Science ki Duniya سائنس کی دُنیا
Science ki Duniya سائنس کی دُنیا
January 28, 2025 at 01:31 PM
جب بھی فیس بک کھولتا ہوں تو کہیں سے کوئی پوسٹ سامنے آجاتی ہے کہ فلاں پھل کینسر کو ختم کردیتا ہے، یا فلاں پودے کے پتے چوبیس گھنٹے میں کینسر کے خلیوں کو مار دیتے ہیں۔ ابھی بھی ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ آسٹریلیا میں "بلش ووڈ" نام کا پودہ ہے جو کینسر کو ختم کردیتا ہے لیکن کینسر کی ادویات بیچنے والی کوئی "کینسر مافیا" یا "فارماسیوٹیکل مافیا" ہے جو ایسے علاج کو سامنے نہیں آنے دیتی۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسی پوسٹس کیوں ہوتی ہیں ؟ زیادہ تر صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی تنظیم میں کام کرنے والے کوئی سائنسدان لیبارٹری میں کینسر کے خلیوں پر مختلف کیمیکل ٹیسٹ کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ کیمیکل کینسر کے خلیوں کے خلاف کوئی رسپانس شروع کرتے ہیں تو سائنسدان اپنی وہ تحقیق شائع کر دیتے ہیں، اب اگر وہ چیز قدرتی طور پر کہیں پائی جاتی ہے تو ہمارے فیس بک پر بیٹھے سائنسدان اس چیز کو باقاعدہ کینسر کا علاج قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ لیبارٹری میں کینسر کے خلیوں کے خلاف کچھ رسپانس دیکھانا اور پھر جسم میں جاکر کینسر ختم کرنا، ان دونوں چیزوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپکا 5 سال کا بچہ پلاسٹک کے بیٹ اور بال سے کرکٹ کھیلتا ہو، اور آپ اسے شعیب اختر کے سامنے بیٹنگ کروانے لے جائیں۔ ایسے سینکڑوں کیمیکل کمپاونڈ پر تحقیقات جاری ہوتی ہیں جو کینسر کے خلاف رسپانس دیکھاتے ہیں لیکن انہیں باقاعدہ ایک دوائی بنا کر کینسر کے مریضوں تک پہنچنے کے قابل بنانا کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ بطور علاج استعمال ہونے کے لیے ان میں بہت سی کمیاں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ اوپر جس "بلش ووڈ" پودے کا ذکر کیا، تو آج سے تقریباً 25 سال پہلے اس میں ایک کیمکل "Tigilanol Tiglate" دریافت ہوا تھا جو کہ کچھ ٹیومرز کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 2010 کے قریب سے یہ تحقیقات اور کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اس کیمیکل کو انسانوں میں کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جائے۔ 2014 میں اسے جانوروں کے علاج کے لیے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن جانوروں میں بھی اس کیمیکل کو ڈائرکٹ ٹیومر میں انجکٹ کرنا ہوتا ہے، اس لیے صرف جلد کے نیچے موجود کچھ ٹیومرز کے خلاف ہی اثر دیکھاتا ہے، اور وہ زیادہ تر ٹیومر کینسر والے نہیں ہوتے۔اس لیے فل حال یہ انسانی جسم میں کینسر کے خلاف بہتر اثر نہیں دیکھا سکتا۔ مگر حال ہی میں کسی نے یہ تحقیق پڑھ لی، اور اس نے فیس بک پر "بلش ووڈ" کو کینسر کا علاج قرار دے دیا۔ ساتھ میں یہ بھی بتا دیا کہ کینسر مافیا نہیں چاہتا کہ یہ "سستا علاج" لوگوں تک پہنچے۔ اب اس "سستے علاج" کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ تو آپکو کیا لگتا ہے کہ یہ کیسے پتہ لگا ہوگا کہ "بلش ووڈ" نام کے پودے میں ٹیومر کے خلاف اثر دیکھانے والا کیمکل ہے ؟ ظاہر ہے کسی فارماسیوٹیکل ریسرچ کمپنی نے ہی اپنی ریسرچ کے دوران یہ دریافت کیا ہوگا۔ اسے دریافت کرنے والی کمپنی کا نام Qbiotics ہے۔ زیادہ تر فارماسیوٹیکل کمپنیاں اپنی ریسرچ پر اربوں روپے خرچ کرتی ہیں، پھر جب انہیں کوئی نئی چیز ملتی ہے تو وہ اس کا patent کروا لیتی ہیں۔ یعنی اس چیز کو بطور دوائی مارکیٹ میں بیچنے کا لائسنس صرف انہی کے پاس ہوتا ہے اور عام طور پر 20 سال تک ان کے علاؤہ کوئی اور کمپنی اس فارمولے کی دوائی نہیں بنا سکتی۔ یوں جو خرچہ انہوں نے ریسرچ پر کیا ہوتا ہے، وہ منافع کے ساتھ وصول ہوجاتا ہے۔ اس لیے یہ مت سمجھیں کہ پرانی دوائی بنانے والا کوئی منافع خور شیطان تھا اور نئی دوائی بنانے والا کوئی فرشتہ ہوگا جسے کوئی مافیا آگے نہیں آنے دے رہا۔ اصل میں تو فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں نئے اور بہتر علاج دریافت کرنے کا بہت مقابلہ اور کوشش ہوتی ہے۔ خیر، سائنس پر یقین رکھیں اور خود بھی سائنس سیکھنے کی کوشش کریں تاکہ ایسی غلط معلومات سے بچ سکیں۔۔۔ #وارث_علی
❤️ 👍 💯 11

Comments