
🌹اصلاحی باتیں بیان نظمیں🌹 Whatsapp Status Naat Nazam ,Islamic Stories اردو نعت بیان اسلامک سٹیٹس
February 12, 2025 at 07:22 PM
*ماہ شعبان اور 15 شعبان کی شب یعنی شب برائت کی فضیلت اور اسمیں عبادت کا حُکم۔*
🍃آج پاکستان میں بارہ شعبان ہے. 15 شعبان چودہ فروری بروز جمعہ کو ہے اور 15 شعبان کی شب یعنی شب برائت، شب جمعہ کو ہے. اسی مناسبت سے جانئیے اس پوسٹ میں👇
1️⃣ ماہ شعبان کی فضیلت۔
2️⃣ شب برائت یعنی پندرہویں شعبان کی شب کی فضیلت۔
3️⃣ ماہِ شعبان میں نفلی روزوں کا حکم۔
4️⃣ 15 شعبان کو روزہ رکھنے کا حکم۔
5️⃣ شب برائت میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرنے یا کھانے کا حکم۔
6️⃣ شب برائت اور معافی نامہ کی حقیقت۔
7️⃣ شب برائت میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ یا کوئی خاص وظیفہ ثابت ہے یا نہیں؟
8️⃣ مرد حضرات کا شب برائت میں قبرستان جانے کا حکم.
9️⃣ شب برائت کی فضول رسومات اور بدعات۔
🔟 شب برائت میں اصل کرنے کے کام.
*شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المبارک سے پہلے آتا ہے۔* اس مہینے کو اللہ تعالی ٰٰنے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں ماہ ِرمضان کے روزوں، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے۔ رمضان المبارک کے آنے سے پہلے پہلے شعبان میں ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا،نہ صرف خود بلکہ اس فکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو بھی شریک فرماتے تھے۔
ماہِ شعبان عظمت والا مہینہ ہے اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ماہ شعبان کے لئیے یہ دعا بہت خصوصیت سے پڑھتے تھے👇
*اَللّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ*۔
✍️ ترجمہ:-
اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔
چونکہ یہ مہینہ رمضان کا مقدمہ ہے، اس لیے اس میں رمضان کے استقبال کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ میں رمضان کی تیاری کی ترغیب دی ہے۔
🌹حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے مہینہ کی آخری تاریخ میں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگوں ! تم پر ایک عظمت و برکت والا مہینہ آ رہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر، تراویح، مغفرت باری تعالیٰ اور رمضان میں اہتمام سے کیے جانے والے خصوصی اعمال کا تذکرہ فرمایا۔
(📚صحیح ابن خزیمہ)
*🌻شب برائت یعنی پندرہویں شعبان کی شب کی فضیلت۔*
🌹حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی رات میں آسمانی دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق)نزول فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض کینہ ہو.
(📚شُعب الایمان للبیہقی)
🌹 حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے۔
(📚سُنن ابن ماجہ)
اس رات کو شب برائت بھی اسوجہ سے کہتے ہیں کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گناہوں سے بری اور پاک و صاف کرتا ہے، یعنی مغفرت چاہنے والوں کی بے انتہا مغفرت فرماتا ہے.
اسی وجہ سے بُزرگانِ دین لکھتے ہیں کہ اس رات بیدار رہنا بہت ثواب کا عمل ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے۔
(📚ما ثبت بالسنة،ص360)
*🌻ماہِ شعبان میں نفلی روزے*۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، بلکہ رمضان کے بعد جس مہینہ میں روزوں کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے وہ یہی شعبان کا مہینہ ہے۔
🌹حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اور کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے۔ شعبان کے پورے دنوں میں آپ ﷺ روزہ سے رہتے۔ ایک اور روایت میں ہے: نبی کریم ﷺ شعبان کے صرف چند دن کو چھوڑ کر تقریبا پورا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے۔
(📚صحیح بخاری)
یعنی نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان روزے رکھا کرتے تھے، البتہ شعبان کے آخری دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا تاکہ رمضان المبارک کے روزوں کے لئیے بدنی طاقت برقرار رہے.
