سبق آموز تحریریں ♥️ WhatsApp Channel

سبق آموز تحریریں ♥️

46.2K subscribers

About سبق آموز تحریریں ♥️

جب تک "الفـــــــــــاظ" "تحریـــــــــروں" سے نکل کر "عمــــــــــل" میں شامل نہیں ہونگے ؛ نہ "دل" بدلے گا نہ د ل کی "دنیـــــــــا۔۔!! ✍️ اچھی بات اور اچھی عادت،کسی کو بتانا اور سیکھانا بھی ایک نیکی ہے۔!!! ✍️ صحیح سمت میں سفر شروع کرنے سے پہلے غلط سمت میں اٹھنے والے قدم روکنے پڑتے ہیں۔!!! ✍️ بہتری کی ہلکی سی کاوش،تبدیلی کی شدید خواہش سے کہی بہتر ہے۔!!! وان الى ربك المنتهى اور تمہاری آخری منزل اللہ ہے Email. [email protected] Quran Hadith Isamic status Poetry Funny Main Falisteen Hoon Muhammad Imran khan Sad Love Romantic Poetry Pottery Friendship Potery Attitude Poetry Motivational Potery video Islamic Pottery Life Pottery Urdu Ghazl Short Long Sufi Birthday Good Morning Night Pottery Family Potery Alone Best Urdu Sad song love Deep Line Urdu Ghazals Dard Shayari Classic Quotes Writers Novels Ghazals Pakistani Writers Mohabbat Romantic Shayari Love Quotes Dil Ki baat Broken Heart Pottery write cannot speak Allah chance host skill school USE lovely NEWS making please fashion skin makeup share cutting ideas baby girl dresses simple dress designs feedback valuable Paper Exams online CSS PMS CCE FPSC SPSC PPSC KPPSC Police PST Group MBBS News pakstudy Officer NTS WhatsApp file materials alerts apply test interview PMA Navy Army Federal Bank Past Papers art history result college Al research air force zoology biology University internships book Math Zone 360 Education Job Cricket Hot Food TV Falak PTI youth club Maulana Tariq ParHo isLam Library Jameel DP English Kurulus Osman The Right Path Queen of Islam Ali sherazi Zaib Zain Ziaullah Zeeshan Tauqeer اشعار BBC Sadia Zee Javed Yasir Official Alina Aslam Taj Wali Sonia Sameer khan Asad Ali Esha Afshan Abbas Haider Shan Ghulam Ayan Ashraf Faisal Mohsin Tauqeer Fatima PSL Labia Shaukat صدام Sonia Abdul Mehmood Foodie Ayan Mufti Bushra son Adeel Shahzaib Majid Bilal عشق Feroz Waqar Zahid Amir sana Punjab Ramzan business Dream Mr aqbi Naseed ducky Ary Hum Online sport saad amna Kishmir Sadiq Bibi mahi amna

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/21/2025, 3:33:33 PM

*حضور اکرم ﷺ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ معاملہ* ♥️ حضرت جریر بن عبداللہؓ، حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ ایک گھر میں تھے جو صحابہ کرامؓ سے بھرا ہوا تھا۔ حضرت جریرؓ دروازے پر کھڑے ہوئے۔ انہیں دیکھ کر حضور ﷺ نے دائیں بائیں جانب دیکھا، آپ کو بیٹھنے کی جگہ نظر نہ آئی۔ حضور ﷺ نے اپنی چادر اٹھائی اور اسے لپیٹ کر حضرت جریرؓ کی طرف پھینک دیا اور فرمایا: اس پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت جریرؓ نے چادر لے کر اسے سینے سے لگایا اور اسے چوم کر حضور ﷺ کی خدمت میں واپس کر دیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ آپ کا ایسے ہی اکرام فرمائے جیسے آپ نے میرا اکرام فرمایا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے پاس کسی قوم کا قابلِ احترام آدمی آئے تو اس کا اکرام کرو۔ (حیات الصحابہ، جلد 1، صفحہ 523) 👍♥️🌸🌼

❤️ 👍 🌸 💖 🌹 💯 🤍 🌺 181
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/21/2025, 5:13:52 AM

