Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:54 AM
#چاند 🌙 آسمانوں سے لاپتہ #حنا_اسد۔ #قسط_02 چاند آسماں سے لاپتہ تھا،کیونکہ آج اماوس کی رات تھی ،چاروں طرف گہرا اندھیرا تھا ۔۔۔رات کا سناٹا چھا چکا تھا ۔سناٹے کو چیرتی جنگلی جانوروں کی آوازیں ماحول میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ "ڈیڈ میں بھی آپ کے ساتھ آؤں گی "ماھی نے چہک کر کہا ۔۔۔ "ماھی بیٹا تم یہیں گاڑی میں اپنی مما کے پاس رکو ۔میں ابھی پانی کا بندوست کر کہ آتا ہوں "شاہ من نے کہہ کر گاڑی کا دروازہ بند کیا اور خود پانی کی تلاش میں گاڑی کی ڈگی سے بوتل نکال کر جنگل کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ وہ لوگ اسلام آباد سے حویلی جا رہے تھے ۔۔۔کہ راستے میں ان کی گاڑی گرم ہوگئی اور اس میں پانی بھی ختم تھا ۔اسی کیے شاہ من پانی کی تلاش میں گیا ۔۔۔ دعا نے شاہ من کو جنگل کے درختوں اور جھاڑیوں میں گم ہوتے دیکھا ۔۔۔ وہ دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئیں اس کے واپس آنے کا انتظار کر رہی تھیں پندرہ منٹ گزر چکے تھے مگر اسکی واپسی کا کوئی پتہ نہیں تھا ۔۔۔سڑک پہ دور دور تک کوئی گاڑی دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔ "یہ گاڑی بھی کتنی عجیب جگہ پہ بند ہوئی ہے مما "ماھی نے بیزاری سے دعا کو کہا ۔۔۔ "مجھے تو تمہارے ڈیڈ کی فکر ہو رہی ہے ابھی تک واپس نہیں آئے ۔۔۔وہ فکرمندی سے بولی ۔۔۔ "مما میں ابھی دیکھ کر آتی ہوں ڈیڈ کو۔۔ "نہیں ماھی تم یہیں رکو باہر مت جاؤ "دعا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے روکا ۔۔۔ "مما کچھ نہیں ہوتا آپ کی بہادر بیٹی کو " وہ مسکرا کر کہتے ہوئے باہر نکلی ۔۔۔ دعا ان دونوں کی حفاظت کے لیے دعائیں مانگنے لگی۔۔۔ ماھی بھی اسی طرف بڑھنے لگی جہاں کچھ دیر پہلے شاہ من گیا تھا ۔۔۔۔ اس نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کی اور چلنے لگی ۔۔۔۔ "ڈیڈ !! "ڈیڈ!!! اس نے اونچی آواز میں پکارا ۔۔۔مگر اس کی اپنی آواز ہی وہاں کی خامشی میں گونجنے لگی ۔۔۔ ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کے وجود سے ٹکرایا تو اس کے وجود میں کپکپکی سی پیدا ہوئی ۔۔۔ اس نے اپنے دونوں بازو اپنے گرد باندھ لیے ۔۔۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی درجہ حرارت کم ہوتا جا رہا تھا ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔ اسے یہ سب کچھ مافوق الفطرت لگا۔۔۔اچانک اس کے موبائل کی ٹارچ بند ہوگئی اور چاروں طرف اندھیرا پھیل گیا ۔۔۔ اس نے موبائل کی سکرین کو دیکھا ۔۔۔جہاں پہ لو بیٹری کا سگنل آ رہا تھا ۔۔۔ اس موبائل کو بھی ابھی بند ہونا تھا ۔۔۔اس نے جھنجھلا کر کہا ۔۔۔ "کچھ دن بس کچھ دن بچے ہیں !! "آج اماوسیہ ہے !! "آج چاروں اوڑھ اندھیرا ہوگا ۔۔۔!!! "مگر وہ تمہیں دکھائی دے گی ۔۔۔جو تمہاری زندگی کو بڑھائے گی ۔۔۔!! "مگر میں اسے پہچانوں گا کیسے ؟؟؟ "اس کی چمک سے " سرد ہوا کا تھپیڑا ماھی پہ پڑا ۔۔۔اس کے پشت پہ کھلے بال اس کے چہرے پہ پڑے ۔۔۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال کان کے پیچھے اڑسے ۔۔۔ اور نظر اٹھا کر سامنے موجود گھنے درخت کی طرف دیکھا جہاں اسے ایک چمگادڈ بیٹھی دکھائی دی ۔۔۔ ماھی کی ڈائمنڈ کی نوز بن کی چمک اس چمگاڈر پہ پڑی ۔۔۔ وہ پنکھ پھیلا کر درخت کی شاخوں سے اٹھ کر ادھر ادھر اڑنے لگی ۔۔۔ ماھی نے پیچھے دیکھے بنا ڈرتے ہوئے واپسی کے راستے کی طرف دوڑ لگائی۔۔۔ "تم میری ہو !!! "جلد تمہیں میرا ہونا ہی ہوگا !! کسی کی گھمبیر سرسراتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکنوں کی آواز اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی ۔۔۔ اسے اندھیرے میں واپسی کا راستہ دکھائی نا دیا ۔۔۔ وہ پھولے ہوئے سانس سے ایک درخت سے ٹیک لگائے کھڑی ہوئی اور اپنی پھولی ہوئی سانسیں ہموار کرنے لگی ۔۔ ۔۔ کہ اچانک اسے اپنی گردن پہ کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا جیسے کسی کے تیز دانت ۔۔۔ اس نے سہم کر ادھر ادھر دیکھا مگر اسے کچھ دکھائی نا دیا ۔۔۔اس کی بڑی بڑی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں۔۔۔ شاہ من پانی لیے گاڑی تک پہنچا اور گاڑی سٹارٹ کی تو اس کی لائٹس بھی روشن ہوگئیں ۔۔۔ اس نے اسی لیے لائٹس جلائیں تھیں کہ ماھی اگر قریب ہوتا لائٹس دیکھ کر واپس آجائے ۔۔۔ ماھی کو دور سے روشنی دکھائی دی تو وہ اسی سمت بھاگنے لگی ۔۔۔ "میں نجانے کس راستے پہ آگئی ؟؟؟وہ بھاگتے ہوئے خود کلامی کرنے لگی ۔۔۔اس کا حلق خشک ہو رہا تھا ۔۔۔ "کبھی کبھی راستے انسان کو اس کی منزل پہ لے آتے ہیں" اسے پھر سے اپنے کانوں میں وہی آواز سنائی دی ۔۔۔جیسے وہ اس کے بہت قریب ہو ۔ ماھی کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔سامنے گاڑی نظر آتے ہی وہ سرعت سے اسکی طرف بڑھی ۔۔۔ اور اندر بیٹھ کر فورا دروازہ بند کیا ۔۔۔اور سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔۔ "کہاں رہ گئی تھی ؟؟؟کیا ہوا ماھی بیٹا سب ٹھیک ہے نا "؟ شاہ من نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔ "ج۔۔۔جج۔۔جی ڈیڈ سب ٹھیک ہے ۔۔۔اس نے اپنے سوکھے لبوں پہ زبان پھیر کر بمشکل کہا ۔۔۔ اور پھر سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔اسے ابھی بھی اپنی گردن پہ چبھن سے محسوس ہورہی تھی ۔۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اسے مسلا۔۔۔۔ شاہ من نے گاڑی راستے پر بڑھا دی ۔۔۔ ******** مختلف سازوں کی آوازیں اس کوٹھے کی درودیوار میں گونج رہی تھیں۔رقص ختم ہوچکا تھا وہاں بیٹھی شہر کی مشہور شخصیات شراب کے نشے میں مست طبلے کے ساز پر سردھن رہی تھیں۔لیکن وہ خاموش سا بیٹھا سارے ہال کا جاٸیزہ لے رہا تھا۔وہ کبھی ایسی محفلوں میں نہیں آیا تھا ۔