
Children's world
7.6K subscribers
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

🥀 _*تین عادات اپنے بچوں میں بچپن سے ہی ڈالیں*_ 🥀 کیونکہ جیسے ہی وہ بڑے ہوں گے وہ ان باتوں میں آپ کو بہت تنگ کریں گے اور آپ کی بالکل نہیں سنیں گے *دن میں دو دفعہ برش کرنا (ویسے سب سے اچھا طریقہ سنت مطابق مسواک کرنا ہے):* صبح اٹھتے ہی اور رات کو سونے سے پہلے دانت صاف کرنا شروع میں تھوڑی مشکل ضرور ہو گی مگر آہستہ آہستہ وہ اس کے عادی ہو جائیں گے اور پھر اس قدر عادی ہو جائیں گے کہ اس کے بغیر ان کی زندگی بسر ہی نہیں ہو گی *مناسب مقدار میں پانی پینا:* بچوں کو دن میں مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا کر کے پانی پلائیں جب وہ باہر جائیں ان کو پانی کی بوتل ساتھ دیں تاکہ انہیں پتہ ہو کہ پانی ان کی زندگی کا لازمی جز ہے اس طرح وہ بڑے ہونے تک اس روٹین کے عادی ہو جائیں گے *جلدی سونا اور جلدی جاگنا:* بچوں کی نیند کا ایک وقت مقرر کریں اور کوشش کریں کہ ان کی نو سے دس گھنٹے کی نیند مکمل کروائیں وہ اپنی نیند کے پورا ہونے کے بعد ذہنی و جسمانی طور پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے ان تینوں عادات میں بظاہر سب لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر یہ اچھی عادات بچوں کی صحت کے لیے اشد ضروری ہیں والدین بروقت توجہ دے کر اپنے بچوں کو ایک صحت مند زندگی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں *تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش کسی کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن جائے* بچوں کی اسلامی تربیت گروپ میں شمولیت کے لئے تربیہ لکھ کر وٹس ایپ میسج کیجئے 03016865171

*سیرت النبی ﷺ* *( قسط نمبر 79 )* *اسراء اور معراج:* 🌻 *=المعرفت منزل=*🌻 نبی کریم ﷺ کی دعوت و تبلیغ ابھی کامیابی اور ظلم و ستم کے اس درمیانی مرحلے سے گزر رہی تھی اور افق کی دور دراز پنہائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی پڑنا شروع ہوچکی تھی کہ اِسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا.. یہ معراج کب واقع ہوا..؟ اس بارے میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں البتہ سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے.. واقعہ کی تفصیل جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک رات حضور اکرم ﷺ آرام فرما رہے تھے کہ دو فرشتے جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام آئے.. آپ ﷺ کو بیدار کیا اور اپنے ساتھ حرم کعبہ میں صفا و مروہ کے درمیان لائے جہاں بُرّاق کھڑا تھا.. وہ گدھے سے بڑا لیکن خچر سے کچھ چھوٹا سفید رنگ کا بہشتی جانور تھا.. ران پر دو پر تھے اور زین بندھی تھی.. اس جنتی بُرّاق کا نام جارود تھا.. جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام نے حضور ﷺ کو براق پر سوار کروایا اور روانہ ہوئے.. دائیں بائیں فرشتوں کی جماعتیں تھیں.. راستہ میں کھجور کے درختوں کے جُھنڈ نظر آئے.. جبرئیل علیہ السلام نے کہا.. "یہ آپ ﷺ کا دارالہجرت ہے.." یہاں اتر کر آپ نے دو رکعت نفل نماز پڑھی.. پھر جبرئیل علیہ السلام نے طور سینا پر براق کو روکا جہاں آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی.. آپ کی تیسری منزل بیت اللحم تھی جس کے بارے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے.. وہاں بھی آپﷺ نے نماز پڑھی.. وہاں سے بیت المقدس آئے جہاں مسجد اقصیٰ تھی.. وہاں آپ براق سے اترے.. استقبال کے لئے فرشتوں کی کثیر تعداد تھی.. مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاءؑ آپ کے منتظر تھے.. وہاں آپ ﷺ نے نماز میں تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی.. حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی