سبق آموز تحریریں ♥️
February 2, 2025 at 07:45 AM
https://whatsapp.com/channel/0029VaDDUXj8KMqfJoZOlF1B
*اہل قبر کی آنکھوں دیکھا حال*
*ایک صاحب اپنی چشم دید کہانی بیان کرتے ہیں کہ:*
یہ 48-1947 کا ذکر ہے، میں پشاور کے گرد و نواح میں پانی کی سطح لینے کے لئے کام پر مامور تھا۔ اس سلسلہ میں ہم لوگ مختلف مقام پر کنوئیں کھدوانے اور واٹر لیول دیکھتے، ایک دن میں اپنے خیمے میں بیٹھا ضروری کاغذات دیکھ رہا تھا کہ مزدور بھاگا بھاگا آیا اس کے چہرے سے حیرت و استعجاب نمایاں تھا کہنے لگا :-
ہم لوگ کنواں کھود رہے تھے کہ سطح زمین سے چند فٹ نیچے ایک قبر نکل آئی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ مردہ کا جسم بالکل صحیح سالم ہے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زندہ انسان پڑا سو رہا ہے۔
یہ ایک دل چسپ خبر تھی ، میں نے جلدی جلدی اپنے کاغذات سمیٹے اور اس مزدور کے ساتھ چل کھڑا ہوا۔
اس کنوئیں پر جم غفیر جمع ہو گیا تھا لوگ ایک ایک کر کے کنوئیں میں اتر کر قبر کے اندر جھانک رہے تھے۔ کیا معاملہ ہے میں نے اپنے اسٹنٹ سے پوچھا۔
اس نے پورا واقعہ بیان کر دیا۔ کھدائی کے دوران میں چند ٹھیکرے سے نظر آئے ان ٹھیکروں کو ایک طرف کیا گیا تو ایک شگاف سا نمودار ہو گیا۔ غور سے جائزہ لینے پر چند ٹھیکرے اور دکھائی دیئے۔ انہیں ہٹایا تو پتا چلا کہ یہ تو کوئی قبر ہے۔
مدفون کا سر اور شانے صاف نظر آرہے تھے اس کے چہرے پر شگفتگی اور تر و تازگی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ زندہ ہے اور گہری نیند سور ہاہے میں نے فورا کام بند کروادیا اور آپ کو بلا بھیجا۔ واقعی یہ حیرت انگیز انکشاف تھا۔
میں نے کنوئیں کی طرف نگاہ دوڑائی لوگوں کا بدستور تا نتا نبدھا ہوا تھا۔ جو بھی قبر کی زیارت کر کے باہر نکلتا اس پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی کوئی کانوں پر بار بار ہاتھ رکھتا کوئی زور زور سے کلمہ پڑھتا اور کوئی زمین پر پیشانی رکھ دیتا۔
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال ابھرا، میں نے مقامی لوگوں سے پوچھا ، کیا یہاں کبھی قبرستان رہا ہے؟
گردو نواح میں سو سال کے لگ بھگ عمر کے متعدد بوڑھے موجود تھے ان کا جواب نفی میں تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں یہاں قبر کا نام ونشان تک نہ دیکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ قبر صدیوں پہلے کی تھی۔
قبر پر زائرین کے ہجوم میں کوئی کمی نہ آئی تھی ، لوگ کنوئیں میں اترتے ایک نظر مردے کے چہرے پر ڈالتے اور اللہ اللہ کا درد کرتے ہوئے باہر نکلتے کچھ عجیب قسم کا خوف ان کے چہروں سے مترشح تھا۔
آخر کار میرے کہنے پر اسٹنٹ نے لوگوں کو ایک طرف کیا۔ اور مجھے قبر میں اترنے کا موقع ملا۔ میں اللہ کا نام لے کر کنوئیں میں اتر گیا۔
حالت یہ تھی کہ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ماتھے پر پسینہ آرہا تھا۔ ہاتھ پاؤں جیسے بالکل بے سکت ہو رہے تھے ایک نظر اس مرد خدا پر ڈالی ، تھوڑی دیر تک بالکل سحر زدہ ہو کر یوں ہی ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا پھر نہ جانے کہاں سے طاقت اور حوصلہ عود کر آیا۔ ایک ایک کر کے قبر پر رکھے ہوئے دوسرے ٹھیکرے بھی ہٹانے شروع کر دیئے۔
حتی کہ اندر باہر سے آنے والی روشنی اور زیادہ ہوگئی میرے سامنے ایک خوب صورت اور باوقار انسان لیٹا ہوا تھا۔ چہرے سے مردانگی اور شجاعت ٹپکتی تھی۔
سنت رسول کے عین مطابق داڑھی ، جس میں اکاد کا سفید بال تھے، لبوں پر ہلکی مسکراہٹ کھیل رہی تھی مجموعی طور پر چہرے سے کچھ اس طرح کے تاثرات ہو ید ا تھے۔ جیسے وہ کوئی سہانا خواب دیکھ رہا ہے ، وضع قطع اور لباس روایتی پٹھانوں کا ساتھا۔ کپڑوں پر کہیں کہیں نشان تھے، جیسے خون جم چکا ہو، جسم کے پٹھے واضح اور جفاکش انسان کے سے تھے۔ ہتھیلیوں کا ابھار بہت واضح اور ناخن سرخ تھے، بالکل کسی تندرست و توانا شخص کے ناخنوں کی طرح۔