وہ کس مقصد سے آیا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔یہاں آکر وہ بہت حیران بھی تھا لوگوں کے اس روپ کو دیکھ کر،یہ وہ لوگ تھے جو بظاہر تودن کے وقت شرافت کا لبادہ اوڑھے پھرتے تھے لیکن ان کی اصلیت کیا تھی یہ رات کے اندھیرے میں اسے یہاں پتہ چلی تھی ۔۔۔ ”آپا سکندر خان بھی اس محفل میں تشریف لا چکے ہیں۔وہاں لوگوں کو کہتے سنا ہے بڑی مالدار آسامی ہیں“ نیلم باٸی چاندنی کے کمرے سے نکل کر ہال میں موجود مہمانوں سے پیسے بٹور رہی تھی ، تب ہی اس کا ملازم خاص جاوید عرف جیدا جس کا تعلق تیسری صنف سے تھا۔وہ تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور سگریٹ کا لمبا سا کش لیتے ہوۓ اس کے کان میں سرگوشی نما آواز میں بولا ۔۔ ”کیا تو سچ کہہ رہا ہے جیدے۔؟“اس نے پان چباتے ہوۓ خوشی سے باچھیں کھلاٸیں۔ ”ارے خدا قسم آپا۔۔۔۔! سو فیصد سچ کہہ رہا ہوں۔ پہلے کبھی جھوٹ بولا آپ سے۔“اس نے بھی خباثت سے گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا اور پھر سے سگریٹ کا لمبا سا کش لگایا۔ ”تو جا پھر جلدی مر ! اس کو ادھر علیحدگی میں لےکر آ حرام خور۔ادھر کھڑا میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے کمبخت کہیں کا“ اس نے اپنی مخصوص تیز زبان میں اس کو صلواتیں سناٸیں اور پھر اس کے کندھے پر زور سے چپت رسید کیے سکندر خان کو وہاں لانے کا کہا۔ ”ارے آپا جا تو رہا ہوں اتنا بھڑک کیوں رہی ہو ۔۔؟“ اس نے برا سا منہ بنا کر پھر سے سگریٹ کا لمبا سا کش لے کر کہا اور دھواں فضا میں تحلیل کیا اور سرعت سے باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ ، بہت ہی خوبصورت دراز قد ، کشادہ پیشانی ، چوڑے شانے ، رعب دار اور مردانہ وجاہت سے مالا مال نیلی آنکھوں والے خوبرو نوجوان کے ساتھ ہال میں داخل ہوا۔وہ سکندر خان تھا ، جس کو نیلم باٸی بھی پہلی بار دیکھ رہی تھی۔وہ اسے سامنے سے آتے دیکھ چاپلوسانہ انداز میں ، پان چباتی اسکے استقبال کے لیے آگے بڑھی۔ ”آداب ،آداب ! زہے نصیب خان جی۔ بہت خوشی ہوٸی آپ پہلی بار ہمارے غریب خانے پر تشریف لاۓ۔آپ کی آمد سے ہمارے اس کوٹھے کو چار چاند لگ گٸے۔ نیلم باٸی نے ہاتھ میں پکڑی پھولوں کی مالا آگے بڑھ کر خان کے گلے میں ڈالنے لگی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔۔۔ "اس کی ضرورت نہیں " وہ گھمیبر آواز میں بولا۔۔۔۔اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی۔جس نے اس کی شخصیت کو اور ذیادہ رعب دار، مغرور اور باوقار بنادیا تھا۔سکندر خان (امرام شیر ) وہاں کس لیے آیا تھا یہ نیلم باٸی نہیں جانتی تھی بس وہ ہی جانتا تھا،وہ یہاں نیلم باٸی کے کہنے پر نہیں بلکے کسی کی تلاش میں آیا تھا۔جو اسے وہاں مل بھی گئی تھی ۔۔۔۔ ”آٸیے خان جی ہمارے اس غریب خانے کو رونق بخشیں !۔“اس نے سکندر خان کو ایک بہترین کمرے میں لے جا کر بیٹھایا ۔۔۔اور اس سے کچھ فاصلے پر خود بھی بیٹھ گٸی۔وہ بہت خوش تھی۔اتنے بڑے آدمی کو پہلی بار اپنے سامنے دیکھ کر۔۔ اسے تو اپنی قسمت پہ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔ "زہے نصیب خان صاحب آپ خود تشریف لاےُ ہیں۔۔۔۔ سکندر خان جواب دئیے بنا بیٹھ گیا۔ شلوار قمیص پہنے شانوں پر شال اوڑھے وہ اپنی وجیہہ شخصیت سے مقابل کو زیر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔ "کیسا لگا آپ کو مجرا ؟؟۔۔۔۔" اس نے بات کا آغاز کیا ۔ "مجھے اس کوٹھے سے وہ لڑکی چائیے ۔۔۔۔۔" وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھاےُ ٹیک لگا کر شاہانہ انداز میں بیٹھا تھا۔ "حکم کریں حضور بھلا اس ناچیز کی کیا مجال جو آپ کو انکار کرے۔۔۔۔۔"اس کا سانولا چہرہ مسرت کے باعث ِکھل اٹھا۔ "چاندنی۔۔۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔بارعب آواز میں بول کر اسکے اوسان خطا کرگیا ۔۔۔ اس کی خواہش سن کر نیلم بائی کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔۔۔ چہرے پر تفکر کے آثار نمایاں ہوئے ۔ "خان صاحب آپ کو انکار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی لیکن آپ شاید اس بات سے واقف نہیں کہ چاندنی ابھی اس دھندے میں نئی ہے۔وہ صرف گانا گاتی ہے اور رقص کرتی ہے۔۔۔۔۔" وہ آہستگی سے منمناتے ہوئے بولی یہ خان کی شخصیت کا رعب ہی تھا کہ وہ اسطرح سے بات کر رہی تھی ورنہ اس جیسی شاطر عورت تو ہزاروں کو اپنی انگلیوں پہ نچا چکی تھی ۔ "میں نے ایک بار کہہ دیا کہ مجھے چاندنی ہی چائیے تو مطلب وہی چائیے۔۔۔۔۔ورنہ میں اس کوٹھے کو آگ لگا دوں گا" وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اونچی آواز میں دھاڑا ۔۔۔ نیلم تو اس کی گرجدار آواز سن کر تھوڑا خائف ہوئی اور پیچھے کھڑے جیدے کو دیکھا ۔۔۔ جیدے نے منہ پہ انگلی رکھ کر اسے فی الوقت چپ رہنے کا اشارہ دیا ۔۔۔ "یہ پیسوں کے چکر میں کس مصیبت میں پڑ گئی ہوں یہ خان تو گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے نا اگل سکتی ہوں نا نگل سکتی ہوں ۔۔کیا کروں ؟وہ دل میں اس سے جان چھڑانے کا طریقہ سوچنے لگی ۔۔۔ "خان صاحب چاندنی یہ کام نہیں کرتی ۔۔اس کے علاوہ جس لڑکی پر ہاتھ رکھیں گے وہ آپ کی ۔۔۔۔" "لگتا ہے تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی ۔۔۔۔ "میر پولیس کو کال ملاؤ ابھی بند کرواتا ہوں یہ سب "وہ اپنے ساتھ ایک ملازم کو دیکھ کر بولا جو اسکے ساتھ وہاں آیا تھا ۔۔۔ "جی سر "اس نے مؤدب انداز میں کہا اور پاکٹ سے فون نکال کر نمبر پریس کرنے لگا ۔۔۔ "ارے ۔۔۔ارے رکیے خان صاحب اتنی جلدی بھی کیا ہے ۔۔۔۔وہ بالآخر دانت پیس کر موقع کی نزاکت کے حساب سے پینترا بدل گئی ۔۔۔۔ ۔ ”نیلم بائی ۔۔۔! میں چاندنی سے اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں ۔؟"وہ سپاٹ انداز میں بولا۔۔۔ نیلم بائی اور جیدے کے چہرے کی تو ہوائیاں اڑ گئیں۔۔۔۔وہ تذبذب کا شکار ہوگٸی تھی۔۔کہ کیا کرے ۔۔۔چاندنی اسے اپنے کمرے میں دیکھ نجانے کیا کر بیٹھے ۔۔۔ ”جج جی!مل سکتے ہیں آپ۔“ اس نے گڑبڑا کر کہا۔ نیلم باٸی کا جواب ہاں میں سن کر۔