مقتدیوں میں تھے.. یہ سفر کی پہلی منزل تھی اس کو "اسرا ء" بھی کہا جاتا ہے.. اس کے بعد سفر کی دوسری منزل شروع ہوئی جو اصل معراج ہے.. وہاں سے جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ کو صخرہ پر لائے جہاں سے فرشتے آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ہیں.. وہاں ایک سیڑھی نمودار ہوئی جس کے ذریعے اسی رات آپ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا.. آپ ﷺ کے لیے دروازہ کھولا گیا.. آپ نے وہاں ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا.. انہوں نے آپ کو مرحبا کہا.. سلام کا جواب دیا اور آپ کی نبوت کا اقرار کیا.. اللہ نے آپ ﷺ کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں.. پھر آپ ﷺ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا.آپ ﷺ نے وہاں حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا.. دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا.. دونوں نے سلام کا جواب دیا , مبارک باد دی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا.. پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا.. آپ ﷺ نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مبارک باد دی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا.. پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپ ﷺ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مرحبا کہا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا.. پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپ ﷺ نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا مبارک باد دی اور اقرار نبوت کیا.. پھر آپ ﷺ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی.. آپ ﷺ نے سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مرحبا کہا اور اقرار نبوت کیا.. البتہ جب آپ ﷺ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے.. ان سے کہا گیا.. "آپ کیوں رو رہے ہیں..؟" انہوں نے کہا.. "میں اس لیے رو رہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا , اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے.." اس کے بعد آپ ﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا.. وہاں آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی.. آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا.. انہوں نے جواب دیا , مبارک باد دی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا.. اس کے بعد آپ ﷺ کو بیت المعمور دکھلایا گیا جو فرشتوں کا کعبہ ہے اور زمین پر کعبہ کے عین اوپر واقع ہے.. وہاں ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے طواف کر رہے تھے.. اس کے بعد آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا.. سدرہ ایک بیری کا درخت ہے.. اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر اور پھل مٹکوں کی طرح تھے.. فرشتے جگنوؤں کی طرح ان پتوں پر تھے.. اس پر سونے کے پتنگے , روشنی اور مختلف رنگ چھائے ہوئے تھے.. سدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حدِّ فاصل ہے.. اس کے آگے عالمِ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے.. یہیں پر جنت الماویٰ ہے جس کا ذکر سورۂ نجم میں ہے.. اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت میں داخل ہوئے.. حضرت جبرائیل علیہ السلام سدرہ سے کچھ آگے رُک گئے اور عرض کیا کہ اگر اس مقام سے بال برابر بھی بڑھوں تو جل کر خاک ہو جاؤں.. اب آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے.. ============(باقی آئندہ ان شآءاللہ) سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..