۔ *قصور وار کون ہے __؟؟* شہرِ بنگلور کا ایک دردناک واقعہ! جہاں ایک خوشحال گھرانہ بسا کرتا تھا۔ جس میں میاں بیوی اور انکے دو بچے (ایک لڑکی اور ایک لڑکا) رہتے تھے۔ ابتداءً گھر کے حالات خوشگوار تھے شوہر اپنے بیوی بچوں کا پورا حق ادا کرتا تھا۔ گھر میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ روزانہ شوہر کام پر نکل جاتا اور شام تک گھر والوں کے لئے ڈھیر ساری چیزیں لے آتا۔ وقتاً فوقتاً گھر والوں کو گھمانے بھی لے جاتا۔ ​پھر اچانک​ ، تقدیر کے فیصلے سے شوہر کا انتقال ہوگیا، بچے بہت چھوٹے تھے، اب ان کی ماں نے پرورش کا ذمہ اٹھایا۔ روزانہ صبح و شام گھر گھر جاکر برتن مانجھتی اور انہیں پیسوں سے گزارا کرتی۔ لیکن ان پیسوں سے اب بڑے گھر کا کرایہ، بچوں کے مہنگے اسکول کی فیس ادا نہیں ہو پاتی۔ پھر کیا تھا، مجبوراً اسے گھر چھوڑ کر ایک جھونپڑی کو آشیانہ بنانا پڑتا، اب بچے اسکول نہیں جاتے، وہ بھی اپنی ماں کے ہمراہ ذلت سہنے نکل جاتے۔ اس دوران اس عورت نے اپنے سارے رشتے داروں سے مدد کی بھیک مانگی، مگر ان میں سے بعض جو مالدار تھے یوں کہنے لگے ​"ہم اپنی زکوٰۃ مدرسے میں دے چکے، ابھی ہم مدد نہیں کر سکتے۔"​ کسی نے سوائے ترشروئی کے کوئی امداد نا کی۔ ایسے ہی زندگی گزرتی رہی، پھر ایک دن وہ حسبِ معمول کام پر چلی گئی، جس گھر میں وہ کام کرتی تھی وہ ایک عیسائی کا گھر تھا۔ اس نے اس عورت کا حال دریافت کیا، تب اس عورت نے سارا ماجرا سنایا۔ وہ عیسائی کہنے لگا "کیا تمہارے رشتے دار تمہاری مدد نہیں کرتے؟ کیا تمہاری قوم والے تمسے حال پوچھتے نہیں؟" ​اس عورت نے آنکھوں کے اشکوں سے جواب دیا۔​ اس عیسائی نے اپنے بڑے گھر میں نوکروں کے کمرے میں انہیں ٹھہرایا اور کہا "اب فکر کی کوئی بات نہیں! میں تمہارا اور تمہارے بچوں کا سارا خرچ برداشت کروں گا، میں تمہیں اپنے مذہب میں آنے پر مجبور بھی نہیں کروں گا۔" چناچہ، ویسا ہی ہوا۔ ​مگر!​ وہ عورت اس عیسائی سے متاثر ہوکر اپنے بچوں سمیت مرتد ہوگئی۔ آج اسی کا بیٹا گرجا گھر کا پادری ہے۔ اب اس عورت کے پاس کوئی مسلمان سمجھانے کے لئے جاتا ہے تو وہ آگ بگولہ ہوجاتی ہے، گویا ساری مسلمان قوم ہی اسکے قصوروار ہوں۔ 🖊 مفتی محمد ظہور مصطفی ۔؛

😢 ❤️ 😭 👍 🙏 🤲 😮 💔 😂 292
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/22/2025, 3:08:25 AM

