
Muslim Sisters
February 9, 2025 at 02:40 PM
"اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا، اور چاند کو سراپا نور، اور اس کے (سفر) کے لیے منزلیں مقرر کردیں، تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کرسکو۔ (یونس:5)"
قرآن کریم نے یہاں سورج کے لیے "ضیاء" کا لفظ استعمال کیا ہے اور چاند کے لیے" نور" کا۔ ابو ہلال عسکری چوتھی صدی ہجری کے لغت کے عالم ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ" ضیاء وہ ہوتی ہے جو دوسرے کو روشن کرے جب کہ نور اس کی روشنی ہوتی ہے۔" قرآن کریم نے دوسری جگہ سورج کو چراغ بھی کہا ہے۔ یعنی سورج چراغ کی طرح خود روشن ہے اور چیزوں کو روشن کرتا ہے جب کہ چاند اس کی روشنی پڑنے سے منور ہوتا ہے۔
قدیم یونانی اپنے مشاہدے اور حساب کی قوت سے یہ بات سمجھ گئے تھے۔ چنانچہ اناگزگورس اور ارسطو نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ سورج ایک دہکتا ہوا پتھر ہے اور چاند اس کی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔ اسی بنا پر وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ چاند گرہن تب ہوتا ہے جب زمین کا اس پر سایہ آ جاتا ہے۔
لیکن یونان کا یہ علم یونان تک ہی محدود تھا۔ یہ اسکندریہ کی لائبریریوں میں محفوظ تھا۔ تھوڑا بہت فارس تک آیا تھا لیکن عرب میں اس کے آثار نہیں ملتے۔ چنانچہ عرب میں چاند گرہن کو کسی عظیم شخصیت کی موت کے سبب سے سمجھا جاتا تھا۔ یعنی عرب چاند کو ایک مکمل ہستی سمجھتے تھے جو کسی کی وفات پر گرہن ہو کر غم کا اظہار کرتا تھا۔
یونان کا یہ علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے کم سے کم سوا سو سال بعد عرب میں آیا۔ مسلمانوں میں البیرونی اور ابن الہیثم نے تین سو سال کے بعد اس پر تحقیق کی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مفسرین کرام نے ضیاء اور نور کی یہ تفسیر ذکر نہیں کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرق کس نے بتایا تھا؟ قرآن کریم میں جتنا واضح سورج کو ضیاء اور چراغ کہا ہے اور اس کے مقابلے میں چاند کو نور اور منیر کہا ہے اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کہنے والے کے پاس اس کا قطعی علم موجود تھا۔ جب کہ عرب میں یہ علم موجود ہی نہیں تھا۔ تو اگر قرآن ایک گھڑی ہوئی کتاب ہے تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتایا تھا.....؟؟؟
#متفرق_خیالات
مفتی اویس پراچہ صاحب
❤️
12