*راستہ الگ کرنے سے پہلے سوچ لیں* ( *مائیں بہنیں اور بیٹیاں توجہ فرمائیں*) *اگر آپ کی نظر میں ازدواجی ذندگی کے مسائل کا آخری حل علیحدگی ہی ہے تو ایک بار ان مسائل کا ادراک بھی کر لیں*۔ میکے میں کیا کیا مسائل پیش آ سکتے ہیں؟ *بسا اوقات خواتین کا روٹھ کر میکے جانے کا مقصد طلاق یا خلع نہیں ہوتا بلکہ وہ چند دن رہنا چاہتی ہیں اور یہ سوچتی ہیں کہ شوہر منا کر لے جائے گا۔کبھی والدین بیٹی کی شکایات کو انا کا مسئلہ بنا کر بیٹی کو روک لیتے ہیں تو کبھی شوہر بیگم کے روٹھ کر جانے کو مسئلہ بنا لیتا ہے اور خود ہی آئے گی اور خود ہی آئے گا سے بات بڑھتے بڑھتے علیحدگی تک جا پہنچتی ہے*۔ *لہذا کبھی بھی اپنا گھر چھوڑ کر جانے کی غلطی نہ کریں*۔ *ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ کیا میکے والے آپ کے اس فیصلے کی تائید کریں گے*؟ *میکے میں والدین کے علاوہ بھائی اور بھابھیاں آپ کے وہاں مستقل قیام سے خوش ہوں گی*؟ *میکے میں بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیوں سے آپ کی وقعت کم تو نہ ہو گی*؟ *جس طرح اب چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے میکے جانے پر آپ کا استقبال اور آؤ بھگت کی جاتی ہے مستقل رہنے کی صورت میں بھی ایسا ہی ہو گا*؟ *سب سے بڑا مسئلہ اخراجات کا ہو گا کیا میکے والے ہمیشہ آپ کا ساتھ دے پائیں گے*؟ *اگر آپ خود کماتی ہیں تو کیا یہ آمدن کافی ہو گی*؟ *بچوں کا کیا مستقبل ہو گا*؟ *کیا آپ بچوں کے بغیر رہ پائیں گی*؟ *میاں بیوی کے درمیان بہت سنجیدہ قسم کے مسائل بھی ہو جاتے ہیں لیکن علیحدگی کی صورت میں اوپر لکھے گئے مسائل اس سے بھی کہیں شدید ہوتے ہیں جب آہستہ آہستہ میکے میں آپ کی جگہ کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے*۔ علیحدگی کے بعد عموماً والدین دوسری شادی پر زور دیتے ہیں لیکن کیا دوسرا شوہرآپ کے بچوں کو قبول کرے گا۔ ( *رنڈوے یا طلاق یافتہ مرد حضرات کی 99% تعداد بغیر بچوں کی خاتون سے شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ اپنے اور خاتون کے بچوں کو ایک جگہ رکھ کر تناؤ کی کیفیت نہیں بنانا چاہتے۔خاتون کے بچوں کے اخراجات ایک اضافی بوجھ ہوتے ہیں*) اس لیے عزیز بہن اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔ مکمل دیانت داری کے ساتھ شوہر کی خوبیوں اور خامیوں کو دیکھیں اگر خوبیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو ساتھ رہنا ہی بہترین فیصلہ ہے۔ اپنی خامیوں پر بھی قابو پانے کی کوشش کریں۔ اور سب سے اہم یہ کہ ماضی کی تلخ یادوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے بہت ہمت اور حوصلے کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیجئے۔ *محبت اور خلوص سے اس رشتے کو مضبوط کیجئے* *اس انتہائی اہم پیغام کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش سے کسی کا گھر اجڑنے سے بچ جائے* بچوں کی اسلامی تربیت گروپ میں شمولیت کے لئے تربیہ لکھ کر وٹس ایپ میسج کیجئے 03016865171

*نعمتوں کے قدر دان بنیے اور نعمتوں کی پہچان کر کے ان کا شکر ادا کیجئے تاکہ اللہ پاک اس میں مزید اضافہ فرمائے ۔۔۔* 🎗️ *جانتے ہیں، ہمیشہ شیطان ہمیں کہاں سے بہکاتا ہے❓* *نعمتوں سے۔۔۔ جی ہاں، بالکل ایسے ہی۔۔۔* 📉 *وہ ہمیں نعمتوں کو منفی انداز سے دکھاتا ہے، تاکہ ہم ناشکری کرنے لگیں۔* *آپ کو اپنی اولاد نالائق اور پریشان کرنے والی لگے،* *تو آپ اللہ کا شکر ادا کرنا بھول جائیں کہ اس نے آپ کو اولاد کی نعمت عطا کی۔۔۔* 🏕️ *آپ کو اپنے گھر والے سخت مزاج یا غصے والے لگیں، تو آپ اللہ کا شکر ادا کرنا بھول جائیں کہ انہوں نے آپ سے محبت اور خیال رکھا۔* 🏡 *آپ کو اپنا گھر تنگ یا نامکمل لگے، تو آپ اللہ کا شکر بھول جائیں کہ اس نے آپ کو رہنے کی جگہ دی۔* ⛱️ *آپ کو اپنا شوہر تھکا ہوا اور پریشان لگے، تو آپ شکر کرنا بھول جائیں کہ اللہ نے آپ کو سکون کا ذریعہ دیا۔* 🌹 *آپ کو اپنی بیوی جھگڑالو لگے، تو آپ شکر بھول جائیں کہ اللہ نے آپ کو محبت اور رحمت کا بندھن دیا۔* 🛴 *آپ کو گھر کا کام تھکا دینے والا لگے، تو آپ شکر بھول جائیں کہ اللہ نے آپ کو ان بچوں کی صحت دی جو گھر کو گندا کرتے ہیں۔