Novels Ki Duniya📚🌐🖤 WhatsApp Channel

Novels Ki Duniya📚🌐🖤

53.1K subscribers

About Novels Ki Duniya📚🌐🖤

Similar Channels

Swipe to see more

Posts

Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 5:17:00 AM

میں ہی نہیں ،... میرے فون کا " کی بورڈ " بھی تُمہارا عادی ہو چُکا ہے ۔ "... " جو فقرے جو باتیں میں صرف تُم سے کہنے کی عادی ہوں .... وہ عادتاً ٹائپ کروں تو " پریڈکشن " میں فوراً اُن الفاظوں کے بعد تُمہارا نام نمودار ہونے لگتا ہے ۔ "... " اور میں یہ دیکھ کر مُسکرا پڑتی ہوں ۔ " " میرے " کی بورڈ " میں تُمہارے نام کا محفوظ ہونا مُجھے میری مُحبت کے ہر گُزرتے لمحے کے ساتھ تُمہارے نقش میرے دِل و دِماغ میں اور بھی گہرے ہوتے جاتے ہیں ،... اور یہ دیکھ کر دِل جیسے سرشار سا ہو جاتا ہے ۔ #shrarti_Churail

❤️ 👍 😢 😮 🫀 🙏 💋 😂 ♥️ 🌹 158
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 5:15:56 AM

ناول نیم؛؛؛ زندگی تجھے جی نہیں رھے گزار رھےہیں ہم؛؛؛ رائٹر نیم؛؛؛ فاطمہ زیڈ ڈی؛؛؛ لاسٹ ایپسوڈ (32) اگلے دن فجر کے قریب حرا کو ہوش آگی تھی مگر جب اسے اپنی ٹانگیں ضائع ہونے کا معلوم ہوا تو وہ اپنے ہوش و حواس کھونے لگی ڈاکٹرز نے مشکل سے اسے واپس انجیکشن دے کر سلا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرشاہ کو رات میں ہی ہوش آگی تھی اپنی بیٹی کی تکلیف پر تڑپ اٹھے تھے ہوسپٹل کے بیڈ پر پڑے رو دیے تھے وہ مرد تھے دھاڑے مار کر نہیں رو سکتے تھے مگر ایک باپ بھی تھے جو بیٹی کی تکلیف پر تڑپتے رودیے۔۔۔۔۔۔ منہا ساری رات منتہا کو گود میں لیے میرشاہ کے پاس بیٹھی رھی زیادہ ٹینشن لینے سے ان کی طبیعت بگڑ سکتی تھی اس لیے ڈاکٹر نے ان کو انجیکشن دیتے سلا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہفتے بعد ان کو ڈسچارج مل گیا تھا اس ایک ہفتے میں منہا نے خاموشی سے ان کا بھرپور خیال رکھا ۔۔۔۔۔۔۔ آج ڈسچارج ہو کر دونوں گھر آگے تھے حرا تو اپنے کمرے میں بند ہو گی تھی جب کے میرشاہ جھکے سر کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ابو جی کچھ کھانے کو لاوں آپ کے لیے منہا نے دھیمےلہجےمیں آہستہ سے پوچھا۔۔۔۔۔۔ نہیں بہو مجھے بھوک نہیں کہتے اپنی بےساکھی کے ذریعے روم میں چلے گے۔۔۔۔۔۔ منہا خاموشی سے اپنے روم میں منتہا کے پاس چلی گی اتنے دن کی بے خوابی کی وجہ اسے بہت نیند آرھی تھی اس لیے منتہا کو سلاتے خود بھی سو گی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ نیند بس کچھ دیر کی تھی جب پھر سے وہی خواب آنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں چچ۔چھوڑیں مم۔مجھے مرنا چچ۔چھوڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ منہاآہستہ آہستہ نیند میں بڑبڑا رھی تھی روم میں آتے حدید نے اسے ایسے سوتے میں کچھ کہتے دیکھاتو قریب جا کر غور سے سنے لگا۔۔۔۔۔۔ منہا کے الفاظ جیسے ہی حدید نے سنے شاک سا دیکھتا رھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ مم۔مجھے مرنا ہے چچ۔چھوڑیں مجھے مرنا ہے منہا نیند میں مسلسل اپنے آپ کو نقصان دینے کی کوشش کرتے ہوئے بول رھی تھی ۔۔۔۔۔۔ حدید نے مضبوطی سے اس کے ہاتھ پکڑتے اسے اپنے مضبوط حصارے میں جکر لیا مگر وہ پھر بھی مسلسل مزحمت کر رھی تھی جب حدید جھک کر اسے کے کان کے پاس بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ ریلیکس ماہی بس کچھ نہیں ہوا ریلیکس میری جان ۔۔۔۔۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کر رھا تھا جس سے وہ ہو بھی گی دھیرے دھیرے مزحمت کرتا اس کا وجود ڈھیلا پڑنے لگا اور کچھ ہی دیر میں وہ واپس نیند میں چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے پرسوچ انداز میں اسے دیکھ رھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ سوچتے اپنا فون نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کرتے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں منہا کے پاس جانا چاھیے وہ بہن ہے ہماری ہم اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتے بھائی مہران نے اصطرابی کیفیت میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم مجھے بھی لگتا ہے ہمیں معافی مانگنی چاھیے اس سے منانا چاھیے اسے اسے اعتماد میں لے کر اس جنگلی کے چنگل سے نکالنا چاھیے ورنہ ایسے تو وہ مار دے گا اسے الحان نے مہران کی ہاں میں ہاں ملاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں مجھے نہیں لگتا وہ اب حدید سے الگ ہونا چاھے گی زوبیہ نے اپنی رائے دیتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ چلو دیکھتے ہیں اس کی طرف چلنے کی تیاری کرو باقی جو اس کی خوشی ہو گی ہم وہی کرے گے اگر وہ ہاں رھنا چاھیے تب بھی اگر نہیں رھنا چاھیے تب بھی اب ہم اسے اس کے کسی فیصلے میں اسے اکیلا نہیں چھوڑے گے نا زبردستی اپنا فیصلہ اس پر تھوپے گے الحان نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔ اگلے دن ہی وہ لوگ منہا کے گھر موجود تھے۔۔۔۔۔۔ تم لوگ کیوں آئے ہو یہاں اگر منہا کو پٹی پڑھا کر ساتھ لے جانے آئے ہو تو یہ خیال اپنے ذہن سے نکال دو وہ نہیں جائے گی ان کو دیکھتے حدید سرد لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو حدید ہم یہاں کوئی جھگڑا نہیں کرنے آئے ہم بس اپنی بہن سے ملنے اور اس سے معافی مانگنے آیے ہیں الحان نے صلح جو انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم ٹھیک ہے لیکن اسے کوئی بھی غلط مشورہ دینے سے پرہیز کرنا حدید نے ورننگ دیتے کہا۔۔۔۔۔۔ میں بولاتا ہوں اسے حدید کہتے روم میں چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ پکا اسے پٹی پڑھا کر لائے گا ڈرا دھمکا کر اپنے حق میں فیصلہ کرنے کا بول کر لائے گا دیکھ لینا حوریہ نے آہستہ سے مہران کے کان میں سرگوشی کرتے کہا۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے مہران نے پرسکون انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔ اسلام علیکم منہا نے وہاں آتے سب کو مشترکہ سلام کرتے دھیمےلہجےمیں کیا۔۔۔۔۔۔ کیسی ہو منہا الحان نے اٹھ کر اسے اپنے ساتھ لگاتے کہا ۔۔۔۔۔ ان کے اس انداز پر منہا کی آنکھیں نم ہونے لگی مگر خود پر ضبط کیے بیٹھ گی ۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہوں بھائی منہا نے دھیمے لہجے میں نظریں جھکائے ہی جواب دیا۔۔۔۔۔۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا یہ پہلے والی منہا تو نہیں لگی ان کو جو ہمشہ سر اٹھا کر بات کرتی تھی اگلےبندے کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیتی تھی۔۔۔۔۔ منہا ہم یہاں تم سے معافی مانگنے آیے ہیں الحان نے دھیمے لہجےمیں کہا اور پھر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ بھائی مجھے کسی سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے منہا نے گہرا سانس لیتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو اندر سے مار کر معافی مانگنا اتنا آسان ہے کیا منہا نے دکھ سے سوچا۔۔۔۔۔۔۔ منہا ہم مانتے ہیں ہم سے غلطی ہوئی مگر اب ہم اپنی غلطی سدھارنا چاھتے ہیں الحان نے اسے دیکھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ مطلب کیسے سدھارے گے منہا نے ایک آی برو اٹھاتے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا تم جو چاھو گی وہی ہو گا اگر تم چاھو تو ہم تمھیں یہاں سے نکال کر لے جائے گے جو تمھارا فیصلہ ہو گا اب وہی ہو گا ہم تمھارے ساتھ ہیں اب تمھیں اکیلا نہیں چھوڑے گے مہران نے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ بھائی آپ لوگ یہاں آئے مجھ سے معافی مانگی اتنا سوچا میرے لیے بہت ہے یہی مگر معذرت مجھے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں رھی میرے لیے میرا اللہ کافی ہے منہا نے دھیرے سے کہنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ تب کہاں تھے آپ لوگ جب مجھے آپ سب کی ضرورت تھی جانتے ہیں اس وقت پل پل میں نے آپ لوگوں کو یاد کیا کتنا پکارا تھا مگر آپ سب نہیں تھے آپ لوگوں نے مجھ پر میری عمر سے زیادہ ذمیداری ڈال دی چھوٹی عمر میں سسرال جیسے رشتوں میں جکڑ دیا اپنی ذمیداری پوری کر کے جان چھوڑا لی اور مڑ کر نہیں دیکھا زندہ بھی ہوں یا مر گی کیوں بھائی اتنی بوجھ تھی آپ پر میں اس کم عمری کی شادی میں بہت کچھ سہہ ہے بھائی اپنی عمر سے زیادہ برداشت کیا ہےبھائی منہا کا لہجہ دھیما تھا مگر کرب لیے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ جو عمر کبھی ہسنے کی رنگوں کو خوشیوں کو جینے کی تھی وہ میں نے اندھیروں اور اذیت میں گزار دی ہے اب میرے پاس بھولے سے بھی کوئی خوشی نہیں ہے کبھی مسکرا کر نہیں دیکھا ان سالوں میں ہسنے کا تو مطلب بھی بھول گی ہوں کہا کچھ نہیں تھا اس کے کرب زدا لہجے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ سب کے لیے معافی مانگنا اتنا آسان ہے تو جائیں میں نے معاف کیا اگر آپ سب کے معافی مانگ لینے سے آپ لوگ میرے تین سال لوٹا سکتے ہیں تو جائیں میں نے معاف کیا کیا کر سکتے ہیں میرے ان تین سالوں کی تکلیف کم میری اذیت ختم کرسکتے ہیں منہا نے پوری بات میں پہلی بار سر اٹھا کر ان سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔ کتنا آسان ہے آپ سب کے لیے معافی مانگ لینا آپ کو کیا لگتا ہے معافی مانگ لینے سے سب ٹھیک ہو جائے گا میری اذیتیں ختم ہو جائیں گی نہیں بھائی کچھ نہیں ٹھیک ہو گا میں تو ختم ہو چکی ہوں اب کچھ نہیں بچا میرے پاس سوائے ان چند سانسوں کے منہا نے تکلیف سے آنکھیں میچتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پورے لاونچ میں خاموشی چھا گی تھی پیچھے کھڑا حدید اپنی جگہ بلکل سن ہو گیا تھا سب سکتے کی سئ کیفیت میں اسے سن رھے تھے میرشاہ اپنے روم کے دروازے میں سر جھکائے کھڑے تھے تو حرا نے بھی نظریں جھکا لی تھی سامنے بیٹھے بھائی بھابھیوں نے بھی نظریں جھکا لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سب لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے سردیوں کی بارش میں رات گزارنے کی تکلیف آپ سب نہیں سمجھ سکتے ڈرگز لینے کی تکلیف نا آپ سب انجیکشن لینے کے بعد ددر سے کراتے جسم کی تکلیف سمجھ سکتے ہیں کیوں کے جس پر گزرتی ہے نا اسے پتہ ہوتا ہے آپ سب تو معافی مانگ کر سائیڈ ہو جاو گے مگر میں کیسے بھولا پاوں گی ان اذیت میں گزرے لمہوں کو جو رات دن مجھے ڈراتے ہیں ہے کوئی ان کا حل تو بتائیں منہا نے پھر سے نظریں اٹھا کر سب کو دیکھا جن کے سر جھک گے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرت بھائی میں آپ سب کو شرمندہ نہیں کرنا چاھتی تھی مگر میں معاف بھی نہیں کر سکتی آپ لوگ جائیں مجھے چھوڑ دیں میرے حال پر مجھے نہیں ضرورت اب کسی کی مجھے عادت ہو گی ہے اکیلے پن کی رھنے دیں اب اکیلی پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت کہتے آہستہ سے اٹھ کر اپنے روم کی جانب بڑھ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سامنے کھڑے حدید کو دیکھا میں روم میں ہوں سائیں جانتی ہوں آپ کو اب کافی غصہ آیا ہوا ہے مجھ پر میں تیار ہوں ہر سزا کے لیے اور ہاں میرا یہئ نصیب تھا میں اسی میں خوش ہوں اپنے شوہر کے گھر ان کو چھوڑ کر کہی نہیں جانا مجھے پلئز آپ لوگ بھی اب یہ خیال نکال دیں اپنے دلوں سے مڑ کر اپنے بھائیوں سے کہتی نظریں جھکاتے روم میں چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کی بات نےجیسے حدید کی روح کو جھنجھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان لوگ خاموشی سے کسی ہارے ہوئے کی طرح اٹھ کر چلے گے میرشاہ بھی اپنے میں بند ہو گے حرا بس خالی خالی نظروں سے اس صوفے کو دیکھ رھئ تھی جہاں منہا بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے مڑ کر کمرے کے بند دروازے کو دیکھا اور باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید کافی رات کو گھر آیا تھا میرشاہ اور حرا لاونچ میں بیٹھے تھے حدید ان کو دیکھتے وہی آکر بیٹھ گیا سر جھکا ہوا تھا وہ ہار چکا تھا سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید۔۔۔۔ میرشاہ نے آہستہ سے پکارہ ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں بابا جان آپ نے مجھے نہیں روکا کیوں ہوں میں ایسا آپ میرا علاج کروا سکتے تھے مگر نہیں کروایا کیوں بابا جان دیکھیں میں نے جس کو اپنے آپ سے بڑھ کر چاھا اسی کو برباد کر دیا اسی کو تکلیف میں رکھا وہ ڈپریشن کی مریضہ بن گی ڈاکٹر کہتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ شاید ٹھیک ہو جائے مگر مجھ سے اس کی حالت برداشت نہیں ہو رھی بابا جان حدید کسی ہارے ہوئے کی طرح بول رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو بیٹا میں تم دونوں کی اچھئ تربیت نہیں کر سکا میرشاہ شرمندگی سے بولے۔۔۔۔۔۔ سہی کہا آپ نے ہمیں برباد کیا ہے ابا اگر آپ ہمیں غلط سہئ کا بتاتے تو آج ایک معصوم کی زندگئ ایسے برباد نا ہوتی حرا نے دکھی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔ حدید خاموشی سے اٹھ کر روم میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ باپ بیٹی وہی بیٹھے اپنی غلطیوں پر ماتم کناہ رھے۔۔۔۔۔ حدید روم میں داخل ہوا تو وہ صوفے پر بیٹھے سو رھی تھی جیسے انتظار کرتے سو گی ہو حدید آہستہ سے چلتے اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ بغور اسے دیکھتا رھا پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے بال پیچھے کرتے ماتھے پر جھک کر بوسہ دیا۔۔۔۔۔ منہا نے نیند میں کسی کی موجودگی محسوس کرتے آہستہ سے آنکھیں واک کی تو سامنے حدید کو دیکھ کر ڈر گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سس۔سائیں وو۔وہ میں سس۔سوری سائیں منہا کو سمجھ نہیں آرھی تھی کیا کہے کیا بولے تب تو غصے میں سب بولتی چلی گی تھی مگر اب حدید کے سامنے ساری بہادری ہوا ہو گی تھی خوف سے کانپتے خود میں سمٹنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے آہستہ سے کھینچ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔ ایم سوری ماہئ ایم رئیلی سوری میں جانتا ہوں میرے یہ الفاظ تمھاری تکلیف کم نہیں کر سکتے مگر اب میں سب ٹھیک کر دو گا تمھارے گزرے سال تو واپس نہیں لا سکتا مگر باقی کی زندگی میں اتنی خوشیاں بھر دوں گا کہ تم سب بھول جاو گی حدید اس کے کان کے قریب سرگوشیاں میں بولا۔۔۔۔۔۔ منہا کچھ دیر تو ساکت رھ گی پھر جانے کہاں سے ہمت آئی دھکا دے کر اسے خود دور کرتے کھڑی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سمجھ رکھا ہے آپ سب نے مجھے کھلونا ہوں کوئی جیسے چاھیے کھیلتے رھیں گے جانتے بھی ہیں میری اذیتیں کتنی ہیں آپ تو بس تکلیف دیتے تھے جسم پر مگر آپ کی دی تکلیف سے زیادہ میری روح زخمی ہوتی تھی اتنے زخم شاید آپ نے میرے جسم پر نہیں دیے ہو گے جتناروح کو چھلنی کر دیا ہے منہا کی آنکھوں آنسوؤں کی نم تھی مگر اس نے ایک بھی آنسو بہنے نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانتا ہوں تمھارے لیے آسان نہیں ماہی مگر میں کوشش کروں کا ان زخموں کو بھرنے کی حدید نے ندامت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ یہ سہی رھا شاہ سائیں پہلے انسان کو زندہ مار دو پھر اسے زندگی کی نوید سناو آپ کو لگتا ہے مرا ہوا انسان دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے منہا نے تلخی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید آہستہ اٹھ کر اس کے سامنے آیا تم اب جو کہو گی جو کرو کی میں خاموشی سے سنا کروں گا تمھاری یہ نفرت برداشت کرلوں گا تمھاری اس نفرت کو محبت میں بدلنے کی کوشش کروں ہر خوشی دوں گا تمھیں اب جب تمھارا دل کرے معاف کرنے تب معاف کر دینا میں تمھیں معاف کرنے کا نہیں کہوں گا شاید میرے کیے کی یہی سزا ہے حدید نے سر جھکائے کہا۔۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی ڈرامہ یا کہانی نہیں شاہ سائیں جس میں سب کر کے آخر میں ہیپی اینڈینگ ہو جائے حقیقی زندگی ہے اور میری نفرت کبھی نہیں بدلے گی ہاں اس زندگی سے سمجھوتہ کر لیا ہے بس منہا نے تھکے سے انداز میں نیچے بیٹھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تمھاری یہ نفرت ساری زندگی بھی برداشت کرنی پڑی کروں گا ماہی بس مجھے چھوڑ کر مت جانا پلیز حدید نے اس کے سامنے ہی نیچے بیٹھتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے حیرت سےسامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھا جو ہمشہ اسے اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا جس کو اس کا اپنے قدموں میں بیٹھنا پسند تھا اپنے سامنے جھکاتا آیا تھا تین سال سے آج اس کے برابر نیچے بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ سائیں آپ کچھ بھی کر لیں میرے دل میں اب پہلے والا مقام نہیں پاسکتے اس لیے میری طرف سے اجازت ہے آپ ابوجی کے کہے مطابق شادی کر لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں کہتے منہا اٹھ کر جانے لگی جب حدید نے اس کا بازو پکڑتے اپنے طرف کھینچا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اپنے ذہن سے نکال دو ماہی میں کبھی دوسری شادی نہیں کروں گا تم چاھیے ساری عمر مجھے نفرت دیتی رھو پھر بھی کسی اور کا ہاتھ نہیں پکڑوں گا۔۔۔۔۔۔۔ تو ٹھیک ہے پھر رھیں انتظار میں مگر اب آپ کو میرے اس کھوکھلے وجود کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا کہتے وہ اٹھ کر واش روم میں بند ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید وہی بیٹھے اسے دیکھتے رھ گیا جو کبھی بہت نرم دل ہوا کرتی تھی آج دل کے ساتھ خود بھی پتھر بن گی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔۔۔۔ حدید آفس کے لیے تیار ہو رھا تھا جب اس کا فون رنگ ہونے لگا۔۔۔۔۔۔ ہیلو حدید میں ارحم بول رھا ہوں یار رمیز پر کسی نے اٹیک کیا ہے ارحم نے دکھ سے بتایا۔۔۔۔۔۔۔ واٹ۔۔۔۔ اب کیسا ہے حدید نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔۔ بہت بری حالت ہے اٹیک کرنے والوں نے تیزاب پھینکا ہے چہرے پر آدھا چہرا جل گیا ہے بہت شاک لگا ہے جب ہوش آتا ہے پاگلوں کی طرح چیخنے لگتا ہے ڈاکٹر کہہ رھے ہیں اگر ایسے ہی رھا تو یا پاگل ہو سکتا ہے یا پھر ڈپریشن میں چلا جائے گا یار ارحم افسردہ سا بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔ او گاڈ حدید بس اتنا ہی کہہ پایا تھا اور خاموشی سے فون رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی حدید نے چائے کا کپ رکھتی منہا کو آہستہ سے پکارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔ وہ رمیز یاد ہے تمھیں حدید نے ایک نظر اسے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ کون رمیز منہا نے نا سمجھی سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔ میرا دوست تھا ایک حدید نے چائے کا کپ اٹھاتے لہجہ سرسری رکھتے بتایا۔۔۔۔۔۔۔ اچھا مجھے نہیں پتہ منہا لاوپرواہی سے کہتے بیڈ کی شیٹ سیٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ ماہی میں علاج شروع کروا رھا ہوں اپنا کچھ دیر بعد حدید نے پھر اسے مخاطب کیا۔۔۔۔۔۔ ہہم جیسے آپ کو بہتر لگے منہا کہتے اب ڈریسنگ کی چیزیں سیٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ حدید خاموشی سے چائے پیتے سوچنے لگا سچ میں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اس نے ایک پاک دامن پر تمہت لگاکر اس کی زندگی عذاب بنوا دی تھی آج اسی کا انجام بھگت رھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرشاہ اور حرا نے بھی منہا سے معافی مانگنی چاھی تو منہا نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی ۔۔۔۔۔۔ ابو جی میں کون ہوتی ہوں معاف کرنے والی اللہ کی ذات بڑی ہے اس سے معافی مانگیں اللہ آپ دونوں کی مشکل آسان کرے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بیٹا تم ہمیں معاف کر دو گی تو شاید خدا بھی معاف کردے جب خدا کے بندے معاف نہیں کرے گے تو خدا بھی نہیں کرے گے میرشاہ نے ندامت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ لوگ مجھ سے معافی کی امید کر رھے ہیں تو معذرت میرا ظرف اتنا بڑا نہیں ہے کہ معاف کر سکوں اس لیے میں نے خدا پر چھوڑ دیا ہے آپ لوگ اللہ پاک سے مانگیں بے شک وہ ذات رحیم ہے رحمان ہے دو ٹوک لہجے میں کہتی وہ چلی گی تھی ان کو ندامت کے گہرے گڑے میں گرا کر اور وہ لوگ اپنی غلطیوں پر شرمندگی سے سر جھکا کر رھ گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (دوسال بعد) منہا منتہا کو ناشتہ کروا رھی تھی پاس ہی میرشاہ بیٹھے اخبار دیکھ رھے تھے ان کے ساتھ ہی حرا اپنی ویل چیئر پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ماہی یار جلدی سے ناشتہ دے دو مجھے لیٹ ہو گیا ہے حدید نے عجلت میں کہا۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔۔ منہا آج بھی خاموشی سے سب کے کام کرتی تھی مگر اب سب کچھ بدل گیا تھا جہاں کبھی غرور تکبر سے سب حکم چلاتے تھے آج نرمی عزت نے لے لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ملازمہ سے بھی کہہ سکتے ہو دیکھ نہیں رھے وہ ناشتہ کروا رھی ہے بچی کو میرشاہ نے حدید کو ڈانٹتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ سوری بابا جان تم بیٹھو ماہی فروزہ بی لے آئے گی بھئ تمھارے سسر کو برا لگ گیا حدید شرارت سے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لے آو گی یہ سب میرے لیے نیا نہیں ہے سائیں پہلے بھی کرتی تھی اب بھی کر سکتی ہوں منہا سنجیدگی سے کہتے اٹھ کر چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں نے افسوس سے ایک دوسرے کو دیکھا ان دوسالوں میں بھی منہا کا سرد لہجہ نہیں بدلا تھا آج بھی وہ شاید پچھلے تین سالوں میں ہی کہی رھ گی تھی۔۔۔۔۔۔ جہاں سب بدلا وہی کچھ نہیں بدلا تھا تو وہ منہا کے خواب نہیں بدلے تھے حدید نے اپنے علاج کے ساتھ منہا کا بھی علاج شروع کروایا تھا مگر اس میں کوئی خاطرخواہ فرق نظر نہیں آیا تھا آج بھی وہی خواب اسے ڈراتے تھے جن سے کہی بار وہ خود کو نقصان پہچا چکی تھی جس سے حدید بے حد پریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کا علاج مسلسل چل رھا تھا حدید کو امید تھی ایک نا ایک دن ضرور وہ کامیاب ہو گا اسی امید پر یقین رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔۔۔ میں بہت جلدی تمھاری نفرت کو محبت میں بدل دوں گا تمھیں اتنی خوشیاں دوں گا کہ تمھارا دل مجھ سے صاف ہو جائے گا بہت جلد بدل جائے گا یہ وعدہ ہے میرا خود سے حدید نے منہا کو پرسوچ انداز میں دیکھتے دل میں عہد کیا۔۔۔۔۔۔۔ (ختم شد) اب حدید کی کوششوں پر اور قسمت پر تھا کہ وہ منہا کو پہلے جیسی کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں ہر کہانی کا اینڈ تو ہیپی ہوتا ہے مگر حقیقی زندگی کا اینڈ شاید ہی ہیپی ہوتا ہو خدارا اپنی بچیوں کی کم عمری میں شادی کر کے ان پر وقت سے پہلے سسرال کا بوجھ مت ڈالیں اپنی عمر سے بڑی ذمہ داری ڈال کر ان کو وقت سے پہلے بڑا ہونے پر مجبور نا کریں کریں بہنوں کی جب شادی کریں تو اچھے سے دیکھ بھال کر کریں اور ان سے غافل مت ہو ان کی مصنوئی مسکراہٹ پر یقین کرنے سے بہتر ہے خود ہر معاملے پر نظر رکھیں بہنوں کی شادی کر کے بوجھ مت اتاریں ان سے غفلت نا برتیں ورنہ ہماری ہر بہن اور بیٹی کی قسمت منہا جیسی ہو گی کیوں کے دنیا میں بہت سے حدید ہیں۔۔۔۔۔ شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جو انبکس میں آکر بار بار پوچھ رھے ہیں آپ لڑکی ہیں۔کیااو بھئ آپ لوگوں کو ای ڈی نیم سے کیا لگ رھا ہے اور پوچھ رھے ہیں رئیل نیم کیاہے تو جناب میں اپنا رئیل نیم نہیں لکھتی ای ڈی اور رائٹر نیم میری بیٹی کا ہے لاریب فاطمہ ذاھد میرا رئیل نیم جان کے آپ کو کرنا ہی کیاہے جی اب تو آپ لوگوں کو سکون مل جائے گا نا سخت الفاظ کے لیے معزرت مگر آپ لوگوں کے سوالوں نے مجبور کیا ہے سخت الفاظ استعمال کرنے پر۔۔۔۔ اورجن ریڈرز نے اس ناول میں ساتھ دیا ہےان کا شکریہ خوش رھیں خوشیاں بکھیرتے رہیں ۔۔۔۔

