
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:56 AM
#novel:Chand _Asmano Sy _Lapata.
#episode:22
#hina_ Asad.
Don't _copy_paste _without my permission.
رچرڈ کو جب پتہ چلا کہ آریان شیر (سفید موت)کے نام سے جانا جانے والا سنائیپر جو اس کا رائٹ ہینڈ تھا ،اسکی کمزوری "پری "اس دنیا سے چلی گئی ہے ،اور وہ اسکے جانے کے غم کو برداشت نہیں کر پایا ۔۔۔وہ سب کام چھوڑے کمرہ نشین ہو کر رہ گیا ہے ،تو اس نے خود آکر پہلے کی طرح آریان شیر کی برین واشنگ کی ۔۔۔اسے مسلمانوں اور خاص کر مساجد میں موجود نمازیوں کے خلاف بھڑکایا اور انہیں دہشت گرد بتاتے ہوئے انکے خلاف ورغلایا ۔۔۔۔وہ مذہبی طور پر ایک انگریز تھا جو دل میں مسلمانوں سے نفرت رکھتا تھا ۔اور اس نے آریان شیر کو شروع سے مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے انکے خلاف استعمال کیا تھا،اسے ٹاسک دیا گیا تھا مسجد میں خودکش دھماکا کروانے کا ۔اسی لیے وہ آریان شیر کو اسکے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا،ہمیشہ کی طرح آریان شیر نے اپنے ماسٹر رچرڈ کا حکم بجا لاتے ہوئے،پری کا بدلا لینے کے لیے مسجد میں خود کش دھماکا کروا دیا ۔۔۔۔
وہ پوری طرح پاگل ہوچکا تھا ،سب صیحیح غلط بھول چکا تھا ،اس کے سر پہ سوار تھا تو صرف بدلا ۔۔۔۔
انہیں دنوں اسے اس کے ایک آدمی نے اطلاع دی کہ اس نے پری کو زندہ دیکھا ہے ،
وہ دن آریان شیر کے لیے سب سے بڑا خوشی کا دن تھا،وہ پری کو دیکھنے اپنا حلیہ بدل کر سر پہ بڑی سی چادر اوڑھے چہرے چھپائے اسے دیکھنے گیا ۔۔۔۔جیسے کی اسے پری زندہ نظر آئی ۔۔۔۔اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی وہ اسکے پاس جانا چاہتا تھا سب کی نظروں سے بچ کر مگر جب اس کی نظر پری کے ساتھ کھڑے اس کے اپنے ہی بھائی امرام شیر پہ پڑی تو اس کی سرد آنکھوں میں یکدم نمی اتر آئی۔۔۔
جسے وہ پلکیں جھپک کر خود میں واپس مدغم کر گیا ۔۔۔۔
وہ اس وقت وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا اسی لیے تیزی سے نکلا پھر اچانک امرام شیر سے ٹکرا گیا ۔۔۔۔ مگر وہ بنا خود کو ظاہر کیے سرعت سے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔پری سے پھر کبھی ملنے کا سوچتے ہوئے ۔۔۔۔
فی الوقت اسے اپنے ماسٹر کے ایک اور پلان پہ عمل کرنا تھا ۔۔۔
اسے پری کے ٹھکانے کی ساری معلومات مل چکی تھیں ،جیسے کی وہ اسے لینے جانے والا تھا ،اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے امرام شیر اسے وہاں سے لے گیا ،،،،،
آریان شیر تلملا کر رہ گیا ،جب اسے کچھ دنوں پری کی خبر نہیں ملی ۔۔۔۔
پھر اس نے ایک دن پری کو امرام شیر کے ساتھ ہوٹل میں جاتے ہوئے دیکھا ۔۔۔وہ ہوٹل کے باہر فقیرانہ حلیے میں بیٹھ گیا اور اسکے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔
جیسے ہی پری اس کے قریب سے گزری اس نے آریان شیر کے پاس رکھے ہوئے کاسے میں امرام شیر کی دی ہوئی انگوٹھی ڈال دی ۔۔۔۔