۔ *فاتحِ اندلس، موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه،* *قسط: 07* اندلس پر مسلمانوں کا تیسرا حملہ: سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اندلس پر مسلمانوں کا دوسرا حملہ ہوا، جس کی تفصیل کتابوں میں نہیں ملتی۔ تیسرا حملہ اسلامی تاریخوں کے مطابق اس وقت ہوا جب عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه کو یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے افریقہ کی گورنری پر دوبارہ بھیجا۔ عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه پیش قدمی کرکے طنجہ تک پہنچے، کاؤنٹ جولین (یولیاں) جس نے بعد میں اندلس کے معاملات اور اس کی فتح میں ایک نمایاں کردار ادا کیا، ان دنوں یہاں کا حکمران تھا۔ اس نے عقبہ کی اطاعت قبول کرلی۔ اس کے بعد عقبہ نے جولین سے اندلس کی طرف بڑھنے کا مشورہ کیا۔ یہ بات اسے شاق گزری تو انہوں نے اس سے بربر قبائل کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا: "وہ عیسائی نہیں ہیں بلکہ کافر ہیں۔ اب وہ کتنے ہیں؟ ان کی تعداد کا علم اللہ تعالی ہی کو ہے۔ ان کی زیادہ تر آبادی سوس ادنیٰ کی طرف ہے۔ اس طرف پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ عقبہ اس موقع پر جولیس کے مشورہ کے مطابق طنجہ سے اندلس کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجائے مغرب کی سمت سوس کی طرف نکل گئے۔ (ابن اثیر جلد 4 ص 89) بہر حال یہ اندلس پر ابتدائی حملے تھے۔ ان کو حقیقی معنوں میں اندلس پر فوج کشی نہیں کہا جا سکتا۔ صحیح حملہ اور فتح کی نیت سے صحیح معنوں میں فوج کشی طارق بن زیاد رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه ہی نے کی اور اس حملہ کے بعد مسلمانوں نے اندلس کو اپنا وطن بنا کر اپنی فتوحات کا دائرہ روز بروز وسیع کیا اور پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ پورے اندلس پر مسلمانوں کی حکومت تھی، اس زمانہ میں شمالی افریقہ میں خلافت امویہ دمشق کی سیادت میں موسیٰ بن نصیر جیسا بیدار مغز حکمران تھا۔ اس نے چند برسوں میں شمالی افریقہ کو نئے سرے سے مطیع و منقاد کرلیا اور اسلامی دستوں کو بحر روم کے مختلف جزیروں میں چھاپے مارنے کے لیے بھیجتا رہتا تھا۔ وہ سبتہ پر بھی دو مرتبہ پیش قدمی کر چکا تھا، لیکن کاؤنٹ جولین نے پوری طاقت اور قوت سے اس کی مدافعت کی تھی۔ ان دنوں طارق بن زیاد طنجہ کا والی اور حکمران تھا۔ کاؤنٹ جولین نے اس سے مراسم پیدا کیے اور اسلامی حکومت کی اطاعت اور اس کو اندلس پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ طارق بن زیاد نے جولین سے کہا کہ تم براہ راست موسیٰ بن نصیر سے بات کرو، چنانچہ اس نے موسیٰ سے براہ راست مراسلت کی، جولین نے موسیٰ کو اپنی اطاعت قبول کرنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی سبتہ آنے کی دعوت دی جس کو موسیٰ نے قبول کرلیا، کیوں کہ جولین کی یہ پیش کش بڑی خوش آئند تھی۔ چنانچہ وہ سنہ 90ھ میں خود قیروان سے سبتہ آیا (لیکن بعض تو اریخ میں ہے کہ جولین خود سبتہ سے قیروان آیا) جولین نے نہایت خندہ پیشانی سے موسیٰ کا خیر مقدم کیا اور اس کو حملہ آور ہونے کی ترغیب دی اور اس کو اندلس کی زرخیزی اور شادابی، میوؤں اور زرعی فصلوں کی بہتات، دریاؤں کی کثرت، پانی کی شیرینی اور سیاسی حالات کے سلسلہ میں یہاں کے باشندوں اور مختلف گروہوں کے باہمی اختلافات اور ایک غیر شاہی خاندان کے قائد اور سربراہ کے برسر اقتدار آ جانے کی تفصیلات بیان کیں اور اس مہم میں اپنی طرف سے پوری پوری امداد فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ موسی بن نصیر نہایت دور بین اور گہری سوچ کا مالک تھا۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ جولین اس کے ساتھ کوئی دھوکہ اور فریب کر رہا ہو۔ اس لیے موسیٰ نے نہایت غور و فکر سے اس کی اس تجویز کا جائزہ لیا، وہ اس کی اس تجویز پر عمل کرنے سے پہلے جولین کو پورے طور پر آزما لینا چاہتا تھا۔ موسیٰ نے جولین سے کہا کہ پہلے وہ خود کسی مختصر لشکر سے حکومت اندلس سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ اس سے موسیٰ کا مقصد یہ تھا کہ جولین کے اندلس کی حکومت سے تعلقات کھلے طور پر خراب ہو جائیں اور آئندہ اس کے انحراف اور غداری کا کوئی موقع باقی نہ رہ جائے۔ جولین نے موسیٰ کی اس تجویز کو نہایت خوشی سے منظور کر لیا اور ایک مختصر لشکر تیار کر کے اس کو دو جہازوں پر سوار کر کے اندلس کے ساحلی شہر جزیرہ خضراء بھیجا، جہاں اس لشکر نے معمولی چھیڑ چھاڑ کی اور لوٹ مار کرکے واپس سبتہ آ گیا۔ جب جولین کے اس حملہ کی اطلاع موسیٰ بن نصیر کو ملی تو وہ بہت خوش ہوا، کیوں کہ اسے جولین کے اخلاص اور اس کی سچائی میں اب کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا تھا۔ اب موسیٰ نے خلیفۃ المسلمین ولید بن عبد الملک کو ان تمام حالات سے باخبر کر کے اس سے اندلس پر فوج کشی کی اجازت طلب کی۔ ولید نے جواب دیا کہ: ”بغیر تجربہ کے مسلمانوں کو متلاطم سمندر کے خطرات میں پھنسانا مناسب نہیں ہے۔ لہذا سب سے پہلے وہاں کے مکمل حالات معلوم کرو۔“ موسیٰ نے جواب دیا: "متلاطم سمندر نہیں بلکہ ایک معمولی خلیج ہے۔ اس پار سے اس پار کی تمام چیزیں صاف نظر آتی ہیں۔ اس اطلاع پر ولید نے اجازت دے دی۔ لیکن یہ تاکید کی کہ فی الحال کسی بڑی لشکر کشی سے باز رہا جائے اور کسی چھوٹے دستہ کو بھیج کر آزمائش اور تجربہ کر لیا جائے، کیوں کہ چھوٹے دستہ کی صورت میں اگر نقصان بھی ہوا تو کم ہوگا۔ موسیٰ کو بھی ولید کی یہ بات اچھی لگی، چنانچہ موسیٰ نے فرمان خلافت کی تعمیل میں مسلمانوں کا ایک مختصر سا دستہ جس کی تعداد پانچ سو تھی، سنہ 91ھ میں اپنے ایک غلام طریف بن مالک نخعی کی زیر قیادت اندلس پر حملہ آوری کے لیے روانہ کیا۔ بعض روایات میں لشکر کی تعداد چار سو ہے، یہ لوگ چار کشتیوں پر سوار ہوکر روانہ ہوئے اور جنوب مغربی اندلس کے ایک شہر میں جا کر اترے جس کا نام بعد میں جزیرہ طریف پڑا۔ یہ لوگ وہاں حملہ آور ہوئے اور پھر اندلس کے ساحلی شہر جزیره خضراء میں اترے، یہاں بھی انہوں نے حملہ کیا اور بہت سا مال غنیمت اور تنومند قیدیوں کو اپنے ہمراہ لے کر رمضان المبارک سنہ 91ھ میں بخیر و عافیت واپس آگئے۔ (نفح الطيب، جلد: 1، ص: 106 افتتاح الاندلس ابن قوطیہ قرطبی ص: 8) طریف بن مالک کی اس مہم کی کامیابی نے اہل اسلام میں ایک خوشی اور مسرت کی لہر دوڑا دی۔ ان کے حوصلے بلند ہو گئے اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس غزوہ میں شرکت پر آمادہ ہو گئی۔ خود موسیٰ کو بھی اندلس کی راہ کی آسانیاں نظر آنے لگیں اور اس نے اندلس پر حملہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑے لشکر کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چنانچہ جلد ہی ایک عظیم لشکر طارق بن زیاد کی سرکردگی میں تیار ہوگیا۔ طارق ایک نہایت قابل اعتماد قائد اور سپہ سالار تھا، اسی قائد اور جرنیل نے آگے چل کر فاتح اندلس کا لقب حاصل کیا۔ ============> جاری ہے ۔۔۔ مأخوذ از کتاب: موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه

❤️ 👍 13
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/22/2025, 2:56:31 AM

۔ *اَلسَّـلاَمُ عَلَيكُـم وَرَحمَةُاللهِ وَبَرَكـَاتُهُ🌹* ۔ *︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗* ۔ *📚📜 خوبصورت بات ​ 📜📚​* ۔ *︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘* *✍️ظلم کی تین قسمیں* *ظلم کی ایک قسم وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہرگز نہ بخشیں گے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کی مغفرت ہو سکے گی۔ اور تیسری قسم وہ ہے کہ جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ لیے بغیر نہ چھوڑیں گے۔* *پہلی قسم کا ظلم شرک ہے۔ دوسری قسم کا ظلم حقوق اللہ کی کوتاہی ہے۔ اور تیسری قسم کا ظلم حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے۔* *(معارف القرآن، جلد ٢، صفحه ۵۵۰) ۔!!!🌴* *☚ خــوش رہیں، خــوشیاں بانٹیں ۔🌱* *نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

❤️ 👍 😢 🙏 🌹 🤲 38
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/21/2025, 5:01:18 AM

. *منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ الفاظ میں سب سے آگے اور عمل میں سب سے پیچھے ہو۔* *سبق نمبر:* 6 وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ، فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ، رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ، فَأَوْلَىٰ لَهُمْ، طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ، فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ، فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ، أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰٓ أَبْصَـٰرَهُمْ (سورۃ محمد: آیات 20-23) ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کوئی سورت کیوں نہیں اُتاری جاتی؟ پھر جب ایک واضح سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال (جنگ) کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو۔ پس ہلاکت ہے ان کے لیے! (کہا گیا:) اطاعت اور معروف بات (کہنا) بہتر ہے، پس جب (عملی) فیصلہ کر لیا جائے، تو اگر وہ اللہ سے سچ بولتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ پھر اگر تم پیٹھ پھیر لو گے، تو کیا تم سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ تم زمین میں فساد کرو گے اور رشتے ناتے کاٹ دو گے؟ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، چنانچہ اللہ نے انہیں بہرا اور اندھا بنا دیا۔ تشریح: منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ الفاظ میں سب سے آگے اور عمل میں سب سے پیچھے ہو۔ جہاد سے پہلے وہ جہاد کی باتیں کرتا ہے، اور جب جہاد واقعتاً پیش آ جائے تو وہ اس سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ مؤمنین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہر وقت سننے اور ماننے کے لیے تیار رہتے ہیں، اور جب کسی سخت اقدام کا فیصلہ ہو جائے تو اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کو گواہ بنا کر جو عہد کیا تھا، اس پر وہ پورے اترے۔ منافق لوگ جہاد سے بچنے کے لیے بظاہر امن پسندی کی باتیں کرتے ہیں، مگر عملاً صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ جہاں انہیں موقع ملے، وہ فوراً فتنہ پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ جن مسلمانوں سے ان کا قرابت داری کا تعلق ہوتا ہے، ان کی مطلق پرواہ کیے بغیر ان کے دشمنوں کے مددگار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی نظر میں ملعون ہوتے ہیں۔ ملعون ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت اس سے چھن جاتی ہے، وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی نہ دیکھے اور کان رکھتے ہوئے بھی کچھ نہ سنے۔