میرا دل چاہا میں مرد شہید کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لوں ، مگر حوصلہ نہ ہوا میری نظر دوبارہ اس مرد حق کے چہرے پر پڑی اور پھر اس کے ہونٹوں پر مرتکز ہوگئی۔
میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ کسی سیال سی شئی کا ایک قطرہ اس کے ہونٹوں پر گرا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہونٹ تر ہو گئے۔ اور پھر آہستہ آہستہ ہونٹوں میں جذب ہو گیا۔
یقیناً میری آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ میری آنکھیں ابھی تک اس کے ہونٹوں پر جمی ہوئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک چمکدار موتی اور گرا اور دنوں ہونٹوں کے درمیان اس طرح رک گیا ، جیسے وہ ادھر ادھر لڑھکنے کی قدرت وصلاحیت سے محروم ہو۔
پھر رفتہ رفتہ ہونٹوں پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گیا۔ خشک ہونٹ پھر ترو تازہ ہو گئے چند لمحے بعد پہلے کی طرح یہ بھی ہونٹوں میں جذب ہو گئی۔
اچانک خیال آیا ذرا دیکھوں تو سہی یہ راز کیا ہے؟
یہ زندگی بخش غذا اس مرد خدا کو کہاں سے مل رہی ہے۔ مجھے اس طرح گم صم کھڑے دیکھ کر باہر کھڑے ہوئے لوگ حیران و پریشان ہو گئے اور آواز میں دینے لگے ۔ ایک صاحب نے بازو سے پکڑ کر مجھے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ مگر میں نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا میں نے اس بھید کو معلوم کئے بغیر باہر نکلنا نہ چاہتا تھا۔
میں جھک کر قبر کے اندر سر ہانے کی طرف نگاہ ڈالی، کیا دیکھتا ہوں ایک نلکی نما چیز قبر کی بالائی دیوار کو چیر کو نکلی ہوئی ہے کوئی بالشت بھر لمبی ہوگی ۔
دیکھنے میں کسی درخت کی جڑ معلوم ہوتی تھی اس کا سر مدفون کے ہونٹوں کے مین اوپر کوئی ڈیڑھ بالشت کے فاصلے پر تھا۔ جس پر ایک سفید چمکدار موتی ٹیکنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ چنانچہ وہ موتی شیکا اور ٹھیک مقررہ مقام پر جا گرا۔ قدرت خداوندی کو دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ پھر مجھے ہوش نہ رہا۔
چند لمحے بعد میں نے اپنے آپ کو لوگوں میں گھرا ہوا پایا، میرے ساتھی اور دوسرے لوگ میرے چاروں طرف بیٹھے تھے۔ میں نے اس طرف نگاہ دوڑائی جہاں قبر تھی۔ وہاں اب کوئی نہ تھا۔ میری حالت دیکھ کر کسی اور کو قبر میں جھانکنے کی جرات نہ ہوئی۔
میں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک آدمی کے کندھے سے چادر اتاری اور بچھا کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو گیا۔ دیر تک گڑ گڑا کر دعائیں مانگتا رہا۔ اس زندگی کی جو ابھی میں نے آنکھوں سے دیکھی تھی۔ دعا مانگ کر اٹھا تو اپنے اسٹنٹ کو حکم دیا کہ اس کنوئیں کو بھر دو، میرے حکم سنتے ہی گرد و پیش بیٹھے ہوئے لوگوں نے صدائے احتجاج بلند کیا۔
جب تک ہمیں خبر نہ ہو کہ آپ نے قبر میں کیا دیکھا ہے ہم کنواں بھرنے نہیں دیں گے۔ مجمع میں ایک پٹھان نوجوان بھی تھا۔ کہنے لگا آپ شاید ڈر گیا ہے، پنجابی لوگ دل کے کمزور ہوتا ہے۔ ام ڈرنے والا نہیں، اگر بولے تو اس مردے کو ابھی باہر اٹھالائے۔ میں نے اس نوجوان کی پیٹھ تھپکی اور کہا۔ برخوردار اس میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ نہ پنجابی دل کے کمزور ہوتے ہیں۔ بلکہ بات یہ ہے کہ ان گنہگار آنکھوں نے قدرت خداوندی کا نظارہ کیا ہے۔
پھر میں نے جو آنکھوں سے دیکھا تھا کہہ سنایا۔ اچانک وہ نو جوان بھاگا اور قبر میں اتر سو گیا کچھ دیر کے بعد واپس آیا تو اس کے ہوش و حواس جواب دے چکے تھے۔ وہ بری طرح اپنے ہونٹ چاٹ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اور پھر بھی اس کا سراغ نہ ملا۔ میں نے قبر کو بند کروا کر کنواں بھر دیا۔
میاں محمد نے اپنی بات ختم کی ، تو محفل پر گھمبیر سناٹا چھا گیا۔ ہم سب عجیب کھوئی ہوئی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
✍️ *مولانا ارسلان بن اختر ممین*
❤️
😢
👍
😮
🌹
😂
🙏
🤲
🥹
🫀
196