آریان شیر کے جھکے ہوئے چہرے پہ مغرورانہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔
اس کی پری آج بھی اس کے علاؤہ کسی سے محبت نہیں کرتی اس بات کا اسے پختہ یقین ہوگیا تھا ۔۔۔۔
اس نے پری پہ پوری نظر رکھی ہوئی تھی ،اپنے ماسٹر رچرڈ کے پلان کے تحت اس نے وہ ڈائمنڈ چرانا تھا ،اسے پتہ نہیں تھا کہ پری بھی وہاں آنے والی ہے ،اس نے جس بلڈنگ میں ہیرے کی نمائش ہونے والی تھی اس کی بالکل سامنے والی بلڈنگ میں کمرہ بک کیا تھا ۔۔۔
وہ اپنے مخصوص آلے سے سامنے والی بلڈنگ کی سب حرکات و سکنات دیکھ رہا تھا،اس کا ٹارگٹ وہ سیکیورٹی آفیسر تھا ۔اسی کی جان لینے کی سپاری ملی تھی اسے ۔۔۔،پہلے اس نے اس کا کام تمام کیا ۔۔۔پھر ڈائمنڈ چرا کر پری کو بھی اپنے ساتھ گھر واپس لا چکا تھا ۔۔۔۔
آج وہ دل سے خوش تھا کہ اس کی پری اس کی زندگی میں اسکے گھر میں واپس آ کی ہے ،بس اس کے ہوش میں آنے کا انتظار تھا ۔۔۔۔
وہ اس کے آنے کی خوشی میں اس کا فیورٹ سونگ پیانو پہ بجانے لگا ۔۔۔
چاند آسمانوں سے لاپتہ،،
چل کر میرے گھر میں آگیا ۔۔۔
تیرے بن میرے یارا کہیں ۔۔۔
میں خوش قسمت ہوں باخدا اسطرح
ہو جائے پوری اک دعا جس طرح
تیرے بن میری جاناں کبھی
اک پل بھی گزارہ نہیں ۔
تیری آرزو نے خود سے بیگانہ کردیا ۔۔۔
اسکی انگلیاں تیزی سے پیانو کیز پریس کرتی ہوئی مخصوص دلکش دُھن بجا رہی تھیں اور اسکی سحر انگیز آواز سارے گھر میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔
جیسے ہی پری نے اس کے چہرہ اٹھاتے اسے پہ نظریں جمائیں وہ اپنی جگہ ساکت رہ گئی ۔۔۔۔
"تممم۔۔۔۔تمم۔۔تم ۔۔۔۔
وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں فق نگاہوں سے بولی ۔۔۔
"پری !!
آریان شیر اٹھ کر کھڑا ہوا تو چہرے پہ ازلی سنجیدگی کی بجائے نرمی تھی ۔۔۔۔
"میجر تم یہاں کیوں لائے ہو مجھے ۔۔۔۔اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے ۔۔۔۔
"پری تم نے مجھے پہچانا نہیں "؟اب کے بار حیران ہونے کی باری آریان شیر کی تھی ۔جس کی جدائی میں وہ اتنا تڑپا تھا ،جسکی دوری نے اسے اپنی محبت کا احساس کروایا تھا آج وہ اسے پہچاننے سے انکاری تھی ۔۔۔۔اسے بہت بڑا دھچکا لگا ۔۔۔۔
"اور یہ تم نے اپنی کیا حالت بنائی ہوئی ہے ،؟؟؟
"کہیں پاگل واگل تو نہیں ہوگئے میرا انکار سن کر ۔۔۔۔
وہ اس دن کے انگوٹھی پھینک دینے والا واقع یاد کر کہ بولی ۔۔۔۔
آریان شیر کی بڑھی ہوئی شیو اور اسکے شانے تک آتے بھورے بال ،اس نے صرف ویسٹ اور ٹراؤزر پہن رکھا تھا گلے میں پلاٹینم کی چین تھی ۔۔۔
اس نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پری کو دیکھا ۔۔۔۔
اس کے تیز ترین دماغ میں فورا کلک ہوا ۔۔۔۔
کہ پری اسے امرام شیر سمجھ رہی ہے ،
اب اس نے پری کو اپنے طریقے سے ٹیکل کرنے کا سوچا اور اسکی طرف بڑھا ۔۔۔
"بھول گئی اپنے شیرو کو "
وہ اسکی کمر پہ ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔
اس کا ٹھٹھرا دینے والا لہجہ سن کر پری کے وجود میں برقی رو دوڑ گئی۔۔۔
اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے دوچند ہوئیں۔۔۔۔
"اپنے پیار کا اظہار کر کہ پہلے مقابل کو پاگل بنا دینا پھر اسی کے وجود سے انکاری ہونا یہ کہاں سے سیکھا ہے ؟؟؟
"میں نے تو تمہیں ایسا کچھ نہیں سکھایا "
وہ کہتے ہوئے اس کو اپنے ساتھ واپس کمرے میں لے جا چکا تھا ۔۔۔۔اور اسے اٹھا کر ڈریسر پہ بٹھاتے ہوئے وہاں سے برش اٹھایا ۔۔۔۔
"یاد ہے ،تم ہر روز یونہی مجھ سے اپنے بال برش کرواتی تھی ۔۔۔۔۔
اب وہ اس کے بالوں میں نرمی سے برش پھیر رہا تھا ۔۔۔۔
اسکے انداز میں بہت نرمی تھی ۔۔۔ پری نے نظریں اٹھا کر ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
اسے یاد کرنے پہ بھی کچھ یاد نہیں آیا ۔۔۔۔
"تم فیس واش کر کہ باہر آؤ ۔۔۔میں تمہارے لیے تمہارا فیورٹ بریک فاسٹ بناتا ہوں "
کہتے ہوئے وہ باہر نکل گیا ۔۔۔
"یہ میجر کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔کسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے مجھ سے ۔۔۔
بڑی بھوک لگی ہے ۔زرا پہلے پیٹ پوجا کر لوں پھر کام دوجا ۔۔۔۔
بھئی چاندنی پیٹ بھرے گا تو ہی دماغ بھی کام کرے گا ۔۔۔
ناشتہ کرلوں پھر اس میجر کا دماغ ٹھکانے لگاتی ہوں ،وہ فیصلہ کن انداز میں کہتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو اس کے پاؤں اپنے آپ کچن کی طرف اٹھنے لگے ۔۔۔اتنے بڑے گھر میں مجھے کیسے پتہ کہ کچن اس طرف ہے "وہ خودی حیران ہوئی اپنے آپ پہ کچن کے دروازے پہ پہنچ کر۔
پھر سر جھٹکتے ہوئے اندر داخل ہوئی ۔۔۔
وہ دلجمعی سے کچھ کرنے میں مشغول تھا ۔۔۔
"لیجیے آپکا فیورٹ ناشتہ حاضر ہے ،
آریان شیر نے اسکے سامنے ٹیبل پہ ناشتہ رکھتے ہوئے کہا تو اس کی بھوک چمک اٹھی ۔۔۔
وہ جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔دل ہی دل میں اس ناشتے کے ذائقے کی متعرف بھی ہوئی مگر منہ سے ایک لفظ بھی نہیں بولی ۔۔۔
"تمہیں کیسے پتہ میجر مجھے یہ پسند ہے "وہ آخری بائٹ منہ میں ڈالتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھنے لگی ۔۔۔
اس کے گلے میں بولنے سے پھندہ سا لگا تو آریان شیر نے اسکی طرف پانی کا گلاس بڑھایا ۔۔۔۔
"لو پانی پیو ۔۔۔
وہ پانی کا گلاس اسکے منہ سے لگاتے ہوئے اسکی کمر سہلانے لگا ۔۔۔
"پہلی تو یہ کہ میں میجر نہیں ،دوسری بات سالوں سے انہیں ہاتھوں سے تمہاری پسند کا کھانا بناتا آیا ہوں "
پری لاپرواہی سے شانے اچکا کر رہ گئی ۔۔۔۔
"اور بھی بتا سکتا ہوں تمہیں کیا کیا پسند ہے "
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد مہری سے بولا ۔۔۔
پری نے بے ساختہ نگاہ اس کے چہرے پہ ڈالی ۔۔۔
"تمہیں بارش کا موسم بہت پسند ہے ۔۔۔بارش میں جانے کے لیے تم کچھ بھی کرسکتی ہو ۔۔۔
کھانے میں تمہیں میرے ہاتھ کا ناشتہ پسند ہے ،
اور سب سے فیورٹ آئس کریم ۔۔۔
پری کے دل نے اک بیٹ مس کی ۔۔۔۔یہ واقعی سب چیزیں اسے پسند تھیں ۔۔۔تو اسے کیسے پتہ چلا ۔۔۔
