
Muslim Sisters
February 8, 2025 at 02:10 PM
اسماعیلیہ بارے دو روز سے کئی دوست لکھ رہے ہیں اور شائد پہلی بار یوں اس مذہب اور حاملین مذہب بارے عام لوگوں کو معلومات مل پائی ہیں ۔ ان کی تاریخ اور آغاز بارے کئی دوستوں نے لکھا ہے جس میں جستہ جستہ ان کے عقائد بارے بھی لکھا گیا لیکن اس حوالے سے کچھ تفصیلی نہیں لکھا گیا ۔۔ سو کچھ معلومات احباب کی نذر ۔۔۔۔
👈۔۔۔۔ اسماعیلی عام عوام سے اپنے عقائد چھپاتے ہیں اور چھپانے کی تاکید بھی کرتے ہیں بلکہ ان عقائد کا خفیہ رکھنا ان کے نزدیک فرض ہے ، اگر اپنے ہی ہم مذہب کو عقائد سے متعلق کوئی کتاب دیتے ہیں تو حلف لیتے اور دیتے ہیں کہ یہ عقائد ظاہر نہیں کیے جائیں گے ۔
تخلیق کائنات اللہ تعالی کی ذات نبوت اور وصیت امامت اسی طرح قران کریم اور صحابہ کرام کے حوالے سے اور روز قیامت کی بابت بھی اسماعیلیہ کے عقائد معمول کے اسلامی عقائد سے یکسر فرق ہیں ۔علامہ احسان الہی ظہیر اپنی کتاب "الاسماعیلیہ" میں لکھتے ہیں کہ :
" اسماعیلیہ کی کتب دو طرح کی ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی اور خفیہ ۔اور لوگ عموماً ظاہری کتب کی بنیاد پر ان کے عقائد کو دیکھتے ، پرکھتے ہیں جس سبب دھوکہ کھا جاتے ہیں "
👈۔۔۔۔اللہ تعالی کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ اس کی کوئی صفت نہیں ہے اور صفات سے ماوراء ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اگر اللہ تعالی سے صفات کو منسوب کیا جائے گا تو یہ اس کی شان کے لائق نہیں ۔ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نہ ہی موجود ہے اور نہ ہی معدوم ، اس کو ذات بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ذات صفات کی محتاج ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ان کے عقائد کی تفصیل ایسی عجیب اور گجلک ہے کہ:
اک معمہ ہے نہ سمجھنے کا
👈۔۔۔۔سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے ، کہ وہ اللہ تعالی کے قائم مقام تھے بلکہ سیدنا علی کی نسل اور اولاد بھی ربوبیت کی صفات کے حامل تھے اسی طرح ان کے آباواجداد بھی انہی صفات کے حامل تھے ۔ ان کے والد ابو طالب بھی وصیت ، امامت ، نبوت اور رسالت کے چاروں مرتبہ پر فائز تھے ۔ ابو طالب امام زمانہ تھے ۔
ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام پچھلے انبیاء کو مبعوث کرنے والے سیدنا علی تھے ۔
یہ بھی کہتے ہیں کہ سیدنا علی ہی تھے جنہوں نے آسمان کو بلند کیا ، وہی دریا جاری کرتے اور درخت اگاتے ہیں ، وہی اول و آخر اور ظاہر و باطن ہیں ۔
👈۔۔۔۔۔نبوت کے حوالے سے ان کے عقائد کا خلاصہ کچھ یوں ہے
جبرائیل ان کے نزدیک ایک کنایہ اور اشارہ ہے کوئی حقیقی وجود نہیں ہے ۔ اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم پانچ افراد سے حاصل کیا تھا ، ابی بن کعب ، زید بن عمرو ، عمرو بن نفیل ش میسرہ اور سیدہ خدیجہ ۔۔۔۔۔جبکہ منصب نبوت باضابطہ طور پر سیدہ خدیجہ نے آپ کے حوالے کیا تھا ، بلکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ سے علم حاصل کیا اور پانچ کے سپرد کر دیا ۔۔
ان کے قدیم علماء کا ماننا اور کہنا تھا کہ :
نبوت محنت سے آج بھی حاصل کی جا سکتی ہے ۔
👈۔۔ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور یہ امامت اور نبوت کے درمیان کا مقام ہے ۔اور حضرت علی رض رسول کے وصی بھی ہیں لیکن مقام و مرتبے میں دونوں ہم سر ہیں ۔ان کا یہ قول ہے کہ سیدنا علی نے فرمایا :
" میں اور محمد ایک ہی نور ، اللہ تعالی کے نور سے ہیں ۔ اللہ تعالی نے اس نور کو دو حصوں میں پھٹنے کا حکم دیا پہلے ادھے حصے سے کہا تم محمد بن جا دوسرا نصف حصے سے کہا تو علی بن جا "
👈۔۔امامت کے بارے میں اسماعیلیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ دین کی بنیاد اور ایک ستون ہے ۔یہ اللہ تعالی کی طرف سے فرض ہے اور اس کے ذریعے دین مکمل ہوتا ہے ۔
اور یہ کہ زمین کبھی امام سے خالی نہیں ہوتی۔