*🌻15 شعبان کو روزہ رکھنے کی فضیلت*۔
🌹حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب نصف شعبان کی رات ہو تو رات کو عبادت کرو اور آئندہ دن روزہ رکھو اس لیے کہ اس میں غروبِ شمس سے طلوعِ فجر ہونے تک آسمانی دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں: ہے کوئی مغفرت کا طلب گار؟ کہ میں اس کی مغفرت کروں! ہے کوئی روزی کا طلب گار؟ کہ میں اس کو روزی دوں! ہے کوئی بیمار؟ کہ میں اس کو بیماری سے عافیت دوں، یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
(📚سنن ابن ماجہ)
👈 *15 شعبان کو روزہ رکھنے کی فضیلت کے بارے میں پورے ذخیرہ احادیث میں چونکہ یہی ایک حدیث موجود ہے جو کہ سنداً شدید ضعیف ہے* تاہم اگر کوئی شخص اسوجہ سے 15 شعبان کا روزہ اس نیت سے رکھے کہ شعبان کا دن ہے،اور پورے شعبان کے مہینے اکثر دنوں میں روزے رکھنے کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے اور اس شعبان کے اکثر دنوں میں 15 شعبان بھی داخل ہے اسوجہ سے میں 15 شعبان کو روزہ رکھ رہا ہوں.
دوسرے یہ کہ 15 تاریخ آیّام بِیض میں شامل ہے اور چونکہ نبی کریم ﷺ ہر ماہ اَیّام بِیض یعنی اسلامی تاریخ 13-14-15 کو روزے رکھتے تھے. اسوجہ سے اگر کوئی اَیّام بِیض اور شعبان میں روزے رکھنے کی نیّت سے 15 شعبان کو روزہ رکھے تو ان شاء اللہ آجر ملے گا لیکن ان دو وجوہات کے علاوہ خاص 15 شعبان کو روزہ رکھنے کو سنت یا لازمی حکم سمجھنا بالکل بھی درست نہیں البتہ سُنت سمجھے بغیر شعبان کے مہینے کا نفلی روزہ رکھنا بالکل درست ہے۔
*🍁 نوٹ:-*
یکم شعبان سے 27 شعبان تک ہر دن روزے رکھنے میں فضیلت ہے آخری دو دنوں کے بارے میں حدیث میں منع فرمایا ہے تاکہ رمضان کے پہلے روزے میں دو دن کا وقفہ آئے اور کھا پی کر کچھ بدنی طاقت حاصل ہو باقی یکم سے 27 شعبان تک مکمل اجازت ہے۔ البتہ شعبان کے آخری دنوں میں یہ ممانعت اس شخص کے حق میں نہیں ہے جو ان ایام میں روزہ رکھنے کا عادی ہو، مثلاً کوئی شخص پیر یا جمعرات کے دن نفل روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے شعبان کی انتیس یا تیس تاریخ اسی دن ہو جائے تو اس کے لیے اس دن روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہے، ہاں جو شخص ان دنوں میں روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ نہ رکھے۔
*🌻شب برائت میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرنے یا کھانے کا حکم*۔
شب برائت کے نام سے لوگ جو کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرتے ہیں، اس کو بہت بڑے اجر وثواب کا باعث سمجھتے ہیں اور اس کے من گھڑت اور بناؤٹی فضائل بھی بیان کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تر چیزیں بدعات کے زمرے میں آتی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
*1-*) شب برائت میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کی رسم قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمھم اللہ سے ہرگز ثابت نہیں، *یہی بات اس کی ممانعت کے لیے کافی ہے۔*
*2-)* اگر شب برائت میں یہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے سے مقصود کسی شخصیت کے لیے ایصالِ ثواب ہے تو واضح رہے کہ ایصال ثواب کے لیے نہ تو کوئی دن یا مہینہ خاص ہے، اور نہ ہی کوئی کھانے پینے کی چیز تقسیم کرنا ضروری ہے، بلکہ ایصالِ ثواب تو کسی بھی نیک عمل کا کیا جا سکتا ہے، اس لیے ایصالِ ثواب کے لیے بھی مہینہ یا دن خاص کرنا یا ایصال ثواب میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف ہے۔
کیونکہ شب برائت میں بہت سے گھروں میں بدعات پر مشتمل کھانے پینے کی چیزیں آتی رہتی ہیں اس لیے شرعی اعتبار سے ان چیزوں کے کھانے پینے کا تفصیلی حکم سمجھنا چاہیے کہ
🔹 شب برائت کی بدعات پر مشتمل مجالس اور کھانے پینے کے مقامات میں شریک ہونا ناجائز ہے کیونکہ اس سے بدعات کی شان وشوکت میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کو قوت اور رواج میسر آتا ہے۔