اس کے لب تو خاموش تھے مگر اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے آریان شیر اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے ۔۔۔
"سب یاد آجائے گا ۔۔۔۔جاو ریڈی ہوکر آؤ آج تمہیں آئس کریم کھلانے لے کر چلوں گا '
وہ کھڑے ہوتے ہوئے اپنی گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز کی پاکٹ میں ہاتھ پھنسائے بولا ۔۔۔
پری آئس کریم کے لیے منع کیسے کرتی ۔۔۔وہ بلا کوئی بھی چوں چراں کیے اٹھ گئی اور تیار ہونے چل دی ۔۔۔۔
جیسے ہی اسنے کبرڈ کھولی اس کے بیش بہا قیمتی اور رنگے برنگے ڈریسز اس میں ہینگ تھے ۔۔۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک شارٹ شرٹ اور ٹراؤزر نکالا اس کا ہم رنگ دوپٹہ بھی ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ تیار ہوئے لاونج میں آئی تو سامنے ایک بزرگ کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔۔۔۔
"اے کون ہو تم ؟؟؟"
"اور اندر کیسے آئے ۔۔۔۔؟؟؟
"نکلو باہر یہاں سے ""
"تم ابھی جانتے نہیں اس گھر کے بڑے بڑے ڈولے شولے ہیں ،تمہیں اس کا ایک پنچ پڑا تم نے اس دنیا سے اٹھنا نہیں ہمیشہ کے لیے اٹھ جانا ہے ".
وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی۔۔۔
"چلو پری آؤ "
"تم ہو "؟
پری اس بزرگ کے منہ سے آریان شیر کی آواز سن کر حیرت زدہ آواز میں بولی۔۔۔
وہ اسے واقعی اس بدلے ہوئے روپ میں بالکل بھی پہچان نہیں پائی ۔۔۔۔
اس کی سفید داڑھی اور سفید بال تھے ،آنکھوں پہ بڑے بڑے نظر کے چشمے لگا رکھے تھے ،بوسیدہ سا پینٹ کوٹ پہنے کوئی ساٹھ سال کا بڈھا لگ رہا تھا ۔۔۔۔
"یہ کیا حالت بنائی تم نے ۔۔۔
جب سے آنکھیں کھولیں تب سے تمہارے کتنے روپ دیکھ چکی ہوں ۔۔۔
"دیکھو مجھے صاف صاف بتاؤ آخر تم ہو کون "؟
وہ درشتگی سے وارننگ جاری کرتے ہوئے بولی۔
"اپنے دل سے پوچھو ۔۔۔۔"
"کون ہوں میں "
وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔
"اگر پھر بھی اپنے دل کی زبان سمجھ نا آئے تو میرے دل سے کان لگا کر سننا جو ہر دھڑکن پہ تمہارے نام کی مالا جپتا ہوا ملے گا ۔۔۔۔"
"میں باہر کسی کے سامنے اپنی اصل شناخت یا چہرہ ظاہر نہیں کرتا ۔۔۔اسی لیے گیٹ اپ تبدیل کیا ۔۔۔۔
"لاٹھی پکڑ لوں ؟
"یا تم میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے سہارا دینا چاہتی ہو ؟
وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تو پری نے سٹپٹا کر نظریں چرائیں ۔۔۔
"آئیں "
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
"یہ ایک دم سے تبدیلی کیسے ؟
آریان شیر نے چشمے کو آنکھوں سے ذرا سا ناک کے نیچے کیے پوچھا ۔۔۔
"کیسی ؟
وہ چونک کر بولی ۔۔۔
"آؤ کی بجائے آئیں "
وہ ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔پہلی بار ۔۔۔
پری کو اس کی ہنسی بہت انمول لگی ۔۔۔۔
"پتہ نہیں کیوں منہ سے پھسل گیا "
وہ لاپرواہی سے کہتی ہوئی چلنے لگی۔ تو آریان شیر اسکے ساتھ باہر نکل گیا ۔۔۔۔
