
Science ki Duniya سائنس کی دُنیا
2.9K subscribers
About Science ki Duniya سائنس کی دُنیا
یہ چینل اردو زبان میں سائنس کی ترویج کے لئے کوشاں فیس بُک کے مشہور سائنسی گروپ "سائنس کی دنیا" کی ایڈمن ٹیم کے زیرِ انتظام ہے۔
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

شوخی شوخی میں، میں نے دونوں سٹرکچر بھی بنا لئے (حسبِ معمول لکھائی اور ڈرائنگ گندی ہی نکلی)۔ جس میں اوپر والا سٹرکچر اس dGTP کا ہے، جو اصل میں وائرس کے ڈی این اے میں ہونا چاہیے تھا، یعنی زنجیر (ڈی این اے) کی ایک کڑی۔ جبکہ نیچے والا سٹرکچر ہماری دوائی کی ایکٹیو حالت کا ہے (acyclovir-TP)۔ دونوں سٹرکچرز میں کافی مماثلت ہے، اسی لیے وائرس کا ڈی این اے بنانے والا انزائم ہماری دوائی کو اپنے نیوکلیئوٹائیڈ/نیوکلیئوسائیڈ کے طور پر استعمال کرلیتا ہے۔ لیکن دونوں میں جو سب سے زیادہ ضروری فرق ہے وہ ہے اس OH گروپ کا، جو میں نے dGTP میں سرخ رنگ سے بنایا ہے۔ جس طرح بتایا کہ ڈی این اے کڑیوں سے مل کر بنی ہوئی زنجیر کی صورت میں ہوتا ہے، تو ہر کڑی کے ساتھ جو اگلی کڑی جڑتی ہے وہ اس OH گروپ کے ساتھ جڑتی ہے۔ جبکہ ہماری دوائی (نیچے والا سٹرکچر) میں یہ OH گروپ موجود نہیں، اس لیے جہاں ہماری یہ دوائی وائرس کے ڈی این اے کی زنجیر میں ایک کڑی کی صورت جڑ گئی، اس سے آگے مزید کڑیاں نہیں جڑ پائیں گی کیونکہ اگلی کڑی (نیوکلیئوٹائید) کو جڑنے کے لیے OH گروپ ہی نہیں ملے گا اور یوں ڈی این اے مکمل نہیں بن پائے گا۔۔۔ #وارث_علی


اُلو بنایا، بڑا مزہ آیا !!! ایک وائرس آپ سے کیا چاہتا ہے ؟ بس دو بول پیار کے...!!! نہیں نہیں اصل میں وائرس کی نظر ہوتی ہے آپکی "بائیو کیمکل مشینری" پر۔ دیکھیں ایک وائرس کے پاس دو ہی چیزیں ہوتی ہیں ایک اسکا جینیاتی مادہ اور دوسرا پروٹین۔ بیچارہ وائرس چاہتا ہے کہ اپنی نسل آگے بڑھائے، یعنی اپنے جیسے اور بنائے، اپنی تعداد بڑھائے۔ لیکن یہ کام صرف جینیاتی مادے اور پروٹین کے ساتھ نہیں ہوسکتا، اس کے لیے وائرس کو ایک ایسا ماحول چاہیے جہاں ایسی چیزیں موجود ہوں جنہیں استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے جینیاتی مادے کے ذریعے اپنی کاپیاں بنا کر اپنی تعداد بڑھائے۔ ایسا ماحول اسے ایک زندہ خلیے کے اندر ملتا ہے، اس لیے وائرس انسانوں، جانوروں، پودوں یہاں تک کہ بیکٹیریا پر حملہ آور ہوکر ان کے خلیوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہاں اپنی تعداد بڑھانے لگتے ہیں۔ جس سے وائرس کا تو بھلا ہوجاتا ہے لیکن جسم میں یوں وائرس کی تعداد بڑھنے اور پھلنے پھولنے سے ہم بیمار ہوجاتے ہیں، جیسا کہ پہلے بتایا کہ وائرس کے پاس اپنا جینیاتی مواد ہوتا ہے، اور یہ جینیاتی مواد وہ اپنی اگلی نسل کو بھی منتقل کرتا ہے، اس لیے ایک وائرس ایک خلیے میں آنے کے بعد اپنے جینیاتی مادے کی کاپیاں بنانے لگتا ہے اور انہیں اپنی اگلی نسل میں منتقل کرتا ہے۔ وائرس کا جینیاتی مادہ (ڈی این اے) انسان اور باقی جانداروں کے جینیاتی مادے کی طرح ایک زنجیر نما چیز ہوتی ہے، اور جس طرح زنجیر اپنی کڑیوں سے مل کر بنی ہوتی ہے، اسی طرح ڈی این اے بھی خاص کڑیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے جنہیں "نیوکلیوٹائیڈ" (nucleotide) کہتے ہیں۔ تو جینیاتی مادہ بنانے کے لیے وائرس کو ان کڑیوں یعنی نیوکلیوٹائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے، تو پہلے وائرس کچھ ایسے انزائم بناتا ہے جو نیوکلیوٹائیڈ بنانے کا کام کریں اور پھر ان سے وائرس کا ڈی این اے بنائیں۔ یہاں پر ہماری یہ دوائی (اور اس جیسی اور) کام آتی ہے۔ یہ دوائی ایک "nucleotide analogue" ہے۔ یعنی اس کی ساخت/بناوٹ ایک نیوکلیوٹائیڈ (dGTP) سے ملتی ہے، لیکن اسکی صرف شکل ویسی ہے، کام بلکل بھی ویسا نہیں۔ تو وائرس نے جو جینیاتی مادے کی کاپیاں تیار کرنے والا انزائم بنایا ہوتا ہے، وہ غلطی سے وائرس کے بننے والے جینیاتی مواد میں اس ضروری نیوکلیوٹائیڈ کی جگہ ہماری اس دوائی کو فٹ کردیتا ہے۔ نتیجۃً وائرس کا بننے والا جینیاتی مادہ ناکارہ ہوجاتا ہے اور وائرس کی نسل تیار نہیں ہو پاتی۔ بیچارے وائرس کی حالت پر شعر یاد آیا کہ ؎ آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے لیکن یہاں یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ پھر کیا یہ دوائی انسانی جینیاتی مادہ بننے کے عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہے ؟ کیونکہ انسانی خلیے بھی تو اپنے جیسے نئے خلیے بناتے ہیں اور اس کے لیے اپنا جینیاتی مادہ بھی نیا بناتے ہیں ؟ اصل میں یہ دوائی اپنی ایکٹیو حالت میں نہیں ہوتی، اور اس کو ایکٹیو کرنے کا کام بھی وائرس کا بنایا ہوا ہی ایک انزائم ( vTK) کرتا ہے، اس لیے جن خلیوں میں وائرس اپنی کاروائی نہیں کر رہا ہوتا، وہاں یہ اپنی ایکٹیو حالت میں نہیں آتی۔ یہ دوائی "ہرپیز وائرس" کے لیے ہوتی ہے، اور مختلف وائرسوں کے لیے اس طرح کام کرنے والی مختلف ادویات موجود ہیں۔ ان کے علاؤہ دوسرے طریقوں سے کام کرنے والی "اینٹی وائرل" ادویات بھی موجود ہیں، اور بہتر سے بہتر کی تلاش بھی جاری ہے۔ ساتھ ہی جاری ہے جسم اور ادویات کے کام پر میری تحریریں، جو میری ان دلچسپی کے موضوعات کو بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہیں، نہ کہ آپکو کسی دوائی کا بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے استعمال کرنے کی تجویز، لہذا ایسا کرنے سے پرہیز کریں۔۔۔ #وارث_علی


