
Muhasin e islam☑️ محاسن اسلام JAMIAT ULAMA Darul Uloom Deoband Urdu News TV Islamic Status WhatsApp
February 13, 2025 at 12:26 PM
*پندرہ شعبان کے روزہ کا حکم*
✍️ ابو الخیر عارف محمود گلگتی
سابق استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی ،مدیر دار التصنيف مدرسہ فاروقیہ کشروٹ گلگت.
*اجمالی حکم*:
ابن ماجہ کی روایت میں صیام یوم نصف شعبان اور قیام لیل کی زیادتی قواعد حدیث کی روشنی میں ثابت نہیں، جن ائمہ کرام نے ضعف کا حکم لگایا ہے وہ ضعف شدید پر محمول ہے، بلکہ علامہ لکھنوی نے اس حدیث کو احادیث موضوعہ کے ضمن میں ذکر کیا ہے، کیوں کی اس کی سند میں ابو بکر بن ابی سبرہ نہ صرف جمہور کے نزدیک ضعیف ہے، بلکہ بعض ائمہ کے نزدیک متروک ومنکر الحدیث ہے، جب کہ امام احمد بن حنبل اور ابن معین نے اسے وضاع قرار دیا ہے، اس زیادتی کا کوئی شاھد اور متابع بھی نہیں، لہذا اصولی طور پر یہ زیادتی منکر اور سند میں ضعف شدید پایا جاتا ہے جو کہ فضائل میں بھی قابل قبول نہیں ہوتا، چناں چہ اس زیادتی کی بنیاد پر پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا درست نہیں، البتہ اس دن ماہ شعبان کی وجہ سے مطلقا نفل روزہ یا ایام بیض کی نیت سے روزہ رکھنا باعث اجر وثواب ہوگا، گویا نیت حد فاصل ہوگی.
*ابن ماجہ کی روایت* :
قال ابن ماجه: حدثنا الْحَسَنُ بن عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، ثنا عبد الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابن أبي سَبْرَةَ عن إبراهيم بن مُحَمَّدٍ عن مُعَاوِيَةَ بن عبد اللَّهِ بن جَعْفَرٍ، عن أبيه عن عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
*«إذا كانت لَيْلَةُُ النِّصْفِ من شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا*،
فإن اللَّهَ يَنْزِلُ فيها لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إلى سَمَاءِ الدُّنْيَا فيقول: ألا من مُسْتَغْفِرٍ لي فَأَغْفِرَ له، ألا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ، ألا مبتلى فَأُعَافِيَهُ، ألا كَذَا ألا كَذَا حتى يَطْلُعَ الْفَجْرُ» [1].
*حدیث اور اس کے راوی ابن ابی سبرہ کے بارے میں اہل علم کے اقوال* :
هو: أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبي سبرة بن أبي رهم بن عبد العزّى بن أبي قيس بن عبدود بن نصر بن مالك بن حسل بن عامر بن لؤي القرشيّ العامريّ المدنيّ، قيل: اسمه عبد الله، مات سنة 162هـ.
وقال ابن الجوزيّ: هذا حديث لا يصحُّ [2].
وقال العراقيّ: إسناده ضعيف [3].
وقال العينيّ: (وإسنادُه ضعيف، وابن أبي سبرة هو أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن سبرة، مفتي المدينة وقاضي بغداد ضعيف، وإبراهيم بن محمد هو ابن أبي يحيى ضعفه الجمهور) [4].
وقال شهاب الدين البوصيريّ: (هذا إسناد فيه ابن أبي سبرة، واسمه أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبي سبرة. *قال أحمد بن حنبل، ويحيى ابن معين: يضع الحديث*. [5].
*وذكره اللكنويّ ضمن الأحاديث الموضوعة* [6].
وقال المباركفوريّ: (وفي سنده أبو بكر بن عبد الله بن محمد بن أبي سبرة القرشيّ العامريّ المدنيّ، قيل: اسمه: عبد الله، وقيل: محمد، وقد ينسب إلى جدّه، رموه بالوضع كذا في التقريب، وقال الذهبي في الميزان ضعفه البخاريّ وغيره، وروى عبد الله وصالح ابنا أحمد عن أبيهما قال: كان يضع الحديث. وقال النسائيّ: متروك) [7].
*قال أحمد بن حنبل: يضع الحديث، وقال: كان يضعُ الحديث ويكذب*.
