
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:54 AM
#چاند🌙 آسمانوں سے لاپتہ
#حنا اسد۔
#قسط:5
رات کے قریباً تین بج چکے تھے اور وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔فون پر کچھ دیر پہلے ہی مہندی کی ساری تصاویر احتشام نے اسے واٹس ایپ کی تھیں۔ جس میں آیت اور مومن دونوں ایک ساتھ بیٹھے بہت حسین دِکھائی دے رہے تھے ۔
چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے وہ کروٹ کے بل لیٹی فون کی سکرین پر نظریں جمائے ہوئے اسے ہی دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ اس کو کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز بھی سنائی نہیں دی ۔۔۔
اس نے کہا تھا کہ وہ رات میں اسے ملنے آئے گا لیکن ابھی تک آیت کو اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔اسےاب شدت سے اس کی یاد آنے لگی تھی۔وہ سامنے ہوتا تھا تو ہر پل حسین لگتا تھا اور اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی وہ اداس سی ہو جاتی تھی۔وہ آج پہلی بار مان چکی تھی کہ مومن کے نہ ہونے پر وہ اسے مس کرتی ہے۔پہلے جب اس نے رشتہ بھجوایا تھا وہ بہت حیران ہوئی تھی کہ مومن آخر ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔وہ تو مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے ۔وہ جب بھی اس سے پیار کا اظہار کرنے لگتا وہ بڑی بن کہ اسے ڈپٹ دیتی تھی ۔لیکن یہ بات تو اس نے سوچی ہی نہیں تھی کہ اگر پتھر پہ بھی مسلسل پانی پڑتا رہے تو اس میں بھی سوراخ ہوجاتا ہے۔۔۔بالکل اسی طرح مومن کی محبت نے اس کے دل میں بھی آہستہ آہستہ اپنے پنجے گاڑھ لیے ۔۔۔اس کے چلے جانے سے وہ اداس ہو جاتی اور پاس آنے سے گھبرا جاتی ۔۔۔یہ کیسی عجیب سی کیفیت تھی وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔ لیکن اب وہ بے بسی سے اعتراف کر رہی تھی کہ اس کے دل کو تبھی سکون ملے گا جب وہ مومن کو اپنے سامنے دیکھے گی اور وہ تھا کہ آ کے ہی نہیں دے رہا تھا۔نہ اُس سے پوچھ سکتی تھی کہ کب آؤ گے اور نہ کسی اور سے شرم کے باعث پوچھ سکتی تھی۔اگر وہ ایک دفعہ بھی مومن کو فون کر کہ پوچھتی کہ کب آؤ گے تو وہ اسے بہت تنگ کرتا ۔یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی تو پھر وہ کیا کرے۔دل بھی کہیں سکون لینے نہیں دے رہا تھا۔۔۔
اس کا رخ دوسری طرف تھا اور اس کے پیچھے ہی دروازہ تھا۔اس لیے وہ مومن کو کمرے میں داخل ہوتا نہیں دیکھ پائی ۔۔ وہ اپنی اور مومن کی مہندی کی تصویریں دیکھنے میں محو تھی ۔جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مومن اس کے قریب پہنچ گیا اور فون پر اپنی تصویر دیکھ کر بے اختیار اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔پھر کچھ سوچ کر فون اس کے ہاتھوں سے اچک لیا اور آیت تو اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر رہ گئی ۔۔وہ جھٹپٹا کر پلٹی اور مومن کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔۔۔"اگر مومن کو پتہ چل گیا کہ میں اسے ہی یاد کر کہ اسکی تصویریں دیکھ رہی تھی تو ؟"یہ سوچ کر ہی وہ شرم سے پانی پانی ہوئی ۔۔۔