ٹائیڈز کیا ہوتی ہیں ؟ ہمارے ہاں اکثر لوگوں نے ٹائیڈز کا نام تو سُن رکھا ہوتا ہے لیکن یہ ٹائیڈز ہوتی کیا ہیں اس کا علم انہیں نہیں ہوتا ہمارے لوگ سمندر کے کنارے زور زور سے سر پٹختی لہروں کو ہی ٹائیڈز سمجھتے ہیں اس غلطی سے پھر یہ نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ سمندروں میں لہریں چاند کی وجہ سے بنتی ہیں جو صریحاً غلط ہے۔ چلئے "سائنس کی دُنیا" کے یوٹیوب چینل کی اس وڈیو میں ہم آپ کو ٹائیڈز کیا ہوتی ہیں اور لہروں میں ٹائیڈز میں کیا فرق ہوتا ہے یہ سمجھاتے ہیں۔ اگلے ہفتے ریلیز ہونے والی وڈیو میں ہم آپ کو سمجھائیں گے ٹائیڈز بنتی کیسے ہیں یوٹیوب پر ہمارے چینل کو سبسکرائیب کرنا نہ بھولئیے گا https://youtu.be/Eet11IroqrM?si=yRk0ixjrVsCJkan9

زمین جیسے سیارے اگر آپ سورج سے باہر زمین جیسے سیاروں کے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو آئیے آج ہم آپ کو سائنس کی دُنیا کی اس وڈیو میں ملکی وے اور دیگر کہکشاؤں میں زمین جیسے سیاروں کے متعلق بتاتے ہیں ۔ سائنس کی دُنیا کے یوٹیوب چینل کو سبسکرائیب کرنا مت بھولئے https://youtu.be/SIs81uWLVes

ملکی وے کا مرکزی بلیک ہول حکیم سعد ی کا مشہور شعر ہے کہ؎ هر بیشه گمان مبر که خالیست شاید که پلنگ خفته باشد (ہر ویرانے کو خالی مت سمجھو، شاید کہ وہاں کوئی خونخوار چیتا چھپا ہوا ہو) ایسا ایک خونخوار چیتا یا شیر قریب قریب ہر بڑی کہکشاں کے مرکز میں ہوتا ہے جس کا سُپر ماسیو بلیک ہول کہا جاتا ہے "سائنس کی دُنیا" کی اس یوٹیوب وڈیو میں ہم آپ کو "ملکی وے" کے مرکزی بلیک ہول کے متعلق مختصر لیکن جامع انفرمیشین دیں گے۔ پلیز چینل کو سبسکرائیب کرنا مت بھولئے گا https://youtu.be/4nkSxjmlLOk?si=vSyhJbrWHWyw7mqT

*تابکاری کھانے والا فنگس* *تحریر: حمیر یوسف* آپ لوگوں کو اپریل 1986 میں اس وقت کے سویت یونین میں ہونے والے "چرنوبل" کے نیوکلیر تباہی والا حادثہ تو یاد ہوگا، جس میں ایک یوکرئین (جو اس وقت سویت یونین کا حصہ تھا) کے دور افتادہ شہر ، چرنوبل میں ایٹمی ریکٹر پھٹنے سے بڑی شدید ایٹمی تباہی پھیلی تھی۔ حادثے میں فی الفور تیس سے زیادہ لوگ فی الفور ہلاک ہوگئےتھے ،اور اس وقت وہاں موجود انسانی و حیوانی آبادی ، پھیلنے والی نیوکلیائی تابکاری کے پھیلنے سے بری طرح متاثر ہوئی تھی اور یہ تابکاری ابھی تک وہاں پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن اب وہاں چند تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا ۔ چرنوبل کے کھنڈرات میں، سائنس دانوں نے ایک ایسی سیاہ فنگس دریافت کی ہے جوچرنوبل میں ہونے والے خوفناک نیوکلئیر حادثے کے نتیجے میں پھیلنے والی مہلک گیما تابکاری کو کھا رہی ہے، اور یہ فنگس آہستہ آہستہ تباہ شدہ ری ایکٹر کے مرکز کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ پراسرار جاندار، اس ویران بنجر زمین میں پروان چڑھ رہا ہے، نہ صرف زندہ ہے بلکہ فعال طور پر ایسی جوہری تابکاری کو جذب بھی کر رہا ہے۔ سائنسدانوں نے درحقیقت چرنوبل کے تابکاری کے اخراج والے علاقے میں ایک اچھوتے سیاہ فنگس (خاص طور پر، کلاڈوسپوریم اسفیروسپرم Cladosporium sphaerospermum اور دیگر انواع) دریافت کی ہے جو زیادہ تابکاری والے ماحول میں بھی باآسانی پروان اور نشونما پا سکتی ہے۔ یہ فنگس ،ریڈیوٹراپزم radiotropism نامی ایک مظہر کی پیروی کرتے ہیں، یعنی وہ تابکاری کے ذرائع کی طرف بڑھتے ہیں، اور وہ میلانین (وہی روغن جو انسانی جلد کو سیاہی رنگ دیتے ہیں) کا استعمال کرتے ہوئے گیما تابکاری کو کیمیائی توانائی میں تبدیل کر سکتے ہیں، جس سے یہ فنگس اپنی غذا اور توانائی کی ضرورت پوری کرتی ہے۔ اس عمل کو بعض اوقات "ریڈیو سنتھیسس radiosynthesis " کہا جاتا ہے، جو پودوں میں فوٹو سنتھیس یا ضیائی تالیف کے عمل کے مشابہ ہے۔ تاہم، یہ دعویٰ کہ فنگس "آہستہ آہستہ ری ایکٹر کور کی طرف بڑھ رہی ہے اور پھیلنے والی تابکاری کو ٹھیک کررہی ہے" ایک حد سے زیادہ مبالغہ والی بات ہے۔ اگرچہ یہ فنگس تابکاری کے خلاف مزاحم ہیں اور زیادہ تابکاری والے ماحول میں بڑھ سکتے ہیں، لیکن یہ ری ایکٹر کور کو "شفا" نہیں کر رہے ہیں یا تابکاری کی سطح کو نمایاں طور پر کم نہیں کر رہے ہیں۔ تابکاری کو جذب کرنے اور استعمال کرنے کی ان کی قابلیت ایک دلچسپ موافقت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ فعال طور رہتے ہوئے اس تابکاری کے ماحول کی مرمت کر رہے ہیں۔ ان تابکاری کو کھانے والے فنگس پر پئیر ریویو نظرثانی شدہ تحقیق ان سائنسی جرائد میں شائع ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر: 2007 میں شائع ہونے والے PLOS ONE نامی سائنسی جریدہ کی ایک اسٹڈی و تحقیق جس کا عنوان ہےIonizing Radiation ، میلانن کی الیکٹرانک خصوصیات کو تبدیل کرتا ہے اور میلانائزڈ فنگس کی افزائش کو بڑھاتا ہے اس بات پر بحث کرتا ہے کہ میلانائزڈ فنگس، شدید تابکاری والے ماحول میں کس طرح پروان چڑھ سکتی ہے۔ سائنسی جریدہ نیچر (2007) میں ایک اور تحقیق مقالہ جس کا عنوان ہے Fungi Survive and Grow in the Highly Radioactive Environment ،چرنوبل ری ایکٹر میں نشونما پانے والے ان فنگس کی منفرد موافقت کے بارےمزید ثبوت فراہم کرتا ہے۔ چرنوبل حادثے میں تابکاری جذب کرنے والی فنگس کی دریافت ، ایک حقیقی اور سائنسی طور پر دستاویزی بات ہے۔ تاہم، فنگس کی ڈرامائی ساخت ری ایکٹر کور کو "شفا بخش رہی ہے" یہ بات درست نہیں ۔ یہ فنگس اس شدید تابکار ماحول میں اپنی زندہ رہنے اور تابکاری کو استعمال کرنے کی صلاحیت کے لیے قابل ذکر ہیں، لیکن یہ چرنوبل میں تابکار آلودگی کا حل نہیں ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے، آپ اوپر دیے گئے سائنسی مطالعات کا حوالہ پڑھ سکتے ہیں، جنکا لنک نیچے دیا گیا ہے۔ https://journals.plos.org/plosone/article?id=10.1371/journal.pone.0000457 https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC2677413/ https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC9287308/ https://link.springer.com/article/10.1134/S0003683814020094