* 🤝 *یاد رکھیں، آپ کی زندگی کسی اور کے لیے خواب ہو سکتی ہے۔* *کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا امتحان شکر میں ہو، اور آپ اسے صبر کا امتحان سمجھ کر گزاریں۔* *🌼 اللہ کا شکر ادا کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا امتحان حقیقتاً صبر کا امتحان بن جائے اور آپ اس زندگی کے واپس آنے کی خواہش کریں، جسے آپ معمولی سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ زندگی غیر معمولی ہے۔* *پس،* *🤲🏻 اے اللہ! ہم تیری ہر نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں جو تُو نے ہم پر عطا کی ہے۔* 💐 *الحمد لله رب العالمين*💐 ⚜️⚜️🤝⚜️⚜️ *تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ اور مقامی گروپس میں شیئر کیجئے ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک آپ کی محنت یا کوشش سے کسی کی زندگی بدل دے* بچوں کی اسلامی تربیت گروپ میں شمولیت کے لیے تربیت لکھ کر واٹس ایپ میسج کیجئے 03016865171

*عبد الباری کلاس میں سورت الہب کی تلاوت کرتے ہوئے* Share with friends and family members

*کیا آپ نے وہ دعا سیکھ لی ہے جو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد پڑھی جاتی ہے؟؟!* ایک والد کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی سے ایک بڑا سبق سیکھا۔ ہوا یوں کہ وہ ایک مرتبہ سورہ احقاف حفظ کر رہی تھی۔ اچانک مجھ سے سوال کر بیٹھی: ابو جان! آپ کی عمر کتنی ہے؟ میں نے اسے مسکراتے ہوئے جواب دیا: 44 سال۔ کہنے لگی گویا آپ چار سال پہلے ہی 40 سال کے ہو چکے ہیں۔ پھر کیا آپ وہ دعا پڑھتے ہیں جو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد پڑھی جاتی ہے؟ میں نے بڑی حیرت سے پوچھا: کیا ایسی بھی کوئی خاص دعا ہے جو چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد کی جاتی ہے؟ بیٹی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ابو جان! ہماری ٹیچر نے سورہ احقاف کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے: *وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (15) أُولَٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَن سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ (16)..* ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال تو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں ( یہ ) جنتی لوگوں میں ہیں ۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا ہے ۔ ہماری ٹیچر نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ ان کے والد صاحب صاحب 30 سال سے پابندی کے ساتھ یہ دعا پڑھ رہے ہیں اور اب 80 سال پہنچنے کے قریب ہیں اس کے باوجود وہ اچھی صحت و تندرستی کے ساتھ جی رہے ہیں۔ اس بہترین نصیحت کے لئے میں نے اپنی بیٹی کا شکریہ ادا کیا اور اس کے سر کو بوسہ دیتے ہوئے ہوئے اللہ کی تعریف کی کہ اس نے مجھے ایسی بیٹی سے نوازا ہے جس کے ذریعے مجھے یہ سبق سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ بیٹی نے کہا: ابو جان! آپ بھی یہ دعا برابر ہر پڑھے رہا کریں: *رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ .* (اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا ۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔) عربی سے منقول آپ کے ایک شئیر سے کتنے والد پڑھیں گے اور ہر ایک کی نسل سنور جائے تو آپ کا آخرت کا ڈیپارٹمنٹ کلئیر ہونے میں آسانی ہو گی ان شاءاللہ تعالٰی بچوں کی اسلامی تربیت گروپ میں شمولیت کے لئے تربیہ لکھ کر وٹس ایپ میسج کیجئے 03016865171

*باپ ایک ایسا شجر ہے، جس کے ساۓ میں اولاد راج کرتی ہے* `رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا🌿` *اللّہ پاک سب کے ماں باپ کو سلامت رکھے آمین 🤲* *اور جن حضرات کے والدین اس دنیا فانی سے پردہ فرما چکے ہیں اللہ پاک ان کی قبور کو جنت الفردوس کا باغیچہ بنائے*