❤️ 👍 😭 😮 🙏 🤲 29
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/22/2025, 3:05:54 AM

. *منافق آدمی کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ سنجیدہ مجلس میں بیٹھتا ہے تو بظاہر بہت باادب نظر آتا ہے۔* *سبق نمبر:* 7 وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّىٰ إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ﴿١٦﴾ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ ﴿١٧﴾ (سورۃ محمد، آیات ۱۶-۱۷) ترجمہ: اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ تمہارے پاس سے باہر جاتے ہیں تو علم والوں سے پوچھتے ہیں کہ: ابھی کیا کہا؟ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی، اور وہ اپنی خواہشوں پر چلتے ہیں۔ اور جن لوگوں نے ہدایت کی راہ اختیار کی، تو اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور ان کو اُن کی پرہیزگاری عطا کرتا ہے۔ تشریح: منافق آدمی کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ سنجیدہ مجلس میں بیٹھتا ہے تو بظاہر بہت باادب نظر آتا ہے، مگر اس کا ذہن دوسری دوسری چیزوں میں لگا رہتا ہے۔ وہ مجلس میں بیٹھ کر بھی مجلس کی بات نہیں سن پاتا۔ چنانچہ جب وہ مجلس سے باہر آتا ہے تو دوسرے اصحابِ علم سے پوچھتا ہے کہ حضرت نے کیا فرمایا؟ یہ وہ قیمت ہے جو اپنی خواہش پرستی کی بنا پر انہیں ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ اپنے اوپر اپنی خواہش کو غالب کر لیتے ہیں۔ وہ دلیل کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے ان کے احساسات کند ہو جاتے ہیں۔ ان کی عقل اس قابل نہیں رہتی کہ وہ بلند حقیقتوں کا ادراک کر سکے۔ اس کے برعکس جو لوگ حقیقتوں کو اہمیت دیں، جو سچی دلیل کے آگے جھک جائیں، وہ اس عمل سے اپنی فکری صلاحیت کو زندہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی معرفت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

❤️ 👍 🤲 11
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/22/2025, 3:27:09 AM