❤️ 👍 🙏 😮 😢 👎 💯 😇 😭 🤮 95
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 7:58:09 AM

*Jan kadd lenda ay ♥️🧸* #shrarti_Churail

❤️ 👍 😂 😭 ♥️ 🅰️ 💋 💜 💵 😍 113
Video
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 5:22:02 AM

تمہیں یہ جان کر کیسا لگے گا؟ کوئی اپنے آخری تکلیف بھرے اداس دنوں میں تم بات کرنا چاہتا تھا مگر تمہاری بے رخی نے اسے تم سے کچھ نہیں کہنے دیا۔ #shrarti_Churail

😢 ❤️ 👍 😭 😮 😂 🙏 ♥️ ❤‍🩹 153
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 5:15:43 AM

ناول نیم ؛؛،، زندگی تجھے جی نہیں رھے گزار رھےہیں ہم؛؛؛ رائٹر نیم؛؛؛ فاطمہ زیڈ ڈی؛؛؛ قسط؛؛30؛؛؛ ماہی میری جان تم نے کھانا کھایا حدید نے آفس بیگ صوفے پر رکھتے منہا سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا واش روم سے نکلی تھی سامنے حدید کو دیکھ کر چونک گی۔۔۔۔۔۔۔ آہستہ سے نفی میں سر ہلاتے اس کے سوال کا جواب دیا۔۔۔۔۔ حد ہے ماہی میں کہہ کر بھی گیا تھا پھر بھی نہیں کھایا پوچھ سکتا ہوں کیوں حدید نے غصے سے اسے گھورتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ سائیں دل نہیں کرتا میرا منہا نے نظریں جھکائےمعصومیت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں دل نہیں کرتا میری جان کا اس کے انداز پر نرم پڑتے بولا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے متلی ہونے لگتی ہے میرا دل نہیں چاھتا کچھ کھانے کو نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے اسےغور سے دیکھا شادی کے شروع دنوں والا عتماد غائب تھا تب جیسے سر اٹھا کر نظروں دیکھ کر بات کرتی تھی اب ویسے نہیں کرتی تھی سر اور نظریں ہمشہ جھکی ہوتی تھی حدید کے دل میں کچھ چبھا تھااس کی حالت دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا چلو تم تیار ہو جاو ہم باہر کھانا کھانے چلتے ہیں ٹھیک ہے پیار سے اس کی گال چھوتے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ جی میرا دل نہیں ہے پلیز منہا نے ڈرتے ڈرتے کہا کہی حدید پھر برسنا نا شروع کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی جاناں باہر نکلو گی تو طبیعت فریش ہو جائے گی صحت پر اچھا اثر پڑے گا نا اپنے حصارے میں لیتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شش بس جاو جلدی سے ریڈی ہو کر آو بہت نخرے دیکھانے لگ گی ہو آج کل تم حدید نے تھوڑا روب سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ منہا خاموشی سے اٹھتی ریڈی ہونے چلی گی جبکہ اس کا بلکل دل نہیں تھا جانے کا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ایسے منہ پھولائے جاتے دیکھ کر حدید نے اپنی ہنسی ضبط کرنے کے لیے موبائل پر جھک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید اب آفس سے جلدی گھر آنے لگ گیا تھا وہ جب گھر آجاتا تو ہر پل منہا کا سایہ بنا رھتا جیسے دیکھتے حرا اور میرشاہ کڑھتے رھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھائی کو ہو کیا گیا ابا اس کی بیوی کیا انوکھا بچہ پیدا کر رھی ہے جب دیکھو اس کے ساتھ سائے کی طرح رھتا ہے حرا نے حدید کو منہا کے لیے جوس لے جاتے دیکھا تو نخوت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکر کیوں کرتی ہو ابھی یہ جو خدمتیں کروا رھی ہے اس کا سکون اڑنچھو کردیتا ہوں میرشاہ نے بیٹی کو بہلاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ فروزہ جاو بہو کو بلا کر لاو ملازمہ کو آواز دیتے کہا۔۔۔۔۔ جی بڑے صاحب ۔۔۔۔۔۔ منہا بیٹا آپ کو بڑے صاحب بلا رھے ہیں ملازمہ ناک کرتے روم میں داخل ہوتی بولی۔۔۔۔۔۔۔ جی فروزہ بی چلیں میں آرھی ہوں منہا جلدی سے کھڑی ہوتی بولی۔۔۔۔۔۔۔ حدید واش روم میں تھا تو وہ خاموشی سے دوپٹہ سر پر جماتی کمرے سے نکل آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ابو جی آپ نے بولایا منہا نےدھیمے لہجے میں نظریں جھکائےپوچھا۔۔۔۔۔ ہہم بہو آو بیٹھ جاو جو بات میں کہنے لگا ہوں اس کے بعد شاید تم کھڑی نا رھ سکو میرشاہ نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتےمغرور انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہاخاموشی سےصوفے پر ٹک گی۔۔۔۔۔۔۔ بہو میری خواہش ہے میرے بیٹے کی پہلی اولاد بیٹا ہو جیسے میری پہلی اولاد حدید تھا پھر حرا اس لیے بیٹا ہونا چاھیے ورنہ آگے تم سمجھدار ہےمیرشاہ نے تکبر سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مم۔مگر ابو جی یہ تو اللہ پاک کے کام ہیں جیسے جو بھی عطا فرما دے انسان تو بےبس ہوتا ہے منہا نے ان کی بات پر گھبراتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہاں تمھارا فلسفہ سنے کو نہیں بولایا تمھیں مجھے مت سمجھاو سمجھی جو کہا ہے وہی ہونا چاھیے ورنہ اپنے بھائی کے گھر جانے کی تیاری کر لینا میرشاہ نے دھمکی آمیز لہجےمیں کہا۔۔۔۔۔۔۔ کیوں اس وجہ اور بیٹی ہو یا بیٹا میرے لیے دونوں اہم ہیں منہا کچھ کہتی اس سے پہلےہی پیچھے کھڑے حدید نے غصے سے لفظ چباتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ حدید دیکھو تم نے ہر بات میں اپنی منمانی کی ہے مگر اس بار مجھے پوتا ہی چاھیے سمجھے میرشاہ حدید کو دیکھتے پل بھر کو گڑبڑا گے مگر جلدی ہی خود کو کمپوز کرتے بولے۔۔۔۔۔۔ بابا جان پلیز اب آپ لوگ میری بیوی سے دور ہی رھیں تو بہتر ہے اور میری اولاد بیٹی ہو یا بیٹا اس کی فکر نا کریں بہتر ہو گا حدید منہا کو بازو پکڑتےکھڑا کرتے بولا اور اسے لیے روم میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرشاہ کی سازش ناکام ہونے پر انھوں نے طیش میں پاس پڑا واس اٹھا کر فرش پر دے مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریلیکس ابا ہم جو چاھتے تھے وہ تو ہو گیا نا کیوں غصہ کر کے اپنا بلڈ پریشر لوز کر رھے ہیں حرا نے مکاری سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب میرشاہ نے حرا دیکھا۔۔۔۔۔ مطلب آپ بھابھی پریشان کرنا چاھتے تھے وہ ہو گی اب وہ بچے کی بیدائش تک ٹینشن میں رھے گی کہی بیٹی نا ہو جائے حرا نے موقف بیان کرتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا یہ تو سہی کہا تم نے اب ملا دل کو سکون میرشاہ ہستے بولا تو حرا بھی ہسنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں وقت کی چال سے بےخبر اپنی سازشیں کرنے مصروف تھے اور وقت اپنی چال چلنے کو تیار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت کا کام تھا گزرناسو گزرتا چلا گیا آخر منہا کے آخر ماہ بھی آگے۔۔۔۔۔ منہا کی اچانک طبیعت خراب ہو گی تھی تکلیف کے باعث اس کا اٹھنا محال ہو گیا تھا کافی دقت سے اٹھ کر دروازے تک پہنچی اور فروزہ بی کو آوازیں دینے لگی۔۔۔۔۔۔۔ فروزہ بی ۔۔۔۔۔۔۔ فروزہ بی پلیز بات سنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہورھا آواز تھی نکل ہی نہیں رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ فروزہ بی کیچن میں مصروف تھی جب ان کو منہا کی تکلیف زدہ ہلکی آواز سنائی دی تو وہ سارے کام چھوڑ کر اس کے کمرے کی جانب بھاگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فروزہ بی کے قدم تلے زمین نکل گی منہا کو دروازے کے بیچ بیٹھے درد سے کراتے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔ منہا تکلیف کی وجہ سے وہی دروزے میں ہی بیٹھتی چلی گی تھی۔۔۔۔۔۔۔ منہا بیٹا اللہ کیا ہوا بچے فروزہ بی نے بھاگ کر اسے تھامتے کھڑا کیا اور بیڈ پر لے جاتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ ف۔فروزہ بی مم۔مجھے بہت دد۔درد ہو رھا ہے منہا نے تکلیف زدہ آواز میں دھیرے سے کہا۔۔۔۔۔۔ حوصلہ بیٹا حوصلہ رکھو میں چھوٹے شاہ کو بلاتی ہوں فروزہ بی نے کہتے جلدی سےمنہا کے فون سے حدید کو کال کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو چھوٹے شاہ جی وہ بیٹیا کی طبیعت خراب ہو گی ہے آپ جلدی سے آجائیں کال اوکے ہوتے فروزہ بی نے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ماہی کو آپ اس کا خیال رکھیں میں بس دس منٹ میں آرھا ہوں حدید نے فورا کہتے کال کٹ کی اور کی چین اٹھاتے باہر کو بھاگا۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید رش ڈرائیونگ کرتا سچ میں دس منٹ میں گھر پہنچ گیا تھا گاڑی کا ڈور بند کیے بغیر اندر کی جانب بھاگا ہوا آیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ جیسے ہی روم میں داخل ہوا سامنے ہی منہا تکلیف سے بے حال ہو رھی تھی آنکھیں جو کبھی کسی کے سامنے نہیں برسی تھی اب رو رو کر سرخ ہو گی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے اک منٹ کی دیر کیے بغیر منہا کو اپنی بازوں میں بھرا اور باہر کو دوڑ لگا دی فروزہ بی بھی جلدی ان کے پیچھے بھاگتی ہوئی آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے آرام سے اسے بیک سیٹ پر بیٹھایا ساتھ میں فروزہ بی بھی جلدی سے بیٹھ گی اور منہا کا سر اپنے سینے سے لگائے اس کی تکلیف کم کرنے کی اپنی سی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے گاڑی حویلی سے نکالتے روڈ پر ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ کب سے کوریڈور میں بیٹھے انتظار کر رھے تھے ڈاکٹر نے اوپریشن بتا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ حدید کی جان جیسے سولی پر لٹکی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ اچانک اک نرس باہر آئی مسٹر شاہ ان پیپرز پر جلدی سے سائن کر دیں نرس نے عجلت میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پیپرز کیسے ہیں ماہی ٹھیک تو ہے نا حدید نے پریشانی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے ان کی کنڈیشن کافی سیریس ہے آپ ان پیپرز پر جلدی سےسائن کردیں نرس نے جواب دیتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے فورا پیپرز پکڑتے سائن کر دیے اور برس سے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز میری ماہی کو کچھ نہیں ہونا چاھیے سسٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اللہ پاک پر بھروسہ رکھیں اور دعا کریں کہتے نرس عجلت میں واپس چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر نکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے حدید نے ڈاکٹر کو دیکھا تو بےچینی سے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ شی از فائن مسٹر شاہ مبارک ہو بیٹی ہوئی ماشااللہ سے ڈاکٹر نے مسکراتے کہا۔۔۔۔۔ اللہ تیرا شکر ہے میں مل سکتا ہوں اپنی وائف اور بچی سے حدید نے شکرادا کرتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو روم میں شفٹ کردیں تو آپ مل سکتے ہیں ابھی وہ بےہوش ہیں ان شاءاللہ جلدی ہوش میں آ جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اپنے مخصوص لہجے میں کہتی چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو حدید بھی نفل ادا کرنے چلا گیا فروزہ بی وہی بیٹھی منہا کے لیے دعا گو تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر بعد منہا کو ہوش آیا تو حدید اس کے قریب ہی بیٹھا تھا منہا نے آہستہ آواز میں حدید کو پکارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ سائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی سائیں کی جان کیسی طبیعت ہے اب میری جان کی حدید جلدی سے قریب ہوتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم ٹھیک ہوں شاہ جی منہا نے بہت آہستہ آواز میں جواب دیا کہ حدید کو جھک کر کان قریب کر کے سنا پڑ رھا تھا اس سے بولنا مشکل ہو رھا تھا گلہ سوکھ رھا تو جیسے گلے میں کانٹے اگ آئے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماشااللہ سے بیٹی ہوئی ہے ہماری حدید نے خوشی سے بتایا اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سنتے ہی منہا کے دل کو کچھ ہوا تھا اسے میرشاہ کی کہی باتیں یاد آنے لگی منہا کو بلکل چپ لگ گی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ماہی تمھیں خوشی نہیں ہوئی حدید نے اسے خاموش دیکھ کے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ س۔سائیں مم۔مجھے معاف کردیں۔۔۔۔ منہا کی آنکھیں نم ہونے لگئ مگر وہ رونا نہیں چاھتی تھی اس لیے بات ادھوری چھوڑتی خود پر ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائیں کی جان کس بات کی معافی مانگ رھی ہو حدید اک دم پریشان ہوتے بولا وہ منہا کی نم آواز محسوس کر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائیں وہ مم۔میں آپ کک۔کو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شش۔۔۔۔۔۔ بس میری جان ایک اور لفظ نہیں تمھیں میں نے کہا تھا نا بیٹی ہو یا بیٹا مجھے دونوں عزیز ہیں تو پھر کیوں خود کو تکلیف دے رھی ہوں بس اب اور پریشان نہیں ہونا اوکے پیار سے اس کا چہراتھامے ماتھے پر بوسہ دیتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مم۔مگر شاہ سائیں ابو جی منہا نے پریشانی سے حدید کے چہرے کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا میں آج بہت خوش ہوں پلیز ان کا ذکر کر کے یا ایسے خود کو تکلیف دے کر میری خوشی خراب مت کرو تم بس میرا اور ہماری بیٹی کا سوچو حدید نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہانےخاموشی سے آنکھیں بند کر لی مگر دل ابھی بھی کانپ رھا تھا میرشاہ کی دی ہوئی دھمکی ابھی بھی اس کے ذہن میں گونج رھی تھی (اگر بیٹا نا ہوا تو اپنے بھائی کےگھر جانے کیتیاری کرلینا)یہ آواز اسے کسی پل سکون نہیں لینے دے رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید بغور منہا کے چہرے کے تعصورات نوٹ کر رھا تھا جس پر بند آنکھوں کی وجہ سے بھی پریشانی اور تکلیف کے آثار نمایا تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید کو اپنے باپ پر شدید غصہ آرھا تھا جن کی وجہ سے ان کی اتنی خوبصورت خوشی برباد۔ ہو گی تھی اس کی بیوی کو اپنی بیٹی دیکھنے کی خوشی سے زیادہ اپنے سسر کی دھمکی کی فکر لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی حدید یہی سوچ رھا تھا جب وہاں میرشاہ حرا کے ساتھ روم میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مبارک ہو برخودار کہاں ہے ہمارا پوتا ہمیں بھی دیکھاو میرشاہ حدید کو گلے لگاتے بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے نے میرشاہ کی آواز پر اور زور سے آنکھیں میچ لی دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رھی تھی منہا کو اپنی سانس روکتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا جان الحمداللہ ماشااللہ سے پوتی ہوئی ہے حدید نے خود کو حددرجہ نارمل رکھتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرشاہ جو صوفے پر بیٹھ رھے تھے جھٹکے سے کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بکواس کی بہو یہ اس نے جو کہا سچ ہے اگر سچ ہے تو خبردار میرے گھر میں اپنے یہ منہوس قدم مت رکھنا میرشاہ نے گرجتے پہلے حدید کو دیکھا پھر منہا سے بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کا رنگ فق ہوا تھا سانس سینے میں ہی کہی گھٹ گی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں ابو جی پپ۔پلیز منہا نے خوفزدہ ہوتے نفی میں سرہلاتے اٹکتے آہستہ لبوں جنبش دی مگر آواز لبوں پر ہی دم تھوڑ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا جان پلیز بس کریں اور ماہی اسی گھر میں جائے گی میرے ساتھ حدید نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔ بس حدید ہم نے تمھاری ہر ضد مانی مگر اب بس بہت ہو گیا جو ہمیں ایک پوتے کی خوشی نہیں دے پائی ایسی لڑکی ہماری بہو نہیں رھ سکتی ابھی کے ابھی فارغ کرو اسے طلاق دو میرشاہ نے سفاکیت حد توڑتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں پپ۔پلیز س۔سائیں یی۔یہ ظلم مت کک۔کریں خدارا ابو جج۔جی پلیز اایسے نا کریں منہا نے تڑپ کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا جان آپ ہوش میں تو ہیں حدید صدمے سے ان کو دیکھتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہم ہوش حواس میں ہیں مگر تم نہیں لگ رھے ابھی کے ابھی آزاد کرو اسے اس کے ناپاک قدم ہم اپنی حویلی میں بلکل برداشت نہیں کرے گے میرشاہ نے تکبر سے چور لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ پپ۔پلیز ابو جی مم۔میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں یہ ظلم نا کریں مم۔