
تحفظ ختم نبوت مجلس احرار اسلام پاکستان آفیشل
February 9, 2025 at 03:02 AM
ٹرمپ منصوبے کے پس پردہ حقائق!!
(ضیاء چترالی)
غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہوگیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع "یسرائیل کاٹز" نے دجالی فوج کو حکم دیا ہے کہ زمینی، سمندری اور فضائی راستے سے انخلا کی تیاری شروع کردی جائے تاکہ کوئی بھی شخص جو باہر معقول ٹھکانہ ڈھونڈ لے، اسے سفری سہولت فراہم کی جاسکے۔ اس سے پہلے کاٹز نے کہا تھا کہ اسپین، ناروے، آئرلینڈ اور دیگر ممالک جنہوں نے جنگ کے دوران اسرائیل کے اقدامات پر تنقید کی ہے، انہیں غزہ سے فلسطینیوں کو واپس بلالینا چاہیے۔ جبکہ کچھ دیر قبل نیتن یاہو نے ایک انگلش چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن ہے۔ اگر عربوں کو زیادہ شوق ہے تو سعودی عرب کے پاس فالتو زمین کی کمی نہیں ہے، وہاں فلسطینی ریاست قائم کرلے۔ دوسری جانب، جانبازوں سے مذاکرات کا اگلا مرحلہ بھی روک دیا گیا ہے۔ آج اسرائیلی وفد دوحہ جانا تھا۔ لیکن اسے تاحکم ثانی روک دیا گیا ہے۔ مذاکرات کل 9 فروری کو شروع ہونے تھے اور وفد کو آج جانا تھا۔ ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا پر ڈٹا ہوا ہے، اس لیے نیتن یاہو بھی کسی بہانے جنگ بندی ختم کردینا چاہتا ہے۔ مزاحمت کاروں کے مطابق اسرائیلی فوج نے امدادی قافلوں کو روکنا شروع کر دیا ہے اور اسرائیلی ٹینکوں کی غیر معمولی حرکت سے صورتحال مشکوک نظر آرہی ہے۔ اس کے ساتھ صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم جاری کر دیا ہے، جس میں اسرائیلی قیادت کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے ان حکام کے خلاف پابندی عائد جائے گی، جنہوں نے غزہ میں ہونے والے جنگی جرائم اور نسل کشی کی تحقیقات میں حصہ لیا۔ پابندیوں کا اطلاق ان افراد کے ساتھ ان کے اہل خانہ پر بھی ہوگا۔
درایں اثنا اسرائیلی ویب سائٹ والا نے جمعہ کے روز ٹرمپ کے اس گھناؤنے منصوبے کے پس پردہ اصل حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اسرائیلی مصنف اوریل داسکل نے ویب سائٹ پر اپنے ایک اہم مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر قابض ہونے کا منصوبہ صرف ایک عارضی خیال نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ اور دیرپا حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد تنازعہ کو بڑھانا اور عوامی توجہ کو زیادہ خطرناک چالوں سے ہٹانا ہے جو "پردے کے پیچھے" چل رہی ہیں۔
داسکل نے لکھا کہ یہ طریقہ کار ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینن کی حکمت عملی کے مطابق ہے، جس نے خبروں کو چیلنج کرنے والے ہنگامی انداز میں ایڈمنسٹریشن کے ٹیکٹیک کو "جلدی سے گولیاں چلانے" سے تعبیر کیا تھا۔ بینن نے ایک بیان میں کہا "چونکہ میڈیا صرف ایک ہی معاملے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، ہم اسے سنسنی خیز خبروں کی بھرمار سے ڈبو دیتے ہیں، جس سے ہمیں اپنا اصل ایجنڈا کو سکون سے نافذ کرنے کا موقع ملتا ہے۔"
داسکل نے مزید کہا "ٹرمپ صرف غزہ کے بارے میں نہیں بات کرتا، بلکہ مسلسل متنازعہ تجویزیں پیش کرتا ہے جیسے گرین لینڈ خریدنے یا پاناما پر حملہ کرنے کی باتیں، میڈیا کی توجہ ان بیانات پر مرکوز کرکے وہ امریکی حکومت کے اندرونی بحرانوں سے عوام کی توجہ ہٹاتا ہے۔"