اور اب وہ فون مومن کے ہاتھ میں تھا لیکن اسے لگا کے مومن نے ابھی تک وہ تصویر نہیں دیکھیں ہوں گی اسی لیے اس نے مومن کے ہاتھ سے اپنا فون واپس کھینچنا چاہا ۔۔۔
"مومن میرا فون دو "
"ایسے نہیں خود آکر لے لو "مومن آگے بھاگا اور آیت اسکے پیچھے ۔۔۔۔وہ بیڈ کی دوسری طرف گیا تو آیت اسکے پیچھے گئی۔۔۔
مومن بیڈ پھلانگ کر دوسری طرف سے ہوکر واپس جانے لگا ۔۔۔آیت نے اس کے ہاتھ سے موبائل پکڑنے کے لیے اسکی
شرٹ کو پکڑنا چاہا ۔۔۔۔دونوں اس وقت بیڈ پہ کھڑے تھے ۔۔۔اسی دھینگا مشتی میں ان دونوں کا توازن بگڑا ۔آیت کمر کے بل گری تھی اور اس ڈر سے آنکھیں بند کر لیں کہ ابھی مومن بھی اس پر گرنے ہی والا ہے لیکن مومن نے اس کے دائیں بائیں بیڈ پر دونوں ہاتھ جما کر خود کو اس پر گرنے سے روک لیا تھا ۔۔۔
مومن کی گرم سانسیں اسے اپنے چہرے کے بہت قریب محسوس ہوئی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔وہ ریڈ شرٹ جس کے پہلے دو بٹن کھلے تھے ۔۔۔وہ پہنے ہوئے تھا اس کے سیاہ بال پیشانی پہ بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ وہ اسے آج بھی ہمیشہ کی طرح ہینڈسم لگا تھا۔وہ کچھ دیر بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی تھی اور وہ دلفریب سا مسکرا دیا تھا اور تب جا کر اسے کچھ ہوش آیا۔اس نے سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھا۔
"تم مجھے ہی یاد کر رہی تھی۔؟"وہ فسوں خیز آواز میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے پوچھنے لگا تھا۔
"م۔۔۔میں ۔۔۔تو نہیں ۔۔میری یہ مہندی آپکا بہت تابی سے انتظار کر رہی تھی ۔۔۔آپ نے کہا تھا نا کہ میں مہندی میں اپنا نام ڈھونڈھنے آؤں گا ۔"اس نے مہارت سے بات گھمائی ۔۔۔مگر سامنے بھی مومن تھا ۔۔۔
"آگر آپ کو میری یاد نہیں آئی اس مہندی کو آئی ہے تو میں اس مہندی بھرے بازوؤں سے ہی پیار کر کہ کام چلا لیتا ہوں۔"وہ اس کے بازوں کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے انہیں اپنے چہرے کے قریب کیے ان سے پھوٹتی حنائی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا۔۔۔
مومن کا چہرہ اس سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اور اس کی کئی ہارٹ بیٹس مس ہوئیں مومن کی جذبے لٹاتی ہوئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ کچھ دیر کیلیے ایک الگ جہان میں پہنچ گئی ۔۔۔جہاں ان دونوں کے شوریدہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔
"نکاح مبارک "وہ سحر انگیز آواز میں بولا۔۔۔