میں کہاں جاوں گی اپنی بچی کو لے کر منہا نے روتے لڑکھڑاتے لہجےمیں منتیں کرتے کہا۔۔۔۔۔۔ ہماری بلا سے بھاڑ میں جاو مگر اب ہماری حویلی میں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں میرشاہ اکڑ سے بولے منہا کا ان کے سامنے گڑگڑانا ہاتھ جوڑنا ان کی مینتیں کرنا ان کو سکون دے رھا تھا منہا کی اجڑی حالت ان کو مزا دے رھی رھی سکون سے اس معصوم کو سزا سنارھے تھے۔۔۔۔۔۔ بس بابا جان بہت ہوا اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے میں بھی اپنی بیوی بیٹی کے ساتھ اس حویلی کو چھوڑ دوں گا مگر ماہی سے الگ ہونا ناممکن ہے یہ سکون ہے میری زندگی کا میں نہیں رھ سکتا اس کے بغیر حدید نے چیختے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمھیں عاق کر دیں گے جائیداد سے میرشاہ نے اک اور پتہ پھینکا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ایسے کیسے کر سکتے ہیں بابا جان حدید نے باپ کو صدمے سے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایسا ہی کرے گے میرشاہ نے تکبر سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ بابا جان میں ماہئ سے الگ نہیں رھ سکتا حدید نے بےبسی سے کہا۔۔۔۔۔۔ ہم تمھاری دوسری شادی کر دے گے پھر تم اسے بھول جاو گے میرشاہ ساری تیاری سے آئے تھے شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بابا جان حدید نے ہارے ہوئے لہجے میں کچھ کہنا چاھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس حدید شاہ سوچ لو تمھیں مجھ میں اور اس لڑکی میں کسی ایک کو چنا ہوگا میرشاہ نے سارے راستے بند کرتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے بابا جان جیسے آپ کہیں گے وہی ہو گاحدید ہار مانتے بولا۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں سس۔سائیں خدا کے لیے یہ نا کریں مم۔میں کہاں جاوں گی آآپ تو کہتے تھے آپ کو بیٹا بیٹی دونوں پیارے ہیں پپ۔پھر اب کیوں منہا اس کے فیصلے پر تڑپتے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی میری جان مجھے معاف کر دینا میں مجبور ہوں حدید نے انتہائی کرب سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں شاہ جی پلیز یی۔یہ ظلم نا کریں آپ آپ کو دوسری شادی کرنی ہے نا کک۔کر لیں مم۔مگر مجھے بس اک کک۔کونا دے دیں گھر میں مم۔میں اسی میں پپ۔پڑی رھوں گی کک۔کبھی کوئی شش۔شکایت نن۔نہیں کروں گی منہا روتے ہوئے حدید کی منتیں کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بابا جان میں میری بھی اک شرط ہے حدید نے منہا سے منہ پھیرتے کہا۔۔۔۔۔ کیسی شرط میرشاہ نے اچنبھے سے پوچھا۔۔۔۔۔۔ میں منہا کو طلاق نہیں دوں گا اسے اپنے نام سے کبھی آزاد نہیں کروں گا یہ اپنے بھائی کے گھر رھے گی مگر ہمشہ میرے نام کے ساتھ جب تک یہ زندہ ہے میرے نام کے ساتھ جیے گئ حدید نے اپنا مکمل فیصلہ سناتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ حدید یہ کیا بیوقوفی ہے تم کیوں اس منہوس کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنا چاھتے ہو میرشاہ نے جھجھلاہتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کے یہ میرا جنون ہے اس کو میں کبھی خود سے الگ نہیں کر سکتا اگر اسے طلاق دی تو اس کا بھائی ساری عمر تو نہیں اسے اپنے گھر رکھے گا نا کسی اور سے بیاہ دے گا اور میں اسے کسی اور کی دسترس میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا حدید نے آنکھوں میں جنون لیے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت یہ سوچ کر ہی اس کا نفسیاتی پن عود کر آیا رھا اس کے اندر کا جنون اس کے چہرے پر صاف دیکھائی دے رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا تو بلکل پتھر ہوئی اس جنونی انسان کو دیکھ رھی تھی آنکھیں آنسوؤں سے نم پتھرائی ہوئی تھی اس کی زندگی کو کیسے کھلونا بنا دیا گیا تھا بے اختیار اس کے۔ دل سے اپنے لیے موت کی دعا نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم ٹھیک ہے مگر اب اس پر حویلی کے دروازے بند ہیں تم اسے جتنی جلدی ہو سکے اس کے بھائی کے گھر چھوڑ آو بس مجھے اب یہ قصہ ختم چاھیے میرشاہ فیصلہ سناتے چلے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے پلٹ کر منہا کو دیکھا جو بےیقینی سے اس دیکھ رھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی میری جان یہ ضروری تھا اگر میں یہ نا کرتا تو بابا جان تمھیں مجھ سے دور کر دیتے میں نہیں رھ سکتا تمھارے بغیر حدید دیوانوں کی طرح اس پر جھکتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سس۔سائیں مم۔مت کریں پپ۔پلیز منہا نے گھٹی گھٹی سی التجا کی۔۔۔۔۔۔۔۔ شش بس خاموش میری جان میں جو کر رھا ہوں ہمارے بھلے کے لیے کر رھا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے چپ کرواتے اس کے ہونٹوں پر جھکتے ان کو قید کر گیا بغیر اس کی حالت کی پرواہ کیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا تڑپنے لگی رھی کیا کچھ نہیں اس کی تڑپ میں تزلیل کا احسان روندے جانے کی تکلیف 3 سال برباد ہونے کا درد ابھی بھی وہ اسے کہہ رھا ہے وہ اس کا بھلا کر رھا ہے ہے۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے کچھ دیر بعد اس کے ہونٹوں کو آزادی بخشی تو وہ گہرے سانس لینےلگی۔۔۔۔۔۔ ادھر دیکھو ماہی تم صرف میری ہو حدیدعالم شاہ کا حق ہے تم پر صرف تمھیں خود کو سنبھال کر رکھنا صرف میرے لیے سمجھی میں آتا رھا کروں گا تمھارے پاس حدید نے اس کے ہونٹوں کو سہلاتے کہا۔۔۔۔۔۔ مم۔مگر شاہ سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس تم پر میراحق ہے صرف یہ یاد رکھنا باقی میں سنبھال لوں گا سب اوکے اب آرام کرو تم کہتے حدید نے اپنی پوکیٹ سے ایک انجیکشن نکال کر منہا کی بازو میں لگا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سس۔۔۔۔۔ منہا بس سسک ہی سکی تھی اپنی زندگی کو خاموشی سے تباہ ہوتے دیکھ رھی تھی آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں بند ہوتی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے الحان کو بلایا اور سب اس کے سامنے رکھ دیا جو کچھ میرشاہ کہہ کر گے ۔۔۔۔۔۔۔ الحان سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں نے کیا میری بہن کو کھلونا سمجھ لیا ہے انسان ہے وہ بھی حدید عالم شاہ الحان نے غصے سے دھاڑتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان دیکھو ابھی کچھ وقت کے لیے منہا کو اپنے گھر رکھ لو میں جلدی ہی اسے کے جاوں گا جب حالات سازگار ہو گے حدید نے نرمی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کچھ ہونے کے بعد میں ہرگز اپنی بہن تمھارے حوالے نہیں کروں گا الحان نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ بس الحان آفندی بہت سن لی میں نے خبردار میری بیوی کو مجھ سے الگ کرنے کا سوچا بھی تو وہ صرف اور صرف حدیدعالم شاہ کی ہے سمجھے حدید نے ضبط کھوتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم کیا سمجھتے ہو میں تم سے ڈر کر اپنی بہن تمھیں دے دوں گا الحان نے آبرو اچکاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ ہائی سکول میں پڑھتے ہیں نا تمھارے بچے حدید نے پراسرار لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔ کک۔کیا مطلب تمھارا الحان پل میں گھبراتے بولا۔۔۔۔۔۔ مطلب تم میری بیوی اور بچی کا خیال رکھنا میں تمھارے بچوں کا خیال کروں گا اور خبر دار میری بیوی کو مجھ سے الگ کرنے کا سوچا بھی تو یاد رکھنا سالے صاحب جب تک تمھاری بہن میری ہے تب تک تمھارا گھر بھی محفوظ ہے۔۔۔۔ ویسے بھی وہ میرے نکاح میں ہے میری بچی کی ماں ہے میں جب چاھوں اسے لے جا سکتا ہوں مجھے کوئی روکنے والا نہیں ہے سمجھے حدید نے الحان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو حدید تم غلط کر رھے ہو الحان پل میں پسینے سے بھیگ گیا تھا کیسے اپنے بچے عزیز نہیں ہوتے وہ بھی اپنے بچوں کے لیے اپنی بہن کو قربان کرنے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس خیال رکھنا میری بیوی کا حدید کہتے ہوسپٹل سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔ تو الحان بھی فیصلہ کرتے منہا کے روم کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔ الحان منہا اور اس کی بیٹی کو لیے گھر آگیا تھا مگر منہا کے تو ہونٹوں پر جیسے قفل پڑ گیا تھا نا خاموشی سے اپنے روم میں بند رھتی دن سست روئ سے گزر رھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر منہا کو آئے دو مہینے ہو گے تھے حدید نے یا کسی نے بھی پلٹ کر اس کی خبر نہیں لی منہا نے بھی خود کو اپنی بیٹی میں الجھا لیا سارا سارا دن اس کے ساتھ مصروف رھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زوبیہ منہا کے یوں آنے پر اندر ہی اندر کڑھنے لگی تھی مگر منہ پر میٹھا لہجہ رکھتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے زوبیہ نے سارے گھر کا کام منہا پر ڈالنا شروع کردیا کھانا پکانے لے کر کپڑے دھونے تک سب منہا کے زمے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے بھی خاموشی سے ساری ذمیداری اپنے کندھوں پر لے لی وہ یہ سوچ کر پرسکون ہو گی چلو یہاں کم از کم اس گھر کی طرح اذیت تو نہیں نا کوئی ہر وقت ذلیل کرنے والا ہے مگر اک خوف تھا جو اس کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی خوف آہستہ آہستہ اس کے ذہن پر حاوی ہوتا جا رھا تھا جس سے دن با دن وہ ذہنی طور پر ڈسٹرب رھنے لگی اسے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی جب آتی تو خوفزدہ ہو کر اٹھ جاتی خواب اسے سونے نا دیتے جس سے وہ آہستہ آہستہ ذہنی مریضہ بنتی جا رھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں پپ۔پلیز مجھے مم۔مت ماریں چچ۔چھوڑیں پپ۔پلیز مم۔مجھے مم۔مر جانا چچ۔چاھیے ہاں مم۔مجھے مرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا اپنے روم میں سو رھی تھی جب وہ خواب سوتے ہوئے بولنے لگی رات ساری جاگنے کی وجہ سے وہ دن میں سو گی مگر پھر سے برے خواب کی وجہ سے خواب میں خود کو نقصان پہچانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان جو بچوں کے ساتھ باہر سے آرھا تھا منہا کے روم سے آتی آواز پر اس طرف چل دیا جیسے ہی روم میں داخل ہوا منہا تکیے پر اپنا سر پٹخ رھی تھی ساتھ ساتھ خود تکلیف دینے کی کوشش کر رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان تو یہ سب دیکھ کر دھنگ رھ گیا جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پکڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا ۔۔۔منہا آنکھیں کھولو کیا ہوا ہے منہا الحان نے اسے جھنجھوڑتے اٹھایا۔۔۔۔۔۔ الحان کی آواز پر زوبیہ بھی وہاں آگی منہا کی حالت دیکھ کر حیران رھ گی۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں شاہ جج۔جی مم۔مت ماریں مم۔مجھے معاف کردیں انجیکشن نن۔نہیں پپ۔پلیز چچ۔چھوڑ دیں حرا جج۔جی رر۔رحم کریں منہا اپنے حواسوں میں نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ الحان اور زوبیہ کو حرا اور حدید سمجھ کر خود کو بچانے کی کوشش کر رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان اور زوبیہ یہ سب سنتے سکتے میں آگیے حیرت سے منہا کو دیکھنے لگے جو ڈر خوف سے کانپتے خود کو الحان کی قید سے نکالنے کے لیے مزحمت کر رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا۔۔۔۔ بس منہا یہ میں ہوں تمھارا بھائی الحان اور یہ زوبیہ تمھاری بھابھی الحان نے اسے جھنجھوڑتے ہوش میں لانا چاھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ اور رونے لگی نن۔نہیں مجھے چچ۔چھوڑ دیں مت کریں ابو جج۔جی مم۔معاف کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اچانک خود کو چھوڑانے کی کوشش کرتے اپنے آپ کو نقصان پہچانے لگی ممجھے مرنا ہے چچ۔چھوڑیں ممجھے مر جانا چاھیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان نے پاس پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے چہرے پر ڈال دیا جس سے پل بھر میں منہا کے حواس بھال ہوئے حیرت سے اپنے سامنے الحان اور زوبیہ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ بب۔بھائی بھابھی آپ دونوں کک۔کیا ہوا گھبراتے سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ تم بتاو تمھیں کیا ہوا ہے اور یہ کیا بول رھی تھی حدید اور اس کے گھر والوں کا الحان نے اسے گھورتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں منہا نے نظریں چراتے کہا۔۔۔۔۔۔ منہا ادھر دیکھو بتاو مجھے کیا کیا ہے ان لوگوں نے تمھارے ساتھ جو تم ایسے کہہ رھی تھی اور خود کو مارنے تک چلی تھی الحان نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں بھائی شاید میں خواب میں ڈر گی تھی اس لیے الٹا سیدھا بول دیا ہو گا ورنہ ایسے کچھ نہیں میں منتہا کو دیکھ لوں منہا ان کو ٹالتی جلدی سے بیڈ سے کھڑی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں سے نظریں چراتے جلدی سے حوریہ کے کاٹ کی طرف بڑھ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان اور زوبیہ کچھ دیر کھڑے رھے پھر خاموشی سے باہر نکل گے۔۔۔۔۔۔۔ ان کے جاتے منہا نے سکھ کا سانس لیا اور سوچنے لگی اگر آج بھائی کو کچھ پتہ لگ جاتا تو اف کیا ہوتا منہا نے گھبراتے سوچا۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں میں ان کو کچھ نہیں بتا سکتی اب سے دن میں نہیں سویا کروں گی ہاں یہ ٹھیک رھے گا منہا خود سے سوال جواب کرتی خود کو پرسکون کیے حوریہ کی جانب متوجہ ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کی دن با دن بگڑتی حالت پر الحان منہا کو زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گیا وہاں جا کر الحان کو پتہ لگا منہا ذہنی مریضہ بن گی ہے جو اس کے لیے سہی نہیں تھا مگر اسے ان سب سے نکالا جا سکتا ہے اس کے لیے کسی اچھے سائیکٹرس کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان منہا کو لیے گھر آگیا اور آمنہ پریشے اور مہران کو بلا لیا ان سب نے مل کر فیصلہ کیا ایسا کیا جو منہا چھپا رھی ہے یہی جانے کے لیے سب نے پریشے کو بھیجا جس سے منہا ہر بات کر لیتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے اب تو وہ پہلے والی منہا رھی ہی نہیں پریشے کی بہت کوشش پر بھی منہا نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اسے کسی سائیکٹرس کے پاس لے جانا چاھیے یہی بہتر رھے گا مہران نے مشورہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم مجھے بھی اب یہی لگ رھا ہے الحان نے پرسوچ انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن الحان اور باقی سب منہا کے سر پر کھڑے تھے۔۔۔۔۔۔ منہا چلو اٹھو شاباش تیار ہو پریشے نے کہا۔۔۔۔۔ آپی میں کوئی پاگل نہیں ہوں مجھے نہیں جانا کہیں پلیز منہا نے سب کو بےبسی سے دیکھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ منہا سائیکٹرس کے پاس پاگل تھوڑی جاتے ہیں یار مہران نے آخر میں اکتا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔ منہا پچھلے بیس منٹ سے یہی بولے جا رھی تھئ مجھے کہی نہیں جانا میں پاگل تھوڑی ہوں جس پر اب سب تپ گے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ پریشے اسے تیار کرو اور مہران تم لے کر آو اسے میں بھی دیکھتا ہوں کیسے نہیں جانا اسے الحان نے چڑتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ بھائی پلیز اب میں بلکل تنگ نہیں کروں گی پلئز مجھے نہیں جاناکہیں منہا نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔ چپ ایک لفظ نہیں منہا بس پانچ منٹ میں تیار ہو کر آو فورا اٹھو الحان نے غصے سے کہا۔۔۔۔۔۔ الحان کے غصے سے بولنے پر منہا ایک دم سہم گی اور بغیر کچھ کہے جلدی سے اٹھ کر واش روم میں بند ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے اس ریکشن پر سب حیران رھ گے سوائے زوبیہ اور الحان کے ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو ایسے زرا سی اونچی آواز پر سہم جاتی ہے جب کے یہ پہلے ایسی تو نا تھی الحان نے تھکے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ تیار ہو کر باہر آگی تو پریشے اسے لیے گاڑی میں بیٹھ گی حوریہ کو مہران نے پکڑ لیا تھا جس پر منہا نے بھی کچھ نہیں کہا وہ پہلے ہی الحان کے غصے پر سہمی سہمی سئ تو خاموشی سے پکڑا کر چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

