Children's world
Children's world
January 23, 2025 at 09:15 AM
*سیرت النبی ﷺ* *(قسط نمبر 58)* *🌻=المعرفت منزل=🌻* ادھر رسول اللہ ﷺ اندر تشریف فرما تھے.. آپ پر وحی نازل ہورہی تھی.. وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس تشریف لائے.. بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی.. آپ ﷺ نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پرتلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا.. "عمر ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤگے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت ورسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے..؟" حضور ﷺ کی پرجلال آواز نے ان کو کپکپا دیا.. نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عرض کیا.. "ایمان لانے کے لئے.." اور فوراً کلمہ شہادت پڑھ لیا.. آنحضرت ﷺ بے اختیار اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں.. یہی روایت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ دارقطنی , ابویعلیٰ , حاکم اور بیہقی میں حضرت انس سے مروی ہے.. ان روایتوں کے علاوہ مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے جو گو ایک تابعی کی زبان سے مروی ہے تاہم اس باب میں سب سے زیادہ محفوظ ہے.. حضرت عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت ﷺ کو چھیڑنے نکلا.. آپ ﷺ بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہوگئے اور نماز شروع کردی جس میں آپ ﷺ نے سورۂ الحاق تلاوت فرمائی.. میں کھڑا سنتا رہا اور قرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا.. دل میں کہا.. "جیسا قریش کہا کرتے ہیں خدا کی قسم ! یہ شاعر ہے.." ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی.. اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ o وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ o قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ o "یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں.. تم بہت کم ایمان رکھتے ہو.." میں نے کہا.. "یہ تو کاہن ہے.. میرے دل کی بات جان گیا ہے.." اس کے بعد ہی آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی.. وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ O قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ O تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ O "یہ کاہن کا کلام بھی نہیں.. تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو.. یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے.." آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا.. (مسند ابن حنبل , ج۱ : ۱۷) اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر رضی الله عنہ کی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندر سے آواز آئی.. "اے جلیج ! ایک فصیح البیان کہتا ہے o لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ o اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی.. اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں.. اس روایت میں اس کا بیان نہیں ہے کہ اس آواز کا حضرت عمر رضی الله عنہ پر کیا اثر ہوا.. پہلی عام روایت بھی اگر صحیح مان لی جائے تو شاید واقعہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس ندائے غیب پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے لبیک نہیں کہا اور اس کا کوئی تعلق آنحضرت ﷺ کی بعثت کی بشارت سے وہ نہ پیدا کرسکے کہ اس میں ان کی رسالت اور نبوت کا کوئی ذکر نہ تھا.. تاہم چونکہ توحید کا ذکر تھا اس لئے ادھر میلان ہوا ہوگا لیکن چونکہ ان کو قرآن سننے کا موقع نہیں ملا , اس لئے اس توحید کی دعوت کی حقیقت نہ معلوم ہوسکی.. اس کے بعد جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو سورۃ الحاقہ جس میں قیامت اور حشر ونشر کا نہایت موثر بیان ہے , نماز میں پڑھتے سنی تو ان کے دل پر ایک خاص اثر ہوا جیسا کہ اس فقرے سے ظاہر ہوتا ہے.. "وقع الاسلام فی قلبی کل موقع O یعنی اسلام میرے دل میں پوری طرح بیٹھ گیا" تاہم چونکہ وہ طبعاً مستقل مزاج اور پختہ کار تھے اس لئے انہوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور سورۂ طہٰ پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکار اٹھے اور در اقدس پر حاضری کی درخواست کی.. اور اگر وہ پہلی روایت صحیح تسلیم نہ کی جائے تو واقعہ کی سادہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس ندائے غیب نے ان کے دل میں توحید کا خیال پیدا کیا لیکن چونکہ تین برس دعوت محدود اور مخفی رہی تھی اس لئے ان کو اس کا حال نہ معلوم ہوسکا اور مخالفت کی شدت کے باعث کبھی خود بارگاہ نبوی ﷺ میں جانے اور قرآن سننے کا موقع نہ ملا.. پھر جب رفتہ رفتہ اسلام کی حقیقت کی مختلف آوازیں ان کے کانوں میں پڑتی گئیں تو ان کی شدت کم ہوتی گئی.. بالآخر وہ دن آیا کہ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے ان کو سورۃ الحاقہ سننے کا موقع ملا اور وہ لبیک کہتے ہوئے اسلام کے آستانہ پر حاضر ہوگئے.. حضرت عمر رضی الله