اس مارکباد وصول کرتے کی آیت کی گھنی مژگانیں شرم سے جھک گئیں ۔۔۔
آیت نے خود کے جذبات پہ قابو پاکر اسے خود سے دور کیا ۔۔۔۔
اور موقع کا فایدہ اٹھاتے ہوئے اپنا موبائل چھین لیا۔۔۔۔ اور اسے آف کردیا ۔۔۔
مومن اس کے عمل پر مسکرا دیا تھا لیکن اسے پتہ تو چل ہی گیا تھا کہ وہ اُسی کی تصویریں دیکھ رہی تھی ۔۔۔
"آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔۔کسی نے دیکھ لیا تو سب کیا سوچیں گے ایک رات .."وہ بولتے بولتے اچانک رک گئی۔
"کہ ایک رات کا بھی صبر نہیں ہوا مجھ سے ؟"مومن نے ابرو اچکا کر شرارت سے پوچھا تو وہ سٹپٹا گئی۔
"ہمممم"وہ نظریں چراتے ہوئے بولی ۔
"مجھے پتہ تھا تم مجھے مس کر رہی ہوگی اسی لیے آگیا "
وہ گردن ترچھی کیے سٹائل سے بولا ۔۔۔
"خوش فہمی ہے جناب کی "وہ ہلکا سا مسکرائی کہہ کر ۔۔۔
"یار مجھ سے ایک رات تو کیا اب ایک لمحے کا بھی صبر نہیں۔ ہوتا ۔۔۔دل چاہتا ہے اپنی اس آیت کو تعویذ بنا کر اپنے گلے کا ہار بنا لوں جو ایک لمحے بھی مومن کے سینے سے جدا نا ہو "
وہ محبت سے چور آواز میں بولا اور اس کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنایا ۔۔۔
"ایسا کیا تھا تمہارے فون میں جسے دیکھ کر اتنی گم تھی کہ میرے آنے کا بھی پتہ نہیں چلا ۔"وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے جھٹکے سے اپنے ساتھ لگاتا ہوا پوچھنے لگا ۔۔۔
"پلیز۔۔۔دور ہٹ۔۔۔ہٹو ۔۔۔
چھوڑو مجھے ....وہ اسکی آہنی گرفت میں پھڑپھڑانے لگی۔۔۔۔
"جان ِ مومن آپ کومیری بے بسی دیکھ کر سکون ملتا ہے؟"
وہ اس کے خوبصورت چہرے کے ہر نقش کو آنکھوں میں جذب کرتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں بول رہا تھا اور آیت کا چہرہ شرمگیں مسکان سجائے ِکھل کر گلال ہوا ۔۔۔۔پلکیں لرزتی ہوئی جھک گئیں اور اب اسے اس بات کا کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔مومن اس کی حالت سے محظوظ ہوتا اس کے دہکتے ہوئے سرخ عارضوں پر اپنے عنابی لبوں سے چھو گیا ۔۔۔
وہ اسکی گرفت میں بری طرح کپکپا رہی تھی ۔۔۔
"جان ِمومن آپ پہ یوں بھیگی بلی بننا سوٹ نہیں کر رہا ۔۔۔۔"وہ اس کو پھر سے وہی بننے پہ مجبور کر رہا تھا جیسے وہ ہمیشہ اس سے پیش آتی تھی ۔۔
"جان ِمومن آپ مجھے دھمکیاں دے کر رعب جماتے ہوئے ہی اچھی لگتی ہیں ۔"وہ اس کی ٹھوڑی کو اپنی پوروں سے چھو کر اس کا جھکا ہوا چہرہ اوپر کرتے ہوئے معنی خیز انداز میں بولا تو وہ ہلکا سا مسکرا دی۔
""آپکی اسی مسکان کو ہمیشہ یونہی سلامت دیکھنا چاہوں گا تاعمر ۔کبھی یہ مسکان ان لبوں سے جدا مت ہونے دیجیے گا۔"وہ اس کے گال پر لب رکھتے ہوئے بولا ۔
آیت نے شرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا ۔۔۔