❤️ 👍 😢 🙏 27
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 5:22:13 AM

مُحبّت ایک بے اختیار جذبہ ہے آپ اپنے دل کو کتنا بھی سمجھا لیجیۓ لیکن یہ دل کُچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتا ہے یہ ایسی آرزو ایسی خواہش کرتا ہے جو آپکے بسس میں ہی نہیں ہوتی کبھی کبھی ایسی شخص کی تمنّا کر بیٹھتا ہے جو کہ کسی اور کا مقدر ہوتا ہے آپکی ہر دلیل کو مسترد کر دیتی ہے مُحبّت آپ چاند چھونے کی خواہش میں اپنی انگلیاں چراغ سے جلا بیٹھتے ہیں مُحبّت رسوا کر دیتی ہے آپکو بے بس اور بے اختیار کر دیتی ہے مُحبّت #shrarti_Churail

❤️ 😢 👍 💯 😂 😭 😮 💔 🙏 🥰 188
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 1:03:25 PM

مرد کو عورت کی جدائی کا احساس کچھ وقت بعد ہوتا ہے، اور پھر وہ اسے واپس پانے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دیتا ہے! کیونکہ مرد ہمیشہ اسی چیز کو چاہتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی – جیسے بچہ کسی کھلونے کے پیچھے دیوانہ ہوتا ہے۔ وہ اسی عورت کی قدر کرتا ہے جو اسے چھوڑ دے، یا جسے وہ کسی اور کے ساتھ خوش دیکھے! 🔸 عورت کا دل ٹوٹنے کے بعد سنبھلنے میں وقت لگتا ہے، لیکن جب وہ آگے بڑھ جائے، تو پھر واقعی آگے بڑھ جاتی ہے! 🔸 اور ایک سمجھدار عورت کبھی پیچھے نہیں دیکھتی، کیونکہ مرد کبھی بدلتا نہیں! #shrarti_Churail

👍 ❤️ 💯 😢 😂 🙏 😭 🥹 😮 😡 559
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 9:20:07 AM

🥺💯💯

❤️ 👍 💯 😢 😭 🙏 ♥️ ❤‍🔥 🆕 👌 203
Video
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 5:15:51 AM