وہ پرسکون سا آگے بڑھا ۔۔۔ ”تو پھر چلیں۔“وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔ نیلم بائی جو اپنی جگہ بت بنی کھڑی تھی۔۔۔چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔۔ "جی ۔جی ۔۔۔۔ وہ ابھی بھی ویسے ہی کمرے کے وسط میں کھڑی تھی ہاتھوں سے گجرے اتار کر فرش پہ پھینک چکی تھی اب اپنی کمر سے کمربند اتار رہی تھی ۔۔۔ جب اچانک ہی کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آٸی،لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ویسے ہی اپنے کام میں مشغول رہی ۔۔۔ نیلم بائی چلتی ہوٸی اس کے پاس آٸی اور اس کے چہرے کو اوپر کر کے اس کی بلاٸیں لینے لگی۔ ”واہ! ماشا۶ اللہ آج تو میری چاندنی نے محفل لوٹ لی پہلی بار میں ہی ۔۔اللہ نظربد سے بچاۓ تجھے ۔۔“ "دیکھ تیرے سے خوش ہوکر آج تجھے کون ملنے آئیں ہیں۔۔۔ وہ عین ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھی جب نیلم بائی نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر کیا تو اس کا عکس سامنے لگے آٸینے میں واضح نظر آرہا تھا، آٸینے کے بلکل سامنے چاندنی کھڑی تھی اور اس کے بلکل پیچھے وہ کھڑا دکھائی تھا ، جس کی نظریں چاندنی پوری محفل میں خود پہ جمیں ہوئی بخوبی محسوس کر رہی تھی دونوں نے آئینے میں ایک دوسرے کو دیکھا۔وہ وہی تو تھی جس کی تلاش میں وہ یہاں آیا تھا۔۔اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ جس کو ڈھونڈنے کے لیے پاگل ہو رہا تھا وہ اس کو ایسی جگہ سے ملے گی ۔اس کے قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا اور پھر وہ آگے بڑھنے کی بجاۓ اک جھٹکے سے باہر نکل گیا۔۔ ”ارے خان جی کو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔؟“نیلم بائی پریشان ہوکر غرارہ سنبھالتی پان چباتی تیزی سے باہر کی طرف دوڑی۔ چاندنی نے حیران کن نظروں سے سارا منظر دیکھا ۔۔۔پھر سر جھٹک کر اپنے کام میں مشغول ہوگئی ۔۔۔ ”کیا ہوا خان جی؟"نیلم باٸی ہانپتے بھاگتی ہوٸی اس کے پیچھے آٸی اور اپنی پھولی ہوٸی سانسوں کے ساتھ اس سے پوچھنے لگی۔ اسے ایک ایک بڑی آسامی ہاتھ سے جاتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ اس کے پیچھے لپکی ۔۔۔ ”نیلم بائی تم چاندنی کو میرے حوالے کرنے کے لیے کتنا لو گی۔؟“وہ چاندنی کے کمرے سے نکل کر راہداری کی طرف جا رہا تھا جب اسے پیچھے سے نیلم بائی کی پریشان سی آواز سناٸی دی۔اس کے قدم وہیں رک گٸے اس نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔ وہ سیدھا مدعے کی بات پہ آیا ۔اس کے چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔جس کو دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ وہ فیصلہ کر کہ آیا تھا اسے ساتھ لے جانے کا ۔ ”کیا مطلب ساتھ لے جانے کا؟“اس نے اچھل کر حیرانگی سے پوچھا۔ ”تم نادان تو نہیں ہو ،سب کچھ اچھی طرح سمجھتی ہو۔آخر کو اس اب کی ماہر کھلاڑی ہو ۔۔۔ "آپ ایک رات کی بات کر رہے ہیں؟؟؟