
مسلم اسٹور دیوبند
February 5, 2025 at 09:10 AM
*رمضان المبارک اور سفیر نُما حضرات*
از :مفتی محمد عثمانی
پہلے زمانے میں رمضان المبارک کے دوران ہی مساجد میں سفراء (چندہ جمع کرنے والے حضرات) کی آمد زیادہ ہوتی تھی، مگر اب یہ صورت حال تقریباً پورے سال جاری رہتی ہے۔ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں—سوائے شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے—بھی مساجد میں ان کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ پہلے صرف رمضان میں چندہ جمع کرنے کے لیے وقت مقرر کیا جاتا تھا، مگر اب عام دنوں میں بھی نمازوں کے بعد ان کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ یہ رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ سے حقیقی مستحق اداروں تک امت کا مال نہیں پہنچ پاتا، جس کے نتیجے میں ان اداروں کے مالی معاملات اور نظامِ تعلیم و تربیت میں خلل واقع ہو رہا ہے۔
یہ حضرات نہ صرف مساجد کے ائمہ، مؤذنین اور ذمہ داران کو پریشان کرتے ہیں بلکہ ان کی بے جا ضد اور رویہ بھی باعثِ تکلیف ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی طرح مسجد کے ذمہ داران کے نمبر حاصل کرلیتے ہیں اور پھر بار بار کال کرکے یا مسجد کے دروازے پر آکر وقت بے وقت چندے کی درخواست کرتے ہیں، چاہے اس وقت امام یا ذمہ دار کسی اہم کام میں ہی کیوں نہ مصروف ہوں۔
*ابھی چند دن پہلے کا واقعہ ہے* کہ عصر کی نماز کے بعد ایک ضروری کام سے نکلنے کا ارادہ تھا، مگر جیسے ہی نماز ختم ہوئی، یکایک دس کے قریب سفراء جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ "سنا ہے رمضان کے چندے کا اعلان بُک کر رہے ہیں، ہمارا بھی کر دیجیے۔" لاکھ منع کرنے کے باوجود نہ مانے، بالآخر سخت لہجہ اختیار کرنا پڑا، مگر اس کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ فون کر کے درخواست کرنے لگے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شاید ہی ان میں سے کسی نے عصر کی نماز ادا کی ہو!
اسی طرح، فجر کی نماز کے بعد دو حضرات دینی لباس میں نظر آئے، جو مسافر لگ رہے تھے۔ سلام کے بعد وہ میری طرف بڑھے، اور میں سمجھ گیا کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ میں تعلیمِ بالغان میں مصروف تھا، مگر وہ بار بار مداخلت کرکے اپنا رمضان کا اعلان بُک کروانے کی ضد کرنے لگے۔ کسی طرح جان چھڑائی ہی تھی کہ باہر جاتے ہی ایک اور گروہ آ دھمکا، جس میں 6 سے 8 افراد تھے، اور ان کا بھی یہی مطالبہ تھا۔ مجبوراً سخت لہجہ اختیار کرنا پڑا۔ آپ یہ نہ سوچیں کہ ہماری مسجد بہت بڑی ہے، مصلیوں کی کافی تعداد ہوگی، نہیں بالکل نہیں
، بل کہ ایک چھوٹی مسجد ہے اور جہاں عام دنوں میں کبھی 5، کبھی 10، اور کبھی 30-40 نمازی ہی ہوتے ہیں، وہاں یہ حالت ہے تو بڑی مساجد کا کیا حال ہوگا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے!
*سفراء کی حالتِ زار اور غیر شرعی معاملات*
ان سفیروں کی ظاہری حالت دیکھ کر شرم آتی ہے۔ لباس پراگندہ، بعض کے منہ میں پان یا گٹکا، اور مجموعی طور پر غیر سنجیدہ رویہ۔ البتہ، ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا، استثناء ہر جگہ موجود ہے۔ *مگر ان کی دینی حالت تو حد درجہ خراب ہے۔*
یہ حضرات چندہ جمع کرنے میں نہ صرف ناجائز طریقے اپناتے ہیں بلکہ خیانت کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ چندہ مقررہ فیصد (Commission) پر جمع کرتے ہیں، جو کہ سراسر ناجائز ہے۔ پھر اس چندے میں خیانت بھی عام ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ نماز و روزے کی کوئی فکر نہیں، گویا ان پر یہ فرائض لاگو ہی نہیں ہوتے۔ سنتوں کی ادائیگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
*زکوٰۃ اور ان پر اعتماد کا مسئلہ*
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے لوگوں کے ہاتھ زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟ کیا ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ میری رائے میں، بالکل نہیں! زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستحق افراد یا اداروں تک پہنچے، نہ کہ کسی غیر معتبر ذریعے سے ضائع ہو جائے۔
یہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے، اور اگر اس کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو حقیقی مستحق ادارے، جو پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہیں، مکمل طور پر بند ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں دین کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
*علماء اور ذمہ داران کی ذمہ داری*
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہر علاقے کے علمائے کرام سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنی اپنی مساجد و علاقوں کا نظم و نسق سنبھالیں۔ امت کے مال کو صحیح اور مستحق جگہوں پر پہنچانے کے لیے مؤثر نظام بنایا جائے۔ بڑی تنظیموں کے حوالے کرنا بھی مناسب نہیں، کیونکہ ان میں بھی پہلے جیسی امانت داری اور خوفِ خدا باقی نہیں رہا، اور وہ دیگر بڑے بڑے کاموں میں مشغول ہیں۔
لہٰذا، علماء اور مساجد کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اجتماعی طور پر اس مسئلے پر غور کریں اور امت کے وسائل کو محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ ورنہ اگر یہ روش جاری رہی، تو دین اور اہلِ حق اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ اللہ ہمیں اس فتنے سے محفوظ رکھے۔ آمین!
❤️
👍
3