
🪶 عاⷩٸᷤــͥـⷽــش مـحــمد
February 2, 2025 at 05:13 PM
"راہِ وفا میں مہمان کی ساتھی"
(ضیفؒ کی رُلانے والی داستان اہلیہ کی زبانی)
دنیا کے مطلوب ترین فرد اور پراسرار ترین شخصیت محمد ضــــیـــفؒ کی شہادت کے بعد الجزیرہ نے ان کی اہلیہ اور بیوی بچوں کا انٹرویو کیا ہے۔ جس میں ام خالد نے "رجل الظل" (سایہ کا آدمی) کے کئی راز پہلی بار بے نقاب کیے ہیں۔ نہایت ایمان افروز۔
راہِ وفا میں شہید کمانڈر کی ساتھی "غدیر صیام" اپنی کنیت "ام خالد" سے مشہور ہیں۔ خالد اس جوڑے کا بڑا بیٹا ہے۔ اسی سے "مہمان" ابو خالد کہلاتے تھے۔ "ام خالد" اپنے عظیم سرتاج کی شہادت کے بعد منظر عام پر آئی ہیں۔ الجزيرة کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ کیسے "مہمان" متعدد قاتلانہ حملوں میں بچے اور کس طرح وہ 30 سال تک اسرائیلی افواج سے بچنے میں کامیاب رہے، حالانکہ وہ ہمیشہ اسرائیل کے لیے اولین ہدف رہے ہیں۔
ض،یف سے پہلی ملاقات؟
اس سوال پر غدیر صیام 1998ء کی خوبصورت یادوں میں کھو گئیں، وہ ضیف کو نہیں جانتی تھیں، ان کی والدہ فاطمہ الحلبي سے ایک نوجوان نے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے وہ اسلحہ چاہئے جو ان کے شہید بیٹے (غدیر کے بھائی) استعمال کرتے تھے۔ غدیر کی والدہ نے اپنے شہید بیٹے کا اسلحہ اس نوخیز مجاہد کو دے دیا۔ پھر دونوں خاندانوں میں مراسم بڑھتے گئے، یہاں تک کہ 2001ء کے موسم گرما میں شہید کی ماں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ مستقل کے خطرناک ترین شخص کے ہاتھ میں دے دیا۔ دونوں رشتہ ازدواج میں جڑ گئے۔ اس کے ساتھ ہی غدیر کی زندگی ایک نئی اور پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو گئی، کیونکہ ان کے شوہر کا پیچھا کرنے والی اسرائیلی فوج کی نگرانی بڑھ چکی تھی۔ اب وہ جانبازوں کا اہم کمانڈر بن چکا تھا۔ غدیر کو بھی اپنی شناخت چھپانے کے لیے نام تبدیل کرنا پڑا۔ اب وہ غدیر سے منی ام فوزی کے طور پر جانی جانے لگیں، یہ حفاظتی اقدامات تھے۔ اس وقت دیاب مصری بھی "ضیف" (مہمان) نہیں بنے تھے۔ وہ "منصور" کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔ منصور اور غدیر کی شادی کو مکمل طور پر خفیہ رکھنے کا اہتمام کیا گیا۔
غدیر کہتی ہیں "یہ ایک معمول کی شادی نہیں، بلکہ نرالی شادی تھی، ضیف کے پاس صرف ایک ہزار ڈالر مہر کی قیمت تھی اور کوئی جشن نہیں تھا، شادی کی تقریب صرف قریبی لوگوں کے لیے ایک بکری کے ولیمے پر مشتمل تھی۔ ولیمے کے بعد ہمیں دونوں کو کبھی بھی ایک جگہ پر نہیں رہنا نصیب نہیں ہوا، ہم ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے، کبھی بھی دو دن ایک جگہ استقرار نہیں دیکھا۔"
ض،یف کا طرز زندگی؟
میرے شریک حیات کی زہدانہ زندگی کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہیں دنیا چھو کر بھی گزری تھی، آخرت کا آدمی، جسے دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ ان کے گھر میں صرف 4 گدے، ایک چٹائی اور ایک پلاسٹک کی الماری تھی، جس میں ان کے کپڑے رکھے جاتے تھے۔ جب شیخ احمد یاسین نے ان کی شادی کے موقع پر انہیں مالی امداد دی، تو انہوں نے وہ رقم ساری ق،،،ام کے جانبازوں کو عطیہ کر دی۔ شادی کے وقت جانبازوں کے نائب کمانڈر اعلیٰ تھے۔ کمانڈر انچیف شہید صلاح شحادہ نے انہیں ایک گھر گفٹ کیا تو انہوں نے ایک دوسرے نوجوان کو دے دیا تاکہ وہ اپنی شادی مکمل کر سکے۔