ناول نیم؛؛؛ زندگی تجھے جی نہیں رھے گزار رھےہیں ہم؛؛؛ رائٹر نیم؛؛؛ فاطمہ زیڈ ڈی؛؛؛ سیکنڈ لاسٹ ایپی(31) الحان منہا کو لیے سائیکٹرس کے پہچ گیا تھا ایک گھنٹے سے وہ دونوں ان کا ویٹ کر رھے تھے اور سائیکٹرس اپنے روم میں منہا سے بات کر رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائیکٹرس : جی تو ہم شروع سے سٹارٹ کرتے ہیں پاکیزہ میم نے مسکراتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ کیا شروع کریں گی بھائی سب بتا تو گے آپ کو منہا نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ پر اب مجھے تمھارے منہ سے سنا ہے یو نو آپ کے بھائی کے منہ سے سنئے کا مزا نہیں آیا مجھے پاکیزہ نے زچ کرنے والئ مسکراہٹ لبوں پر سجائے کہا۔۔۔۔۔۔۔ اس میں مزا لینے والی کیا بات ہے منہا نے حیرت سے نظریں اٹھا کر ان کو دیکھا۔۔۔۔۔۔ بہت سی ہیں خیر چھوڑو یہ بتاو نام کیا ہے تمھارا۔۔۔۔۔۔ ابھی تو بتایا بھائی نے منہا نے شاک سے کہا مطلب وہ اتنی جلدی بھول بھی گی۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا نا مجھے تمھارےمنہ سےسنا ہے سب۔۔۔۔۔۔ اور آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے میں آپ کو۔ سب بتاوں گی منہا نے سپاٹ لہجے میں کہا وہ کسی طرح اس سائیکٹرس کو اکتانے پر مجبور کرنا چاھتی تھی مگر وہ بھی بلا کی ڈھیٹ ثابت ہو رھی تھی۔۔۔۔۔۔ کیوں کے ڈئیر میرا دل کہتا ہے تم بتانا چاھتی ہو اپنے دل کا بوجھ کم کرنا چاھتی ہو پاکیزہ بھی اسے زچ کرنے پر تلی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ نہیں بتانا چاھتی نا مجھ پر کوئی بوجھ ہےمنہا نے قطیعت سے کہا۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے مان لوں گی مگر اک شرط پر پاکیزہ نے اس بار پینترہ بدلہ تھا ۔۔۔۔ کیسی شرط منہا نے حیرت سےپوچھا۔۔۔۔ تمھیں بس پانچ منٹ میری آنکھوں میں دیکھنا ہو گا اگر دیکھ لیا تو میں مان جاوں گی تمھارے دل پر کوئی بوجھ نہیں پاکیزہ نے اسے اچھا خاص گھوما لیا تھا باتوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی شرط ہے اور اگر میں نا۔ مانوں تو منہا نے کنفوژ ہوتے کہا۔۔۔۔۔۔ تو تمھارے دل میں ہے کچھ میں یہ ثابت کر دوں گئ پاکیزہ نے مسکراتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہے کچھ بھی منہا نے صفائی دیتے کہا۔۔۔۔۔۔ تو دیکھو میری آنکھوں میں پاکیزہ اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں دیکھنا منہا زچ ہوتے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر مان لو کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے پاکیزہ ہنوز مسکراتے سوال پر سوال کر رھی تھی۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں ہے کچھ پلیز مجھے جانے دیں اب منہا کھڑے ہوے بولئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈر گی اپنے راز کھلنے سے پاکیزہ اپنی سیٹ پر ریلیکس انداز میں بیٹھتے بولی۔۔۔۔۔۔ کوئی راز نہیں ہے آپ کو سمجھ کیوں نہیں آرھی منہا تنگ آتے بولی۔۔۔۔۔۔ پھر میری شرط پوری کرو مان جاوں گی تمھیں ۔۔۔۔۔۔۔ اوکے جسٹ پانچ منٹ منہا نے جان چھڑانے کو کہا ۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ کھول کر مسکرائی وہ جو چاھتی تھی ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اوکے بیٹھو پاکیزہ نے اسے ایک ایزی چیئر پر بیٹھایا ۔۔۔۔۔۔ منہا نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا مگر اس کی آنکھوں میں جانے کیسی چمک تھئ وہ فورا نظریں جھکا گئ۔۔۔۔۔۔۔۔ او ہو تم تو پہلے ہی ہار گی پاکیزہ نے ہستے کہا۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں ایسا کچھ نہیں وہ میں بس منہا سے کوئی جواب نہیں بن پارھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو پھر سے ٹرائی کرو پاکیزہ نے اس کی مشکل آسان کرتے کہا۔۔۔۔۔ ہہم اوکے منہا نے مدھم سی آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر ہمت جمع کرتی رھی پھر دھیرے سے پاکیزہ کی طرف دیکھا جو پہلے سے ریڈی بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد پاکیزہ مسکرائی تھی وہ اپنے کام میں کامیاب ٹہری تھی مسکراتے ریلیکس سی کرسی سے پیچھے پشت ٹکا کر بیٹھ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کو جب محسوس ہوا وہ ہیپی ٹائزم ہو رھی ہے تب تک دیر ہو چکی تھی وہ چاھ کر بھی پاکیزہ کی آنکھوں سے نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ نے اپنا کیمرہ آن کر کے رکھ دیا تھا اور گلا کھنگارتے سوال کرنےشروع کیے ۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ : نام کیا تمھارا ۔۔۔۔ منہا۔۔۔ پاکیزہ:: پورا نام بتاو۔۔ منہا: منہا حدید عالم شاہ۔۔۔۔۔ پاکیزہ : حدید کیسا انسان ہے۔۔۔۔۔ منہا: پراسرار سے ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ: مطلب کیسے پراسرار ۔۔۔۔۔ منہا: نفسیاتی مریض جیسے جنونی انسان حد سے زیادہ پوزیسو۔۔۔۔۔ پاکیزہ : ہہم تو اس کی فیملی کیسی ہے۔۔۔۔۔ منہا : سگندل بے رحم دوغلے لوگ ۔۔۔۔۔ پاکیزہ : ہہم تو اب مجھے سسرال میں گزرے سالوں کا سب کیسا وقت گزرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ کے سوال پر بےاختیار آنسو اس کی آنکھوں سے بہتے گالوں بھگوتے چلے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاو منہا کیسے گزرے یہ سال سسرال میں پاکیزہ نے پھر سے سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ سب بتاتی چلی گی جو کیمرے میں محفوظ ہوتا گیا۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر بعد جب وہ خاموش ہوئی تو پاکیزہ نے اسے اپنے کنٹرول سے آزاد کر دیا جو اسے جانا تھا وہ جان چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا جیسے ہی اس کے اثر سے نکلی حیرت سے پہلے پاکیزہ کو دیکھا پھر آنسوؤں سے بھگے اپنے چہرے کو ہاتھ لگاتے دیکھا اور جھٹکے سے کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کک۔کیا کیا تھا یہ آپ نے اور کیا جانا ہے منہا بے دردی اپنا چہرا صاف کرتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بات تم میری آنکھوں میں دیکھنے پر کامیاب ٹہری دوسری بات جوسچ تھا بس پاکیزہ نے ریلیکس انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ کے پاس ہیپی ٹائزم کرنے کا ہنر تھا جب کوئی پیشنٹ ضد پر اڑ جاتا اپنے راز کھولنے سے انکار کر دیتا تب وہ یہ ٹریک اس پر آزماتی تھی اور اس نے منہا کے ساتھ بھی وہی کیا اسے لفظوں کے چال میں پھنسا کر ہیپی ٹائزم کر کے سب معلوم کر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آآ۔آپ یہ کیسے کک۔کرسکتی ہیں منہا نے حیرت و دکھ سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ نےاس کے سوال مسکراتے بیل بجا دی جس پر پریشے اور الحان روم میں داخل ہوئے ان کو آتا دیکھ کر منہا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی سر خود با خود نفی میں ہلا وہ پاکیزہ کو روکنا چاھتی تھئ پر آواز نے ساتھ نا دیا زبان پر جیسے قفل پڑ چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جئ میم کیا نتیجہ نکلا پریشے نے بیٹھتے پوچھا اک نظر منہا کے ہونق بنے چہرے کو دیکھتے پاکیزہ کی جانب متوجہ ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ منہا آپ باہر جاو شاباش اب آپ کی ضرورت نہیں پاکیزہ نے نرم سے اسے دیکھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نو پلیز منہا نے ڈرتے مدھم سی سرگوشی کی۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزہ ہنوز اسے دیکھتے مسکرا رھی تھی شاید یہ اس کی ذات کا حصہ تھی مسکراہٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا جاو باہر بیٹھو ہم آتے ہیں الحان نے اسے وہی جمے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ جج۔جی بھائی منہا مری سی آواز میں بولتی باہر نکل گئ جانتی تھی اب کچھ نہیں کر پائے گی سارا بھرم ٹوٹ گیا تھا تین سال کی محنت خاک ہو گی تھی کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا کیسے سب تکلیفیں برداشت کر کے بھی سب کے سامنے بھرم قائم رکھا تھا آج ایک پل میں سب مٹی کے ڈھیر کی طرح زمین بوس ہو گیا تھا سر ہاتھوں میں گرائے رو دی تھی ان تین سالوں میں آج پہلی بار پھوٹ پھوٹ کر دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی میم تو کیا بتایا منہا نے الحان اس کے جاتے پھر سے پاکیزہ سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ویڈیو دیکھ لیں آپ کو سب سمجھ آجائے گی پاکیزہ نے ویڈیو پلے کر کے ان کے سامنے رکھ دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے جیسے ویڈیو چلتی جا تھی تھی دونوں کے چہرے کے تعصورات بدلتے جارھے تھے ایک کے چہرے پر دکھ تکلیف کے آثار تھے تو دوسرے کے چہرے پر غصے کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ویڈیو ختم ہوئی تو الحان نے ضبط سے مٹھیاں میچ لی اور اٹھ کھڑا ہوا وہ شدید غصے میں تھا پریشے بھی اس کی تلقید میں کھڑی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ میم کیا یہ ویڈیو ہم لے جاسکتے ہیں الحان نے ضبط سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی شیور یہ آپ کے لیے ہی بنائی ہے پاکیزہ نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔ شکریہ میم کہتے الحان اس ویڈیو کو اپنے فون میں کرتے باہر نکل گیا پریشے بھی پاکیزہ کا شکریہ ادا کرتی الحان کے پیچھے چل دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان جیسے ہی روم سے نکلا منہا جلدی سے کھڑی ہو گی نظریں الحان کے سرخ چہرے پر پڑی تو دل کی دھڑکن تیز ہوگی فورا سے نظریں جھکا لی۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو یک لفظی حکم دیتے وہ لمبے لمبے ڈھاگ بھرتا باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے پریشے کو دیکھا جو افسوس سے اسے دیکھ رھی تھی اور خاموشی سے سر جھکائے کسی مجرم کی طرح ان کے پیچھے چل دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ جیسے ہی گھر پہنچے منہا جلدی سے گاڑی سے نکلتی اپنے روم کی جانب بڑھی مگر الحان کی سخت آواز پر قدم وہی جم گے سر جھکائے ہی ان کی طرف پلٹی نظریں ملانے کی ہمت نا کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاونچ میں آو الحان کہتے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ سب ہی وہاں موجود تھے الحان نے سب کو ہی وہ ویڈیو دیکھا دی تھی جس پر آمنہ پریشے دکھی تھی تو دونوں بھائی غصے دے بھرے بیٹھے تھے بھابھیوں کے انداز نارمل تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا خاموشی سےنظریں جھکائے سب کے سامنے شرمندہ سی بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے اک بار بھی ہمیں بتانا گوارہ نہیں کیا کیا تم اتنی بڑی ہو گی تھی کہ باتیں چھپانے لگی الحان نے افسوس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی بلکل سہی کہہ رھے ہیں یہ جو تمھاری حالت ہے نا اس کی ذمیدار تم خود ہو ایک اور الزام لگایا گیا۔۔۔۔۔۔ سب نے اپنے اپنے طریقے سے اسے سنائی آج بھی اس کی نہیں سنی گی اپنی غفلت کا الزام بھی اس کے سر ڈال کر وہ سب آزاد ہو گے ہر بات سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا بس سوچ کر رھ گی کیا ان کا کوئی فرض نہیں تھا دیکھنے کا جانے کا چیک کرنے کا بہن کی شادی۔ کرتے سب اپنی اپنی لائف میں مصروف ہو گے کیوں نہیں پلٹ کر اک بار جانے کی کوشش کی کوئی بات اپنی غلفت کا الزام بھی مجھ پر لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس سے سر کھپا رھے ہو آپ سب اس سے ماتھ ٹکرانا پتھر سے ٹکر مارنے کے برابر ہے زوبیہ نے نے ناگواری سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا خاموشی سے نظریں جھکائے سنتی جا رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس بہت ہوا اب ان سے میں خود بات کروں گا اور تم خبردار کسی معاملے میں بولی تو الحان نے حکم صادر کرتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مم۔مگر بھائی منہا اس کے کھڑے ہونے پر بوکھلا گی کچھ کہنا چاھا جیسے مہران نے ہاتھ اٹھا کرمنع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب ہم خود بات کرے گے تم خاموش رھو گی ویسے بھی یہ کام تم اچھے سے کر لیتی ہو طنزیہ کہا گیا۔۔۔۔۔۔ منہا کے چہرے پر خوف صاف دیکھا جا سکتا تھا مگر اب وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی تیر کمان سے نکل چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحان نے حدید کو کال کر کے گھر بلایا تھا اس نے اگلے دن آنے کا وعدہ کرتے کال بند کر دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید اگلے دن ہی پہنچ گیا تھا ہر۔ بات سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔ الحان اسے لیے لاونچ میں بیٹھ گیا تھا اس کے آتے ہی آہستہ آہستہ سب وہاں جمع ہو گے بس اگر کوئی نہیں آیا تھا تو وہ منہا تھی جو آنے والے وقت سے شدید خوفزدہ ہونے کے باعث روم میں ہی بند ہو گی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر نارمل بات کے بعد مہران جو کب سے غصہ ضبط کیے بیٹھا تھا اس نے الحان کو اشارہ کیا جس پر الحان گلا کھنگارتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید ہم نے فیصلہ لیا ہے منہا تمھارے ساتھ نہیں رھے گی اب تو تم اسے خود سے آزاد کر دو ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ کیا سالے صاحب حدید نے الحان کی بات کاٹتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ ہم خلاء لے لیں گے مہران نے غصے سے بھڑکتے کہا۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا اور تم سمجھتے ہو میری مسز اس بات پر راضی خوشی مان جائے گی حدید نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مانے یا نا مانے مگر اب وہ تمھارے ساتھ نہیں رھے گی بس الحان نے اٹل لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو میرے سالو میں کوئی بدمزگی نہیں چاھتا پہلے ہی بابا جان کی وجہ سے میں نے اسے یہاں بھیج دیا ہے جس سے میں بہت اپ سیٹ ہوں اب تم لوگ بھی ہمارے درمیان آنے کی کوشش کرو گے تو مجھے سخت قدم اٹھانے پر مجبور مت کرو یہ حدید نے انتہائی سرد لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھارا کیا خیال ہے یہ سب جانے کے بعد ہم اپنی بہن تمھارے ساتھ بھیج دے گے ناممکن ہے سمجھے خاموشی سے طلاق دو ورنہ ہم خلاء لے لیں گے مہران نےغصے سےچلاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب کی بلند ہوتی آوازیں منہا خوب۔ سن رھی تھی مگر ہمت نہیں تھی باہر نکلنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک تو میں ابھی اپنی بیوی بیٹی کے لے جارھا ہوں دیکھتا ہوں کون روکے گا مجھے حدید غصے سے کھڑا ہوتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نہیں جائے گی اور کہاں لے کر جانے کی بات کر رھے ہو تمھارے باپ نے پہلے ہی اسے نکال دیا تھا اب تو بس ہم اپنی بہن تمھارے چنگل سے آزاد کرنے کا آخری مرحلہ انجام دینے لگے ہیں الحان بھی کھڑے ہوتے شدت سے چلا کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا جائے گی اور مجھے آج نا تم روک سکتے ہو نا میرا باپ سمجھے ۔۔۔۔۔۔ منہا ۔۔۔۔ منہا باہر آو حدید نے غصے سے دھاڑتے منہا کو پکارا ۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا جو روم میں بیٹھی تھی گھبرا کر کھڑی ہوئی دل اچھل کر جیسے حلق میں آگیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نہیں آئے گی مہران نے غصے سے اس کے سامنے تن کر کھڑے ہوتےکہا۔۔۔۔۔ منہا آئے گی تمھارے سامنے آئے گی اور میرے ساتھ جائے گی حدید نے چیلنج کرتے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔ منہا اگلے دو منٹ میں باہر آو ورنہ آگے تم سمجھدار ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید کا بس اتنا کہنا تھا منہا فورا دروازہ کھول کر باہر آگی ۔۔۔۔۔۔۔ منہانے سب کو اپنی طرف تکتے پا کر سر جھکا لیا۔۔۔۔۔۔ منہا۔۔۔۔۔۔ دفا ہو جاو روم میں الحان غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔۔۔ منہا کا ان کے منع کرنے کے باوجود باہر آنا ان دونوں بھائیوں مشتعل کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا منتہا کو اپنا سامان لے کر آو حدید ٹھنڈے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا میں کہتا ہوں روم میں دفا ہو جاو مہران غصے کی زیادتی سے چیخا۔۔۔۔۔۔۔ منہا کھڑی کیا ہو جاو لے کر آو سامان تم ابھی میرے ساتھ چل رھی ہو حویلی حدید نے وہی ٹھنڈے لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا بے بسی سے کبھی بھائیوں کو دیکھتی تو کبھی حدید کو باقی سب کو اس کی حالت پر ترس آرھا تھا جو دونوں طرف پھنسی درمیان میں کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے ڈئیر وائفی فیصلہ کرنے میں مشکل ہو رھی ہے چلو میں آسانی کر دیتا ہوں کہتے حدید نے اپنی گن نکالی جو ہر وقت ساتھ رکھتا تھا سیدھی الحان کی جانب کر دی۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں پپ۔پلیز منہا شاک سی کھڑی نفی میں سرہلاتےاٹکتے بولی۔۔۔۔۔۔۔ اگر چاھتی ہو یہ سب زندہ سکون سے رھیں تو چپ چاپ سامان اور منتہا کو لے کر آو حدید سرد اور خطرناک لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ جج۔جی مم۔میں آتی ہوں پپ۔پلیز آپ یہ نن۔نیچے کر لیں منہا نے چہرےپرآئےپسینے کو صاف کرتے کہا۔۔۔۔۔۔ ہہم گڈ جلدی آو حدید ہنوز اسی پوزیشن میں کھڑے کہا۔۔۔۔۔۔ سب شاک کے عالم میں حدید کو دیکھ رھے تھے الحان کی بولتی تو خود پر تانی گن دیکھ کر ہی بند ہو گی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے حدید بھائی آپ کو منہا کو لے جانا ہے تو لے جائیں مگر یہ گن تو نا تانی کچھ تو رشتے داری کا خیال کریں زوبیہ نے الحان کی بازو تھامتے گھبرا کر کہا۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی یہ کیا بول رھی ہیں مہران کی وائف حوریہ نے حیرت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو کیا میں اپنا سہاگ قربان کر دوں کیا اتنی ہمدردی ہے تو اپنے گھر والے کو کر دو اس گن کے سامنےزوبیہ نے تڑخ کر کہا۔۔۔۔۔۔ ارے ایسے کیسے کردوں مہران کی کیا غلطی حوریہ نے مہران کی بازو تھامتے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ بس کریں آپ دونوں تھوڑی بھی شرم ہے تو ڈوب مریں آپ جیسے بے حس رشتوں سے اچھا ہے منہا کو حدید ساتھ لے جاے آمنہ نے بھائیوں کو بے حس خاموش کھڑے دیکھ کر تلخی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ شوق ہے تو تم آ جاو نا گن کے سامنے زوبیہ نے دوبدو جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کریں آپ سب میں جا رھی ہوں ان کے ساتھ کسی کو میری وجہ سے کچھ نہیں ہو گا منہا نے روم سے نکلتے تکلیف سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے منہا کی جانب دیکھا جو تکلیف کی آخر حدوں کو چھو تھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا دیکھو ماہی یہ ہیں تمھارے اپنے جن کو تم سے زیادہ اپنی جان پیاری ہے ان کے لیے تم نے سے برداشت کیا تھا نا حدید تمسخرہ اڑاتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے تکلیف سے آنکھیں میچ لی ۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید آگے بڑھا اوراس کی کلائی تھامے کھینچتے ہوئے ساتھ لے گیا مگر کسی نے نا اسے روکنے کی ہمت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ لوگ کچھ کر نہیں سکتے تھے تو ہمیں یہاں کیوں بلایا یہ سب تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی آمنہ نے تلخی سے کہا اور اٹھ کر چلی گی پریشے بھی دونوں بھائیوں کو افسوس سے دیکھتی چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی حدید ظاہری طور پر تو گاڑی ڈرائیو کر رھا تھا مگر اس کا دھیان سارا منہا پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی کیسے سب کچھ اپنے بھائیوں کو بتا سکتی ہے جب کے وہ جانتی تھی اس سب کا انجام کیا ہو گا اور وہ تو ڈرتی اتنا ہے مجھ سے تو کیسے حدید کا سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگا تھا اس نے جھٹکے سے گاڑی سائیڈ پر روکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھٹکا لگنے سے منہا کا سر ڈیش بوڑ سے ٹکراتے بچا تھا ۔۔۔۔۔۔ منہا نے خوفزدہ ہوتے حدید کو دیکھا جس کا چہرا خطرناک حد تک سنجیدہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں بتایا ماہی بولو منع کیا تھا نا تم جانتئ تھی نا کیا انجام ہو گا پھر بھی تم نے راز کھول دیے کیوں ماہی حدید نے کمر میں ہاتھ ڈالےجھٹکے سےاس کو قریب کرتے بولا ۔۔۔۔۔۔۔ مم۔معاف کر دد۔دیں سائیں غغ۔غلطی ہو گگ۔گئ منہا نے خوفزدہ ہوتے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے معاف کر دوں کیسے کیسے تم غلطی کر سکتی ہو اتنی بڑی تمھیں اپنا آپ پیار نہیں ہے کیا اس کے چہرے سے ہٹاتے سرد لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سس۔سائیں میں نے جج۔جان بوجھ کر نن۔نہیں بتایا مم۔میرا یقین کریں منہا نے نظریں جھکائے معصومیت سے صفائی دینی چاھیی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید کچھ دیر اسے گھورتا رھا پھر جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر خود کو نارمل کرتا رھا منہا خوف سے کانپ رھی تھی۔۔۔۔۔۔ کیسے پتہ لگا ان کو مجھے سب سچ سچ بتاو ماہئ ورنہ انجیکشن نکال کر سامنے رکھا کافی دیر بعد حدید سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔۔۔۔ وو۔وہ سائیں منہا سےانجیکشن کو دیکھتے ڈر کے مارے بولا بھی نہیں جارھا تھا لڑکھڑاتےلہجے میں بولتی خاموش ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ریلیکس پانی پیو اور آرام سے بتاو حدید اس کی کنڈیشن دیکھتے بولا ۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے پانی پیا اور پھر خود کو نارمل کرتے بولنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے جلدئ سے سب حدید کو بتا دیا جانتی تھی نا بتایا تو حدید اس کی حالت بگاڑ دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم تو اس نے تمھیں ہیپی ٹائزم کر کے سب معلوم کرا ہے میں جانتا تھا میری ماہی کبھئ میرا یقین نہیں توڑے گی حدید نے اسے پیار سے دیکھتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ شاہ جی آآ۔آپ نے مجھے معاف کک۔کر دیا منہا نے ڈرتے حیرت سے حدید کیجانب دیکھتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ جی شاہ جی کی جان شاہ کو معاف تو کرنا ہی تھا آخر تم جان ہو میری اور اس میں تمھاری کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے معاف کر دیا مگر اگر تم نے مجھے چھوڑنے کا سوچا تو تم جانتی ہو نا حدید نے بات ادھوری چھوڑتے اس کے چہرے پرانگلی سے لیکر کھینچتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ نن۔نہیں آپ جو کہیں گگ۔گے میں وہی کروں گی منہا نےسٹپٹاتے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔۔ گڈ چلو گھر چلتے ہیں حدید نے مسکراتے نرمی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ مم۔مگر شاہ سائیں ابو جی منہا نے پریشانیسے حدید کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔ ان کو میں دیکھ لوں گا تم پریشان نہیں ہو حدید نے گاڑی دوبارہ سڑک پر ڈالتے کہا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید اور منہا جیسے ہی گھر پہنچے ایک قیامت تھی جو ان کا انتظار کر رھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹے شاہ جی وہ بڑے شاہ جی اور چھوٹی بی بی کا ایکسڈنٹ ہو گیا ہے وہ سٹی ہوسپٹل میں ہیں ابھی کال آئی ہے فروزہ بی نے گھبراتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا اور حدید تو بوکھلا ہی گے اس آفت پر جلدی سے ویسے ہی ہوسپٹل بھاگے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں پہنچ کر پتہ لگا دونوں سیریس کنڈیشن میں ای سی یو میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حدید کو کچھ سمجھ نہیں آرھی تھی وہ کبھی ادھر بھاگتا تو کبھی ادھر ڈاکٹر کچھ نہیں بتا رھے تھے۔۔۔۔۔۔۔ حدید تھک ہار کر ای سی یو کے سامنے کرسی پر ڈھ گیا تھا جب منہا نے ہمت کرتے اس کے کندھے پر اپنا نازک ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائیں ہمت رکھیں کچھ نہیں ہو گا ابو جی اور حرا جی کو کہتے آہستہ سے اس کے قدموں کے پاس بیٹھ گی ۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے چونک کر سر اٹھایا وہ تو منہا کو بھول ہی گیا تھا غور سے اس کا چہرا دیکھا جو چہرا پہلے سرخ سفید رنگت لیے ہوا تھا اب اس میں زردیاں گھولی ہوئی تھی آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑے ہوئے تھے کمزور سا وجود لیے وہ پہلے والی منہا آفندی نہیں رھی تھی۔۔۔۔۔ حدید کے ایسے دیکھنے پر چھنپ پر سر جھکا گی سس۔سوری سائیں کہتے جلدی سے سائیڈ پر کھڑی ہو گی اٹھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر آو ماہی حدید نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔ جج۔جی سائیں منہا ڈرتے ذرا سا قریب گی۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھو یہاں میرے پاس حدید نے ہاتھ سے پکڑ کرپاس بیٹھا لیا۔۔۔۔۔۔ ماہی معاف کر دو میرے بابا جان اور بہن کو شاید یہ تمھارے ساتھ کیے ظلم کی سزا ہے جو آج وہ اس حال میں ہیں پلیز ان کو دل سے معاف کر دو ان کے لیے دعا کرو حدید نے منہا کا ہاتھ پکڑتے روندھے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائیں یہ یہ آپ کیا کہہ رھے ہیں مم۔میں کسی سے ناراض نہیں ہوں منہا نے ڈرتے گھبرا کر جلدی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید اس کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر اور شرمندہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہی تم ناراض نہیں یا میرے ڈر سے یہ کہہ رھی ہو میں نہیں جانتا مگر خدا ناراض ہے ہم سے جس کی معصوم سی بندی کو بہت تکلیف دی ہے ہم نے حد سے زیادہ ظلم کیے ہیں حدید کہتے رو دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا گہرا سانس بھر کر رھ گی اور دل میں سوچا کیا اتنا آسان ہے سائیں معاف کر دینا بہت مشکل ہے مگر میں نے اپنےخدا پر چھوڑ دیا ہے سوچتے آہستہ سے اپنا ہاتھ حدید کے ہاتھ سے نکال کر سائیڈ پر چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید جان گیا تھا وہ معاف ناراض ہے مگر صرف حدید کے ڈر سے کہہ نہیں پائی کچھ حدید بس اسے دور جاتے دیکھتا رھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرز کی کافی محنت تگ دو کے بعد میرشاہ اب خطرے سے باہر تھے اور حرا کے لیے چوبیس گھنٹے کہہ تھے ڈاکٹر نے ان دوران اگر ہوش آنا ضرور تھا ورنہ دوسری صورت میں وہ کومہ میں جا سکتی تھی یا پھر ڈیتھ ہونے کے چانس تھے یہ چوبیس گھنٹے بہت اہم تھے حرا کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کے علاوہ بھی ایک بری خبر سنا گے تھے کہ حرا ہمشہ کے لیے اپنی ٹانگیں گنوا چکی ہے اب کبھی چل نہیں سکے گی یہ خبر حدید پر بجلی بن کر گری تھی وہ وہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ دیکھ رھا تھا مفاکات عمل چل نکلا تھا ان کی زمینی خدائی ختم ہو گی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔.....

