• سَنَرْحَلُ وَيَبْقَى الأثر •
January 27, 2025 at 09:37 PM
`اذکار، اوراد وظائف کرنے کا حکم؟؟`
ورد یا حزب، ذکر کی ایک ایسی مخصوص مقدار ہے جسے کوئی شخص اللہ کے قرب کی خواہش میں اختیار کرتا ہے اور اس پر مداومت کرتا ہے۔ یہ ایک نفلی عبادت ہے جسے مسلمان اپنے طور پر اپناتا ہے، اور اللہ نے اسے فرض نہیں کیا۔ شیخ زکریا انصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نفلی عبادت وہ ہے جس کے بارے میں کوئی خاص نص نہیں آئی ہو بلکہ انسان خود اپنی مرضی سے اوراد کو اپنائے"۔ ¹
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"کسی شخص کا اپنے اوراد، نماز، تلاوت، ذکر یا دعا پر صبح و شام یا رات کے اوقات میں مداومت کرنا سنت رسول ﷺ اور صالحین کی قدیم و جدید سنت ہے۔ جو اعمال اجتماع کی صورت میں سنت ہیں، انہیں اسی طرح ادا کیا جائے، اور جو انفرادی طور پر سنت ہیں، انہیں ویسے ہی انجام دیا جائے۔ جیسے صحابہ کرام کبھی کبھار جمع ہوکر کسی ایک کو تلاوت کے لیے کہتے اور باقی لوگ سنتے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ سے فرماتے: ہمیں ہمارے رب کا ذکر یاد دلاؤ، تو وہ پڑھتے اور سب سنتے"۔²
علماء نے اوراد پر گفتگو کو ہمیشہ اتفاقی امر سمجھا اور اس کے حکم یا اختلاف پر بحث نہیں کی۔ مثلاً ابن نجیم فرماتے ہیں:
"حلوانی نے ذکر کیا کہ فرض اور سنت نماز کے درمیان اوراد پڑھنے میں کوئی حرج نہیں"۔
علماء نے اوراد پر مداومت کی اہمیت اور ان کے فوائد کو واضح کیا ہے اور ان پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو شخص کسی وقت، دن یا رات میں، نماز کے بعد یا کسی خاص حالت میں ذکر کرنے کا عادی ہو، اور وہ چھوٹ جائے تو اسے چاہیے کہ جیسے ہی موقع ملے اسے پورا کرے اور کبھی اس میں کوتاہی نہ کرے۔ کیونکہ اگر وہ اس کا عادی رہے گا تو اسے ضائع ہونے سے بچائے گا، اور اگر قضا میں لاپرواہی کرے گا تو اس کے وقت پر بھی ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔" ³
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے مخصوص اوقات کے اذکار جو کسی وجہ سے چھوٹ جاتے تھے، انہیں پورا کرتے تھے۔"
ابن علان فرماتے ہیں:
"حالات سے مراد وہ اوقات ہیں جو مخصوص ہوں، نہ کہ وہ جو کسی سبب کے ساتھ مشروط ہوں جیسے چاند دیکھتے وقت یا گرج سنتے وقت ذکر کرنا۔ ان اذکار کو سبب فوت ہونے کے بعد قضا کرنا مستحب نہیں ہے۔ اور جو شخص اوراد کو معمول بنا کر چھوڑ دیتا ہے، اس کے لیے یہ مکروہ ہے۔" ⁴
ابن الحاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عابد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اوقات کو منظم کرے اور ہر وقت کے لیے مخصوص عمل مقرر کرے۔ اوراد کو صرف نماز اور روزے تک محدود نہ رکھے بلکہ عابد کے تمام اعمال و افعال ورد میں شمار ہوں۔ سلف صالحین رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے ملاقات کا وقت مانگے اور وہ سو رہا ہو تو جواب دیا جاتا: وہ نیند (کے ورد) میں ہے۔ نیند اور اس جیسے دیگر اعمال بھی (اوراد) عبادت میں شامل ہیں جن کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا، نیند کا وقت بھی متعین ہو، جیسے رات کے ذکر کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ اسی طرح بھائیوں سے ملاقات، اہل خانہ سے گفتگو اور دیگر اعمال بھی مخصوص اوراد کا حصہ ہیں۔ کیونکہ اس کے تمام اوقات اللہ کی اطاعت میں بسر ہو رہے ہیں۔ وہ جو بھی مباح یا مستحب کام کرتا ہے، نیت اللہ کی قربت کی ہوتی ہے۔ یہی ورد کی حقیقت ہے۔ البتہ، یہ حالت اجتہاد، صحت، اور عوائق سے خالی وقت میں ممکن ہے۔" ⁵
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"ہمیں معلوم ہے کہ شرعی اذکار و اوراد ایک مضبوط قلعہ ہیں، جو یاجوج اور ماجوج کی دیوار سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ بہت سے لوگ ان اذکار کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اور جو جانتے ہیں وہ اکثر غفلت کرتے ہیں۔ جو انہیں پڑھتے ہیں ان کے دل حاضر نہیں ہوتے۔ یہ سب کمی کی علامت ہے۔ اگر لوگ شریعت کے بتائے ہوئے طریقے سے اذکار کو اختیار کریں تو وہ بہت سی شرور سے محفوظ ہو جائیں۔" ⁶
ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
"دعائیں اور تعوذات ہتھیار کی مانند ہیں، اور ہتھیار اپنے چلانے والے پر منحصر ہوتا ہے، نہ کہ صرف اس کی دھار پر۔ جب ہتھیار مکمل اور بے عیب ہو، اور بازو مضبوط ہو، اور کوئی رکاوٹ نہ ہو، تو دشمن کو نقصان پہنچانا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن جب ان تینوں میں سے کوئی ایک چیز کمزور ہو، تو اثر بھی کم ہو جاتا ہے۔ اذکار اور تعوذات یا تو ان اسباب کے وقوع کو روک دیتے ہیں، یا ان کے اثر کو کمزور کر دیتے ہیں، یہ سب تعوذ کی قوت اور ضعف پر منحصر ہوتا ہے۔" ⁷
> لہٰذا، اللہ کے ذکر کے لیے اوراد اور احزاب کو اپنانا مسلمان کو ذکرِ الٰہی کی مداومت کا عادی بناتا ہے۔ یہ سلف صالحین کا عمل تھا، اور یہی وجہ ہے کہ یہ مستحب ہے کیونکہ وسائل کا حکم ان کے مقاصد کے تابع ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
_____
*حوالہ جات*
1۔ الغرر البهية، لشيخ الإسلام زكريا الأنصاري، ج1 ص 387.
2۔ الفتاوى الفقهية الكبرى، لابن حجر الهيتمي، ج2 ص 385.
3۔ البحر الرائق، لابن نجيم، ج2 ص 52.
4۔ الموسوعة الفقهية الكويتية، ج 21، ص 257، 258، حرف الذال، ذكر.
5۔ المدخل، للعبدري ابن الحاج،: ج3 ص179 ، 180.
6۔ (لقاء الباب المفتوح للعثيمين: 107/12)
7۔ (زاد المعاد: 4/182، الجواب الكافي: ص 22)
جمع و ترتیب/ عبدالرحمن السعیدي
❤️
👍
🎉
😢
28