🔹 البتہ اگر کوئی شخص ان بدعات پر مشتمل یہ کھانا پینا کسی کے ہاں بھیج دے تو ایسی صورت میں مسئلہ واضح رہے کہ اگر حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو تو محض بدعت ہونے کی وجہ سے وہ کھانا پینا اپنی ذات میں حرام نہیں ہو جاتا، البتہ مکمل طور پر کوشش یہی کی جائے کہ اسے وصول ہی نہ کیا جائے اور ان کے سامنے صحیح صورتحال واضح کی جائے، *یا اگر مجبوراً وصول ہی کرنا پڑے تو اس کے کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہوئے کسی غریب کے ہاں بھیج دیا جائے یہی بہتر ہے تاکہ بدعات کی نفرت دل میں برقرار رہے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے* اور جب لینے والے نہ رہیں گے تو دینے والے خود بخود یہ بدعات ترک کر دیں گے،لیکن اگر خود ہی کھا لیا جائے تو حرام نہیں بشرطیکہ حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو،البتہ اجتناب کرنے ہی میں احتیاط ہے اور یہی اصل ایمان کا تقاضا ہے خصوصًا وہ شخص تو خصوصی طور پر اجتناب کرے جس کی لوگ پیروی کرتے ہوں وہ مذھبی راہنما ہو تاکہ بدعات کا خاتمہ ہو سکے۔البتہ اگر کسی نے حرام مال سے یہ کھانا پینا تیار کیا ہے یا غیر اللہ کی نذر ونیاز کی نیت سے کوئی جانور ذبح کرکے تیار کیا ہے تو اس کا حرام ہونا واضح ہے، اور جہاں ماحول اور افراد کی اعتقادی حالت کی وجہ سے پہچان نہ ہوتی ہو اور اس پہلو کا امکان ہو کہ یہ غیراللہ مثلاً انبیاء کرام یا بزرگانِ دین اولیاء اللہ کے نام کی نذر و نیاز ہو گی تو وہاں بھی وصول نہ کرنے ہی میں احتیاط ہے۔
🔹جو شخص صحیح العقیدہ مسلمان ہے اور اس کے ہاں سے عام ایام میں بھی کھانے پینے کی چیزیں گھر آتی رہتی ہیں اور وہ شب برائت کے موقع پر بھی ایسی کوئی چیز بھیجے اور یہ کہے کہ میں نے کسی بھی غلط نظریے سے نہیں بھیجی ہے تو اس کا کھانا بالکل درست ہے البتہ بھیجنے والا کوشش یہ کرے کہ بدعات کے خاتمے کے لیے 15 شعبان یا پندرہ شعبان کی شب یعنی شب برائت کو یہ اہتمام نہ کرے تو اچھا ہے۔
*🌻 شب برائت اور معافی نامہ کی حقیقت۔*
بعض لوگ شب برائت سے پہلے ایک دوسرے کو یہ میسج کرتے نظر آتے ہیں کہ👇
(آج تک میری طرف سے جانے انجانے میں کوئی غلطی یا گستاخی یا غیبت ہوئی ہو یا میری وجہ سے آپ کا دل دکھا ہو تو اللہ تعالی کی رضا کے لئے شب برأت سے پہلے دل سے معاف کردیں، میں نے بھی آپ کو معاف کیا۔)
یہ بہترین بات ہے کہ بندہ دوسرے مسلمان کے حق میں کوئی زیادتی یا کوتاہی کرے تو معافی مانگ لے اور دوسرے سے دل صاف کر دے مگر کیا یہ معافی مانگنا اور دوسرے سے دل صاف کرنا صرف شب برائت کے ساتھ خاص ہے؟
پورے سال تکلیف دے اور کوئی معافی کا سوال نہیں؟ کوئی دل کی صفائی نہیں؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، جبکہ ایک مؤمن اور مؤمنہ کی شان تو یہ ہے کہ اس کا دل ہر وقت دوسرے مسلمان سے صاف رہتا ہے اور ایسے شخص کو حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے جنتی انسان ہونے کی خوشخبری دی ہے جس کا دل ہر کسی کے بارے میں صاف ہو کوئی بھی بغض کینہ اور حسد دوسرے کے بارے میں نہ رکھے۔
(📚مُسند احمد)
اسی طرح کچھ لوگ حضرت ابو دُجانہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے، وہ بیمار تھے لیکن ان کا چہرہ چمک رہا تھا، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے اپنے اعمال میں سے دو عمل پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے:
*1-* میں کوئی فضول بات نہیں کرتا تھا۔
*2-* میرا دل تمام مسلمانوں سے بالکل صاف تھا۔
(📚حیاة الصحابة)
لہذا ایک مسلمان کی شان یہ نہیں کہ صرف ایک رات کے لئے دل کو صاف کیا جائے اور غلطی پر سال میں ایک ہی بار معافی مانگی جائے بلکہ ہر روز اس دل کی صفائی ضروری ہے، اگر کسی کا مالی حق ہے تو اس کو بھی ادا کیا جائے، نجانے ہم کیا کچھ بول دیتے ہیں؟ کیا تکلیف دیدیتے ہیں؟کبھی زبان سے! کبھی ہاتھ سے! کبھی چہرے کے تاثرات سے! اس لئے ہر وقت ڈرتے رہا جائے اور اگر کسی نے تکلیف دی ہے تو اس کو معاف بھی کر دیا جائے کہ اللہ تعالی معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
*🌻 شب برائت میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ یا کوئی خاص وظیفہ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں،*.
اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے،جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے، مثلاََ: پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، یا نماز کے علاوہ کوئی خاص وظیفہ کرنا *اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بےبنیاد بات ہے*، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہو سکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکر کریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جا سکتی ہیں لیکن عبادت کا کوئی خاص طریقہ یا مخصوص وظیفہ ثابت نہیں۔
*🌻 شبِ برات میں قبرستان جانا.*
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ ہر سال شبِ برات میں قبرستان جائیں.
لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواتین کے لئیے فتنہ کے سبب تو قبرستان جانا مکمل طور پر منع ہے حدیث پاک میں سختی سے منع فرمایا گیا ہے خواہ وہ کسی بھی دن ہو البتہ عام دنوں میں مرد حضرات کو اس شرط پر اجازت ہے کہ وہاں کسی غیر شرعی کام کا ارتکاب نہ کریں.
لہذا علماء کرام فرماتے ہیں کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہیئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریم ﷺ سے پندرہ شعبان کی شب قبرستان جانا ایک ہی مرتبہ جانا ثابت ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے مرد حضرات بھی اگر زندگی میں پندرہ شعبان کی شب ایک مرتبہ چلے جائیں تو ٹھیک ہے، لیکن ہر سال شعبان کے مہینے میں شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ اسکے بغیر شب برات نہیں ہوئی، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے جو کہ بالکل بھی جائز نہیں.
*🌻شب برائت کی فضول رسومات اور بدعات۔*
اس رات مسجدوں میں اجتماعی شب بیداری کرنا، مخصوص قسم کے مختلف طریقوں سے نوافل پڑھنا جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، نوافل وتسبیحات اجتماعی طریقہ سے ادا کرنا ،اسپیکر پر نعت خوانی وغیرہ کرنا،ہوٹلوں اور بازاروں میں گھومنا،حلوہ پکانے کو ضروری سمجھنا،خاص اس رات میں ایصال ثواب کو ضروری سمجھنا، یہ عقیدہ رکھنا کہ مُردوں کی روحیں آتی ہیں، قبرستان میں چراغ جلانا،اس رات سے ایک دن پہلے عرفہ کے نام سے ایک رسم، اس رات میں گھروں میں روحوں کے آنے کا عقیدہ، فوت شدہ شخص کے گھر جانے کو ضروری سمجھنا، بیری کے پتوں سے غسل کرنا،گھروں میں چراغاں کرنا،گھروں اور مساجد کو سجانا،اور ان سب سے بڑھ کر اس رات میں آتش بازی کرنا مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں، ان کا کوئی ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورسلف صالحین سے نہیں ملتا؛ اس لیے ان تما م بدعات ورسومات کا ترک اور معاشرے سے ان کو مٹانے کی کوشش کرنا ہر ہر مسلمان پر بقدرِ وسعت فرض ہے۔
*🌻شب برائت میں اصل کرنے کے کام*۔
آخر میں اس مبارک رات میں کرنے والے کیا کیا کام ہیں؟ ان کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جا سکے
🍃مرد حضرات کا نماز عشاء اور نماز فجر کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔
🍃اس رات میں عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو ،گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا،بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔
🍃 اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنا اور ہر قسم کی رسومات اور بدعات سے اجتناب کرنا۰
🍃 اپنے لیے اور پوری امت کے لیے ہر قسم کی خیرکے حصول کی دعاء کرنا۔
🍃 بقدر وسعت ذکر اذکار ،نوافل اور تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرنا۔
🍃 اگر آسانی سے ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا لیکن اسے ضروری یا سُنت نہ سمجھا جائے البتہ ثواب کا عمل ھے۔
واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شب برائت کا لازمی حصہ نہیں؛بلکہ ان کا ذکر محض اس لیے ھے کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے اس رات کی منکرات و فضولیات سے بچا جا سکے۔
*🌹مفتی محمد حسن🌹*
❤️
👍
❣️
🎉
8