"جان مومن آج رات ہے آپکے پاس ساری شرمیں اسی کمرے میں کسی الماری کے خانے میں چھپا جائیے گا ۔۔۔کیونکہ میرے کمرے میں آنے کے بعد اس شرم و حیا کا کوئی کام نہیں رہے گا ۔۔۔۔"وہ سرگوشی نما آواز میں بول کر اسے مزید چھپنے پہ مجبور کرگیا ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جب اس کے مختل حواس بحال ہوئے تو اس نے کمرے میں دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔جس خاموشی سے وہ یہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔مگر جاتے ہوئے اپنا احساس چھوڑ گیا تھا ۔۔۔۔
وہ دل سے مسکرائی ۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥
"اپنی اصلیت بتاؤ مجھے کون ہو تم ؟"
امرام شیر نے سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔۔
"کیوں بتاؤں میں تمہیں "وہ اپنے سر سر کرتے جلتے ہوئے گال پہ ہاتھ رکھ کر غصے میں بھڑک کر دوبدو بولی ۔۔۔۔
"بلاؤ سدرہ کو "
امرام نے پیچھے کھڑے ہوئے میر سے بارعب آواز میں کہا۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ایک اونچی لمبی قدرے بھاری جسامت کی عورت ہاتھ میں ایک مخصوص ڈنڈا لیے اس کمرے میں آئی ۔۔
چاندی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
"میڈم کو خاطر مدارت کی ضرورت ہے۔
"ان کی اچھے سے خاطر کرو ۔۔۔مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی بھی کسر نہیں رہنی چاہیے"
اس بار امرام شیر استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔
سدرہ نے وہ ڈنڈا اس کی پشت پہ پورے زور سے مارا ۔۔
چاندنی کی درد بھری چیخوں سے وہ کمرہ بھی بھی دہل اٹھا ۔۔۔
اس نے بھیگی ہوئی خالی خالی انکھوں سے اس سامنے کھڑے سفاک انسان کی طرف دیکھا ۔۔ ،آنکھیں صرف اس ظالم کے چہرے کا طواف کررہی تھیں۔اس کے جسم پہ پڑنے والے ڈنڈے اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کر رہے تھے ۔۔۔۔
"۔۔ک۔۔۔ک۔کیوں لائے ہو مجھے یہاں ۔۔۔
وہ فرش پہ گرے ہوئے بمشکل الفاظ ادا کر پائی ۔۔۔
"یہ بھی جلد ہی پتہ جل جائے سویٹ ہارٹ ۔فلحال تم سے ابھی انویسٹیگیشن میں جو پوچھا جائے صرف اسی کا جواب دینا اچھے سے ورنہ یہ سدرہ میڈم بہت اچھے سے خاطر داری کرتی ہیں ۔۔۔"
اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے امرام شیر نے جھٹکے سے چھوڑا ۔۔۔
ڈنڈوں کی ضرب سے اسے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کی پشت کی چمڑی اُدھڑ گئی ہو،اس کی شرٹ بھی گیلی محسوس ہو رہی تھی جیسے اب خون نکلنے لگا تھا ۔۔۔،درد بڑھنے پر اس نے لب سختی سے بھینچے اوپر کی طرف دیکھا جہاں سدرہ اپنے ہاتھ میں ایک ڈنڈا لیے تمسخر زدہ سا مسکرارہی تھی،
"اب بول لڑکی !!
"نہیں تو اور بھی مار کھائے گی "وہ کرخت لہجے میں بولی ۔۔۔۔
"میں کیا بتاؤں ؟؟؟میں کسی بھی بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔۔۔تم لوگ چاہتے کیا ہو مجھ سے ؟؟؟وہ کرب زدہ آواز میں بولی۔۔۔
"اپنے بارے میں بتا ورنہ اس بار بھیجے میں دوں گی "وہ اس کی کنپٹی پہ ڈنڈا رکھ کر درشتگی سے بولی ۔۔۔