عنہ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرأت نہ کرتا تھا.. اس لئے ان کے مسلمان ہوجانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت ورسوائی محسوس ہوئی.. دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت وقوت , شرف واعزاز اور مسرت وشادمانی حاصل ہوئی.. ابن اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکے کا کون شخص رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے.. پھر میں نے جی ہی جی میں کہا 'یہ ابو جہل ہے'.. اس کے بعد میں نے اس کے گھر جاکر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا.. وہ باہر آیا.. دیکھ کر بولا.. "أھلًا وسھلًا (خوش آمدید , خوش آمدید) ___ کیسے آنا ہوا..؟" میں نے کہا.. "تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺ پر ایمان لاچکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کرچکا ہوں.." حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی ) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا.. "اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کا بھی برا کرے.." امام ابن جوزی نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوجاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے , اسے زدوکوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا.. اس لئے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاص بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی.. وہ گھر کے اندر گھس گیا.. پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا (شاید ابوجہل کی طرف اشارہ ہے) اور اسے خبر دی.. وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا.. ابن ہشام اور ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے.. یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا.. حضرت عمر نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں.. اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ "خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے" حضرت عمر رضی الله عنہ اس کے پیچھے ہی تھے.. بولے.. "یہ جھوٹ کہتا ہے.. میں مسلمان ہوگیا ہوں.." بہر حال لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہوگئی.. لوگ حضرت عمر رضی الله عنہ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر رضی الله عنہ لوگوں کو مار رہے تھے.. یہاں تک کہ سورج سر پر آگیا اور حضرت عمر رضی الله عنہ تھک کر بیٹھ گئے.. لوگ سر پر سوار تھے.. حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا.. "جو بن پڑے کرلو.. اللہ کی قسم ! اگر ہم لو گ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکے میں یا تو تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے.." حضرت عمر رضی الله عنہ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی.. باقی رہے مسلمان تو ان کے احوال کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مجاہد نے ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر بن الخطاب رضی الله عنہ سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا.. تو انہوں نے کہا.. "مجھ سے تین دن پہلے حضرت حمزہ رضی الله عنہ مسلمان ہوئے.. پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرکے اخیر میں کہا کہ پھر جب میں مسلمان ہوا تو میں نے کہا.. "اے اللہ کے رسولﷺ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں.. خواہ زندہ رہیں" خواہ مریں..؟" آپ ﷺ نے فرمایا.. "کیوں نہیں.. اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ حق پر ہو.. خواہ زندہ رہو , خواہ موت سے دوچار ہو.." حضرت عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تب میں نے کہا.. "پھر چھپنا کیسا..؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! ہم ضرور باہر نکلیں گے.." چنانچہ ہم دوصفوں میں آپ ﷺ کو ہمراہ لے کر باہر آئے.. ایک صف میں حمزہ رضی الله عنہ تھے اور ایک میں میں تھا.. ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا.. یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوگئے.. حضرت عمر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ رضی الله عنہ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی.. اسی دن رسول اللہ ﷺ نے میرا لقب "فاروق" رکھ دیا.." حضرت صہیب بن سنان رومی رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا.. اس کی علانیہ دعوت دی گئی.. ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے , بیت اللہ کا طواف کیا اور جس نے ہم پر سختی کی اس سے انتقام لیا اور اس کے بعض مظالم کا جواب دیا.. حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم خانۂ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے.. یہاں تک کہ حضرت عمر نے اسلام قبول کیا.. جب سے حضرت عمر رضی الله عنہ نے اسلام قبول کیا تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے ھیں ============(باقی آئندہ ان شآءاللہ) سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی.. سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
❤️ 👍 19

Comments