غدیر نے خود کو کبھی ضیف کی بیوی کے طور پر پیش نہیں کیا۔ بلکہ عام لوگوں کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ ان کا شوہر بیرون ملک ہے، اس لیے وہ اکیلی رہتی ہیں۔ ان کے بقول "میری ان سے ملاقاتیں اکثر ہمارے گھر سے باہر ہوتی ہیں اور کئی بار وہ ہفتوں تک بغیر کسی رابطے کے غائب رہتے تھے، خاص طور پر جب اسرائیلی فوج کے ساتھ حالات بگڑ جاتے تھے۔"
اس دوران ام خالد کو کئی بار پیچیدہ حفاظتی اقدامات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنا، ایک گاڑی سے دوسری گاڑی میں منتقل ہونا اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانا شامل تھا تاکہ وہ اپنے شوہر سے مل سکیں۔ اس طرح 6 سال گزر گئے۔ 2007ء میں اپنی ساس اور ام خالد کی والدہ کے اصرار پر انہوں نے وداد مصطفیٰ نامی خاتون سے دوسری شادی کرلی۔ اللہ کی عجیب قدرت کہ 6 سال تک ام خالد کی گود ہری نہ ہوسکی تھی۔ مگر دوسری شادی کے بعد وہ بھی امید سے ہوگئیں اور اللہ نے انہیں ایک ساتھ 3 جڑواں بچوں سے نوازا۔
قاتلانہ حملوں کی تفصیل؟
"ام خالد" نے اپنے شوہر کی کئی قتل کی کوششوں کا تذکرہ کیا، جن میں سے دو میں وہ زخمی ہوئے۔ پہلی کوشش ستمبر 2002 میں ہوئی، جب اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے الجلاء اسٹریٹ پر ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی بائیں آنکھ گوا دی۔ دوسری کوشش 2006 میں ان کے گھر پر حملے کے دوران ہوئی، جس کے نتیجے میں ان کا جسم بری طرح جھلس گیا اور کمر میں فریکچر ہوئے، جس کی وجہ سے ان کے چلنے میں مشکل پیش آئی۔ "ام خالد" نے اپنے شوہر کے زخمی ہونے کے بعد بنیادی طبی امداد کے اصول سیکھے اور وہ ان کی ذاتی نرس بن گئیں، جو ان کا علاج کرتی اور وقتاً فوقتاً دوا اور انجکشن لگاتی۔ ابوخالد نے 2014 کے اسرائیلی حملے میں اپنی دوسری بیوی اور دو بچوں کو کھو دیا، جب ان کے گھر پر فضائی حملہ کیا گیا۔
آپ دونوں کی تعلیم؟
"ام خالد" کا کہنا ہے کہ ابوخالد اسلامی یونیورسٹی غزہ سے حیاتیات کے مضمون میں گریجویٹ تھے، انہوں نے ہمیشہ مجھے بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دی۔ شادی کے وقت میں میٹرک میں تھی۔ انگریزی کا مضمون مجھے مشکل محسوس ہو رہا تھا، تو انہوں نے میرے کے لیے "کامیابی کا منصوبہ" تیار کیا تاکہ میں امتحان پاس کرسکوں اور مجھے سوالات اور جوابات کا ایک گائیڈ فراہم کیا۔
خاندان سے ان کے مراسم؟
ام خالد کا کہنا ہے کہ ضیف غمی خوشی سمیت خاندان کے تمام معاملات سے دور رہتے تھے، وہ اپنی دوسری بیوی اور بچوں کی تدفین میں شریک نہیں ہوسکے، نہ ہی اپنے والدین کی تدفین اور غم میں شریک ہوئے، جو چند سال پہلے انتقال کر گئے تھے اور وہ اپنے تمام بچوں کی پیدائش کے وقت موجود نہیں تھے، جو کہ والدین کے لیے خوشی کا اہم موقع ہوتا ہے۔ ضیف بچوں کو خوشی دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اپنی کمی کو کافی حد تک پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہوں نے اپنے تمام بچوں کا جنم دن ایک ہی دن منانے کا فیصلہ کیا، جب بھی ان کے پاس وقت ہوتا تھا تو وہ انہیں ملنے آ جاتے تھے۔ لیکن کسی پیشگی اطلاع کے بغیر۔" ام خالد نے کہا کہ کبھی کبھار مہمان کبھی کبھار 50 دنوں سے زیادہ عرصے تک غائب ہو جاتا تھا، خاص طور پر جب سیکورٹی خطرات زیادہ ہوتے تھے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ "ضیف نے کبھی بھی اپنی کنیت "ابو خالد" یا اپنی شکل تبدیل نہیں کی، جیسا کہ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا۔"
کوئی یادگار لمحہ؟
