Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:54 AM
سرپرائز 🌙عشق زادے سیزن تھری #"چاند آسمانوں سے لاپتہ" #حنا_اسد. #قسط_01 3540میٹر کے فاصلے سے ایک انوکھا شاٹ پیش کیا ۔۔جس میں پہلے ٹریگر کو کھینچا ،جو ایک خاص فاصلے کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔وہ اپنی سنائپر رائفل پہ رائفل سکوپ کے بجائے عام آئرن سائٹس استعمال کرتا تھا تاکہ دھوپ میں رائفل سکوپ کے شیشے کی چمک سے اس کی پوزیشن دشمن نہ جان سکے۔ آج اسے ایک آدمی کو مارنے کا کام سونپا گیا تھا ۔۔۔جس کی قیمت لاکھوں میں ملنے والی تھی ۔کیونکہ وہ خیبر پختونخوا کا ایک مشہور اور نیک سیاستدان تھا جو کچھ لوگوں کے کالے دھندوں میں رکاوٹ کا باعث بن رہا تھا ۔۔۔ان لوگوں نے ہی اسے یہ مشن دیا تھا ۔۔۔ جہاں سے اس پولیٹیشن نے گزرنا تھا۔اس نے پہلے اپنی پوزیشن تلاش کی اور اپنے ٹارگٹ کی لائنز کے سمت رخ کرکے اپنے رائفل سمیت نہایت مستعدی سے چوکس کھڑا تھا ایک گھنٹہ یونہی بیت گیا لیکن اس پولیٹیشن کا کہیں نام و نشان تک نہ ملا۔ یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کا وقت قریب تھا تو کافی فاصلے سے محض ایک لمحے میں اسکی جھلک دکھائی دی تو اس نے اتنے فاصلے پہ ہونے کے باوجود ماہرانہ انداز میں اسکی پوزیشن جان کر اپنا شاٹ لگایا ۔۔۔ بنا آواز کی گولی نے ایک ہی شاٹ میں اس کا کام تمام کردیا۔وہ پولیٹیشن خون میں لت پت اب زمین پہ پڑا تھا ۔۔۔اسکے اردگرد لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا ۔۔۔اس کے باڈی گارڈز بھی سمجھ نہیں پائے کہ آخر یہ گولی چلی کہاں سے تھی ۔۔۔پل بھر میں وہاں بھگدڑ مچی گئی ۔۔۔۔ انڈر ورلڈ میں اسے "سفید موت” کے نام سے جانا جاتا تھا ۔۔وہ نامعلوم فن سنائپر تھا جس کا آج تک کسی نے چہرہ نہیں دیکھا تھا ۔۔۔اس کا نشانہ کبھی چوکا نہیں تھا۔وہ کئی بڑے بڑے افسران کو مارنے کے باوجود بھی بےنشاں تھا۔آج تک کوئی اس سنائیپر کا سراغ نہیں لگا پایا تھا ۔۔۔۔آخر سب کو اپنے کمال مہارتی نشانے سے موت کی نیند سلانے والا یہ سنائیپر تھا کون "؟ اس سے پہلے کہ وہ اس مخصوص بلڈنگ سے اپنی رائفل لے کر نیچے اترتا ۔۔۔ اس کی عقابی نظر سامنے پڑی ۔۔۔۔ جہاں جدید اسلحے سے لیس پانچ سے چھ کار سواروں نے سی آئی ڈی سینٹر کی عمارت کے سکیورٹی گارڈز پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے بھی فائر کھول دئے۔ دو طرفہ فائرنگ کا یہ سلسلہ تقریباﹰ دس منٹ تک جاری رہا۔ سامنے والی سڑک پہ ایک آدمی اور عورت جو اپنی بیٹی کے ساتھ روڈ کراس کر رہے تھے ۔۔۔کہ اس بچی نے سامنے بنی بیکری سےکچھ لینے کی ضد پکڑی ۔۔۔۔اسکا والد دوسری سڑک پہ وہ لینے گیا ۔۔مگر اسکی اس بیکری والے آدمی سے بحث ہوگئی ۔۔۔۔ اس لڑکی کی ماں بھی اپنی بیٹی کو ساتھ لیے اسی طرف بڑھی جہاں اس کا شوہر جھگڑ رہا تھا ۔۔۔۔ اسی دوران دھماکہ خیز مواد سے لدھا ایک ٹرک اس بلڈنگ کے اندر داخل ہوا اور اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ دھماکہ اس قدر زور دار تھا کہ اس کی شدت سے عمارت کا سامنے کا حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اس دھماکے کی زد میں وہ میاں بیوی موقع پہ موت کی آغوش میں چلے گئے ۔۔۔ عورت نے مرنے سے پہلے دھماکے کی آواز سن کر بچی کو بچانے کے لیے دور دھکا دیا ۔۔۔وہ دور جا گری ۔۔۔ شاید خدا نے اسکی ابھی مزید زندگی لکھی تھی ۔۔۔۔ ان میاں بیوی کے جسم کے چیتھڑے اڑ گئے اس دھماکہ خیز مواد سے۔۔۔۔ وہ لڑکی زخمی حالت میں سڑک پہ خون سے لت پت پڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔ وہ دھماکہ اتنی شدید نوعیت کا تھا کہ اس دھماکے کی شدت سے پشاور کے متعدد علاقے لرز اُٹھے۔ جائے وقوعہ پر 15 سے 20 فٹ گہرا گڑھا بن گیا ہے۔ اس بلڈنگ کے ایک کلو میٹر کے علاقے پر قائم رہائشی مکانوں اور دفاتر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔وہ تیزی سے رائفل باکس لیے نیچے آیا اور اس سے پہلے کہ وہاں پولیس پہنچتی وہ وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا ۔۔۔ جیسے ہی وہ بلڈنگ سے نکل کر باہر آیا وہ چھوٹی لڑکی تقریبا دس سالہ بچی جس کے سر پہ گہری چوٹ لگی تھی اور خون کا فوارہ ابل رہا تھا ۔۔۔اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔ اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے کچھ سال پہلے کا منظر لہرایا ۔۔۔وہ بھی تو ایسے ہی بے یارو مددگار تھا ۔۔۔۔اسکی مدد کے لیے تب کوئی نہیں آیا تھا ۔۔۔۔ "مورے "!!! (ماں )وہ ہولے سے پکاری۔۔۔ اس کی کرب ناک آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔۔ اس بچی کی ہری کانچ سی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔وہ شاید پٹھانوں میں سے تھی ۔۔۔ اسکے سرخ وسفید چہرے پہ اب خون کی دھاریاں نمایاں ہو رہیں تھیں۔۔۔۔وہ دس قدم اٹھا چکا تھا ۔۔۔۔مگر پھر نجانے اسکے دل میں کیا سمائی ۔۔۔ اس دیو ہیکل وجود نے واپس مڑ کر اس زخمی بچی کو ایک ہاتھ سے اٹھا کر کندھے پہ ڈالا ۔۔۔۔پھر تیز تیز قدم اٹھاتا اس چاروں طرف پھیلے ہوئے اندھیرے میں غائب ہوگیا ۔۔۔۔۔ ********* رات گہری ہوچکی تھی۔۔۔! ہرطرف گہرا اندھیرا پھیل گیا باہر سڑکوں پہ جتنا اندھیرا تھا اس مشہور کوٹھے میں اتنی ہی روشنی اور جگمگاہٹ تھی ۔۔۔ وہاں تو اس وقت دن چڑھا تھا ۔۔۔اس وقت وہاں رنگ و نور کا سیلاب امڈ آیا تھا۔۔۔وہ نیلم باٸی کا بنگلہ نما کوٹھا تھا۔۔۔۔۔ آج کوٹھے کو خاص طور پر سجایا گیا تھا،یہ جگہ شہر سے دور اک پرسکون کالونی میں تھی۔ یہ اس کالونی کا واحد بنگلہ تھا جو اتنا بڑا اور خوبصورت تھا،اس کے آس پاس صرف چند اک گھر ہی بنے تھے ۔۔۔رات کے وقت اس بنگلے کے باہر گاڑیوں کا رش بڑھ جاتا تھا اور تماش بین کا آنا جانا ساری رات ہی لگا رہتا تھا۔ اس بنگلے کا اندرونی منظر بھی بڑا دلکش تھا۔!ہر طرف گہماگہمی تھی۔۔رنگین آنچل ہر سو لہرا رہے تھے۔ کہیں سے چوڑیوں کی کھنک آرہی تھی تو کہیں گھنگھروں کی چھنکار ' کہیں سے طبلے کی زور دار تھاپ سناٸی دے رہی تھی ' ۔