دونوں چلتے ہوئے کافی دور آگئے تھے ۔۔۔۔
"آئس کریم کھلانی تھی ،یا میری ٹانگیں توڑنے کا ارادہ ؟؟؟
وہ پلٹ کر کڑے تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔
"ایسا کیوں لگا ؟
وہ اسکا ہاتھ کا سہارا لیے بالکل کسی بزرگ کی طرح کپکپاتے ہوئے چل رہا تھا ۔۔۔
"پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے جیسے میں پہلے بھی ان راستوں پہ یونہی چلتے ہوئے تھک گئی تھی ۔۔۔۔
اس خود اپنی بھی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔۔
آنکھوں کے سامنے سب دھندلا دھندھلا سا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔کچھ بھی واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔۔
"تمہیں اب بھی یاد نہیں آیا کہ میں کون ہوں ؟؟؟
آریان شیر نے اب کی بار چشمہ ایک انگلی سے مزید آنکھوں پہ چڑھایا ۔۔۔۔
پری کی نظر روڈ کے اس پار کھڑے ہوئے فون پہ گفتگو کرتے ہوئے امرام شیر پہ پڑی ۔۔۔۔۔
"تمہیں تو میں ابھی تک پہچان نہیں پائی ۔۔۔
"مگر کوئی اور ہے جسے میں اچھے سے پہچان چکی ہوں ۔۔۔
اس میجر نے میرے ساتھ وہ کیا جو بندہ کبھی اپنے دشمن سے بھی نا کرے ۔۔۔
جانے کونسے جنم کا بدلہ لیا اس میجر نے مجھ سے ۔۔۔۔۔
"بڑے حساب نکلتے ہیں اس سے ۔۔۔۔آج نہیں بچے گا یہ میجر میرے ہاتھوں سے "
وہ دانت کچکچا کر غصے سے لال انگارہ ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔
وہ اپنے سامنے امرام شیر کو دیکھ کر جان چکی تھی کہ وہ میجر امرام شیر ہی تھا ۔۔۔اور جو اس کے ساتھ تھا وہ کوئی اور ہی ہے ،ان دونوں کی بس شکلیں ملتی جلتی ہیں۔
ساتھ موجود انسان سے بعد میں نپٹنے کا سوچتے ہوئے اس نے ایک قہر بار نگاہ امرام شیر پہ ڈالی ۔۔۔۔اس نے آریان شیر کو گن اپنے کوٹ کے نیچے موجود پوشیدہ ہولڈر میں لگاتے دیکھ چکی تھی ۔۔۔
"بابا جی !!!
"اپنا صدقہ دے دو ۔۔۔
یا
اللّٰہ کے نام پہ کچھ دے دو ۔۔۔
اللّٰہ تمہیں حج کرائے گا !!!
ایک ہٹا کٹا فقیر آریان شیر کو بزرگ کے حلیے میں دیکھ کر اس کے پاس آتے اس سے بھیک مانگنے لگا ۔۔۔۔
تو وہ اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
"یہ ادھر مجھے دو آج اس کا وہی ہاتھ ضائع کروں گی جس سے اس نے مجھے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔۔چاندنی کبھی بھی کسی کا ادھار نہیں رکھتی "
وہ حدردجہ پھرتی سے آریان شیر کے گن ہولڈر سے اسکی گن نکال کر سامنے کھڑے کال پہ مصروف امرام شیر پہ تانے نشانہ سادھ چکی تھی ۔۔۔۔
آریان شیر اس فقیر کو فٹافٹ پیسے دے کر پری کی طرف آیا ۔۔۔
"نہیں پری ۔۔۔۔
آریان شیر نے اسے روکنا چاہا جو گن لیے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔کیونکہ دوسری طرف ۔۔۔۔
زخرف جو امرام شیر سے بات کرنے کے لیے اسکے پیچھے باہر آئی تھی ۔۔۔۔
روڈ کی دوسری طرف وہی لڑکی کو امرام شیر کی طرف گن کیے کھڑے دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔۔۔۔۔
"میجر !!!!