تحریر:حمیر یوسف ----------------------------- *جانوروں کا اپنا فضلہ کھانا* سوریا خنزیر کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنا فضلہ (پاخانہ) کبھی کبھار کھا جاتے ہیں، لیکن یہ اپنا ہی فضلہ کھانے والا اکیلا جانور نہیں ہے۔ مختلف جانور اپنا خود کا یا دوسرے جانور کا فضلہ کبھی کبھار کھا جاتے ہیں، ان میں خرگوش، چوہے، بڑے خرگوش جنکو hare کہا جاتا ہے، کتے، مرغیاں، بعض مویشی جیسے بکری، اونٹ اور دیگر بڑے جانور جیسے ہاتھی، پانڈا، کوالا اور دریائی گھوڑا ، مویشی جن میں گائے، بچھڑے، بیل اور بعض مچھلیوں کی اقسام بھی اپنا فضلہ کھانے کے لیے مشہور ہیں حتی کہ بعض اوقات شیر اور چیتے کو گائے اور بھینسوں کے گوبر میں لت پت ہوکر انکے فضلےکو کھاتے دیکھا گیا ہے۔ جانوروں کے اسطرح اپنا ہی یا کسی دوسرے جانور کا فضلہ کھانے کا عمل ، سائنٹفک ٹرمنالوجی اور انگلش میں کوپروفیگی coprophagy کہلاتا ہے۔کوپروفیگی کا لفاظ دراصل دو یونانی الفاظ سے بن کر تیار ہوتا ہے۔ پہلا یونانی لفظ kopros مطلب گوبر اور فیگوس phagos مطلب کھانا eating سے بنا ہے۔ کوپروفیگی جانوروں میں دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک طریقہ کار آٹولوگوس Autologous coprophagy کاپروفیگی کہلاتا ہے ، جس میں کوئی جانور اپنا ہی فضلہ کھا تا ہے۔ دوسرا طریقہ کار نان آٹو لوگوس کوپروفیگس Non-autologous coprophagy کہلاتا ہے، جس میں کوئی جانور کسی دوسرے جانور کا فضلہ کھاتےہیں۔ درج زیل یہ جنگلی جانور، کوپروفیگی کے عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔ خرگوش ، بعض غذائی اجزاء، خاص طور پر وٹامن B12 اور فائبر کو دوبارہ اپنے جسم میں جذب کرنے کے لیے اپنا فضلہ کھاتے ہیں۔بعض ہاتھی بھی بعض اوقات غذائی اجزاء کی دوبارہ حصولگی اور صحت مند آنتوں کے مائکرو بایوم کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا گوبر کھاتے ہیں۔جیسا کہ پوسٹ کے شروع میں بھی بتایا گیا ہے کہ خنزیر جن میں فیرل سور اور جنگلی سؤربھی شامل ہیں، coprophagy میں مشغول ہو سکتے ہیں، جو وہ ممکنہ طور پر اپنی خوراک کو غذائی اجزاء سے بھرنے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ اب بات آتی ہے کچھ پالتو اور اصطبل کے جانوروں کی جو اس کوپروفیگی کے عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔ بعض کتے اس عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔ کچھ کتے تجسس، اضطراب میں یہ عمل کرتےہیں ، یا پھر غذائیت کی کمی کی وجہ سے اپنا یا دوسرے جانوروں کا پاخانہ کھا سکتے ہیں۔کچھ بلیوں کو یہ عمل کرتے دیکھا گیا ہے۔ عام طور پر کم مشاہدہ ہونے کے باوجود، کچھ بلیاں coprophagy میں مشغول ہوسکتی ہیں، خاص طور پر اگر انہیں اپنی خوراک میں کافی فائبر یا دیگر غذائی اجزاء نہیں مل رہے ہیں، تو وہ دوسرےجانور کا فضلہ کھاتے دیکھی گئی ہیں۔ گھوڑے خصوصا اانکے بچھڑے (بچے ) اپنی ماؤں کا فضلہ کھا تے ہیں تاکہ اپنی ماں کی آنتوں کے فائدہ مند بیکٹیریا اور غذائی اجزاء وہ بھی حاصل کرسکیں۔ بعض مویشی (گائے، بیل، بھینسیں) اور انکے بچھڑے اپنی ماں کے گوبر سے غذائی اجزاء اور فائدہ مند مائکروجنزم حاصل کرنے کے لیے coprophagy میں مشغول ہو سکتے ہیں اور انکا اس عمل کا مشاہدہ دیکھا بھی گیا ہے۔ بھیڑ اور بکریاں جیسے جانور بھی کبھی کبھار اپنا یا اپنے ریوڑ میں موجود دوسرے جانوروں کا فضلہ یا گوبر کھا سکتے ہیں۔ کوپروفیگی کے اسباب 1. غذائی اجزاء کی دوبارہ سے حصول: جانور اپنے کچھ غذائی اجزاء، جیسے وٹامنز، معدنیات، یا فائبر، جو کہ ابتدائی عمل انہضام کے دوران جذب نہیں ہوئے تھے، دوبارہ سے جسم میں پانے کے لیے اپنا فضلہ کھا تے ہیں۔ 2. آنتوں کی صحت : کوپروفیگس، کچھ فائدہ مند بیکٹیریا اور دیگر مائکر آرگنائزم کو حاصل کرنے کے لیے اور صحت مند آنتوں کے مائکرو بایوم کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتی ہے۔ 3. فطری رویہ: بعض صورتوں میں، coprophagy ایک فطری رویہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر چھوٹے جانوروں میں، اپنی ماں کے گوبر سے غذائی اجزاء اور فائدہ مند مائکروجنزم حاصل کرنا۔ 4. تجسس یا بوریت: کچھ جانور، خاص طور پر جو قید میں ہیں، تجسس یا بوریت کے عمل کو دور کرنے کی وجہ سے coprophagy میں مشغول ہو سکتے ہیں۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ بہت سے جانوروں میں coprophagy ایک فطری عمل ہے، پر یہ مظہر ان میں بنیادی صحت کے مسائل یا غذائیت کی کمی کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اپنے پالتو جانوروں یا مویشیوں کے coprophagy میں ملوث ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں تو، انکے کسی بھی ممکنہ صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جانوروں کے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔

https://youtu.be/_veSLeyj4l4?si=u70A6ttAZju1pnQV کیا بلیک ہول واقعی ہر چیز کو نگل جاتا ہے؟ 🤔 کیا آپ کا خیال ہے کہ بلیک ہول ایک کائناتی بلا ہے جو کہکشاں میں کسی چیز کو بھی نہیں چھوڑتا اور سب کچھ اپنے اندر کھینچ لیتا ہے؟ اگر آپ کے ذہن میں بھی یہی سوالات ہیں، تو "سائنس کی دنیا" کی اس دلچسپ موضوع پر ریلیز ہونے والی یہ شارٹ ویڈیو ضرور دیکھیں! 🚀 یہ ویڈیو آپ کے سوالات کے جوابات دے گی اور بلیک ہول کے رازوں سے پردہ اٹھائے گی۔ 🌌 #سائنس_کی_دنیا #بلیک_ہول #کائنات_کے_رازلنک: https://youtu.be/_veSLeyj4l4?si=tzf-g4NeQnt1xQYO