *بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم* تمام صحافی بھائیوں اور جماعتی احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ یہاں جمع ہوئے اور ہمیں عزت دی۔ اللہ پاک آپ سب کو خوش اور سلامت رکھے۔ *سوال و جواب* صحافی: مولانا صاحب آپ بیمار ہے اور اس کے باوجود ہمیں وقت دیا اس کے لیے بہت بہت شکریہ۔ آپ کے صحت کاملہ کے لیے دعاگو ہیں۔ ایک بار پھر آپ کی رہائش گاہ سیاسی درسگاہ بنی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم صاحب آرہے ہے، پی ٹی آئی کے وزراء آرہے ہیں، محمود خان اچکزئی اور خاقان عباسی صاحب بھی آئے۔ یہ سلسلہ درمیان میں کچھ منقطع ہوا تھا ابھی دوبارہ چل پڑا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہے تو کیا واقعی ایسا کچھ ہونے والا ہے؟ مولانا صاحب: دیکھیے سیاست میں ملاقاتیں، ملنا جلنا ایک خاص ناگزیر قسم کی معروضی ضرورت کے تحت ہوا کرتا ہے۔ تو پہلے بھی اگر ملاقاتیں رہی ہیں، آنا جانا رہا ہے تو 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے رہا ہے۔ اور اللہ تعالی نے ہمیں اس مرحلے میں کامیابیاں عطا کی ہر چند کے جمعیت علماء اسلام نے وہ جنگ اکیلے لڑی، لیکن پھر بھی اپوزیشن کی جماعتیں ہوں یا حکومت کی جماعتیں ہوں ہم نے خالصتاً ایک سیاسی اور جمہوری اور پارلیمانی طریقہ کار کے ساتھ اس مرحلے کو عبور کیا اور کامیابی کے ساتھ عبور کیا۔ اس دوران میں اگر دینی مدارس رجسٹریشن کا قانون آیا تو وہ بھی الحمدللہ مذاکرات کے ذریعے سے ہی پاس ہوا۔ لیکن اس میں اب ایک کمی رہ گئی ہے کہ اگرچہ وہ وفاق کی سطح پر تو قانون بن گیا ہے لیکن اس کا صوبوں میں بھی منظور ہونا ضروری ہے۔ صوبائی اسمبلیاں اس کو منظور کریں گی اس کے لیے تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں۔ اور ان کو چاہیے تھا کہ فوری طور پر صوبوں میں بھی اسی ایکٹ کو پاس کیا جاتا اور بنایا جاتا۔ اب تک اس میں تاخیر کی جا رہی ہے جو غلط طور پر کی جا رہی ہے۔ تو ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہر مسئلہ تلخی کے ساتھ حل نہ ہو، بلکہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہو، گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے سے حل ہو۔ اور کسی ناخوشگوار ماحول کی طرف مسئلے کو نہ لے جایا جائے۔ اس طرح آج چونکہ آٹھ فروری ہے اور اس لحاظ سے یقیناً یہ ایک سیاہ ترین دن ہے کہ جس دن پچھلے سال ایک بدترین قسم کی دھاندلی کی گئی، اور یہ دھاندلی پورے ملک میں ہوئی ہے۔ چاروں صوبوں میں ہوئی ہیں۔ اور یہاں اس صوبے میں بھی دھاندلی کی بنیاد پر حکومت قائم ہوئی ہے۔ دھاندلی کی بنیاد پر اکثریت بنائی گئی ہے۔ وفاق میں بھی یہی صورتحال بنی ہے۔ تو جمعیت علماء اسلام کی پوزیشن تمام پارٹیوں سے ذرا مختلف ہے۔ ہم قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم صوبوں میں بھی اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور اپنا موقف اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے دے رہے ہیں۔ اور اس بات پر ہم واضح ہے کہ انتخابات میں ووٹ وہ عوام کا حق ہے اور عوام کے حق پر شب خون مارنے کی اجازت نہ کسی اسٹیبلشمنٹ کو ہے، بیوروکریسی کو ہے، نہ کسی طاقتور جاگیردار کو ہے، نہ کسی خان کو ہے، نہ نواب کو ہے، نہ وڈیرے کو ہے۔ یہ غریب اور عام آدمی کا حق ہے اور ہم اس کے اس حق کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ صحافی: پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کی ناکامی کے بعد دونوں فریق ایک دوسرے پر غیر سنجیدگی کا الزام عائد کر رہے ہیں آپ کے خیال میں کون سچ کہہ رہا ہے؟ مولانا صاحب: دونوں سچ کہہ رہے ہیں۔ صحافی: مولانا صاحب وزیراعظم اپنے ایک سالہ کارکردگی کو لے کر بڑے مطمئن ہیں آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں ایک سالہ کارکردگی کو؟ مولانا صاحب: میرے خیال میں ابھی تک ہمارے لیے اطمینان کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جب تک عام آدمی کوئی تبدیلی محسوس نہ کرے، کوئی خوشحالی محسوس نہ کرے، ملک کو روبہ ترقی محسوس نہ کرے۔ یہ جو آئے دن کے روزمرہ کے اشارات یہ کبھی چڑھتے ہیں تو کبھی گرتے ہیں یہ کوئی معاشی بہتری کی طرف جانے کا سفر نہیں ہے۔ یہ معمول کا اتار چڑھاؤ ہے جو ان کی معیشت میں ہوتا رہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ سال جی ڈی پی بھی کم ہوگا اور آئندہ سال تک روپے کی قدر بھی اور گرے گی اور مہنگائی اور زیادہ بڑھے گی۔ صحافی: مولانا صاحب پاکستان تحریک انصاف وفاق میں آپ کے ساتھ تحریک چلانے پر متفق ہیں۔ آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ صوبے میں بھی دھاندلی ہوئی ہے تو کیا پی ٹی آئی صوبے میں آپ کے اس موقف کی تائید کرتی؟ مولانا صاحب: جھگڑا تو یہی ہے اگر وہ اس بات پر آجائیں جیسے کہ ایک وقت میں آئے تھے تو میرے خیال میں پھر تو کافی بات آگے بڑھ سکتی ہے ان شاءاللہ صحافی: حضرت عدلیہ میں بڑی خطوط بازی ہورہی ہے لیٹر بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ ایک دوسرے کو بدنام کرنے جا رہے ہیں اور 26 ویں ترمیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بعض جج سپریم کورٹ کے بھی ہے اور ہائی کورٹ کے بھی ہے۔ تو اس ترمیم میں آپ کا بھی حصہ تھا تو آپ سمجھتے ہیں۔ مولانا صاحب: میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے عدلیہ کو بھی بچایا ہے، آئین کو بھی بچایا ہے، پارلیمنٹ کو بھی بچایا ہے، ہم نے عوام کے حقوق کو بھی بچایا ہے، شہری اور انسانی حقوق کو بھی بچایا ہے۔ اب پاکستان ہے اس میں عدالتیں ہیں اس میں کیسز آتے ہیں جاتے ہیں دیکھتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال ایک بڑے جمہوری انداز کے ساتھ ہم آگے بڑھے ہیں باقی جو عدالت فیصلہ کرے گی دیکھا جائے گا پھر اس کے بعد تبصرہ کیا جائے گا۔ صحافی: حکومت کے خلاف پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ سیاسی اتحاد بنا رہے ہیں اگر اتحاد بنتا ہے تو کیا جے یو آئی اس کا حصہ ہوگی؟ مولانا صاحب: میرے خیال میں ابھی کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ بات چیت چلتی رہتی ہے، رابطے ہیں، گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ابھی کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے۔ کیوں کہ جمعیت علماء اسلام کے جو براہ راست تحفظات ہیں ابھی اس حوالے سے نہ کوئی بات ہوئی ہے نہ کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ تو روز مرہ کے معاملات پر ہم بات کرتے ہیں اور بیٹھتے بھی ہے۔ اتفاق رائے آتا ہے تو کر بھی لیتے ہیں۔ صحافی:۔۔۔۔۔ مولانا صاحب: دیکھیے ٹرمپ کی اگر کوئی بات ہے وہ تو اوٹ پٹانگ مار رہا ہے، کہہ رہا ہے غزہ پر بھی ہم قبضہ کر لیں گے اور غزہ کو مصر میں آباد کیا جائے، اردن میں آباد کیا جائے۔ یہ شخص سرے سے جانتا ہی نہیں ہے کہ بین الاقوامی معاملات کیا ہے۔ جو بھی امریکہ کو چلائے گا، سی آئی اے ہی چلائے گا، ادارے ہی چلائیں گے اور امریکہ کو یہ پورا ادراک ہے کہ افغانستان میں جو حکومت ہے وہ اگرچہ دوحہ مذاکرات کے لمبے چوڑے عرصے کے بعد تبدیلی کا سبب بنا ہے۔ لیکن مذاکرات دنیا میں ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ طاقت ناکام ہوئی ہے اور ان کو مجبوراً پھر مذاکرات کی طرف جانا پڑا ہے۔ بالکل اسی طریقے سے غزہ پر پندرہ مہینے جنگ رہی ہے جو بمباری ہوئی ہے اسرائیل وہ جنگ ہار چکا ہے اور اگر اس کے پشت پر امریکہ ہے تو جس طرح افغانستان میں شکست کھا چکا ہے وہاں فلسطین میں بھی شکست کھا چکا ہے۔ اگر اس کے پشت پر نیٹو ہے تو جس طرح وہ افغانستان میں شکست کھا چکے ہیں فلسطین میں بھی وہ شکست کھا چکے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ عالمی قوتوں کا جو جنگی جنون ہے وہ زمین بوس ہو رہا ہے۔ اور ان کے طاقت کا نشہ بھی اتر رہا ہے۔ اور ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ فلسطین کی سرزمین فلسطینیوں کی ہے اور یہ تو پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد جو دنیا میں یہودیوں نے شکست کھائی اور ہر جگہ مار کھائی اور دربدر ہوئے۔ تو اس زمانے میں اقوام متحدہ کی سطح پر قرارداد پاس ہوئی کہ یہ ایک بین الاقوامی ذمہ داری ہوگی کہ یہودیوں کو دنیا بھر میں آباد کیا جائے۔ اور یہ کہ کہیں پر بھی کسی ملک میں جبری آبادیاں نہیں ہوگی ان کی، تو پھر اس کے باوجود جب یہ بین الاقوامی ذمہ داری تھی وہ صرف فلسطین کو نشانہ کیوں بنایا گیا۔ وہاں کیوں آباد کیا گیا؟ تو وہاں پر جبری طور پر کیوں آباد کیا گیا۔ خود یہودیوں کو بھی جبری طور پر لایا گیا، فلسطین کے زمینوں پر بھی جبری قبضہ کیا گیا، بستیاں بنائی گئی۔ تو پھر یہ بھی صاف کہا گیا کہ فلسطین میں آباد نہ کیا جائے کیونکہ یہ اوور پاپولیٹڈ ہے اور ضرورت سے زیادہ یہاں کی آبادی ہے۔ اور پھر یہ کہ فلسطین معاشی لحاظ سے کمزور ہے۔ تو جہاں آبادی بھی زیادہ ہو اور جہاں پر معاشی لحاظ سے بھی کمزوری ہو تو اس وقت تو متحدہ کی قرارداد یہ تھی۔ اور وہ اس وقت ایک کٹھ پُتلی بنی ہوئی ہے، ان کو اپنے قراردادوں کی لاج رکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ تو یہ جو کچھ دنیا میں ہوا ہے یہ یک طرفہ ہو رہا ہے، جبر کی بنیاد پر ہو رہا ہے، ظلم کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ اور اس ظلم کی قیادت امریکہ کر رہا ہے۔ صحافی: حضرت آپ سمجھتے ہیں کہ آج کا دن تاریک دن ہے اور بدترین دن ہے۔ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ملک میں کبھی شفاف الیکشن نہیں ہوئے کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں مختلف ادوار میں جو انتخابات ہوئے ہیں وہ شفاف نہیں ہوئے اور اگر سمجھتے ہیں کہ وہ شفاف نہیں تھے تو پھر آج کی بات ہم کیوں کر رہے ہیں پچھلے انتخابات کی بات بھی کیوں نہیں کی جاتی ہے؟ مولانا صاحب: حضرت کبھی تو روکنا پڑے گا، ہماری کتابوں میں لکھا ہے تسلسل باطل ہے۔ تو تسلسل کو کہیں تو توڑنا پڑے گا۔ اور عوام میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا اور قطعی طور پر یہ بات طے کرنا ہوگا کہ اب مزید یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ ہماری کوئی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ تصادم نہیں ہے، لیکن میرے حق پہ تو قبضہ نہ کرے، غریب آدمی کے حق پر تو قبضہ نہ کرے، جو اس کا کام ہے وہ کریں جو میرا کام ہے وہ میں کروں، جو عوام کا کام ہے وہ کرے، جو سیاسی پارٹی کا کام ہے وہ ہم کریں۔ اور ہر ایک اپنے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرے تو کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ صحافی: مولانا صاحب یہ بتائیں کہ اپوزیشن اور حکومت تو آپ کے طواف لگا رہے ہیں تو کیا اسٹیبلشمنٹ نے بھی کبھی کوشش کی ہے آپ سے ملنے کی؟ مولانا صاحب: اسٹیبلشمنٹ کی کوشش نظر نہیں آتی وہ غائبانہ ہوتی ہے۔ صحافی: عمران خان کی رہائی کا مطالبہ سامنے آیا تھا تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ عمران خان بے گناہ ہے؟ مولانا صاحب: مجھے گناہ اور بے گناہی کا پتہ نہیں ہے یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ میرے جو ان کے خلاف تحفظات تھے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اس کی بنیاد پر ان کو فوراً گرفتار کر لیا جائے اور پھر یہ جو مقدمات ہیں مقدمات کا اپنی بحث ہے، اپنا موضوع ہے مستقل، میں کسی سیاستدان کو جیل میں قید کر کے مقابلہ نہیں کرنا چاہتا۔ اور اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو ہم میدان میں کریں، آپس میں گفتگو کے ذریعے کریں، باہر کریں۔ لیکن سیاست میں شدت نہیں ہونی چاہیے۔ اس بات کا میں اعتراف کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا اختلاف جو ہے ہم کچھ زیادہ شدت کی طرف چلے گئے تھے، زیادہ تلخیوں کی طرف چلے گئے تھے، اور ہم اب اس تعلق کو واپس ایک اعتدال پر لانے کے لیے، کہ اختلاف اختلاف رہے لیکن رویوں میں اعتدال رہے۔ اس طرف لانے میں کافی کامیاب ہوئے ہیں اور میں یہ سفر جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ بہت شکریہ جی ضبط تحریر: #سہیل_سہراب ممبر ٹیم جے یو آئی سوات #teamjuiswat https://www.teamjuiswat.com/2025/02/Maulana-Fazlur-Rehman-talks-to-the-media-in-Mardan.html
❤️ 👍 10

Comments