"م۔۔۔مجھے اپنے بارے میں بھی کچھ یاد نہیں ۔۔۔۔
وہ بے بسی سے بولی ۔۔۔
"جھوٹ بولتی ۔۔۔وہ بھی مجھ سے ۔۔۔۔تیری تو ۔۔۔
اس نے ڈنڈا گھما کر پھر سے اس پہ وار کیا ۔۔۔۔ ٹارچر سیل چاندنی کی دردناک چیخوں سے گونجنے لگا تھا،دوسری طرف کمپیوٹر روم میں موجود امرام شیر اور میر اسے دیکھ رہے تھے جو اتنی مار کھانے کے بعد بھی سچ بتانے سے انکاری تھی ۔۔۔۔
امرام شیر کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔۔۔مگر یہاں دل سے نہیں دماغ سے کام لینا تھا ۔۔
فرض اور محبت میں سے اسے ہر صورت فرض کو ہی چننا تھا ۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥🔥
"ماھی تم اٹھ رہی ہو یا نہیں دیکھو میں آخری بار پوچھ رہی ہوں تم سے ''
اس کی مما دعا اسکے سر پر کھڑی تیز آواز میں چلائیں تھی جس پر ماھی کسمسا کر کروٹ بدل چکی تھی '
'' تم بھول گئی شاید آج اس نئے شہر کے نئے کالج میں پہلا دن ہے تمہارا ۔۔۔اور پہلے دن ہی لیٹ ہوجاو گی ۔۔۔اسی لیے کہہ رہی ہوں بار بار تم نے تاکید کی رات کو کہ مجھے لازمی اٹھا دینا ۔۔۔اٹھ جاؤ ماھی کالج کے لئے دیر ہو رہی ہے ''
' اس بار وہ تھوڑا پریشانی سے بولی تھی پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اسکو اٹھانے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھیں۔ مگر وہ تھی کہ ٹس سے مس تک نہ ہوئی تھی
''پلیز مما سونے دیں نا رات مہندی کے فنکشن سے تھک گئی تھی ابھی آنکھیں کھل ہی نہیں رہی ہیں۔۔میں کیا کروں ؟؟؟
"میں ڈرائیور کے ساتھ بھی جا سکتی ہو اس لئے مجھے سونے دیں تھوڑا سا ''
'وہ روشنی سے بچنے کے لیے تکیہ اپنے منہ پر رکھتی ہوئی بےزاری سے بولی ایک تو ابھی کچھ گھنٹے پہلے ہی وہ سونے کے لئے لیٹی تھی ۔اس نئی جگہ پہ اسے نیند بھی نہیں ا رہی تھی ٹھیک سے ۔۔۔کیونکہ پہلے وہ اسلام آباد میں مقیم تھے ۔مگر اب اس کے بابا شاہ من نے بزنس لاہور میں ہی شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔اسی لیے اسے یہاں آنا پڑا ۔یہاں کہ بہترین کالج میں اس کا ایڈمیشن کروا دیا تھا اور آج اس کا پہلا دن تھا کالج میں ۔
"ماھی بیٹا ابھی تو آپ کی آنکھیں نہیں کھل رہی مگر جب وقت دیکھیں گی تو اپنے آپ کھل جائیں گی ۔۔۔
آج گھر میں بارات کا فنکشن ہے۔میں کبھی آپ کو جانے نہیں دیتی ۔۔۔۔
"مما بارات تو رات کو ہے میں جلدی واپس آجاؤں گی ۔۔۔۔
"ماھی !!!!!
It's 9'o clock.
ان کے منہ سے وقت کا سن کر اسکی آنکھیں صدمے سے پٹ سے کھلیں ۔۔۔وہ تکیہ پیچھے پھینکتے ہوئے بستر سے باہر نکلی اور سوفٹی پاؤں میں اڑستی ہوئے بھاگم بھاگ واش روم میں بند ہوئی ۔۔۔۔
دس منٹ میں وہ نک سک تیار باہر نکلی ۔۔۔
'' ماھی بیٹا رکو ناشتہ تو کر کے جاؤ ''
' وہ اپنا بیگ اور سکوٹی کی چابی پکڑے تیزی سے باہر نکل رہی تھی کہ دعا نے اسکو دیکھ کر پکارا تھا '