*سیرت النبیﷺ* *(قسط نمبر 80)* *سفر معراج کے اہم واقعات:* *❤️=المعرفت منزل=❤️* اسکے بعد اللہ جبارجل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپ ﷺ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا.. اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں.. اس کے بعد آپ ﷺواپس ہوئے , یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ کو کس چیز کا حکم دیا ہے..؟ آپ ﷺ نے فرمایا.. "پچاس نمازوں کا.." انہوں نے کہا.. "آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی.. اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے.." آپ ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا.. گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں.. انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں , اگر آپ ﷺ چاہیں.. اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپ ﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور لے گئے.. اللہ عزوجل نے پانچ نمازیں کم کردیں اور آپ ﷺ نیچے لائے گئے.. جب موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی.. انہوں نے پھر کہا.. "آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے.." اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپ ﷺ کی آمدو رفت برابر جاری رہی.. یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں.. اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپ ﷺ کو واپسی اور طلب تخفیف کا مشورہ دیا مگر آپ ﷺ نے فرمایا.. "اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے.. میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں.." امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں..؟ پھر امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دو قول منقول ہیں , ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں.. آپ ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ان کی اپنی شکل میں دیکھا.. انہیں آپ ﷺ نے ان کی اپنی شکل میں دو مرتبہ دیکھا تھا.. ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ یہاں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس.. واللہ اعلم.. بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبی ﷺ کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا اور آپ ﷺ کو اس سفر کے دوران کئی چیزیں دکھلائی گئیں.. آپ ﷺ پر دودھ اور شراب پیش کی گئی تو آپ ﷺ نے دودھ اختیار فرمایا.. اس پر آپ ﷺ سے کہا گیا کہ آپ کو فطرت کی راہ بتائی گئی یا آپ نے فطرت پالی اور یاد رکھئے کہ اگر آپ نے شراب لی ہوتی تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی.. آپ ﷺ نے جنت میں چار نہریں دیکھیں.. دو ظاہری اور دو باطنی.. ظاہری نہریں نیل و فرات تھیں اور باطنی نہریں جنت کی دو نہریں ہیں.. (نیل و فرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت نیل و فرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی.. واللہ اعلم) آپ ﷺ نے "مالک" داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا.. وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی.. آپ نے جنت و جہنم بھی دیکھی.. آپ ﷺ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں.. ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے.. آپ ﷺ نے سود خوروں کو بھی دیکھا.. ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کرنے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے.. آپ ﷺ نے زنا کاروں کو بھی دیکھا.. ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا.. یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے.. آپ ﷺ نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہروں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں.. (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے) آپ ﷺ نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے.. آپ ﷺ نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا.. آپ ﷺنے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا.. اس وقت قافلہ سو رہا تھا.. پھر آپ ﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپ ﷺ کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی.. ============(باقی آئندہ ان شآءاللہ) سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..