داسکل کے مطابق، واشنگٹن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف سنسنی خیز میڈیا بیانات سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ پس پردہ، ارب پتی ایلون مسک امریکی وفاقی حکومت کے اداروں کو توڑنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ریاستی اداروں میں اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کے ابتدائی ہفتوں کے دوران، مسک اور اس کی ٹیم نے امریکی مالیاتی ڈیٹا سسٹمز پر قبضہ کر لیا اور اہم پروٹوکولز کو منسوخ کر دیا، اس کے ساتھ ہی ان اعلیٰ حکام کو بھی برطرف کر دیا جو ان اہم سسٹمز کی نگرانی کر رہے تھے۔
مضمون نگار نے ذکر کیا کہ ایلون مسک نے پورے وفاقی اداروں کو بند کر دیا اور وفاقی ملازمین کو استعفی دینے کے بدلے میں دلکش معاوضے کی پیشکش کی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ 6 وفاقی اداروں نے مسک اور ٹرمپ کے خلاف مقدمے دائر کیے، لیکن مسک اپنے منصوبوں کو اپنے وسیع اقتصادی اثر و رسوخ اور ٹرمپ کے ساتھ مضبوط تعلقات کی بنیاد پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مسک اور اس کی ٹیم وائٹ ہاوس کے قریب دفاتر میں دن رات کام کر رہی ہے، جو اس بات کا غماز ہے کہ وہ ریاستی اداروں کو توڑنے اور انہیں اپنی ذاتی مفادات کے مطابق دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کتنی بڑی کوششیں کر رہا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں جیسے FBI اور CIA کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک غیر معمولی مہم شروع کی گئی ہے، جس میں ان ایجنسیوں کے ملازمین کو استعفی دینے کے بدلے مالی معاوضے کی پیشکش کی جا رہی ہے، جو کہ امریکی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
داسکل نے مزید بتایا کہ ٹرمپ نے 6 جنوری 2021ء کو "کانگریس" کی عمارت پر حملے کی تحقیقات میں شامل تمام ملازمین کو برخاست کرنے کا حکم دیا، جس سے ان ملازمین کو ذاتی انتقام کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایک متنازعہ اقدام میں، ٹرمپ نے جان رٹکلف کو سی آئی اے (CIA) کا ڈائریکٹر مقرر کیا، جو کہ سازشی نظریات کے فروغ کے لیے مشہور ہے، جس سے ایجنسی کے سیاست زدہ ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
مصنف نے خبردار کیا کہ ان ایجنسیوں کو کمزور کرنا صرف امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں ہے، بلکہ اس کا اثر واشنگٹن اور اسرائیل کے درمیان سیکورٹی تعاون پر بھی پڑے گا، کیونکہ سی آئی اے اس شعبے میں ایک اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔
خلاصہ یہ کہ مذکورہ تمام اقدامات اتفاقیہ نہیں ہیں، کیونکہ جب عالمی میڈیا ٹرمپ کی متنازعہ تجویزوں جیسے غزہ پر قابو پانے یا گرین لینڈ خریدنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، تو وہ اور ایلون مسک خاموشی سے ایک وسیع تر منصوبہ پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد امریکی وفاقی حکومت کو توڑنا اور اسے اپنے ذاتی مفادات کے مطابق دوبارہ تشکیل دینا ہے۔ مصنف کے بقول یہ حکمت عملی مسلسل میڈیا میں جھٹکے پیدا کرنے پر مبنی ہے، تاکہ عوام کی توجہ ان اہم تبدیلیوں سے ہٹائی جا سکے جو "پردے کے پیچھے" ہو رہی ہیں اور اس سے نہ صرف امریکی جمہوریت بلکہ عالمی استحکام، بشمول اسرائیلی قومی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
8 فروری 2025
❤️
👍
5