. *گمنام شخص کی مخلصانہ دعا پر بارش!* امام محمد بن منکدر رحمۃاللہ علیہ روضة من ریاض الجنہ میں نماز تہجد پڑھ رہے تھے تو آپ نے اچانک ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک ستون کے ساتھ اپنے سر کو جھکائے ہوئے بڑی رقت آمیزی کے ساتھ یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ ! لمبے عرصے سے بارش نہیں ہو رہی اور لوگ بارش کے قطرات کو ترس چکے ہیں میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ لازما بارش نازل فرما۔ امام محمد بن منکدر رحمۃاللہ وبرکاتہ بیان کرتے ہیں کہ اس اللہ کے بندے کا دعا کرنا ہی تھا کہ إِذْ أَقْبَلَتْ سَحَابَةٌ اچانک ایک بدلی آئی اور پورے مدینے میں بارش ہونا شروع ہوگئی ۔ امام صاحب نے جب اس نیک شخص کی دعا کی قبولیت کو دیکھا تو بہت متاثر ہوئے اور نماز فجر ادا کرکے اس شخص کے پیچھے چل دئیے ۔ چنانچہ وہ ایک گھر میں داخل ہوا آپ نے وہاں نشانی لگائی اور واپس آکر نوافل اور ذکر سے فارغ ہو کر دوبارہ اس کے پاس گئے، دروازے کو دستک دی اور سلام کہہ کر اجازت طلب کی اور فرمایا : كَيْفَ أَصْبَحْتَ؟ أَصْلَحَكَ اللهُ تو نے کیسے صبح کی ہے؟ اللہ تیرے تمام معاملات کو بہتر کرے۔ امام صاحب فرماتے ہیں وہ اپنے کام کاج میں مصروف رہا اور اس نے میری طرف کوئی توجہ نہ کی۔ میں نے اس کے سامنے رات والی ساری حقیقت بیان کر دی اور کہا اے اللہ کے نیک بندے! تیرا سارا خرچہ میں اٹھاتا ہوں تو کام کاج چھوڑ کر ذکر وفکر اور امت کے لیے خیروبرکت کی دعا کیا کر۔ وہ کہنے لگا حضرت صاحب! مجھے آپ کے عطیات کی ضرورت نہیں میری صرف ایک گزارش ہے، آپ اللہ کے لیے اس درخواست کو قبول فرمالیں اور وہ میری گزارش یہ ہے کہ میرے اس تعلق باللہ کا ذکر کسی دوسرے سے نہ کریں۔ امام صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اس کے مکان سے واپس آگیا اور چند دنوں کے بعد جب پھر اس کو ملنے کے لیے گیا تو وہ شخص مجھے نظر نہ آیا۔ (سیر اعلام النبلاء جلد ٦/ ص ١٥٨) مخلص شخص کا اللہ تعالیٰ سےتعلق بڑا مضبوط ہوتا ہے اور مخلص کی ایک علامت یہ ہے کہ باطن ظاہر سے زیادہ پاک ہوتا ہے اور انکی تنہائیاں آنسوؤں سے مالا مال ہوتی ہیں اور جنہوں نے اللہ سے پیار کر لیا یہ نماز ادا کرتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں اور ان میں رو رو کے اللہ کو راضی کرتے ہیں اور جب لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو عام نماز ادا کرتے ہیں لیکن تنہائیوں میں اللہ کے سامنے گر کر معافیاں مانگتے، اخلاص والے لوگ دکھلاوے سے بہت زیادہ بچتے ہیں۔ مرتب :- محمد حنیف ٹنکاروی ♥️🤲😍👍

❤️ 👍 🤲 😢 🌹 💘 💯 🙏 104
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/21/2025, 5:03:34 AM