اور یہ کہ جو اس حالت میں مرے کہ وہ امام زمانہ کو نہ پہچانتا ہو جاہلیت کی موت مرے گا ۔
یہ کہ سیدنا علی کی اولاد کے علاوہ کوئی امام نہیں ہو سکتا ۔
یہ کہ امام ماضی اور مستقبل کا علم رکھتا ہے ، اس پر فرشتے اترتے ہیں ، امام اللہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے ،
اور یہ کہ آئمہ (ہر کوئی اپنے اپنے زمانے میں ) اللہ کے مقام پر ہے کیونکہ وہ نبی کے قائم مقام ہیں ، جو اللہ کے قائم مقام ہے ۔
👈۔۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا ، پھر اس کے بعد بہت سے نورانی وجود پیدا کیے گئے ، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اللہ تعالی کو عقل اول قرار دیتے ہیں
👈۔۔۔ تقیہ کا عقیدہ ان کے ہاں بھی پایا جاتا ہے ، روایت ہے کہ آئمہ نے کہا :
٫ ہمارے راز کو چھپاؤ جس نے ہمارے راز پھیلائے اس نے ہمارے حق کا انکار کیا"
👈۔۔۔خلفائے ثلاثہ یعنی سیدنا ابوبکر و عمرو عثمان بارے ان کے عقائد ونظریات قریباً وہی ہیں جو اثنا عشری شیعہ کے ہیں ۔
👈 ۔۔ اصحابِ رسول بارے اسماعیلیہ کے عقائد جو ان کی قدیم کتابوں میں درج ہیں وہ تشیع کے عقائد کا ہی تسلسل ہے ، جو بیان محتاج نہیں اور معروف ہیں ۔
۔۔👈۔۔۔ ظاہری شریعت کو منسوخ کر کے اسلامی احکام کی تعبیر تاویل کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ظاہری دعوت رسول کا فرض تھا جبکہ باطنی دعوت وصی کا حق ہے اور پہلے وصی سیدنا علی کو قرار دیتے ہیں ، تاویل کا یہ ہی وہ ہتھیار ہے جس سے ان کے ابتدائی علماء نے ظاہری شریعت کو خیرباد کہا اور باطنی تاویلات کو اپنا دین بنا لیا اور اسی سبب کو باطنیہ بھی کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ قول منسوب کیا کہ " میں صاحب تنزیل ہوں اور علی صاحب تاویل" ۔
یوں دین کے دو حصے کر دیے ہیں آدھا دین ظاہر کی صورت میں رسول اللہ کو دیا جاتا ہے اور باقی آدھا سیدنا علی کو دے دیا گیا ۔
اس کے بعد تمام تر اسلامی احکامات تاویل کی کند چھری سے ذبح کر دیے گئے ۔ نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ جیسے احکامات اور فرائض سے سبکدوشی کے لیے تاویلات کا اختیار کیا گیا ۔ ہر شئے کے معانی بدل دیے گئے اور باطنی تاویلات سے اپنے ہم مذہبوں کو ان احکامات سے چھوٹ دی گئی ۔ یہ جو آپ مسلسل احباب کی تحاریر میں پڑھتے ہیں کہ اسماعیلیہ عام مسلمانوں کی طرح عبادات بجا نہیں لاتے ہیں تو اس کا سبب یہی " دین تاویل" ہے کہ اُنہوں نے ہر عبادت کو ظاہری قرار دے کر اس کی تاویل کی اور مجازی معانی کو اختیار کیا ۔ بطورِ مثال نماز کی تاویل یہ ہے کہ :
"ہمارے نزدیک نماز ان اولیاء کی ولایت کا نام ہے "
" نماز حقیقت میں امام کے ساتھ اتصال کا نام ہے "
اب جب آپ نے اولیا کی ولایت کو مان لیا اور امام کے ساتھ خود کو منسوب کر لیا تو دوسرے لفظوں میں آپ کی نماز ادا ہو گئی اب آپ کو مسلمانوں کی طرح ظاہری نمازوں کی ضرورت نہیں یہی سب کچھ زکوۃ روزہ اور حج کے ساتھ کیا گیا
👈۔۔۔مضمون کو ختم کرنے سے پیشتر ایک دلچسپ قصہ ضرور بیان کرنا چاہوں گا ، کہ ابتدا میں اسماعیلی بھی ظاہری شریعت پر عمل پیرا تھے اور اپنے ہی طریقے سے نماز روزہ کرتے تھے لیکن چھٹی صدی ہجری میں ان کے ایک امام "حسن بزرگ" نے ایک جشن منعقد کیا جس کو یوم القیامہ قرار دیا گیا ، اس تقریب میں موصوف نے اسماعیلی امت کو ظاہری شریعت سے آزاد کر دیا ،اور اس دن کی یاد میں اسماعیلی آج بھی عید مناتے ہیں ۔ قلعہ الموت کے دامن میں یہ جلسہ کیا گیا رنگ برنگے پرچم لگائے گئے لوگ منتظر تھے کہ امام حسن بزرگ نمودار ہوئے اور اعلان کیا :
"زمانے کے امام نے تم پر کرم کیا اور تم کو ظاہری شریعت کے ان امور سے آزاد کر دیا ہے "
یہ 17 رمضان تھا اور اس دن کو عید قرار دیا گیا ۔
۔۔۔۔اس مضمون کا بیشتر حصّہ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی کتاب الاسماعیلیہ سے اخذ کیا گیا اور کچھ دیگر کتب و آرٹیکلز زیر مطالعہ آئے ۔۔۔۔
👍
😢
🙏
5