'' رہنے دیں مما ۔۔میں کالج میں ہی کچھ کھا لوں گی ''
" پہلے ہی بہت لیٹ ہوگئی ہوں "
شہرِ لاہور کی سڑکوں پر معمول سے زیادہ ٹریفک تھی۔کیونکہ یہ آفس ٹائم تھا ۔۔۔
ماھی ہیڈ فون کان میں لگا کر گانے سنتے ہوئے تیز سپیڈ سکوٹی چلا رہی تھی۔اسے جلد سے جلد کالج پہنچنا تھا ۔۔فاسٹ میوزک سن کر اس کے کام میں تیزی آجاتی تھی اسی لیے میوزک لگا رکھا تھا ۔۔۔اس نے پنک رنگ کی شارٹ فراک اور جینز پہن رکھی تھی ۔سر پہ سکارف لیے ،آرام دہ سنیکرز پہنے ہوئے تھے۔ سفید نرم و ملائم سے شہابی گال ،بڑی بڑی بھوری چشم آہو جن پر چلمن کی گھنی باڑ تھی، ستواں ناک ۔،گلابی بھرے بھرے یاقوتی ہونٹ ،براؤن رنگ کے بال تھے جو سکارف میں اچھے سے مخفی تھے ۔
وہ ایک سو بیس کی سپیڈ سے سکوٹی چلا رہی تھی کہ دور سے ہی ٹریفک وارڈن نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو وہ جھنجھلا کر رہ گئی ۔۔۔
سکوٹی روکتے ہوئے وہ ہیڈ فون اتار کر قدرے بیزاری سے بولی ۔۔۔
"مجھے کیوں روکا ہے ؟ "
ٹریفک وارڈن ایک نظر اس چھوئی موئی سی لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹکا اور پھر اسے سخت تاؤ آیا۔
"آپ نے ہیلمٹ نہیں پہنا اسی لیے ۔۔۔
"پلیز انکل جانے دیں نا میرا پہلا دن ہے کالج کا "اس بار اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔
"بی بی آپ کینٹ ایریا میں کھڑی ہیں۔اور یہاں کے رولز ایسے ہی ہیں۔واپس پلٹ جائیں ہیلمٹ پہن کر آئیں ۔۔۔
"پلیز انکل آج جانے دیں نا جل سچی پہن کر آؤں گی ۔۔۔
"No mam rule is rule ...
اس نے سختی سے کہہ کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔ماھی تو رونے والی ہی ہوگئی تھی ۔۔۔۔
ماھی نے ُبجھے ہوئے دل سے اپنی سکوٹی واپس موڑی ۔۔۔
ہی تھی کہ ایک تیز رفتار ہیوی بائیک زن سے اسکے پاس آکر رکی ۔۔
ماھی سے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔
بلیک اور ریڈ ہیوی بائیک پہ سوار انسان نے ہیلمٹ اتارا ۔۔۔
ماھی جو نظریں ہٹانے لگی تھی ۔۔۔پلکیں جھپک کر دوبارہ اسے دیکھا ۔۔۔۔
اور پھر اس سے نظریں ہٹا ہی نا سکی ۔۔۔۔اسکی بھوری اور گولڈن شیڈڈ آنکھیں،ستواں مغرور ناک۔کٹاو دار تھوڑی اور باریک لب،بھورے بال جو جیل لگا کر سیٹ کیے گئے تھے ،بلاشبہ وہ دنیا کے گِنے چُنے وجیہہ مردوں میں سے ایک تھا ۔۔۔۔
"What happened?
اس نے اپنی گھمبیر آواز میں پوچھا ۔۔۔
ماھی اسکی سحر انگیز آواز سن کر ہوش میں آئی ۔۔۔
"م۔۔۔مجھے کالج جانا تھا مگر یہ وارڈن انکل مجھے آگے جانے نہیں دے رہے ۔۔۔
If you don't mind....
تو میرے ساتھ آجاؤ اپنی سکوٹی کو لاک لگا دو واپسی پہ لے لو ۔۔۔میں بھی یہیں کے کالج میں جا رہا ہوں ۔۔۔
ماھی اس کی بات سن کر مخمصے کا شکار ہوئی۔۔۔۔اب اس انجان پہ اعتبار کر کہ جائے یا نہیں ۔۔۔۔
🔥🔥🔥🔥🔥
اگر رسپانس اچھا ملا تو ہی قسط روزانہ آئے گی ۔
❤️
👍
😢
🌺
😂
😘
🫀
52