اس بنگلے کا مین ہال بھی بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔۔جہاں ہر رات محفل سجائی جاتی تھی ۔۔۔اس ہال میں فرش پہ دبیز قالین بچھا کر اس پہ گاٶ تکیے لگاۓگٸے تھے،درمیان میں رقص کے لیے جگہ خالی چھوڑ دی گٸی تھی۔۔ ہر کوٸی اپنے اپنے کام میں مصروف تھا کیوں کہ آج چاندنی جو کہ اس کوٹھے کی سب سے حسین لڑکی تھی نیلم بائی اس ہیرے کو حاضرین محفل کے سامنے پیش کرنے والی تھیں۔۔۔۔ وہ پچھلے دو ماہ سے اس نئی لڑکی پہ محنت کر رہی تھی ۔۔۔مگر وہ تھی کہ نیلم بائی کا دھندہ کرنے سے انکاری تھی ۔۔۔نیلم بائی کے ٹارچر کرنے کے بعد وہ صرف رقص کرنے پہ راضی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ان دو ماہ میں اس نے رقص کی خوب پریکٹس کی تھی ۔۔۔ آج اس کی اس کوٹھے میں رونمائی تھی اس محفل میں سب کو مدعو کیا گیا تھا ۔۔۔ سب لڑکیاں اس کے حسن سے خائف ہوئے ،حسد اور جلن سے چاندنی سے مزید خوبصورت بننے کے چکروں میں چہروں پہ میک اپ کی مزید تہیں چڑھا رہی تھیں۔۔۔۔کچھ لڑکیاں رقص کی پریکٹس کر رہی تھیں ان کے گھنگھروں کی جھنکار ، طبلے کی تھاپ اور گانے کی آوازیں اس کوٹھے کے کونے کونے میں پھیل رہی تھی ۔۔۔ نیلم باٸی درمیانے قد کی ، قدرے صاف رنگت اور مظبوط جسامت کی مالک عورت تھی جو اکثر منہ میں پان کی گلوری دبائے اگالدان میں پان کی پیک پھینکتی رہتی اور لڑکیوں پہ نظر رکھے ان پر حکم چلاتی رہتی تھی ۔۔۔غرارے میں ملبوس وہ عورت انتہائی شاطرانہ انداز سے یہ کوٹھا چلا رہی تھی ،۔ناچ گانا اس کا پیشہ تھا اس کے پاس کئی لڑکیاں تھیں۔جن میں چاندنی بھی شامل تھی، چاندنی نہیں جانتی تھی کہ وہ یہاں کیسے پہنچی ۔۔۔اسے اپنی پہلے کی زندگی کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔ بس اتنا ہی یاد تھا کہ جب اس کی آنکھیں کھلیں اس نے خود کو اس کوٹھے میں پایا ۔۔۔چاندنی بہت زیادہ خوبصورت بھی۔نیلم بائی کا دھندا پچھلے دنوں بہت ماند پڑ گیا تھا اسی لیے اس نے چاندنی کو بازار حسن کی زینت بنانے کے لیے آج محفل میں پیش کرنا تھا۔۔۔ رات ہوتے ہی کوٹھے پر مہمان آنا شروع ہوچکے تھے۔نیلم بائی نیلم بائی مہمانوں کا استقبال کر رہی تھی ۔اسے پتہ تھا کہ چاندنی اس سب کے لیے دل سے راضی نہیں مگر اس نے چاندنی سے اس بار منت سماجت کی تھی کہ اگر اس نے ایسا نا کیا تو اسکی وجہ سے وہاں موجود باقی ساری لڑکیاں بھی بھوکی مر جائیں گی ۔۔۔اس سے پہلے کہ نوبت فاقوں تک پہنچے ۔وہ اس کے ڈوبتے ہوۓ دھندے کو بچانے لے۔۔۔۔ چاندنی تیار ہو چکی تھی قندھاری انار جیسے سرخ لہنگے میں اس کی گوری رنگت دمک رہی تھی۔اس نے آج پہلی بار اتنا ہیوی ڈریس پہنا تھا ۔۔۔اپنے بھورے گیسوؤں کو کرلز کیے پشت پہ کھلا چھوڑا ۔۔۔پھر اپنے یاقوتی لبوں پر سرخ رنگ کی لپسٹک لگائے ہوئے تیز بلش آن اور مسکارا لگا کر آج اتنا بھڑکیلا میک کیا تھا کہ وہ خود کو بھی پہچان نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔ تبھی نیلم بائی کی خاص اور پرانی لڑکیاں اندر آئیں تو اس کے نوخیز حسن کو دیکھ کر حسد بھری اور ستائشی نظروں سے دیکھنے لگیں۔ "نیلم بائی نے یہ گجرے بھیجے ہیں یہ بھی پہن لو "انہوں نے چاندنی کی طرف گجرے بڑھائے جن کو اس نے اپنے مومی بازوؤں میں پہن لیا ۔۔۔اور چل کر باہر کی طرف آئی ۔۔۔ اپنی مخصوص نشست پر وہ ہال نما کمرے میں آکر ایک نشست پہ براجمان ہو گیا ۔۔۔ اس کا دھیان وہاں موجود رنگ برنگی سجی سنوری ہوئی طوائفوں پہ نہیں تھا ۔۔۔اسے انتظار تھا تو اس کا جس کی تلاش میں وہ آج اس گندگی میں پہلی بار آیا تھا گراہک بن کر ۔۔۔۔ جیسے ہی چاندنی دروازے کے اوٹ سے نمودار ہوئی اس مومی مجسمے کے وجود سے پھوٹتی چاندنی جیسے ہر سو بکھر گئی ۔۔۔ سب حاضرین کے منہ کھل گئے ۔۔۔انکے منہ میں سے رال ٹپکنے لگی اسے یوں سجا سنوارا دیکھ کر ۔۔۔۔ایک پل کے لیے تو امرام شیر بھی ٹھٹھکا ۔۔۔۔ امرام شیر نے ایک جانچتی ہوئی نگاہ اس پہ ڈالی ۔۔ اس کی گہری نظروں کی تپش تھی جو چاندنی نے نگاہ اٹھا کر اس سمت دیکھا جہاں امرام گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے براجمان تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں کی وارفتگی محسوس کیے وہ پل بھر میں آنکھوں کا زاویہ بدل گئی ۔۔۔ "مسمرائزنگ " وہ سگریٹ کا مرغولہ ہوا میں اچھالتے ہوئے دبی آواز میں بولا دھوئیں کے اس پار اسے چاندنی کا جگر جگر کرتا وجود دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ وہ اپنے سرخ و سفید شفاف پاؤں جن میں خوبصورت پازیب بندھی ہوئیں تھیں وہ پہنے سہج سہج کر ادا سے قدم اٹھاتے ہوئے عین ہال کے وسط میں آ کے رکی ۔ تمام حاضرین محفل کی نگاہیں اس حسن کے شاہکار پہ جمیں تھیں, وہ ندیدے پن سے اسے دیکھ رہے تھے۔ وہاں موجود طبلہ نواز استاد نے ساز چھیڑا ۔۔۔ "ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں ۔ ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں۔ چاندنی نے اپنی خوبصورت آواز میں سماں باندھ دیا۔۔۔ ساتھ ساتھ اسکا نازک جسم سازوں پہ تھرک رہا تھا ۔۔۔چاروں طرف گھنھرووں کا شور مچا ہوا تھا ۔۔۔ اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں گانے کے بول ادا کرتے ہوئے وہ امرام کی طرف دیکھ کر آداب کرتے ادا سے پلٹ گئی ۔۔۔ اسکی مونچھوں تلے عنابی لبوں پہ مسکراہٹ بکھری ۔۔۔ اک صرف ہمیں مے کو آنکھوں سے پلاتے ہیں ۔ کہنے کو تو دنیا میں میں ،مے خانے ہزاروں ہیں ۔ سب شوقین آدمیوں نے چاندنی پہ نوٹوں کی برسات کردی ۔۔۔۔ ********** رمشا اپنے کمرے کے ٹیرس میں کھڑی گہری تاریکی میں چمکتے اس خوبصورت چاند کی آنکھوں کو خیرہ کردینی والی چمک دیکھ رہی تھی ۔جو اس گہری رات کے اندھیرے کو حسن بخش رہا تھا ۔ دروازہ ناک ہونے کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا تو زُخرف اپنے مخصوص انداز میں دروازے کو ناک کیے کمرے میں داخل ہو رہی تھی. " تمہیں ناک کرنے کی ضرورت کب سے پڑنے لگی.." وہ ہلکے پھلکے انداز میں مسکرائی تو زخرف بھی کھل کر مسکرائی دی۔ " میں نے سوچا تم کہیں اپنے انہوں کی سوچوں میں مصروف نا ہو ۔اپنے آنے کی اطلاع دی تاکہ اپنے اُن کی سوچوں سے باہر نکل آؤ .." وہ "ُان پہ زور دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ "اونہہہ۔۔۔۔رمشا نے اسے یوں چھیڑنے پہ سخت گھوری سے نوازا ۔۔۔ " کوئی کام تھا..؟" اب اس کا انداز نرم تھا . "رمشا وہ مما کہہ رہی ہیں کہ آج تم یونیورسٹی سے چھٹی کرلینا اور اچھا سا تیار ہوجانا " "کیوں خیریت ؟ اس نے اچنبھے سے دیکھا ۔۔۔ "کل "ایان بھائی "کے گھر سے سب آ رہے ہیں " وہ اسکے شانے پہ تھوڑی رکھ کر بولی ۔۔۔۔ "ہائے ۔۔۔۔رے میری شرمیلی سی بہنا ۔۔۔۔بنا دیکھے گال گلال ہوگئے کل آمنے سامنے تو تم نے ٹماٹر بن جانا "وہ شرارتی انداز سے رمشاء کو چھڑنے لگی ۔۔۔ "تمہارا وقت بھی قریب ہے ،پھر دیکھوں گی تمہیں بھی "وہ پیار بھری دھمکی دے رہی تھی ۔۔۔۔ "ہائے میں تو کہتی ہوں کل کا وہ آنے والا دن آج آ جائے اور میرا فوجی میرا رشتہ لے کر ۔۔۔۔نا۔۔نا۔۔۔بلکہ ڈائیریکٹ بینڈ باجا بارات لے کر جلد سے جلد آئے اور مجھے رخصت کروا کر اپنے سنگ لے جائے ۔۔۔۔ وہ حسرت بھری آہ بھر کر ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولی ۔۔۔۔ "کہیں آ ہی نا جائے تمہارا فوجی ۔۔۔۔۔۔۔۔رمشا اس کا مذاق اڑانے لگی ۔۔۔۔ اب کی بار گھورنے کی باری زُخرف کی تھی ۔۔۔ وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ "یار امرام شیر بھائی کے خواب دیکھنا بھول جاؤ ۔۔۔وہ تو تمہاری طرف دیکھتے بھی نہیں "رمشا نے اسے کڑوی سچائی سے روشناس کرایا۔ "رمشا تم ہی میری مدد کرو نا یار اس کھڑوس فوجی کو پٹانے میں " "چل ہٹ !!! تجھے کیا میں ایسی لگتی ہوں ۔۔۔؟وہ ڈپٹنے کے انداز میں بولی ۔۔۔ "دوست دوست نا رہا پیار پیار نا رہا ۔۔۔۔ زندگی ہمیں تیرا اعتبار نا رہا !! وہ درد بھری آواز میں گانا گانے لگی ۔۔۔ "زخرف۔ !! سدھر جا ۔۔۔ "تجھے کبھی کسی سے پیار نہیں ہوا نا اسی لیے تو میری فیلنگز سمجھ نہیں سکتی ۔وہ چہرے کے زاوئیے بگاڑ کر خفگی سے بولی ۔ "رمشاء اگر تیری شادی اس ایان سے نا ہو جس سے بچپن میں تیرا رشتہ طے ہوچکا ہے تو تیرا دل ٹوٹے گا نا ۔۔۔۔؟؟؟ اس نے رمشا کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔۔۔ رمشا نے بگڑے تیوروں سے اس کی طرف دیکھا ۔ "مجھے بھی بالکل ایسے ہی برا لگتا ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھے امرام شیر نہیں ملے گا " وہ کہنے کیا آئی تھی اور لڑ جھگڑ کر پاؤں پٹختی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔۔ رمشا نے اسے جانے دیا ۔۔۔کیونکہ اسے پتہ تھا کہ دس منٹ بعد وہ واپس اسی کمرے میں ہوگی ۔۔۔دونوں کا ایک دوسرے کے بنا گزارہ جو نہیں تھا۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙 کیسی لگی پہلی قسط ؟ ضرور بتائیے گا 🥰 اگلی قسط آپکے رسپانس پر جلد ہی 💝
❤️ 👍 😢 😂 🙏 🌹 🌺 😮 🙂 🫀 84

Comments