سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
January 29, 2025 at 02:00 AM
https://whatsapp.com/channel/0029VaDDUXj8KMqfJoZOlF1B *🌹ایک عظیم مجاہد کی داستان🌹* *قسط نمبر: 40 (آخری قسط)* ہم راشد بھائی کی بہت عزت کرتے تھے اس وقت میرا بھائی خاک و خون میں پڑا ہوا تھا اور میں ان کی لاش سے گذر کر آگے بڑھنے کے لیے مجبور تھی کیونکہ راہ جہاد میں اکثر ایسے موڑ آتے ہیں کہ انسان کو اپنے پیاروں کی لاشیں چھوڑ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے وہاں سے میں دوسری منزل کی طرف گئی لکڑی کی بنی ہوئی سیڑھی پر جگہ جگہ خون لگا ہوا تھا اور میرے پاؤں خون آلود ہو رہے تھے وہ یقینا بھارتی فوجیوں کا گندہ خون تھا میں جہادی کو آوازیں دے رہی تھی اور کشمیری زبان میں ان کو بلا رہی تھی اردو بھارتی فوجی سمجھتے ہیں اس لئے اردو نہیں بولی میں انہیں کہہ رہی تھی آپ کہاں ہیں آؤ ہم یہاں سے نکل جائیں مجھے اکیلا چھوڑ کرمت جانا مجھے اپنے ساتھ ہی رکھ لیں مجھے پورا یقین تھا کہ جہادی میری آواز سن کر میرے پاس آئیں گے اگر وہ اندر موجود ہوئے تو مجھے ضرور اپنے ساتھ رکھیں گے میں تیسری منزل میں گئی تیسری منزل پر صرف وہی ایک بڑا اور بال نما کمرہ تھا جس کے اندر ہائیڈ تھی وہاں پر زیادہ نوٹ پھوٹ ہوئی تھی چاند کی مدھم روشنی میں وہ کمرہ ہولناک مناظر پیش کر رہا تھا پہلے میں نے دروازے پر کھڑے ہوکر آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ پا کر مجھے خیال آیا کہ کہیں وہ ہائیڈ کے اندر تو نہیں ہونگے یا زخمی یا شہید تو نہیں ہیں اس لئے مجھے جواب نہیں دے رہے ہیں میں اکیلی بھی تھی اور میرے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا ان حالات میں خوفزدہ ہونا فطری بات تھی میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور میں دبے پاؤں بائیڈ کی طرف بڑھ رہی تھی گرنیڈ دھماکوں سے کمرے کی چھت میں بڑے بڑے سوراخ ہو گئے تھے میرا پاؤں ایک سوراخ میں پھنس گیا تو خوف سے مجھے جھر جھری آئی لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور آگے بڑھی ہائیڈ کا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا میں سر اندر کی طرف کئے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی ساتھ ساتھ انہیں بلا بھی رہی تھی اتنے میں شبنم دیدی میرے پیچھے اوپر آگئی انہیں کہیں سے ماچس مل گئی تھی انہوں نے ماچس کی تیلی جلائی کمرے میں روشنی پھیلی تو ان کی چیخ نکل گئی اور مجھے بھاگنے کا کہا میں نے مڑ کر دیکھا دو فوجی کسی کونے سے نکل کر دبے پاؤں میری طرف بڑھ رہے تھے ان پر نظر پڑتے ہی میں بھاگ کر نیچے آگئی گھر والوں نے مجھے کہا آپ خود کو خطرے میں مت ڈالو وہ نکل گئے ہونگے ورنہ آپ کو ضرور مل جاتے اب میرا دل بھی کچھ مطمئن ہونے لگا کیونکہ راشد بھائی جہاں شہید ہوئے تھے اس کے ساتھ ہی گیلری کا دروازہ تھا جو پچھلی گلی میں کھلتا تھاوہ دروازہ نصف سے زیادہ تھا جیسے کوئی اس پر گرنیڈ مار وہاں سے نکل گیا ہو رات کا اندھیرا ایسے موقع پر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور جہادی تو اس سے بھی بڑے معرکوں سے دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے نکل جاتے تھے یہ سوچ کر مجھے اس بات کی امید بندھ گئی کہ وہ اس دروازے سے نکل گئے ہونگے ۔ انڈین آرمی نے رات کو ہی پورے علاقے کا گھیراؤ کر دیا تھا اور اونچے اونچے مکانات میں مورچے سنبھال لئے تھے۔ صبح کی ہلکی ہلکی روشنی نمودار ہوتے ہی انہوں نے سامنے والے گھر کی کھڑکی سے ہمیں باہر آنے کا کہہ دیا بزدل فوجیوں کو جھڑپ کے بعد مکان کے صحن میں داخل ہونے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی جو دو فوجی اوپر کمرے میں پھنس گئے تھے انہیں بھی دن کے وقت رسیوں کے ذریعے نیچے اتارا گیا میرے پاس باہر نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا مجھے اگر وہاں جہادی کی موجودگی کا یقین ہوتا تو میں ہرگز وہاں سے باہر نہ نکلتی اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا میرا اسلحہ ہائیڈ والے کمرے میں ہی تھا۔ راشد بھائی شہید کی وجہ سے میں نیچے آگئی تھی ورنہ اگر میں اوپر ہی ہوتی تو شاید جدائی میرا مقدر نہ بنتی گیٹ سے باہر آتے ہی بھارتی فوجیوں نے ہمیں گرفتار کر لیا۔ شفیع بھائی اندر ہی پڑے ہوئے تھے فوجیوں نے ہمیں کہا اس کو خود ہی اٹھا کر لاؤ کیونکہ انہیں مکان کے ہر کونے میں موت نظر آرہی تھی ہم بڑی مشکل سے انہیں باہر لائے اور وہ تکلیف کی شدت سے تڑپتے رہے وہاں سے فوجیوں نے انہیں گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گئے شبنم باجی ان کے ساتھ ہی چلی گئی وہ دونوں زیر حراست ہی تھے پیچھے میں اور شبنم دیدی کی چار بیٹیاں رہ گئیں فوجی ہمیں سامنے والے مکان میں لے گئے ابھی ہم کمرے میں داخل نہیں ہوئے تھے اتنے میں مذکورہ بالا مکان سے گولیوں کا ایک برسٹ آیا۔ میرا دل دہل گیا کیونکہ راشد بھائی شہید کی نعش میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اندر ان دونوں کے علاوہ اور کوئی بھی نہ تھا پھر فائر کرنے والا کون ہے جو فوجی ہمیں ہانک کر لے جا رہے تھے وہ فورا زمین پر لیٹ گئے لیکن میں بچی کو سینے سے لگائے بدستور کھڑی تھی اور اس مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی میرے پاؤں گویا زمین میں دھنس گئے تھے جب فائر رکا تو فوجیوں نے ہمیں اندر دھکیل دیا تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے دو بارہ فائرنگ شروع ہوئی اب میرا شک یقین میں بدل گیا کہ جہادی اندر موجود ہیں اس وقت مجھ پر کیا گذری اس کیفیت کو بیان کرنے کی طاقت میرے قلم میں کہاں ہے۔ میرا جہادی مجھ سے جدا ہورہا تھا یہ تصور میرے۔ لئے کسی قیامت سے کم نہ تھا میری ہر سانس اللّٰہ سے ان کی زندگی مانگ رہی تھی ہمارے اوپر ایک درندہ صفت فوجی مسلط تھا وہ ہم پر بہت تشدد کر رہا تھا اور مسلسل یہ سوال کررہا تھا کہ تم نے جھوٹ کیوں بولا کہ اوپر کوئی نہیں ہے تمہاری وجہ سے ہمارے چھ آدمی مارے گئے ہیں ان مرداروں میں ایک پی ایس ایف کا افسر بھی شامل تھا اور لعین فوجی کرن نگر کیمپ کے تھے اس ظالم نے میرے سر پر بہت زور سے گن کا بٹ مارا اس وقت مجھے کچھ محسوس نہ ہوا کیونکہ جہادی کا غم سب غموں پر حاوی تھا لیکن بعد میں کافی عرصہ میرے سر میں درد رہا شدت غم سے میرا گلہ تک خشک ہو گیا میری نظر ایک چھوٹے بچے پر پڑی میں نے اس سے پانی مانگا اس نے جلدی سے پانی لا کر میرے سامنے رکھا اتنے میں اس کافر کی نظر پڑی اس نے گن سے پانی کا گلاس دور پھینکا اور اس کو ختی سے کہا خبر دار جو کسی نے ان کو پانی دیا۔ یہ اس بوڑھی اماں کا گھر تھا جس کو ہم کھڑکی سے دیکھتے رہتے تھے۔ دیوار والی گھڑی پر 11:30 منٹ ہو رہے تھے یہ ہفتے کا دن تھا اور مجھے پچھلے ہفتے والا دن یاد آ رہا تھا ٹھیک اس وقت ہم راضیہ کدل میں ماں جی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آج میں بے یار و مددگار مقتل میں کھڑی ہوں میں سوچ رہی تھی کہ اپنے مجاہد تک کس طرح پہنچوں بچی کو پیشاب کرانے کے بہانے میں باتھ روم میں چلی گئی روشن دان سے وہ گھر بالکل سامنے نظر آ رہا تھا جس میں میرا مجاہد اکیلا ہزاروں ہندی فوجیوں سے زندگی کا آخری معرکہ لڑ رہا تھا میں اشکبار آنکھوں سے اس گھر کو دیکھ رہی تھی دل کر رہا تھا اڑ کر اس مکان کے اندر جاؤں لیکن وہاں اس قدر فوج تھی کہ صحیح معنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اگر میں مزاحمت کر کے ادھر جانے کی کوشش کرتی تو دو قدم چلنے کے بعد ہی وہ مجھے دبوچ لیتے اور میری حقیقت ان پر عیاں ہو جاتی میں واش روم سے واپس آئی اتنے میں بی ایس ایف کا سی او ہمارے پاس آیا ایک فوجی نے اس کو کہا سر ان کے گھر اگر وادی ہیں انہوں نے ہم سے جھوٹ بولا انہی کی وجہ سے ہمارے آدمی مارے گئے افسر ہمیں خونخوار نظروں سے دیکھتا رہا پھر بولا تمہاری گود میں بچہ نہ ہوتا تو میں تم کو گولیوں سے چھلنی کر دیتا سی او نے ہمیں عبرتناک انجام کی دھمکی دی اور فوجی سے کہا ان کو بارودی سرنگ دے کر مکان کے اندر بھیج دو تا کہ یہ مائن اگر وادی کے پاس رکھ دیں یہ سن کر مجھے امید کی کرن نظر آئی میں دعاء کر رہی تھی کہ کسی طرح مجھے ان کے پاس جانے کا موقع ملے میں نے اس مشرک سے کہا ٹھیک ہے ہم مائن رکھ دیں گے۔ سی او نے فوجی سے کہا ٹھیک ہے اس کو مائن دے کر اندر بھیج دو یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا میں نے طاہرہ (شبنم دیدی کی بیٹی ) سے کہا آپ میرے ساتھ جانے کے لئے تیار رہنا کیونکہ یہ ہم دونوں کو ہی بھیجیں گے وہاں سے آپ سیرت فاطمہ کو لے کر باہر آ جانا میں ادھر ہی رہوں گی اس کی گود میں ہیسں دن کا بچہ ارسلان تھا طاہرہ نے مجھ سے کہا ارسلان کو کدھر چھوڑوں ؟ ادھر ہم یہ باتیں کر ہی رہی تھیں اسی وقت غازی بابا نے مکان سے باہر آ کر دشمن پر فیصلہ کن حملہ کر دیا ایک مجاہد کی یلغار پر ہزاروں بزدل فوجی اتنے بوکھلا گئے کہ جو جہاں پر تھا وہیں سے فائرنگ شروع کر دی سرینگر میدان جنگ بن گیا تھا چاروں طرف سے گولیوں اور گولوں کی بارش ہورہی تھی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر ہمارے اوپر گر رہے تھے اور ہم بچوں کو بچانے کے لئے ان پر ڈھال بن رہی تھیں میرے لئے وہ انتہائی بے بسی کے لمحات تھے میری زندگی کی بہاریں روٹھ کر جا رہی تھیں میرے جہادی کی مسکراہٹیں مجھ سے جدا ہو رہی تھیں ان کا خوبصورت چہرہ خون میں لت پت میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہا تھا وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے یا اللہ یہ کیسی آزمائش کیسی بے بسی ہے کہ میں ان کے اتنے قریب ہو کر ان کے پاس جا نہیں سکتی ان کا سر گود میں رکھ کر ان کا غبار آلود چہرہ صاف نہیں کر سکتی جہادی میرے سرتاج میرے اور تمہارے درمیان ہزاروں ہندو درندے حائل تھے مجھے عزت کا ڈر نہ ہوتا تو میں ہر حد سے گذر جاتی مجھے ساری زندگی اس بات کا ملال رہے گا کہ میں تمہارے قدموں پر سر رکھ کر جان نہیں دے سکی۔ غازی بابا نے شیروں کی طرح زندگی کا آخری معرکہ لڑا اور سینے پر گولیاں کھا کر ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا مجھے یاد ہے ایک میجر پسینہ صاف کرتے ہوا اندر آیا اور دوسرے افسر سے بولا مار دیا، اس نے مرتے مرتے بھی گرنیڈ پھینکا دوسرا فوجی بولا گرنیڈ پھٹ گیا تھا اس نے جواب دیا ہاں اس میں ہلیر سنگھ ہلاک ہو گیا یوں 30 اگست بروز ہفتہ ، غزوہ ہند کا شہباز جرنیل حوروں اور فرشتوں کے جھرمٹ میں عرش بریں کی طرف پرواز کر گیا جہادی افق پر ایک طویل مدت چمکنے والا یہ درخشندہ ستارہ بالآخر ٹوٹ گیا گولیوں کی بارش میں مسکرانے اور گنگنانے والا جہادی ہندوستان کی سات لاکھ فوج کی نیندیں حرام کرنے والا غازی بابا ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ *ثابت ہوئی میرے ارمانوں کی قتل گاہ* *ٹھہری تھی جہاں کوچۂ جاناں سمجھ کر* شام پانچ بجے کے قریب ہمیں مصلح فوجیوں کے نرغے میں پیدل اور ننگے پاؤں صفا کدل کیمپ میں لے جایا گیا یہ جھڑپ ٹی وی پر براہ راست دکھائی جارہی تھی اور غازی بابا کی شہادت کی خبر ہر طرف پھیل گئی تھی لوگ گھروں سے سڑکوں پر نکل آئے تھے بہشت شہداء میں لوگوں کا جم غفیر اپنے اس محسن کا آخری دیدار کرنے کے لئے منتظر کھڑا تھا اور مجھے اپنے سرتاج کا آخری دیدار بھی نصیب نہیں ہوا۔ صفاکدل کیمپ میں ہمیں ہر کوئی گھور گھور کر دیکھ رہا تھا کہ یہ لوگ غازی بابا شہید کے کیس میں ملوث ہیں وہاں پر کچھ کشمیر پولیس کے آدمی بھی تھے مسلمان ہونے کے ناطے انہیں ہمارے ساتھ ہمدردی ہو رہی تھی وہ ہمارے لئے چائے لائے اور ایک پولیس والے نے مجھے چپل بھی لاکر دیئے ہم نے دن رات سے پانی کا گھونٹ تک نہیں پیا تھا زبان تالو کے ساتھ چپک گئی تھی پولیس والے ہمیں چائے پینے پر مجبور کر رہے تھے مجھے اچانک خیال آیا کہ کہیں انہوں نے چائے میں کچھ ملا نہ دیا ہو بے شک وہ مسلمان تھے لیکن اس وقت ہم کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے تھے موقع پا کر ہم نے چائے گرادی اور خالی کپ واپس کر دیئے میرے اور طاہرہ کے اوپر انہیں شک تھا کہ ان دونوں میں سے کوئی غازی بابا کی بیوی ہے انہوں نے ہم دونوں کو الگ رکھا شازیہ کے ساتھ 7 سالہ شمع اور 9 سالہ شبو کو رکھا گیا ہم ان دونوں بچیوں کے حوالے سے فکر مند تھے کہ وہ کچھ بتا نہ دیں طاہرہ اور شازیہ نے مجھے کہا کہ ہم ہر صورت میں اس بیان پر قائم رہیں گی کہ آپ ہماری کزن ہیں رات کے نو بجے ہمارے پاس ایک افسر آیا اور ہم دونوں سے سوال کیا آپ دونوں میں سے غازی بابا کی بیوی کون ہے ؟ ہم نے کہا ہم غازی بابا کو جانتے ہی نہیں ہیں اس وقت اپنی عزت بچانے کے لئے مجھے ان کے ساتھ اپنا تعلق مخفی رکھنا پڑا اور ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ بھی نہ تھا بلکہ اس طرح سے میرے اوپر بہت سختی کرتے اور میری ساری زندگی جیل ہی میں گذرتی ۔ افسر کو مجھ پر پورا شک تھا وہ بار بار مجھ سے سوال کر رہا تھا پھر مجھے کمرے سے باہر لایا اور باہر کھڑے ہو کر فاطمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا لڑکا ہے یا لڑکی؟ لڑکی ہے میں نے جواب دیا ایک ہی بچہ ہے تمہارا؟ جی ہاں کیا ملا تم کو ملی ٹینٹ سے شادی کر کے میرا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے میری شادی سوپور میں ہوئی ہے۔ افسر نے غصے میں کہا بکواس بند کرو میں تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا پھر تم سچ سچ بتاؤ گی میں سچ کہہ رہی ہوں میں ان لوگوں کو نہیں جانتی میں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو روکا ہوا تھا تاکہ اس کو کوئی شک نہ پڑے وہ مکاری سے بولا اگر میں تمہیں کوئی ایسا ثبوت دکھاؤں جس سے یہ بات سچ ثابت ہورہی ہو پھر تم کیا کرو گی ؟ میں خاموش ہوگئی کیونکہ ادھر میری کافی چیزیں پڑی ہوئی تھیں انہیں ہائیڈ سے میرے حلف نامے کے علاوہ کئی دوسرے شواہد بھی ملے تھے اس انکشاف نے میری کمر ہی توڑ کر رکھ دی تھی اس نے مجھ سے کئی سوال کئے لیکن میرے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر خاص فضل و کرم تھا وہ پولیس افسر ایک کشمیری مسلمان تھا اس نے بات کو ادھر ہی ختم کر دیا اگر وہ ایسا نہ کرتا تو میری رہائی ناممکن تھی رات کو وہ ہمیں رام باغ پولیس اسٹیشن لے گئے اور لیڈی پولیس سے کہا ان کے ناخن نکال کر ان سے راز اگلوا لو انہوں نے سرسری سی پوچھ تاچھ کے بعد ہمیں لاک اپ میں بند کر دیا وہ گندی اور تاریک کوٹھڑی تھی ہم نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو میلے اور پھٹے ہوئے سلیپنگ بیگوں میں لٹا دیا مچھر ان کی نرم و ملائم جلد پر کاٹتے تو وہ تڑپنے لگتے تھے دن بھر سے صرف اس وقت تنہائی میسر آئی تھی تمام دن میں اپنے آنسو پیتی رہی تاکہ میری بے قراری دیکھ کر کافروں کو مجھ پر شک نہ پڑے اس وقت آنسوؤں کا بند کھل گیا طاہرہ اور شازیہ میرے غم میں شریک تھیں ۔ پہریدار کے علاوہ جیل کے تمام لوگ سو گئے آدھی رات کا وقت تھا۔ مجھے نیند کیسے آتی دل غم سے پھٹا جا رہا تھا آنکھوں سے آنسو رواں تھے لیکن لب خاموش تھے اللہ رب العزت نے مجھے صبر عطاء کر کے میرے اجر و ثواب کو محفوظ رکھا، میں سلاخوں کے ساتھ کھڑی آسمان کے ستاروں کو جھانک رہی تھی اور اپنے رب سے مدد و نصرت کا سوال کر رہی تھی پھر میں نے اپنے رب کو پکارا اے زمین و آسمان کے مالک ہمیں اسلام اور جہاد سے محبت کے جرم میں قید کر لیا گیا۔ ہے میری عزت کا محافظ میرا سرتاج بھی تیری راہ میں جان قربان کر گیا ہے اے مالک کائنات تو نے مجاہدین سے جو نصرت کا وعدہ کیا ہے آج وہ وعدہ پورا فرما ہماری عزت کی حفاظت فرما اور ہمیں اس قید سے رہائی عطا فرما یہ دعا مانگتے ہوئے آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مگر میرے دل میں ڈھیروں سکون اتر رہا تھا کہ میں اپنے اللّٰہ کے بہت قریب ہوں اور میرا رب میری ایک ایک فریاد سن رہا ہے اور بلاشبہ دل سے مانگی ہوئی دعا کبھی رد نہیں ہوتی آسمان پر تارے جگمگا رہے تھے میں ان تاروں میں اپنے شہیدوں کو تلاش کررہی تھی میرے دماغ میں جهادی شهید کے کہے ہوئے یہ الفاظ طلاطم مچا رہے تھے *سعدیہ خدانخواستہ تم کبھی گرفتار ہوئی تو میں آپ کو ایک گھنٹہ بھی دشمن کی قید میں نہیں رہنے دوں گا میں بارود سے بھرا ہوا ٹرک لے کر اس کیمپ کو اڑا دوں گا یا آپ کو آزاد کراؤں گا یا ہم دونوں شہید ہونگے* ان کی یہ باتیں یادآئیں تو دل نے انہیں پکارا جہادی ! آج آپ کی سعدیہ کافروں کے نرغے میں ہے صبح سے شام بھی ہوگئی اور آپ نہیں آئے آکے مجھے ان سے چھڑا لو میں کیسے مان لوں کہ آپ اس دنیا سے چلے گئے ہیں آپ تو ہر بار موت کو شکست دیتے تھے میرا دل کہتا ہے کہ آپ آئیں گے فضاؤں میں اور ہواؤں میں کلاشنکوف لہراتے ہوئے بھارتی فوجیوں کو چیرتے ہوئے مجھ تک پہنچیں گے اور مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے میری حالت بہت خراب ہورہی تھی کلیجہ پھٹ رہا تھا اتنے میں وہاں سے ایک پہریدار گذرا اور مجھ سے بولا جاؤ جا کر سو جاؤ نہ جانے صبح تم لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا۔ ہمیں بھی ان وحشی درندوں سے کسی اچھائی کی توقع نہ تھی لیکن ہم اپنے اللہ کی نصرت اور رحمت سے مایوس نہیں تھیں۔ دوسرے دن ہمیں کشمیر کے بد نام زمانہ انٹروگیشن سنٹر Air Cargo لے جایا گیا ایک لیڈی پولیس اہلکار جو سکھ تھی ہمارے ساتھ ہی تھی اس کا نام انیتا کور تھا کارگو ایس ٹی ایف والوں کا انٹروگیشن سنٹر ہے وہ بہت بری جگہ ہے وہاں جاتے ہوئے ہم بہت زیادہ خوفزدہ تھیں میں نے انیتا کور سے کہا کہ پوچھ تاچھ کے دوران آپ ہمارے ساتھ رہنا ہمیں ان کے پاس اکیلا مت چھوڑنا آپ بھی ایک عورت ذات ہو انسانیت کے ناطے ہماری اتنی مدد ضرور کرنا اس نے مجھے یقین دلایا کہ ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گی جب گاڑی سے اترے تو ایس ٹی ایف کے اہلکار ہمارے ارد گرد جمع ہو گئے پھر ہمیں بلڈنگ کے اندر ایک گیلری میں بٹھا دیا گیا۔ اس وقت وہاں غازی بابا شہید کے حوالے سے میٹنگ ہورہی تھی اور ایس ٹی ایف کے افسران میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے ہم اس کمرے کے دروازے کے باہر بیٹھے ہوئے تھے غازی بابا شہید کا نام ہر طرف گونج رہا تھا ان کی شہادت ہندوستان کے لئے بہت بڑی فتح تھی ہندوستان میں دو دن جشن منایا گیا اور بی ایس ایف کے افسر کو ترقی دے کر ڈی آئی جی بنا دیا گیا گیلری سے گذرنے والا ہر فوجی ہمیں دھمکیاں دے جاتا تھا ہم دل ہی دل میں اللہ پاک سے مدد مانگ رہی تھیں شازیہ کو سب سے پہلے بلایا گیا اس کے بعد اور شمع کو مجھے نہیں معلوم تھا کہ انہوں نے کیا بیان دیا ہے وہ بڑا کمرہ تھا ایس پی جالا جو ایک متعصب ہندو تھا کرسی پر بیٹھا ہوا تھا دائیں بائیں اس کے دو مسلحہ گارڈ کھڑے تھے میں اس کے سامنے فرش پر بیٹھی اور مجھے اپنادم سینے میں گھٹتا محسوس ہو رہا تھا مکار جالا نے شبو کو گود میں بٹھا رکھا تھا اس کو بڑے پیار سے سو روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس کی چاکلیٹ کھانا بچی نے پہلے انکار کیا لیکن پھر اس کے اصرار کے بعد لے لیا۔ جالا نے اس سے پوچھا اچھا تو بیٹا وہ انکل ( مجاہد ) آپ کے گھر میں آتے تھے تو آپ کے لئے چاکلیٹ لاتے تھے؟ میرا دل ڈوبنے لگا کہ اگر اس مکار نے اسی انداز میں میرے حوالے سے سوال کیا تو بچی صاف بتادے گی اس کے سوال کا جواب دینے سے پہلے شبو نے میری طرف دیکھا میں اس کو مسلسل دیکھ رہی تھی جالا کی نظر پڑی تو اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اخبار میرے اوپر پھینکی اور غصے سے بولا تم اس کو بتانے سے منع کرتی ہو ہمیں معلوم ہے کہ اس گھر میں ہائیڈ تھی اور وہاں ایک عرصے سے ملی ٹینٹ رہتے تھے پھر اس نے مجھ سے پوچھ تاچھ شروع کردی مثلاً آپ کون ہیں؟ ادھر کب آئی؟ ملی ٹینٹ کس وقت آئے وغیرہ میں اس بات پر ڈٹی رہی کہ میں سوپور میں رہتی ہوں یہاں ملنے کے لئے آئی تھی اس کے علاوہ اللہ رب العزت نے مجھے یہ سوچ عطا فرمائی کہ میں نے ان کے سامنے بالکل اردو نہیں بولی اور خود کوان پڑھ گنوار ظاہر کیا وہ چونکہ اردو بولتے تھے میرے ساتھ بات کرکے انکا دماغ خراب ہو جاتا تھا شام کو ہمیں واپس رام باغ بھیجا گیا اگلے دن کوٹھڑی کا دروازہ بند رہا سیرت فاطمہ اس وقت ایک سال چار ماہ کی تھی وہ خوشی اور غم کے احساس سے ناآشنا تھی اس کوٹھڑی میں اس کا ننھا سا دل فورا گھبرا جاتا تھا اور وہ سلاخوں سے پاؤں نکال کر روتی رہتی تھی ایک پہرے دار نے ترس کھا کر دروازہ کھولا وہ باہر نکلی تو فوراً روتے روتے واپس آگئی اس کے نازک پیروں میں کنکریاں چبھ گئی تھیں اس کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے بلکہ ہمارے پاس تن کے کپڑوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا تھا اس دن ہمیں کھانا نہیں ملا ساتھ والی کوٹھری میں انڈیا کی کوئی عورت بند تھی اس کو کھانا کھاتے دیکھ کر غازی بابا کی لاڈلی بیٹی زارو قطار رونے لگی اس کا فیڈر بھی ادھر رہ گیا تھا ہم سب رور ہے ۔ تھے میں نے اسے سینے سے لگا کر کہا میری جان ! آج ہم اللہ کے مہمان ہیں اللہ ہی ہمیں سب کچھ دے گا یہ باتیں اس کی سمجھ سے بالاتر تھیں وہ مسلسل ضد کئے جارہی تھی ۔ دوپہر کے بعد شبنم دیدی ہسپتال سے پہلی مرتبہ ہمارے پاس آئی بچوں نے ان کی ٹانگوں سے لپٹ کر رونا شروع کر دیا امی بھوک لگی ہے کھانا لا کر دیں انہوں نے جیل حکام کے قدموں میں اپنی چادر ڈال دی اور ان سے کہا انہیں بھوکا مت مارو میرا گھر تو زمین بوس کر دیا گیا میں ان کے لئے کہاں سے کھانا لاؤں انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور میں نے روتے ہوئے ان سے سوال کیا دیدی کیا یہ سچ ہے؟ وہ بھی صبر وضبط کھو بیٹھی اور بولیں ہاں میری جان یہ سچ ہے میں نے اخبار میں ان کی تصویر بھی دیکھی ہے میں سوچ رہی تھی کہ رہا ہوتے ہی میں کسی کیمپ پر فدائی حملہ کروں گی اور غازی بابا شہید سے جاملوں گی اس وقت میں نے ان کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کیا تھا اور نہ یہ کہ مجھے ان کے بغیر زندگی کا کٹھن اور طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ دیدی ہماری رہائی کے حوالے سے مسلسل کوشش کر رہی تھی طاہرہ کا بیٹا سخت بیمار ہو گیا تھا۔ اس لئے اس کو رہا کر دیا گیا بچیوں کو بھی ماں کے حوالے کر دیا گیا تھا اب صرف میں اور شازیہ رہ گئی پانچویں روز وہ ہمیں صفا کول لے گئے وہ پولیس افسر ادھر ہی تھا جس نے مجھے کہا تھا کہ میرے پاس آپ کا ثبوت موجود ہے وہ ہمارے لئے چائے اور ڈبل روٹی لے آیا اور اپنے سامنے پینے کے لئے مجبور کرنے لگا وہ بولا مسلمان ہونے کے ناطے ناطے مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ آپ میرے اوپر اعتبار کرلو واقعی وہ قابل اعتبار تھا اگر وہ ثبوت اس نے آگے والوں کو دیئے ہوتے تو میرے لئے بہت مشکل بن جاتی ادھر بھی مختلف افسروں نے ہم سے بیان لیا اور ہمارا بیان لکھتے گئے وہی باتیں جو چار دنوں سے مسلسل ہم سے پوچھی جا رہی تھیں ادھر بھی پوچھی گئیں انہوں نے ہمیں بہت ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ اگر تم لوگ ویسے نہیں بتاتیں تو ہم مجبوراً تمہارے اوپر تشدد کریں گے تمہارے ناخن نکالیں گے اس قسم کی انہوں نے بہت دھمکیاں دیں ہم نے کہا آپ کچھ بھی کر لیں ہم وہی کہیں گے جو سچ ہے اور ہم نے جو کچھ آپ کو بتا دیاوہ سچ ہے۔ دو پہر کے وقت میں بچی کو باتھ روم سے لے کر آرہی تھی میری نظر گیلری میں رکھے ہوئے ایک بڑے شاپر پر پڑی اس کے اندر انسانی جسم کے ٹکڑے تھے جن پر سفید رنگ کی کوئی پٹیاں سی چڑھائی ہوئی تھیں اس کے باوجود ان ٹکڑوں سے خون رس رہا تھا یہ منظر دیکھ کر میرے سر سے پاؤں تک جیسے بجلی دوڑ گئی میں نے آنکھیں بند کر لیں اور شازیہ سے کہا یہ کس کی لاش ہے؟ شازیہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور بولی دیدی اندر چلیں ناں یہ پارم پورہ میں کوئی بارودی سرنگ پھٹنے سے شہید ہوا ہے ، اس دن پارم پورہ میں جھڑپ ہوگئی تھی نہ جانے مجھے اس کی بات پر یقین سا کیوں آگیا۔ دو بجے ہمیں پھر پوچھ تاچھ کے لئے "خانیار تھانے میں لے جایا جا رہا تھا جس گاڑی میں مجھے سوار کیا گیا وہ گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہی تھی میں نے شازیہ سے پوچھا آپ کو خوشبو آ رہی ہے؟ وہ بولی میں بھی آپ سے یہی کہنے والی تھی کتنی پیاری خوشبو ہے یہ میرے شہید کی پہلی کرامت تھی جو ہم نے جاگتے دماغ اور کھلی آنکھوں سے دیکھی گاڑی میں بھی وہ لوگ ہم سے یہی ایک سوال پوچھ رہے تھے کہ تم دونوں میں سے غازی بابا کی بیوی کون ہے سچ بتا دو اس طرح سے ایک کی جان چھوٹ جائے گی ورنہ تم دونوں کو ہی جیل جانا پڑے گا ہم خاموش رہے کیونکہ یہ سوال سن کر ہمارے کان تھک گئے تھے جب ہم خانیار جا رہے تھے تو تمام راستہ میں سوچ رہی تھی کہ کاش کہیں سے مجاہدین اس گاڑی پر حملہ کردیں اور ہم اس قید سے آزاد ہو جائیں یا پھر زندگی کی قید سے ہی رہائی مل جائے میں اکثر یہ سوچتی تھی کہ کاش یہ گاڑی مائن بلاسٹ سے تباہ ہو جائے اور میں ٹکڑوں میں بکھر کر جنت میں پہنچ جاؤں۔ جب ہم گاڑی سے اترے تو ایک فوجی نے اس کے اندر سے وہ شاپر بھی نکالا پھر ہم سمجھ گئے کہ یہ خوشبو اس شہید سے آرہی ہے انہوں نے مجھے ایک بینچ پر بٹھا کر وہ شاپر میرے پیروں کے قریب رکھ دیا ایک فوجی نے اداکاری دکھاتے ہوئے دوسری طرف چھلانگ لگائی اور بولا ارے اس غازی بابا کو دور کرو مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ یہ ہمیں آٹھ کر مار نہ دے اس کی بات سن کر میں لرز گئی کہ کیا یہ میرا غازی بابا ہے۔ میں گھبرا کر کھڑی ہوئی قریب تھا کہ میں جہادی کے جسم کے ٹکڑوں سے لپٹ کر روؤں انہیں آنکھوں سے لگاؤں پھر ان ظالموں سے کہوں کیوں اے ظالمو تم کیا سمجھتے ہو کہ غازی بابا کے جسم کے ٹکڑے کرکے تم نے ان سے انتقام لے لیا اور تم کیا سمجھتے ہو اس درندگی کا مظاہرہ کر کے تم جیت گئے ہو نہیں ایسا نہیں ہے یہ تمہاری بھول ہے تم کل بھی خسارے میں تھے اور آج بھی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکے ، غازی بابا تو دعائیں مانگا کرتا تھا کہ اللہ تعالی قیامت کے دن مجھے ٹکڑوں میں اٹھائے اللہ رب العزت نے ان کی دلی خواہش پوری کردی میرا غازی تو جیت گیا وہ مرکر بھی مرا نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہو گیا اللہ پاک نے مجھے اس دلدوز سانحے پر صبر واستقامت سے نواز ورنہ یہ ایسا غم تھا جو اگر پہاڑوں پر ڈالا جاتا وہ بھی ریزوریزہ ہو جاتے میرا ہم سفر میرا سرتاج میرے سامنے ٹکڑوں میں پڑا ہوا تھا۔ ان ٹکڑوں سے رستا ہوا خون ان کی عظمت و قربانی کی داستان تحریر کر رہا تھا میں ان ظالموں کے سامنے اپنے آنسو اندر ہی اندر اپنے دل میں اتار لیتی تھی لیکن اس وقت ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے میں تصور میں ان سے مخاطب تھی اور کہہ رہی تھی جہادی ! میرے سرتاج ! آپ کو سید الشہداء حضرت حمزہ جیسی شہادت مبارک ہو آپ نے تو میرے ساتھ جینے اور مرنے کا وعدہ کیا۔ تھا پھر مجھے اکیلا کیوں چھوڑا؟ یہ تو بتاؤ آپ اس وقت کہاں تھے جب میں اس شب ظلمت میں آپ کو تلاش کرتی پھر رہی تھی ؟ کیا آپ نے میری صدائیں نہیں سنی؟ یا سیرت فاطمہ کے لئے خاموشی اختیار کی تھی مجھے ایک بار مل تو لیتے پھر جو آپ کہتے میں وہی کرتی لیکن آپ کہاں تھے مجھے کیوں نہیں ملے یہ سوال ساری زندگی کسی آسیب کی طرح میرا پیچھا کرتا رہے گا۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے ہمیں اندر بلا لیا ادھر ایک بڑی میز کے ارد گرد بی ایس ایف کے کچھ افسر اور ایس پی جالا بیٹھے ہوئے تھے جالا نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر کے مجھے کہا یہ پریس رپورٹر ہے اس کے سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا وہ آدمی شکل سے ہی ہندو لگ رہا تھا وہ مجھے ساتھ والے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا انیتا کور میرے ساتھ تھی اس آدمی نے اسے یہ کہہ کر باہر بھیجا کہ اس نے مجھ سے علیحدہ بات کرنی ہے اس کے جانے کے بعد اس نے ایک فائل کھولی اور راز دارانہ انداز میں بولا آپ مجھ سے خوفزدہ نہ ہوں میں ایک پریس رپورٹر ہوں اور آپ کی مدد کروں گا مجھے معلوم تھا کہ یہ سب دھوکہ ہے ان خبیثوں کی چال ہے اس لئے میں اس بات پر خاموش رہی وہ بولا ان کا کہنا ہے کہ آپ غازی بابا کی بیوی ہیں آپ سچ سچ ہتا دیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں یہ خبر اخبار میں لگواؤں گا اس طریقے سے آپ کی گرفتاری کی تصدیق ہو جائے گی اور یہ لوگ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے میں نے اس سے الٹا سوال کیا کہ آپ کس اخبار سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جو نام بتایا وہ میں نے پہلی بار سنا تھا وہ بولا اردو میں بات کرو میں نے جواب دیا۔ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں اس نے کہا ٹھیک ہے آپ میرے سوالوں کا جواب کشمیری میں ہی دے دو میں سمجھنے کی کوشش کروں گا پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک وہی سوالات کئے جو ہم پچھلے چار دنوں سے سنتے آرہے تھے میرا خود کو ان پڑھ ظاہر کرنا میرے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوا انڈین آرمی اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو معلوم تھا کہ غازی بابا کی بیوی پڑھی لکھی ہے لیکن ان چار دنوں میں میری وہ حالت بن گئی تھی کہ میں بالکل اجڑی ہوئی نظر آرہی تھی وہ شخص بھی ایجنسی کا ہی آدمی تھا اس نے باہر آ کر افسروں کو انگریزی میں کہا کہ یہ ایک گنوار اور ان پڑھ عورت ہے یہ غازی بابا کی بیوی نہیں ہے جالا نے مجھ سے پوچھا اگر آپ سوپور کی ہیں تو آپ کا شوہر آپ کو ملنے کے لئے ادھر کیوں نہیں آتا؟ میں نے کہا وہ ایک سادہ اور مزدور آدمی ہے ادھر آنے سے ڈرتا ہوگا کہ کہیں اسے بھی گرفتار نہ کر لیا جائے غازی بابا شہید کے جسم کے ٹکڑے میری آنکھوں کے سامنے تھے انہیں دیکھ کر میرا جسم کانپ رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جالا نے مجھ سے پوچھا تم اتنا رو کیوں رہی ہو؟ میں نے بچی کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ میری بیٹی بیمار ہے اس کو ڈر کی وجہ سے شاک لگا ہوا ہے نہ بولتی ہے اور نہ ہنستی ہے ان کافروں کے مظالم دیکھ کر فاطمہ کے نازک دل پر واقعی ان کا خوف چھا گیا تھا کوئی بھی فوجی نظر آتے ہی وہ میری آغوش میں جھپکانا بھی بھول جاتی تھی اس وقت بھی وہ میری گود میں سہمی ہوئی تھی میں نے جالا سے التجا کی کہ ہم بے قصور ہیں ہمیں رہا کر دیں ورنہ میری بیٹی مر جائے گی اس نے کہا میں آپ کو اس شرط پر چھوڑوں گا کہ جس وقت آپ کو پوچھ تاچھ کے لئے بلایا جائے تم نے آنا ہوگا۔ میں نے کہا ہاں میں کسی بھی وقت حاضر ہونے کے لئے تیار ہوں اس نے ایک کاغذ پر کچھ لکھا اور وہ صفاکدل والے افسر کو دے دیا خانیار سے واپس آتے ہوئے مجھے رہائی کی امید نظر آرہی تھی مگر یقین پھر بھی نہ تھا۔ صفاکدل والوں نے کچھ کاغذات پر ہمارے دستخط وغیرہ لئے میں نے انگوٹھے کا نشان لگایا کیونکہ ان کی نظروں میں میں ان پڑھ تھی پھر انہوں نے پوچھا کہ ہم آپ کو کہاں چھوڑیں ہم نے کہا ہمیں ہسپتال چھوڑ دیں پھر وہ ہمیں برزلہ ہسپتال میں لے گئے جہاں شفیع بھائی نہ زیر علاج اور زیر حراست تھے ادھر بی ایس ایف والے موجود تھے انہوں نے شبنم باجی سے بھی تاکیداً کہا کہ جب ہم کہیں گے اس کو حاضر کرنا ہے جاتے جاتے صفا کدل تھانے کے ایک پولیس اہلکار نے شبنم دیدی سے کہا کہ اس کو غائب کر دینا بی ایس ایف والے اس کو نہیں چھوڑیں گے بی ایس ایف والوں نے پہلے دن ہی اعلان کیا تھا کہ غازی بابا شہید کی بیوی ہماری حراست میں ہے ہم نے اس کو خفیہ رکھا ہوا ہے اور غازی بابا شہید کی شناخت بھی اس نے کی ہے یہ خبر ہر اخبار میں آئی مگر اس میں ذرہ برابر بھی حقیقت نہ تھی ان کی پہچان کسی اور ذرائع سے کی گئی تھی شبنم دیدی رات کے لئے ہمیں برزلہ میں ہی اپنی ایک سہیلی کے گھر چھوڑ گئی اور خود واپس ہسپتال چلی گئی۔ پانچویں روز میں رہا ہوگئی اور اس دن غازی بابا شهید رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے مرقد میں جا سویا ۔ جب تک میں جیل میں تھی تب تک وہ دفن نہیں ہوئے میرے ساتھ رہے اور ان کی روح میرے اوپر سایہ کئے ہوئے تھی اور بھی کئی مخلصین اور مجاہدین کی دعائیں تھیں کہ میں ان درندوں سے بچ نکلی اللہ رب العزت نے انہیں اندھا کر دیا اور مجھ پر اپنی کھلی نصرت بھیج دی میری رہائی کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہی غازی بابا شہید کی بیوی تھی جیل سے باہر آ کر مجھے لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی کوئی طوفان گذر گیا ہے اور چمن کی فضائیں ماتم کر رہی ہیں جس پھول سے بہاروں میں حسن ہوتا تھا وہ پھول مرجھا گیا تھا مجھے جہادی شہید کے الفاظ یاد آ رہے تھے کہ *اک نہ اک دن تم سے بچھڑ جائیں گے* *ڈھونڈو گے بھی تو ہم نہ نظر آئیں گے* آج وہ بالکل اس نظم کے مصداق بنے بیٹھے تھے آج ہر نظر ان کو ڈھونڈ رہی تھی انہیں تلاش کر رہی تھی مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہے تھے پورا کشمیر سراپا غم و اندوہ بن گیا تھا میرے پاس وہ قلم کہاں وہ الفاظ کہاں اور وہ اسلوب کہاں میں اس کیفیت کو بیان کر سکوں ۔ شبنم دیدی صبح میرے پاس پہنچی انہوں نے مجھے ایک پرانا برقعہ لا کر دیا میں نے برقعہ اوڑھا اور سیرت فاطمہ کو اس کے اندر چھپا لیا کیونکہ وہ میرا بہت بڑا ثبوت تھی اور سرینگر کے تمام کیمپوں نے اس کو دیکھا ہوا تھا وہاں سے میں ایک نئے اور کٹھن سفر کی شروعات کر رہی تھی جہاں قدم قدم پر اس مخلص ہمسفر کی یادیں تھیں مگر اب صرف آہیں اور سسکیاں میری رفیق تھیں۔ لیکن میں پر عزم تھی کہ میں بھارتی فوجیوں سے جہادی کے خون کا بدلہ لوں گی میں کرن نگر کیمپ پر فدائی حملہ کر کے جہادی شہید کے نشیمن تک پہنچوں گی میں ساری زندگی جہاد کرتی رہوں گی اور میرا ہر کام ہندوستان کے خلاف ہوگا برزلہ سے نکل کر ہم ڈلگیٹ پہنچے وہاں سے ہمارے راستے الگ ہو رہے تھے شبنم دیدی نے مجھے پچاس روپے کا نوٹ دیتے ہوئے اشکبار آنکھوں سے کہا میری بہنا مجھے معلوم ہے کہ یہ رقم بہت تھوڑی ہے لیکن میں اس وقت آپ کے لئے صرف اتنا ہی کر سکی میں وہ پچاس روپے کا نوٹ مٹھی میں دبا کر جھیل ڈل کے کنارے کھڑی سوچ رہی تھی کہ جہادی رحمۃاللہ علیہ یہ آپ مجھے زندگی کے کسی موڑ پر لا کر تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ *جو مختص بات بات پر کہتا تھا مجھ کو جان* *وہی شخص آج مجھ کو بے جان کر گیا* *بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی* *اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا* *ختم شد۔۔۔۔۔📚* اللّٰہ رب العزت سے دعا ہے کہ غازی بابا شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے جانشین تیار ہوتے رہیں اور کفار و مشرکین پر صاعقہ آسمانی بن کر گرتے رہیں۔۔۔ اللّٰہ کریم غازی بابا کو جنت الفردوس کے اعلیٰ درجات میں جگہ دیں حظیرۃ القدس میں نبی الملاحم ﷺ، خالد رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللّٰہ عنہ کے ہمنشیں ہوں۔۔۔ آمین یا رب الشہداء والمجاہدین🤲🌹🩷
❤️ 😢 😭 🤲 👍 🌹 🙏 💔 💞 😮 127

Comments