اس نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔۔۔ "نہیں مجھے وہ چاہیے ایک رات کے لیے نہیں جب تک میرا دل چاہے " "ہائے صدقے جاؤں خان صاحب آپکے "وہ ان کے قریب آتے پان سے بھرے ہوئے منہ سے بولی ۔۔۔اور انکا صدقہ اتارنے لگی ۔۔۔ وہ نخوت سے دو قدم پیچھے ہوا ۔۔ "مجھ سے پیسوں کی بات کرو ۔۔۔میرے پاس زیادہ وقت نہیں ۔۔۔بولو کتنا پیسہ چاہٸیے تمہیں اس کو مجھے دینے کے لیے ۔میں منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوں۔۔۔۔“ اس نے نیلم بائی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھ کر منہ مانگی قیمت پر زور دے کر کہا۔اس کی بات سن کر نیلم بائی کی آنکھوں میں چمک اتر آٸی اور باچھیں کھل گٸی۔ ”بولو میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔“اس نے اپنی کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔ وہ جلد سے جلد چاندنی کو وہاں سے لے کر جانا چاہتا تھا۔اس سے پہلے کہ کوئی اور اسے یہاں دیکھ لے ۔اس لیے اب وہ اور زیادہ دیر نہیں کرناچاہتا تھا۔ ”منہ مانگی قیمت دو گے خان صاحب۔؟“ نیلم بائی نے شاطرانہ انداز سے آنکھوں کو گھما کر مسکراتے ہوئے ہوئے پوچھا ۔۔۔ ”ہاں۔“ اس نے مختصر سا کہا۔کیونکہ اب وہ اٹل فیصلہ کرچکاتھااور وہ سامنے کھڑی اس عورت کی فطرت کو بھی اچھی طرح سے سمجھتا تھا ، کیونکہ وہ بہت ہی چالاک اورشاطر عورت تھی۔۔۔۔ وہ ہاتھ آیا موقع کیسے جانے دے سکتی تھی ۔ ”تو پھر اتنی بھی کیا جلدی ہے خان صاحب!بیٹھ کر سارے معاملات سلجھا لیتے ہیں۔آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ایسے جلد بازی میں تھوڑی نہ ایسے فیصلے ہوتے ہیں۔۔۔“ اس نے پان سے بھرے منہ سے بڑی مکاری سے مسکراتے ہوۓ آنکھیں گھما کر کہا اور پھر لہک لہلک کر چلتی اپنا غرارہ سنبھالتی ہوئی ہال کی طرف بڑھ گٸی۔اس کو پتا لگ گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے جو خان اس کو ایسے کہہ رہا تھا اس لیے وہ سوچ سمجھ کر رقم مانگنا چاہتی تھی۔تاکہ اس کی اگلی ساری زندگی اچھے سے گزرے۔کیونکہ اگر چاندنی جیسا ہیرا اس کے ہاتھوں سے نکل گیا تو اس کا کاروبار ایک بار پھر سے ٹھپ ہو جائے گا ۔۔کتنی مشکلوں سے تو اس نے چاندنی جو یہ سب کرنے کی راضی کیا تھا ۔۔۔ خان بھی لب بھینچے اس کے پیچھے ہال میں ہی چلا آیا۔وہاں اس کے سیکریٹری میر اور جاوید عرف جیدا کے سوا کوٸی بھی موجود نہیں تھا۔جہاں کچھ دیر پہلے محفل سجی تھی وہاں اب خالی ہال سائیں سائیں کر رہا تھا ۔۔۔ ”آپا سب لوگ جا چکے ہیں۔آج بڑا مال ہاتھ آیا ۔۔۔سب اپنی چاندنی کی وجہ سے ۔۔۔سب نے دل کھول کر اس پہ لٹایا ہے ۔“ جیدے نے فرش پہ بکھرے ہوئے نوٹ کو اکٹھا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ ”چلو اچھا ہوا دفعہ ہوگئے سب۔بڑا تھک گئی میں تو آج ۔“ اس نے پان چباتے ہوۓ ناگواری سے کہا اور غرارہ سنبھالتی اپنی مخصوص نشست پر براجمان ہوگٸی ۔ ”اب بولو کتنا پیسہ چاہٸیے؟