وقال يحيى بن معين: ليس حديثُه بشيء، وقال: ضعيف الحديث. وقال علي بن المديني: كان ضعيفاً في الحديث، وقال مرة: *منكر الحديث*.
وقال الجوزجانيّ: يضعف حديثه.
وقال الدراقطنيّ: ضعيف. وذكره يعقوب بن سفيان في باب من يرغب في الرواية عنهم.
وقال البخاريّ: ضعيف، وقال مرة: منكر الحديث.
وقال النسائيّ: *متروك الحديث*.
وقال ابن عديّ: عامة ما يرويه غير محفوظ، *وهو في جملة من يضع الحديث*.
وقال ابن حبان: *كان ممن يروي الموضوعات عن الثقات، لا يجوز الاحتجاج به*.
وقال الساجيّ: عنده منا كير. وقال أبو أحمد الحاكم: ليس بالقويّ عندهم.
وقال الحاكم أبو عبد الله: *يروي الموضوعات عن الإثبات*. [8].
خلاصہ: *ابن ابی سبرہ کی وجہ سے اس حدیث کی سند شدید ضعیف اور قیام وصیام والی زیادتی منکر ہے*.
*تنبیہ*:
اس مسئلہ میں روزہ دار کی نیت پر دارومدار ہوگا، ابن ماجہ کی روایت میں وارد صیام وقیام کی زیادتی کی بنیاد پر روزہ رکھنا درست نہ ہوگا، البتہ ماہ شعبان کی وجہ سے مطلقا نفل روزہ کی نیتت سے یا ایام بیض کے روزہ کی نیت روزہ رکھنا درست اور باعث اجر وثواب ہوگا.
بخاری شریف کی حدیث میں ہے : «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى» [9].
*اضافہ* :
بعض اہل علم نے بخاری ومسلم کی *سَرَر شعبان* والی درج ذیل روایت سے استیناس کرتے ہوئے خاص پندرہ شعبان کے روزہ کے ندب کا بھی قول کیا ہے.
عَنْ مُطَرِّفٍ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ , عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ
أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - قَالَ لِرَجُلٍ: هلْ صُمْتَ مِنْ سَرَرِ شَعْبَانَ شَيْئًا؟ قَالَ: لاَ. قَالَ: فَإِذَا أَفْطَرْتَ رَمَضَانَ , فَصُمْ يَوْمَيْنِ. أخرجه البخاري، ومسلم، وأبو داود.
اس حديث میں *سَرَر شعبان* کے روزہ کا ذکر ہے، جمہور اہل لغت اگرچہ *سَرَر* کا معناہ آخر شہر سے کرتے ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک *سرر* کا اطلاق وسط شہر یعنی پندرہ شعبان پر بھی ہوتا ہے، امام ابو داؤد نے اس کی حکایت کی ہے اور بعض اہل علم نے اسی کو راجح قرار دیا ہے، علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے امداد الاحکام (2/ 102) صوم یوم شک پر بحث کرتے ہوئے مندرجہ بالا روایت اور بعض اہل علم کا قول سرر بمعنی وسط شہر ذکر کے لکھا ہے کہ اس سے خاص پندرہ شعبان کے روزہ کا ندب معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ شعبان کے آخری دن روزہ رکھنے کا ندب وارد نہیں بلکہ اس کی تو خاص نہی وارد ہوئی ہے.
بنا بریں اگر کوئی شعبان کے عمومی فضائل کے پیش نظر، یا ایام بیض کے ضمن میں یا *سرر شعبان* والی روایت سے استیناس کرتے ہوئے پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب.
------------------
حوالہ جات
[1] سنن ابن ماجه: ج1/ص444، رقم: 1388.
[2] العلل المتناهية: (2/ 562). [3] المغني عن حمل الاسفار في الاسفار: (1: 157).
[4] عمدة القاري: ج11/ص82. [5] مصباح الزجاجة: ج2/ص10.
[6] الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة: (ص: 81)
[7] تحفة الأحوذي: ج3/ص366.
[8] الطبقات الكبرى لابن سعد: ج2/ص222،والضعفاء والمتروكين لابن الجوزي ج2/ص131،والمجروحين ج3/ص147،وضعفاء العقيلي ج2/ص271، وتهذيب الكمال ج33/ص102، والكاشف ج2/ص411، وتهذيب التهذيب ج12/ص31. [9] صحيح البخاري: (1: 3) رقم الحديث: (1).
❤️
👍
😂
😮
15