❤️ 👍 😢 🙏 😮 🫀 30
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
2/27/2025, 5:15:38 AM

ناول نیم؛؛؛؛ زندگی تجھے جی نہیں رھے گزار رھے ہیں ہم؛؛؛ رائٹر نیم؛؛؛ فاطمہ زیڈ ڈی؛؛؛ قسط ؛؛؛؛29 رمیز نے حدیدکو شوپنگ مال سے نکلتے دیکھا تو شیطانی مسکراہٹ ہونٹ پر کھیل گی فورا کچھ سوچتے اس کی جانب قدم بڑھا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو حدیدکیسے ہو یار۔۔۔۔۔۔۔ رمیز نے قریب جا کر حدید کو پکارا جو کاونٹر پر بل پے کر رھا تھا۔۔۔۔۔۔ حدید نے اسے دیکھتے غصہ ضبط کرتے بغیر اس کی بات کا جواب دیے بل پے کرتے مال سے بیرونی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔ ارے حدید سن تو سہی یار رمیز نے بھاگ کر اس کے قدم سے قدم ملاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سنو اب رھ ہی کیا گیا ہے سنے کو حدید نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھ حدید اس دن میں نے جو بھی کہا غصے میں کہا لیکن میرا ارادہ غلط نہیں تھا میں تجھے بس سمجھانا چاھتا ہوں اور کچھ نہیں ہم اچھے دوست ہیں میں تیرا بھلا ہی چاھتا ہوں یار رمیز نے سوچ سمجھ کر الفاظ چنتے جال بیچھایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسا بھلا ہاں سب کے سامنے میری عزت پر کیچڑ اچھال کر کونسا بھلا کررھے تھے تم حدید نے سخت لہجےمیں کہا۔۔۔۔۔۔۔ مانتا ہوں یار اس دن غلطی ہوئی مجھ سے مجھے ایسے نہیں کہنا چاھیے تھا مگر میں غصے میں بولا جو کچھ وہ غلط نہیں تھا رمیز نے اس کے سامنے آتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ بکواس بند کر دفا ہو جا یہ نا مجھ سے کچھ غلط ہو جائے حدید نے غصے سے لال ہوتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ دیکھ حدیدتو میرا دوست ہے اور میں تجھے ایسے نہیں چھوڑ سکتا اچھا چل کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں تجھے کچھ سمجھانا چاھتا ہوں اس دن میں نے سہی بات غلط وقت اور انداز سے کر گیا تھا لیکن اب میں ایکسپلن کرنا چاھتا ہوں رمیز اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ایکسپلین کرنا چاھتا ہے اور کونسی سی بات حدید نے چونکا ہوتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ چل کہی بیٹھ کر بات کرتے ہیں رمیز نے اسے نرم پڑتے دیکھا تو جھٹ سے بولا۔۔۔۔۔۔۔ ہہم چلو حدید بھی کچھ سوچتے اس کے ساتھ چل دیا ۔۔۔۔۔۔ رمیز کا شیطانی دماغ بہت تیزی سے کام کر رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں بول اب جلدی وقت نہیں میرے پاس حدید بیزاریت سے بولا۔۔۔۔۔۔۔ دیکھ حدیدتو میری بات دھیان سے سنا اور سمجھنا جو اور تحمل سے سنا میں جانتا ہوں تجھے غصہ آئے گا شاید تو مجھ سے لڑنے بھی لگے پر یہ تیرے لیے اہم سے اس لیے تجھے سمجھا رھا ہوں اوکے رمیز دھیرے دھیرے حدید کو اپنی باتوں میں پھنسا رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہم بول کیا بات ہے حدید بھی اس کے انداز پر سیدھا ہو کر بیٹھا گیا۔۔۔۔۔۔ دیکھ حدید تو جانتا ہے نا تیرے اور بھابھی کی عمر میں کتنا فرق ہے رمیز نے آرام سے بات شروع کی۔۔۔۔۔۔ حدید: تو رمیز: تو یہ بھی جانتا ہے وہ ماشااللہ خوبصورت پڑھی لکھی بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔ حدید : ہاں تو ای برو اچکائے ۔۔۔۔۔۔ تو سوچ یار وہ کب تک خود سے اتنے بڑے آدمی کے ساتھ رھے گی ایک نا ایک دن چھوڑ دے گی تجھے پھر تو کیا کرے گا رمیز نے آخر اپنے شیطانی پلان کو عملی جامہ پہنایا۔۔۔۔۔۔۔ کیا بکواس کر رھا ہے تو دماغ ٹھیک ہے تیرا حدید غصے سے بھڑکتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میرا تو ٹھیک ہے پر تیرا خراب ہو چکا ہے عقل پر بلکل پردا ڈال لیا ہے تو نے جو حقیقت کو نہیں پہچان پا رھا۔۔۔۔ بس بند کر اپنی بکواس حدید غصے سے کھڑا ہوتے چلایا۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں کر لوں گا بکواس بند پر تو میری بات پر سوچنا ضرور ابھی وقت ہے سنبھل جا اور اپنی بیوی کو قابو میں رکھ میرا کام تھا سمجھانا باقی تیری مرضی وہ ابھی کم عمرہے خوبصورت پڑھیلکھی بھی ہیں کبھی بھی اپنے سے بڑے آدمی کے ساتھ نہیں رھے گی زیادہ دیر تک یاد رکھنا میری بات میں دوست ہوں تیرا اس لیے آخر بار سمجھا کر جا رھا ہوں باقی تیری مرضی کہتے رمیز سکون چلا گیا۔۔۔۔۔۔ مگر منہا کی زندگی کا رھا سہا سکون بھی ساتھ لے گیا ۔۔۔۔۔ حدید پورے راستے رمیز کی باتیں سوچتا رھا جب گھر آیا تو منہا سامنے ہی کیچن میں داخل ہو رھی تھی حدید کو پھر سے رمیز کی کہی باتیں یاد آئی ۔۔۔۔۔۔۔ حدید خاموشی سے روم میں چلا گیا منہا نے اسے گزرتے دیکھا تو پانی لیے پیچھے روم میں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم پانی لے لیں آپ نے آج دیر کردی بھائی آئے تھے آپ کا بھی پوچھ رھے تھے منہانے پانی کا گلاس دیتے کہا۔۔۔۔۔۔ اچھا تم مجھے کال کر لیتی حدید نے خود کو نارمل کرتے پانی پیتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوری میں کام میں بیزی ہو گی تھی تو بھول گی منہا نے معصومیت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ ہہم کوئی بات نہیں حدید نے گلاس اسے دیتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کھانا لاتی ہوں آپ کے لیے منہا کہتے کیچن میں چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا کو گے ابھی دومنٹ ہوئے تھے پیچھے اس کا فون بجنے لگا حدید نے اکتاہٹ سے اٹھ کر فون اٹھا کر دیکھا تو کوئی انونمبر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو ہیلو حدید نے جیسے ہی کال اوکے کی آگے سے کوئی نہیں بولا بلکے کال کٹ کر دی حدید نے سکرین کو گھور کر دیکھا فون رکھے واپس صوفے پر آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد فون پھر سے رینگ ہونے لگا حدید نے اٹھ کر پھر سے کال اوکے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو ہیلو کون ہے بولنا نہیں ہوتا تو کال کیوں کرتے ہو حدید نے غصے سے چڑتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی پل منہا کھانا لیے روم میں داخل ہوئی کیا ہوا عالم کون تھا منہا نے کھانا ٹیبل پر رکھتے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید کے دماغ میں پھر سے رمیز کی کہی باتیں گونجنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو تم بتاو نا کون ہے جیسے صرف تمھاری آواز حدید نے فون پٹختے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ کیسی باتیں کر رھے ہیں عالم ایسا کچھ نہیں منہا نے حیرتسے حدید کیجانب دیکھا کہا۔۔۔۔۔۔ تو کیسی بات ہے ہاں بتاو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی حدید کچھ اور بھی کہتا فون پھر سے رینگ ہونےلگا حدید نے اچک کر فون اٹھایا اور منہا کی جانب کیا کرتے کال اوکے کر کے سپیکر پر ڈال دی اور اسے اشارے سے بولنے کا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہہ۔ہیلو منہا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔۔۔۔ ہیلو اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی منہا نے ہیلو کہا مقابل سے مردانہ آواز گونجی جس پر حدید نے بغیر کچھ سوچے سمجھے طیش سے فون دیوار میں دے مارا۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ عالم۔۔۔۔۔۔ حدید کے اس سخت ریکشن پر منہا کے منہ سے چیخ نکل گیا۔۔۔۔۔۔ کیا عالم ہاں کیا اب بتاو سچ سچ کون ہے یہ کس سے بات کرتی ہو تم ورنہ یہی زندہ گاڑ دوں گا حدید نے ایک ہی جست میں اسے بالوں سے پکڑتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ ع۔عالم چچ۔چھوڑیں کیا کک۔کر رھے ہیں مم۔مجھے نہیں پتہ کون ہے قسم سے مم۔میں نہیں جانتی۔۔۔۔۔۔۔ چٹاخ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو بتاو کب سے چل رھا یہ سب الٹے ہاتھ کا تھپڑ جڑتے بولا۔۔۔۔۔۔۔ تھپڑ کی شدت اتنی تھی کے وہ لہرا کے بیڈ پر منہ کے بل گری۔۔۔۔۔ عا۔عالم پلیز میرا یقین کریں مم۔میں نہیں جانتی کچھ بھی منہا نے اپنی صفائی دینے کی ناکام کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکواس سب بکواس تم مجھے چھوڑ کر جانا چاھتی ہو نا کسی اور کے ساتھ اپنے عمر کے کسی شخص کے ساتھ جانا چاھتی ہو نا مگر نہیں میں تمھیں کہی جانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید کے اندر کا نفسیاتی مریض بری طرح جاگ چکا تھا جس کی لپیٹ میں منہا آچکی تھی حدید نے کسی پاگل وحشی کی طرح منہا پر جھپٹا تھا اور بری طرح اپنی درندگی اس معصوم پر نچھاور کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ بغیر اس کی سنے سمجھے وہ اس معصوم کو جانوروں کی طرح نوچنے لگا منہا کی آہوں سسکیوں کا اس پر کوئی اثر نا پڑا تھا وہ کہتی رھی میں کچھ نہیں جانتی میں کہی نہیں جاوں گی مگر حدید تو وحشی درندہ بن چکا تھا اس کی کسی بات کسی معافی نے اس درندے پر اثر نا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا جب اس کی درندگی کی تاب نا لا سکی تو اپنے حواس کھو بیٹھی ہوش خرم سے بیگانہ ہوتی حدید کی قید میں جھول گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ بے ہوش ہو گی تب حدید اسے جھٹکے سے بیڈ پر چھوڑتے اپنی حالت ٹھیک کرتے کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (حال) او ہیلو اٹھو چلو کمرے میں اگر ایسے ہی کہی بیمار ہو گی تو ہمارے گلے پڑ جاو گی۔۔۔۔۔ حرا نے سوچوں میں گم ماہی کا کندھا ہلاتے کہا جو اب سردی سے بری طرح کانپ رھی تھی۔۔۔۔۔۔ حرا کے ہلانے پر ماہی ماضی کی تلخ یادوں سے نکلتی ہوش میں آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اٹھ بھی جاو یا عرض پیش کروں حرا نے طنزیہ لہجےمیں کہا۔۔۔۔۔۔ جج۔جی منہا جلدی سے کانپتے کھڑی ہو گی ۔۔۔۔۔۔ جاو اپنے کمرے میں شکر کرو میں نے ابا کو منا لیا ورنہ ساری رات یہی گزارتی اب آئیندہ سے خیال رکھنا سمجھی حرا نخوت سے کہتی اپنےروم میں چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا سردی سے کانپتی جلدی سے اپنے روم میں گی اور کپڑے نکال کر واش روم میں بندہو گی اچھے سے شاور لے کر کپڑے بدلتی بستر میں دبک کر لیٹ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے گرم بستر میں بھی شدید سردی لگ رھی تھی مگر ہمت کرتی لیٹی رھی کافی دیر یوں ہی لیٹی رھی آخر نیند کو اس معصوم پر رحم آہی گیا اور وہ نیند کی وادیوں میں اترتی چلی گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح صبح اس کی آنکھ اچانک روم کا دروازہ بجنے پر کھلی تو جلدی سے بال سمیٹتی بستر سے نکلی۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے تھکا تھکا سا حدید کھڑا تھا۔۔۔۔ اتنی دیر لگا دی دوازہ کھولنے میں خیر تو ہے حدید نے اسے غور سے دیکھتے پوچھا۔۔۔۔۔۔ جج۔جی سائیں منہا نے سر جھکاتے کہا۔۔۔۔۔۔ لگ تو نہیں رھی طبیعت ٹھیک ہے تمھاری کہتے حدید نے جیسے ہی اس کے ماتھے کو چھو کر چیک کیا وہ اس کی جسم سے آگ نکل رھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مم۔میں ٹھیک ہوں سائیں آپ بیٹھیں میں چائے لاتی ہوں آپ کے لیے بخار سے سرخ پڑتے چہرے کو مزید جھکاتے چکراتے سر کے ساتھ باہر کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھیں تو بخار ہو رھا ہے اتنا ادھر بیٹھو تم نے کچھ کھایا حدید نے فکر مندی سےاسے بیڈ پر بیٹھاتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے آہستہ سے نفی میں سر ہلاتے کہا ابھی اٹھی ہوں سائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بیٹھو میں آتا ہوں حدید کہتے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ منہاخاموشی سےبیٹھی اپنی انگلیاں چٹخاتی رھی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہران کی شادی ہو چکی تھی وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اسلام آباد میں سیٹل ہو گیا تھا الحان اپنے بزنس اور بیوی بچوں میں مصروف ہو گیا تھا آمنہ پریشے بھی اپنی اپنی لائف میں مصروف ہو گی پھر کسی نے پلٹ کر منہا سے کچھ نا پوچھا نا جانا۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے بھی حدید کا رویہ بدلنے کے بعد لبوں پر قفل ڈال لیا بہن بھائی اگر مہینوں بعد کال کرتے تو جھوٹا خوش ہو کر دیکھا دیتی نا منہا نے حرف شکایت کی نا ان لوگوں پھر کچھ جانے کی کوشش کی جو منہا نے کہا وہ ہی مان لیا اور جو منہا نے دیکھایا وہی سچ سمجھ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کس حال میں ہے اس پر کیا گزر رھی ہے کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا سب اپنی اپنی لائف میں مصروف ہو گے آگے بڑھ گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اگر کوئی وہی کھڑا تھا وہ تھی منہا جس کی لائف قید ہو کر رھ گی تھی رات میں حدید کی جہاریت سہتی تو دن میں حرا اور میرشاہ کی لعنت ملامت اور سزائیں بھگتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں تھا جس سے دل کا حال کہہ پاتی ہمشہ کی طرح اپنے کمرے میں بند ہوکر رو لیتی دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی اور پھر اپنے دکھ؛ تکلیف اپنے ہی دل میں دفنا کر کام میں لگ جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دن گزرتے جا رھے تھے آخر تین سال گزر گے اسی اذیت میں نا منہا نے لب کھولے نا کوئی اس کی تکلیف سمجھ سکا نا جان سکا۔۔۔۔۔۔۔ حدید منہا کو کچھ وقت کے لیے لاہور لے گیا وہاں بھی گزرے دن اذیت سے کم نا تھے مگر زیادہ اذیت تب بڑھی جب وہ منہا کو واپس شاہ حویلی لے آیا میرشاہ اور حرا کو ایک بار پھر موقع مل گیا اس معصوم کو اذیت دینے کا مگر اب کی بار وہ حدید سے محتاط ہو گے تھے اس کے سامنے اچھا بنے کی کوشش کرتے اور اس کے جاتے ہی معصوم کو جانوروں کی طرح ٹریٹ کرتے۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو منہا یہ کھاو پھر میڈیسن دیتا ہوں حدید نے ناشتے کی ٹرے منہا کے سامنے رکھتے کہا۔۔۔۔۔۔ منہا نے گھومتے سر کو ہاتھوں سے اٹھا کر حدید کو دیکھا جواسی کو دیکھ رھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سرخ آنکھیں دیکھپل بھر کو حدید کے دل کو کچھ ہوا یہ تو وہ منہا رھی ہی نہیں تھی جو شروع کے دنوں میں بیاہ کر آئی تھی یہ تو کوئی اور ہی منہا تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ سرخ آنکھیں جن کے نیچے ہلکے پڑ چکے تھے سفید رنگت میں زدیاں گھول گی تھی سوکھے ہونٹ مرجھایا چہرا زندگی سے بیزار وجود آنکھوں میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی جیسے زندہ رھنے کی خواہش ہی مر چکی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے خاموشی سےسر جھکائے ناشتہ کرنا شروع کر دیا چند نوالے زہر مار کر کے ٹرے پیچھے کھسکا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کر لیا ناشتہ اس کے ٹرے پیچھےکرنے پر حدید جو اسے غور سے دیکھ رھا تھا چونک گیا۔۔۔۔۔۔۔ جی یک لفظی جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو یہ میڈیسن لو حدید نے میڈیسن نکال کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے منہا نے خاموشی سے پانی کے ساتھ نگل لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تم آرام کرو میں آتا ہوں حدید کہتے اس پر کمبل ڈالے خود باہر نکل گیا اس کا رخ اب میرشاہ کے روم کی جانب تھا کیوں کے کیچن میں کام کرتی فروزہ نے حدید کو رات ہونے والے واقعے کے بارے میں سب بتا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فروزہ بڑی عمر کی ملازمہ تھی جو دل کی بہت نرم دل تھی منہا نے ہمشہ اسے عزت دی تھی جس کی وجہ سے وہ بھی منہا کو اپنی بیٹی جیسی عزیز تھی اس سے منہا کے ساتھ ہونے والا سلوک برداشت نہیں ہوتا تھا رات والے واقعے پر ان کی برداشت جواب دے گی تھی اسی لیے اس نے حدید کو کیچن میں آتے دیکھ کر سب کچھ بتا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید ضبط سے مٹھیاں میچ کر رھ گیا اب وہ میرشاہ سے دو ٹوک بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھاجس کے لیے اس نے ان کے اٹھ کا انتظار کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور سیدھا ان کے روم میں بغیر ناک کیے داخل ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرشاہ جو کہی جانے کی تیاری کر رھے تھے صبح صبح حدید کو یوں اچانک دیکھ کر گھبرا گے ان کو پہلا خیال منہا کا آیا وہ کہاں ہو گی اس وقت کہی حدید کو کچھ پتہ نا لگ جائے یہ سوچتے وہ زبردستی مسکراتے حدید کی جانب پلٹے۔۔۔۔۔۔۔ ارئے آو برخودار کب پہنچے تم میرشاہ اپنی گھبراہٹ چھپاتے بولے ۔۔۔۔۔۔۔ میں کب آیا یہ چھوڑیں یہ بتائیں کیا بگاڑا ہے اس نے آپ کا کیوں کی اس کی یہ حالت کیا ملا آپ کو اس کو تکلیف دے کر حدید غصے سے پھٹ پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا لہجہ درست کرو حدید شاہ میں باپ ہوں تمھارا تم نہیں اور ہم نے کیا کیا ہے اس سے پوچھو جا کر اس نے کیا کیا ہے جو اس کو سزا ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا بھانڈا پھوٹنے پر میرشاہ ڈھیٹ بنتے بولے۔۔۔۔۔۔ آپ نے اچھا نہیں کیا بابا جان مگر اب اور نہیں میں آپ اجازت دوں گا میری بیوی کے ساتھ ظلم کرنے کا حدید نے غصہ ضبط کرتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا اور جو تم کرتے رھے ہو وہ کیا ہے صاحبزادے ہمیں سب خبر ہے کیسے تم انجیکشن دیتے ہو اسے اور اب تو نشے کی عادت بھی ڈال دی ہے میرشاہ نے پل میں حدید کو آئینہ دیکھایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ حدید کچھ دیر تو کچھ بول ہی نا سکا غصے سے مٹھیاں میچتا رھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ شام کو آکر بات کروں گا تفصیل سے ابھی کہی جانا ہے میرشاہ اس کا کندھا تھپکتے کمرےسے چلے گے اور حرا کو ساتھ لیے گھر سے نکلتے چلے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید سر جھکائے واپس منہا کے پاس چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا ۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں گی حدید جیسے ہی روم میں داخل ہوا منہا بیڈ سے غائب تھی حدید ابھی اسے دیکھنے باہر جاتا واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید مطمئن ہوتا وہی صوفے پر بیٹھ گیااور منہا کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ جب منہا نڈھال سی واش روم سےنکلی مشکل سے قدم اٹھتی بیڈ کی جانب بڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نےاس کی حالت دیکھی تو پریشان سا ہوتا اس کی جانب بڑھاتے اسے پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا ۔۔۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو ماہی حدید نے نرمی سےپوچھا۔۔۔۔۔۔ جج۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہا ابھی کچھ بولتی اس سے پہلے جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھے واش روم کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔ حدید پریشان سا کھڑا اسے دیکھتا رھ گیا پھر کچھ سوچ کر اس کے پیچھے واش روم کی جانب گیا۔۔۔۔۔۔ منہا نڈھال سی بیسن پر جھکی ہوئی تھی اس کی عجیب سی حالت ہو رھی تھی طبیعت پہلے ہی خراب تھی اب اور گری گری سی محسوس ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید نے اسے ایسے نڈھال دیکھا تو آگے بڑھکر اسے تھامتے باہر لے کر آیا اور بیڈ پر بیٹھاتے الماری سے اس کی چادر نکال کر اس پر اڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو اپنی چوڑی ہتھیلی منہا کے سامنے پھیلاتے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کہاں منہا نے حیرت سےپوچھا۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کے پاس چیک کروا کر آتے ہیں حدید نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر آپ تھکے ہوئے آئے ہیں آرام کر لیں میں ٹھیک ہوں منہا نے نظریں چراتے کہا۔۔۔۔۔۔۔ نظر آرھا ہے چلو اٹھا اب اور کوئی بہانا نہیں حدید نے زبردستی اٹھاتے کہا اور اسے لیے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ حدید دس منٹ سے ڈاکٹر کا انتظار کر رھا تھا جو منہا کو چیک کر رھی تھی ٹھیک پندرہ منٹ بعد ڈاکٹر اپنی کرسی پر آکر بیٹھی ان کے پیچھے ہی منہا آہستہ سے چلتی آکر حدید کے برابر بیٹھ گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ماہی ٹھیک ہے نا حدید نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ مسٹر شاہ مبارک ہو آپ کی وائف ایکسپٹ کر رھی ہیں ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر ویکنس بہت ہے اور بخار بھی ہے بہت لاپرواہی برت رھے ہیں آپ لوگ سو پلیز کیئر فل ان کی صحت کا خیال رکھیں اور ڈائٹ کا بھی میں کچھ میڈیسن لکھ کر دے رھی ہوں وہ ان کو دیں ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں تفصیل سے بتاتےکہا۔۔۔۔۔۔ حدید کی تو خوشی کا ٹھیکانہ ہی نا رھا ڈاکٹر کے روم سے نکل کر گاڑی میں بیٹھتے ہی حدید نے منہا کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھینکس سو مچ میری جان میں بتا نہی سکتا میں کتنا خوش ہوں سچ میں بہت خوش ہوں میں حدید بچوں کی طرح اپنی خوشی کا اظہار کر رھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ منہا خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی رھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدید منہا کو لیے گھر آگیا اب وہ منہا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا خیال رکھتا تھا مکمل توجہ دیتا ڈرگز چھپا دی تھی اور انجیکشن دینے بھی بند کر دے وہ نہیں چاھتا تھا اس کے بچے کو کوئی نقصان پہنچے اس لیے ہر طرح سے منہا کا خیال رکھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔

❤️ 👍 😢 🙏 22
Link copied to clipboard!