“خان نے اس کے پاس آکر پھر سے اپنا سوال دہرایا۔۔۔وہ بڑے تحمل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ”بیٹھٸیے تو سہی خان صاحب اتنی جلدی بھی کیاہے ۔۔۔“اس نے بڑے نارمل انداز میں پان کی پیک اگالدان میں پھینکتے ہوۓ کہا۔۔۔ اس نے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں ۔۔۔ورنہ اس کے فضول میں وقت برباد کرنے پہ اسے غصہ تو بہت آرہا تھا۔۔ ” تم سے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔“ اس نے اپنے غصے کو کنڑول کرتے ہوۓ، ناگواری سے کہا ۔ ”مجھے ایک کروڑ روپیہ چاہٸیے۔اتنا پیسہ دے سکیں گے خان صاحب چاندنی کا ۔؟“ وہ خود ہی اٹھ کر چلتی اسکے پاس آگٸی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تمسخرانہ انداز میں مسکراتے ہوۓ بولی۔۔ ”ٹھیک ہے ۔“ اس نے بھی بنا وقت ضائع کیے اٹل فیصلے کے ساتھ پختہ لہجے میں کہا۔ ”سوچ لو ایک بار دے سکو گے ؟۔۔۔۔“ اس نے آنکھیں مٹکا کر پھر سے اسے سوچنے کا کہا۔وہ بڑی حیران بھی تھی اس بات سے کہ وہ اتنی جلدی ایک کروڑ کے لیے مان کیسے گیا۔اس نے سوچا تھا کہ اتنے پیسے مانگے گی تو وہ بھاگ جاۓ گالیکن وہ تو فوراً مان گیا تھا ،نیلم کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ”سوچ لیا! میں اپنے کہے سے پھرنے والا نہیں۔“کہتے ہوۓ اس کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی تھی اس نے بھی نیلم کو دیکھ کر جواب دیا ۔۔۔ ”ٹھیک ہے پھر مجھے ابھی ایک کروڑ کیش چاہٸیے۔“اس نے اک نیاشوشہ چھوڑا ۔ان دونوں کی باتیں سن کر جیدا اور میر دونوں حیران اور خاموش سے کھڑے تھے ۔جیدا اس لیے حیران تھا کہ آج پہلی بار ایسا ہواتھا کہ کوٸی منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوا تھا۔اور وہ بھی اتنی ساری ”ٹھیک ہے۔۔۔!مجھےکوٸی اعتراض نہیں۔ ****** "ریلیکس یار.. اتنا کیوں گھبرا رہی ہو.." زخرف نے اکتاۓ ہوۓ انداز میں اسے دیکھا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے کمرے کا چکر کاٹ رہی تھی.. اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی گھبرائی ہوئی اور پریشان ہے.. "مجھے یقین ہے کہ تم شیر دل بھائی کو منانے میں ضرور کامیاب ہوجاو گی .." اس نے مسکرا کر اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھرپور کوشش کی.. "یہ کوئی معمولی بات نہیں ذخرف جس کی تم ضد باندھ چکی ہو ۔میں نے کبھی شیر دل بھائی سے اتنی فرینکلی بات نہیں کی .." اس نے گھور کر اسے دیکھا اور دوبارہ سے کمرے کا چکر کاٹنے لگی.. اس کے ہر انداز سے اس کی گھبراہٹ ظاہر ہو رہی تھی.. کبھی وہ بےوجہ اپنے بالوں میں ہاتھ چلانے لگتی تو کبھی اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتی.. "کیا تمہیں ان سے ڈر لگتا ہے ..؟" اس کے معصومیت سے پوچھے گئے سوال پر اس نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ کوئی پاگل ہو۔۔ " زخرف مسلہ تمہارا ہے اور تم مجھے پھنسا رہی ہو .. تم نے اس کے بارے میں بخوبی سن رکھا ہے.