مسلم اسٹور دیوبند
مسلم اسٹور دیوبند
January 28, 2025 at 02:10 PM
*بنگلور میں قائم حضرت مفتی سعادت اللہ خان صاحب کے موقر ادارے* جامعۃ الامام محمد قاسم النانوتوی کی حاضری *تاثرات: محمد فہیم الدین بجنوری(سابق استاد دار العلوم دیوبند)* 27 رجب 1446ھ 28 جنوری 2025ء مہینوں زیر التواء رہنے کے بعد آخرش حضرت مفتی صاحب کی برکتوں سے نہال ہونے کا موقع فراہم ہو ہی گیا، گذشتہ سنیچر کو جامعہ امام محمد قاسم نانوتوی بنگلور کی علمی ونوارانی فضا میں چند ساعتیں گزاریں، ایک ٹوٹے ہوے ستارے کا کہکشاں سے ہم آغوش ہونا خاص لمحہ تھا، زمین والے فلکی کہکشاؤں سے محظوظ ہوتے ہیں؛ جب کہ ملأ اعلی کی کہکشاں یہ مدارس ہیں، آسمان والوں کو ان ستاروں کی قطاروں کے علاوہ کچھ نظر آتا ہے نہ وہ کسی نقش میں دل چسپی رکھتے ہیں، وہ تنزل اختیار کرتے ہیں تو ان زمینی اسٹارز کی بلائیں لیتے ہیں۔ ادارہ ہذا نو مولود ہے اور اس نے حیات کی پہلی بہار دیکھی ہے، پہلے ہی سال دارالافتاء میں چوبیس طلبہ کا رجوع ہونا مفتی صاحب کی کرامت ہے اور ان کا استقلال آپ کی جاں فشانی کا ثمرہ، اس محدود نظام کی یک سالہ کام یابی اس بیانیے کی ترجمان ہے کہ طلبہ آج بھی علم کے پیاسے ہیں، چشمۂ فیاض اگر دورافتادہ بھی ہو گا تو یہ مخلوق عذر خواہ نہ ہوگی، دشت وصحرا کی پیمائیشیں اور خاردار گذر گاہوں کی مسافتیں مانع نہیں ہوں گی، اس مے خانے میں بڑے انتظامات نہیں تھے، انوکھی سجاوٹ ندارد تھی، سہولیات کی دل کشی بھی نہیں تھی؛ ہاں جام لاجواب تھا، ساقی فیاض تھا، ساغر آسمانوں سے اتر رہا تھا اور جامعہ کی شام رنگ جما رہی تھی، علم کی اس مقناطیس نے سب کو پا بہ زنجیر کر دیا اور دور کب تمام ہوا کسی کو خبر نہ ہوئی۔ پروگرام میں طلبہ نے تحقیقی مقالات پیش کیے، موضوعات تازہ ترین تھے، انشورنس، اعضاء کی پیوند کاری، جنس کی تبدیلی جیسی زندہ، مربوط اور جدید بحثیں سامنے آئیں، ہر مقالہ پختگی، جامعیت، تحقیق، دور رس نگاہ، عمیق فکر اور شانِ تحقیق میں ایک مثال تھا، مجھے اکیڈمک ماحول کی فیلنگ آئی، تحقیق اہل علم کی شان ہے، اس رنگ نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا، بعد میں مفتی صاحب نے یہ بتا کر مزید حیرت زدہ کیا کہ یہ پروگرام کسی سابقہ تیاری پر مبنی نہیں تھا، طلبہ نے بر وقت از خود یہ پیش کش مرتب کی، یہ ضرور ہے کہ مواد میرے درس اور تمرینات سے ماخوذ تھا؛ مگر اس موقع کے لیے منظم تیاری نہیں ہوئی۔ مفتی صاحب کی شخصیت طلسماتی ہے، جو سنتا ہے کلام ان کا وہ ان کا ہو ہی جاتا ہے، یہ سعادت ان کو وافر ملی ہے؛ مگر یہ سعادت بزور بازو نیست، اس تاثیر کا بھی ایک نصاب ہے، جاں فشانی، تن دہی، قربانی، ایثار، فنائیت، یکسوئی اور انہماک اس کی شرطیں ہیں، تب کہیں ایک جادو پیدا ہوتا ہے اور اعصاب کی تسخیر عمل میں آتی ہے، مفتی صاحب نے طلبہ پر سب کچھ نثار کیا ہے اور بے لوث کیا ہے، صحت کے مطالبات، ذاتی مسائل، گھریلو تقاضوں اور عائلی نزاکتوں کے درمیان مدرسے کو ترجیح دینے کی قواعد میں انسان بھری پری زندگانی میں ہجر کے تلخ گھونٹ پیتا ہے۔ ناچیز نے عرض کیا کہ آپ نے اللہ کو بہت دے دیا ہے، اللہ کسی کا ادھار نہیں رکھتا، جنت تو اکرام اور صلے کی آخری شکل ہے؛ مگر وہ یہاں بھی نوازتا ہے، وہ مادی وحسی بخشش سے خدمات پر قبولیت کی مہر لگاتا ہے، آپ جس معیار پر اللہ تعالی کا کام کر رہے ہیں، ممکن نہیں کہ آپ کا فیض ملک گیر اور عالم گیر نہ ہو، آپ کا ادارہ درخشاں ہوگا، ریاستی سطح پر جگمگائے گا اور دور ودیر کے لیے منتخب ہوگا، علم اور دین کے مخلص خادم ضائع ہوتے ہیں نہ محدود ومحصور، مالکِ دین کی غیرت حرکت میں آتی ہے اور ان کی ناموری کا نقارہ از غیب گونجتا ہے، ہاتف دلوں کو فتح کرتا ہے اور دنیا ہم دم وہم ساز ہوجاتی ہے۔ اس رو سیاہ نے جامعہ کے احاطے میں نور محسوس کیا، علم کی روشنی دیکھی، فرشتوں کی خوش بو محسوس کی، طبیعت سرشار، دل شاد، آنکھیں منور، قلب مجلی اور روح بالیدہ ہوئی، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ یاد آئے، وہ عوام الناس سے اختلاط کے بعد استدراک کے لیے رائے پور حاضری لگاتے تھے، ناچیز بھی طہارت وتزکیہ کے دل چسپ تاثرات کے ساتھ واپس لوٹا، اللہ تعالی جملہ دینی اداروں اور جملہ خدامِ دین کو شرف قبولیت بخشے، اس ادارے کو نگاہِ کرم کا خصوصی اعزاز عطا فرمائے، آمین۔ برائے رابطہ: مفتی سعادت اللہ خان صاحب +918892233563
❤️ 👍 3

Comments