۔ *فاتحِ اندلس، موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه،* قسط: 06 اندلس پر مسلمانوں کا دوسرا حملہ: جس طرح سسلی کے مسلمانوں نے اٹلی کی سرزمین کو اپنی آماجگاہ بنائے رکھا، اسی طرح اندلس کے مسلمانوں نے دو صدیوں تک فرانس کی سرزمین میں سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھا اور موجودہ اسپین، پرتگال اور فرانس کے کئی علاقے اسلامی حدود میں داخل رہے اور اندلس میں مسلمانوں کی علمی، تمدنی، تہذیبی، عمرانی اور روحانی ترقیوں کی جو شمع روشن ہوئی اس سے تمام مغربی ممالک نے روشنی پائی اور یورپ کے نئے علوم وفنون اور سائنسی تمدن کے مینارے انہی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ سنہ 27ھ میں مسلمان بربری مجاہدین کے ساتھ اندلس پر حملہ آور ہوئے اور اس کے بعض شہروں پر قابض ہوگئے اور افریقہ کے بربری قبائل سے انہیں ہر قسم کی مدد ملتی رہی، لیکن جب ابتداًء بربری قبائل مرتد ہوگئے تو پھر اندلس اور افریقہ کی تعلق داری منقطع ہوگئی اور جو مجاہدینِ اسلام اندلس میں موجود تھے وہ وہیں رہ گئے اور ان کے تعلقات کا سلسلہ اسلامی حکومت سے منقطع ہو گیا۔ (ابن اثیر، جلد: 3، ص: 72) مسلمانوں کے اس حملہ کے بارہ میں گبن نے اپنے عیسائی ہونے کا مکمل ثبوت دیتے ہوئے لکھا ہے: "عثمان (رضی اللہ عنہ) ہی کے زمانہ میں ان کے غارت گروں کی جماعت نے اندلیسیا کے ساحل کو تاراج کیا تھا۔" (The Decline and fall of the Roman Empire) اس کے لکھنے کے اس انداز سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب یہاں آئے اور تاخت وتاراج کرکے واپس چلے گئے۔ یہ اسی طرح ہی ہے جیسے موجودہ زمانہ میں بش صدر امریکہ اور اس کے حواری اسامہ بن لادن، ملا عمر اور الظواہری اور ان کے مجاہدین کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ اندلس پر مسلمانوں کا دوسرا حملہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس وقت کیا گیا جب حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ افریقہ کے گورنر تھے، لیکن اس حملہ کی تفصیلات تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتیں۔ مگر جیساکہ بتایا گیا ہے کہ بربری قبائل دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوگئے تھے، جن کی وجہ سے اندلس میں مقیم مسلمان وہاں پھنس گئے اور مزید فتوحات کا سلسلہ بند ہوگیا۔ اس کا تدارک سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ وہاں ایک چھاؤنی تعمیر کی، جس میں مستقل طور پر اسلامی فوجوں کو مقیم رکھا۔ یہ چھاؤنی بعد میں قیروان نامی شہر کی صورت اختیار کرگئی۔ اس شہر کی وجۂ تعمیر تاریخ کے اوراق میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه افریقہ کے گورنر تھے۔ اس سے قبل حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ نے افریقہ کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا تھا اور یہاں کی بربر قوم کو مطیع و منقاد بنایا تھا۔ اہل اسلام کی زبردستی کو دیکھ کر بربر قبائل زیردست ہوگئے اور وقتی طور پر انہوں نے اسلام کا حلقہ بھی اپنی گردن میں ڈال لیا، لیکن جونہی مسلمانوں کا لشکر وہاں سے ہٹتا تو وہ سارے لوگ جو مسلمان ہوتے تھے اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو جاتے اور اسلامی لشکر کے رہے سہے مسلمانوں کو تاخت و تاراج کرنا شروع کر دیتے۔ حضرت معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه وہاں کے گورنر مقرر ہوئے، انہوں نے بربروں کی اس آئے دن کی غارت گری سے اہل اسلام کو بچانے کے لیے وہاں ایک چھاؤنی قائم کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن جس جگہ شہر اور چھاؤنی بنانا مقصود تھا وہاں میلوں میں گھنا جنگل تھا اور اس میں نہایت موذی قسم کے سانپ اور جنگلی درندے رہتے تھے اور انسانی فکر میں یہ ممکن نہیں تھا کہ ان سانپوں اور درندوں سے اس گھنے جنگل کو خالی کروا کر وہاں کوئی شہر آباد کیا جا سکے۔ اور جب جنگل کے سانپ اور خونخوار درندے اپنے بچے چمٹائے جنگل سے انخلاء کرنے لگے: بربر قبائل مسلمانوں کے اس منصوبے کو حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی تکمیل کو بالکل ناممکن خیال کرتے تھے۔ ایک روز سیدنا عقبہ بن نافع رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه گورنر افریقہ نے جنگل کے ایک کنارے پر کھڑا ہوکر جنگلی جانوروں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”ايتها الحيات والسباع! نحن اصحاب رسول اللهم ارحلوا عنا فانا نازلون، ومن وجدنا بعد ذالك قتلناه۔“ (ابن اثیر، جلد: 3، ص:231 ) "اے سانپوں اور درندوں! ہم رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، تم یہاں سے نکل جاؤ، کیوں کہ ہم اس جنگل کو اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتے ہیں اور اس کے بعد ہم جس جانور کو اس جنگل میں دیکھ لیں گے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔" اس روز ایک نہیں ہزاروں لوگوں نے دیکھا کہ جنگل کے سانپ اور درندے اور دوسرے موذی جانور اپنے بچوں کو چمٹائے اس جنگل کو چھوڑ رہے تھے اور اسی روز وہ جنگل ان موذی جانوروں سے یک قلم خالی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر بربروں کی ایک کثیر تعداد خلوص دل سے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ (ابن اثیر، جلد: 3، ص: 231۔ معجم البلدان حموی، جلد: 7، ص: 194۔ البدایہ والنہایہ، جلد: 8، ص: 35۔ ہسٹری آف سیرسنز، ص: 79۔ از سید امیر علی) (سیدنا عقبہ بن نافع ؒ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ یہ صحابی نہیں بلکہ تابعی تھے، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سیدنا عمرو بن العاصؓ کی طرح انہیں بھی بے شمار صفات سے نوازا تھا۔ یہ نہایت قابل اور تجربہ کار جرنیل تھے۔ صرف دس ہزار مجاہدین کو لے کر بلادِ افریقہ میں گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایک وسیع و عریض علاقہ فتح کرکے قلمرو اسلامی میں داخل کیا۔ جس میں سوڈان، برقہ اور بربروں کا علاقہ بھی شامل ہے۔ ایک خالہ زاد بھائی سیدنا عمرو بن العاص فاتح مصر تھے تو دوسرے بھائی عقبہ بن نافع الفہری رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه فاتح بلاد افریقہ تھے۔ ذالك فضل الله يوتيه من يشاء) جنگل خالی ہونے کے بعد وہاں قیروان نامی ایک شہر آباد کیا گیا اور جامع مسجد تعمیر کی گئی۔ لوگوں نے بھی اپنے مکانات تعمیر کیے اور اپنے محلوں میں مساجد بنائیں۔ اور ایک چھاؤنی قائم کی گئی۔ شہر کی وضع اس طرز کی تھی کہ شہر کے عین وسط میں دار الامارہ تھا اور اس کے اردگرد چاروں طرف مسلمانوں کے محلے بنائے گئے۔ اس شہر کی تکمیل سنہ 55ھ میں ہوئی۔ یہ شہر صرف اس لیے بسایا گیا تھا تاکہ افریقی بربروں کو مطیع و منقاد رکھا جاسکے، کیوں کہ وہ ایک ایسی قوم تھے کہ جب تک ان کے سروں پر فوجی طاقت مسلط نہ رہتی وہ بغاوت سے باز نہ آتے۔ اس شہر نے بعد میں اس قدر ترقی کی کہ یہ شمالی افریقہ کا ایک بہت بڑا شہر بن گیا۔ ============> جاری ہے ۔۔۔ مأخوذ از کتاب: موسیٰ بن نَصیر رَحمَةُ اللّٰهِ عَلَیْه