*سیرت النبی ﷺ* *(قسط نمبر 78)* *یثرب (مدینہ)کی چھ سعادت مند روحیں:* *🌻=المعرفت منزل=🌻* آنحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ قبائل کا دورہ فرماتے اور اسلام کی تبلیغ کرتے اور ہر سال منیٰ , عکاظ , مجنٰہ وغیرہ کے میلوں میں قبائل عرب کو دعوت دیتے.. حج کا زمانہ آیا تو قافلوں کے قافلے منیٰ کی وادی میں پڑاؤ ڈالنے لگے.. اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا اس کے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ آپ ﷺ رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے.. اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے اور مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر عقبہ کی گھاٹی میں پہنچے.. بنو ذُہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی.. انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا.. اس کے بعد رسول اللہ ﷺ منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا.. آپﷺ نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جا پہنچے یہ یثرب(مدینہ) کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے.. یہ اہل یثرب(مدینہ) کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے حلیف یہود مدینہ سے سنا کرتے تھے کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا جانے والا ہے اور اب جلد ہی وہ نمودار ہوگا.. ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں "عادِ ارَم" کی طرح قتل کر ڈالیں گے.. آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا.. "آپ کون لوگ ہیں..؟" انھوں نے کہا کہ یثرب(مدینہ) سے آئے ہیں اور بنو خزرج سے تعلق ہے.. پھر آپﷺ نے پوچھا.. "کیا یہودیوں کے حلیف ہو..؟" عرض کیا کہ ہاں.. آپ ﷺنے فرمایا.. "کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں..؟" وہ لوگ بیٹھ گئے.. آپ ﷺ نے انھیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی.. انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ تو وہی نبی ہےجسکا یثرب (مدینہ) کے یہودی تذکرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ دیکھو یہود ہم سے اس اولیت میں بازی نہ لے جائیں _ یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کرلیا.. ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں.. 1.. حضرت ابو امامہ اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ.. خزرج کی شاخ بنی مالک بن نجّار سے تعلق تھا.. صحابہ میں سب سے پہلے ان ہی نے 1 ھ میں وفات پائی.. 2.. حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ رضی اللہ عنہ.. بنی نجّار سے تعلق تھا اور "ابن عفراء" کہلاتے تھے.. بدر میں وفات پائی.. 3.. حضرت رافع بن مالک بن عجلان رضی اللہ عنہ.. بنی زریق کے معزز شخص تھے.. اس وقت تک جس قدر قرآن اتر چکا تھا , حضور ﷺ نے ان کو عنایت فرمایا.. اُحد میں شہید ہوئے.. 4.. حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ رضی اللہ عنہ.. بنی سلمہ سے تعلق تھا.. 5.. حضرت عقبہ بن عامر بن نابی رضی اللہ عنہ.. بنی خزام بن کعب سے تھے.. 6.. حضرت جابر بن عبداللہ رُباب رضی اللہ عنہ.. بنی عبید بن عدی سے تھے.. ان افراد کا شمار دانشورانِ یثرب(مدینہ) میں ہوتا تھا.. انھیں اندازہ تھا کہ حال ہی میں اوس اور خزرج میں جو جنگ ہوئی تھی اس نے بڑی حد تک معاشرے کو پیس کر رکھ دیا تھا اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ مزید ایسی کوئی جنگ ہو.. اس لئے انھوں نے یہ توقع قائم کی کہ حضور اکرم ﷺ کی دعوت جنگ کے خاتمہ کا ذریعہ ثابت ہوگی.. چنانچہ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت اور دشمنی نہیں پائی جاتی.. ہمیں توقع ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت کے ذریعہ ﷲ تعالیٰ ان میں یکجہتی پیدا کرے گا اور یہ کہ موجودہ حالات آپﷺ کی تشریف آوری کے لئے سازگار نہیں.. ہم یثرب (مدینہ) جا کر آپ ﷺ کی بعثت کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آپﷺ کی دعوت کی طرف بلا کر ان کے سامنے دین اسلام پیش کریں گے اور آئندہ سال پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے.. اس کے بعد وہ لوگ یثرب(مدینہ) واپس ہوئے اور ان کے ذریعہ گھر گھر اسلام کا چرچہ ہونے لگا۔۔۔۔ ============(باقی آئندہ ان شآءاللہ) سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..