کہ وہ کتنے سخت طبعیت کے مالک ہیں."چڑچڑے انداز میں اسے یاد کرانے کی کوشش کی.. "یار رمشا ڈرو مت صرف تمہیں اتنا ہی تو کہنا ہے انہیں میری طرف سے کہ وہ اپنے جڑواں بھائی امرام شیر سے بات کریں کہ وہ مجھ سے شادی کرلیں ۔بھلا اب میں انہیں اپنے منہ سے اپنی شادی کا کہتے ہوئے اچھی لگوں گی ..؟تم بس ڈرنا مت ۔میں تمہارے ساتھ ہی ہوں مگر اندر نہیں جاؤں گی ۔مجھے اپنے دیور سے شرم آتی ہے " اس نے اپنی طرف سے ایک آسان سا حل پیش کیا تھا.. اس کے پاس ہمیشہ ہر سیچویشن سے نکلنے کا حل ہوتا تھا۔وہ مسکرا کر بولی ۔۔۔ "دانت مت نکالو ۔۔۔اسوقت مجھے تمہارے یہ دانت زہر لگ رہے ہیں "وہ ڈپٹنے کے انداز میں بولی ۔۔۔ "پلیز انکار مت کرنا " "ایک بار کوشش کرنے میں کیا قباحت ہے.." اس نے اپنی طرف سے ایک بےتکا جواز دیا تھا.. وہ سر جھٹک کر بلڈنگ کی طرف بڑھی اور دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہو گئی.. بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی انسانوں کے ایک ہجوم نے اس کا استقبال کیا جو اپنے کاموں میں مصروف ادھر اُدھر پھرتے ہوئے نظر آرہے تھے.. اپنے خوف کو قابو میں کرتے ہوئے وہ ریسیپشن کی طرف بڑھ گئی جس کے دوسری طرف موجود لڑکی کے چہرے پر میک اپ کی ایک دبیز چادر چڑھی ہوئی تھی.. "جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں.." لڑکی کے چہرے کے ساتھ ساتھ آواز میں بھی مغروریت اور چڑچڑاپن تھا.. "جی.. وہ میں شیر دل سے ملنے آئی ہوں.." اس نے ہمت کرکے جواب دیا.. " اوہو.. آپ جاب کے لیے آئیں ہیں ؟.." اس نے تراشیدہ ابرو اچکا کر اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا.. "نہیں میں ان سے ملنا چاہتی ہوں ...؟" "اگر آپ کے پاس اپائنٹمنٹ ہے تو بتائیں ۔۔۔؟ "نہیں وہ تو نہیں ہے دراصل میں ان کی کزن ہوں ۔ان سے کچھ ضروری کام ہے "بالآخر اس نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات کی ۔۔۔ "تھرٹین فلور پر سیدھے جاکر لیفٹ سائیڈ پہ ان کا کیبن ہے .." وہ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد کسرتی جسامت پر بلیک کلر کی چست سے شرٹ اور پینٹ پر بلیک کوٹ پہنے ۔کان میں بلو ٹوتھ لگائے تیز تیز چلتے ہوئے کسی سے بات کر رہا تھا اس کا سیکٹری جو ہاتھ ڈائری اور پین لیے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔۔شیر دل کی گہری نیلی آنکھیں بالکل سرد اور سپاٹ تھیں.. چہرہ سخت تھا.. جبڑے تنے ہوئے اور ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے۔۔۔وہ کال پہ بات کرتے ہوئے پلٹا اور اپنے سیکریٹری کی طرف ابرو اچکا کر دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہوکہ کیا مسلہ ہے ؟ "سر آج دس بجے آپکی عباسی کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ میٹنگ ہے ",اس نے یاد دلانا چاہا ۔۔۔ "ہممم۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ **********
❤️ 😢 👍 🌺 😮 🙂 🤣 🫀 40

Comments