❤️ 👍 🌼 👌 🙃 🙏 34
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/21/2025, 4:55:09 AM

۔ *اَلسَّـلاَمُ عَلَيكُـم وَرَحمَةُاللهِ وَبَرَكـَاتُهُ🌹* ۔ *︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗* ۔ *📚📜 خوبصورت بات ​ 📜📚​* ۔ *︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘* *✍️ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کی تابع دار و مطیع ہو، اس کے لیے پرندے، ہوائیں، مچھلیاں دریا میں، فرشتے آسمانوں میں اور درندے جنگلوں میں استغفار کرتے ہیں۔* *(معارف القرآن، جلد: اصلی، صفحہ ۳۹۹) ۔!!!🌴* *☚ خــوش رہیں، خــوشیاں بانٹیں ۔🌱* *نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

❤️ 👍 🫀 🌹 💖 😂 😢 🤲 77
سبق آموز تحریریں ♥️
سبق آموز تحریریں ♥️
6/12/2025, 2:54:27 PM

. *ان کی آنکھ کے ساتھ خدا کی خصوصی قدرت کا مظاہرہ* بہیقی اور ابن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ جنگِ اُحد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللّٰہ عنہ کی آنکھ میں تیر لگا، جس سے آنکھ نکل کر رخسار پر آگئی۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت قتادہ رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا کہ اگر چاہو کہ یہ آنکھ اچھی ہو جائے تو میں اس کو اس کی جگہ پر رکھ دوں، اچھی ہو جائے گی، اور اگر چاہتے ہو کہ جنت ملے تو صبر کرو۔ حضرت قتادہ رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جنت تو بڑا اچھا انعام ہے، لیکن مجھے یہ نقصان ظاہر ہو رہا ہے۔ آپ میری آنکھ کو اچھی کر دیجئے اور جنت کے لیے بھی میرے واسطے دعا فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے ان کی آنکھ کا ڈھیلا اُٹھا کر اس کے حلقے میں رکھ دیا، تو اس کی روشنی دوسری آنکھ سے بھی تیز ہوگئی، اور ان کے لیے جنت کی بھی دعا فرما دی۔ (رسول اللہ ﷺ کے نام کے تین سو معجزات، صفحہ ۱۰١) ایک روایت میں ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللّٰہ عنہ ہی اپنی آنکھ کی پتلی کو ہاتھ میں لیے ہوئے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو صبر کرے تو تیرے لیے جنت ہے، اور اگر چاہے تو اس جگہ رکھ کر تیرے لیے دعا کر دوں۔ حضرت قتادہ رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک بیوی ہے جس سے مجھے بہت محبت ہے، مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اگر بے آنکھ رہ گیا تو کہیں وہ میری بیوی مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہم نے دستِ مبارک سے آنکھ اس کی جگہ پر رکھ دی اور یہ دعا فرمائی: اللَّهُمَّ أَعْطِهِ جَمَالَهُ (اے اللہ! اس کو حسن و جمال عطا فرما)۔ (الاصابہ، جلد 3، صفحہ 225) حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اُحد کے دن آپ ﷺ کے چہرے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنا چہرہ دشمنوں کے مقابل کر دیا، تاکہ دشمنوں کے تیر میرے چہرے پر پڑیں اور آپ ﷺ محفوظ رہیں۔ دشمنوں کا آخری تیر میری آنکھ پر ایسا لگا کہ آنکھ کا ڈھیلا باہر نکل پڑا، جس کو میں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ ﷺ یہ دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور میرے لیے دعا فرمائی: "اے اللہ! جس طرح قتادہ نے تیرے نبی کے چہرے کی حفاظت فرمائی، اسی طرح تُو اس کے چہرے کو محفوظ رکھ، اور اس کی آنکھ کو دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز نظر والا بنا"۔ اور آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھ دیا، تو وہ آنکھ بالکل صحیح اور سالم، بلکہ پہلے سے بہت زیادہ تیز ہوگئی۔ (رواہ الطبرانی و ابونعیم والداراطنی بنحوہ)

❤️ 👍 🌹 🫀 💖 🙏 ♥️ 208
Link copied to clipboard!