اس سوال پر "ام خالد" کی آنکھیں پرنم ہیں۔ وہ ضیف کی زندگی کے یادگار لمحوں کو یاد کرتے ہوئے ان سب سے زیادہ غمگین لمحات کو بیان کرتی ہیں جب اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں القدس کی محافظ خواتین کو بے پردہ کیا تھا اور محمد الضیف تڑپ اٹھا تھا، اس کی بے چینی دیکھی نہیں جاتی تھی، اس نے بار بار یہ کہا کہ اب مجھ پر بہت ہی بھاری ذمہ داری آ پڑی ہے۔ اس کا انتقام لینے کے لیے جانبازوں نے نعرہ لگایا: "حط السيف قبال السيف، احنا رجال محمد ضیف" (تلوار کے سامنے تلوار رکھ، ہم محمد ضیف کے مرد ہیں)
ایک اور غمگین لمحہ وہ تھا جب 2003 کے موسم گرما میں ق،،،ام کے رہنما یاسر طہ شہید ہوئے۔ دوسری طرف "ام خالد" کہتی ہیں کہ میں نے زندگی میں انہیں اس وقت سے زیادہ خوش کبھی نہیں دیکھا، جتنا وہ 2011ء میں وفاء الاحرار معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کے وقت خوش تھا، جب اس نے کہا "آج ہم نے مردہ لوگوں کو زندہ کیا"۔ اس کے باوجود، ام خالد سمجھتی ہیں کہ ابو خالد ایک سادہ زندگی گزارنے والے شخص تھے، جو عیش و عشرت سے کوسوں دور رہتے تھے، اور انہیں ملوخیہ، پھلیاں، بھنڈی اور انار پسند تھے اور وہ "مجدرة" (Mujaddara) ڈش بنانے میں ماہر تھے۔
پسندیدہ مشاغل؟
"ام خالد" نے بتایا کہ ضیف ایک اچھے فٹ بال کھلاڑی تھے، وہ ورلڈ کپ کے میچز دیکھا کرتے تھے۔ اسپینش کلب بارسلونا اور الاہلی کلب کے مداح تھے اور وہ جاپانی کارٹون سیریز "کونان" کے بھی شوقین تھے۔ ام خالد کے بقول لیکن ضیف کا سب سے پسندیدہ مشغلہ غریبوں کی خدمت کرنا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ غریبوں کی خدمت میں گزارا اور ایک بار غریب خاتون کا کینسر کا علاج کرانے کی خود نگرانی کی، حالانکہ وہ بہت مصروف تھے اور انہوں نے اس کا علاج بیرون ملک مکمل کروایا۔ وہ بریگیڈ سے ملنے والی اپنی ماہانہ تنخواہ کا بیشتر حصہ ضرورت مندوں کے لیے مخصوص کرتے تھے اور ایک سال میں 270 غریبوں کے گھروں کی مرمت کی نگرانی کی تھی، جس میں بریگیڈ کا تعاون بھی شامل تھا۔ اس کے باوجود، ابو خالد اپنی زندگی اس حالت میں چھوڑ گئے کہ ان کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔
آخری ملاقات اور الوداع؟
ضیف کا خاندان ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے، جیسے ہزاروں خاندان جو اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے ہیں۔ میری ابو خالد سے آخری ملاقات 6 اکتوبر 2023 کو ہوئی تھی، جب "طوفان الاقصیٰ" کی لڑائی شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل انہوں نے کہا "ہمیں اسیران اور مسجد اقصیٰ کے لیے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے الوداع!!" ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ مسجد اقصیٰ کی آزادی دیکھیں اور اسی کے پڑوس میں اپنے لیے ایک گھر بسائیں۔ ابو خالد نے ان تمام سخت ترین حالات کا سامنا کیا، جو فلسطینی عوام پر گزرے ہیں، جن میں قید، زخمی ہونا، بیوی اور بچوں کا کھودینا اور آخرکار شہادت میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ آخری ملاقات میں انہوں نے بچوں کو قرآن کریم حفظ کرنے کی وصیت کی۔ انہوں نے ایک منصوبہ ق،،،ام بریگیڈ کے ارکان کے لیے بھی تیار کیا تھا، جس میں انہیں ایک دوسرے سے قرآن حفظ کرنے اور اس کے معانی کو سمجھنے اور عمل کرنے کی ترغیب دی تھی۔
حیران کن زندگی پر کوئی دستاویز؟
میں نے اپنے شوہر نامدار کے ساتھ گزارے ہوئے برسوں میں ان کی جــہــادی جدوجہد کو دستاویزی شکل دینے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور میں ابو خالد کی حیات کے ان خفیہ پہلوؤں کو سامنے لانا چاہتی ہوں، جن سے عوام بے خبر ہیں۔ میں جلد ایک کتاب کے ذریعے ان 30 برسوں کی مزاحمت کی تفصیلات کو بے نقاب کروں گی۔ ان شاءاللہ۔ (ضیاء چترالی)
❤️
😢
😮
44