زخرف نے امرام شیر کو اسکی جگہ سے پیچھے دھکیلا۔۔۔
دوسری طرف سے جب پری نے امرام شیر پہ گولی چلانے کے لیے آگے بڑھی تو اپنے قریب آتی ہوئی تیز رفتار گاڑی کو دیکھ نا سکی ۔۔۔۔
بجلی کے مانند تیز رفتار گولی امرام کی بجائے زخرف کو لگی ۔۔۔
امرام شیر کے ہاتھ سے فون چھوٹ کر گرا ۔۔۔۔
وہ حیران ہوا اچانک اس حادثے پہ ۔۔۔
زخرف کو خون سے لت پت سڑک پہ گرتے دیکھ ۔۔۔۔
اس نے گولی چلانے والے کے تعاقب میں دیکھا ۔۔۔
اصل میں حیران ہونے کی باری تو اب تھی ۔۔۔۔
وہ جس کے لیے اس نے پہلی بار اپنے دل میں کچھ محسوس کیا تھا ۔۔۔۔
آج اسی نے اس کی جان لینی چاہی ۔۔۔۔اس سے بڑھ کر دھچکا اس کے لیے اور کیا ہوسکتا تھا ۔۔۔۔
وہ چاندنی کو یک ٹک دیکھنے لگا ۔۔۔
جسے ایک تیز رفتار گاڑی ہوا میں اچھال کر دور گرا چکی تھی ۔۔۔اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی گن بھی دور جاگری ۔۔۔
ایک بزرگ جو اسکی طرف آرہا تھا ۔۔۔۔وہ چاندنی کا چہرہ تھپتھپانے لگا ۔۔۔۔
"پری اٹھو ۔۔۔۔
"اٹھو پری ۔۔۔۔
"کیوں کیا تم نے ایسا ؟"
"اب جا کر تو ملی تھی ۔۔۔۔
"مجھ سے دور مت جانا "
وہ کرب زدہ آواز میں بولا ۔۔۔
امرام شیر نے بنا ایک بھی لمحہ ضائع کیے ہوئے ۔۔۔زخرف کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا ۔۔۔
آئس کریم پارلر میں موجود باقی سب گولی چلنے کی آواز سن کر باہر نکل آئے ۔۔۔۔
زخرف کو خون میں لت پت دیکھ کر سب کے رنگ زرد پڑ گئے ۔۔۔۔
"شیردل جلدی گاڑی سٹارٹ کرو ۔۔۔۔
امرام شیر نے اسے کہا تو وہ برق رفتاری سے گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرنے لگا ۔۔۔
امرام شیر بیہوش ذخرف کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر اس کے ساتھ بیٹھا تو شیردل نے گاڑی فل سپیڈ سے قریبی ہاسپٹل کی طرف بڑھائی ۔۔۔۔
دوسری گاڑی میں باقی سب بھی بیٹھ کر انکے پیچھے روانہ ہوئے جسے احتشام چلا رہا تھا ۔۔۔۔اپنی اکلوتی بہن کو اس حالت میں دیکھ کر وہ خود پہ قابو نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔
وہ جلد از جلد وہاں پہنچنا چاہتا تھا ۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙
"لکی !!!! آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں ؟ ۔"
اس نے مشکل اپنے کپکپاتے لہجے پہ قابو پاتے اضطراب کے عالم میں استسفار کیا۔
"پیار کرنے کے لیے "
لکی نے خمارآلود نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ کر کہا ۔
م۔۔۔م۔۔۔مگر مجھے یہاں ڈر لگ رہا ہے "
"سب دوریاں مٹا دو ڈر اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔"
"جس کے ساتھ تم اس وقت موجود ہو ،ڈر بھی اس سے ڈر کر دور بھاگ جائے گا "
درختوں کے پتوں نے زمین پہ دبیز چادر سی بچھا دی ۔۔۔
وہ اسے اپنے لیے ان پتوں پہ گرا ۔۔۔۔اور ماھی اسکے سینے سے آلگی ۔۔۔
ایسا کرنے سے ماھی کے بھورے بال آبشار کی مانند اس کی کمر پہ پھیلے ہوئے تھے۔اس کے چہرے پہ گرے ۔۔۔۔لکی اس کے بالوں سے اٹھتی مہک کو اپنی سانسوں میں اتارنے لگا ۔اس نے ماھی کے بال اسکے کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے شدت بھرے انداز میں اس کی گردن پہ اپنے سلگتے لب رکھے تو ماھی نے خوفزدہ آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا اور خود کو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔وہ اسے گھر لے جانے کی بجائے اس خوفناک جنگل میں لے آیا تھا اور اب بنا جگہ دیکھے ، اس کے وجود پہ چھاپ چھوڑ رہا تھا۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ لکی کا پکڑا جو اب اس کی میکسی کی زپ پہ تھا ۔۔۔۔
"نہیں پلیز "
"شششششش۔۔۔"
لکی نے گہری تپش بھری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ کر اسکے لبوں پر انگلی رکھتے اسے بولنے سے روکا ۔۔۔ تو ماھی نے اس کی نگاہیں خود پہ محسوس کرتے اپنا حلق تر کرتے اپنا رخ موڑ گئی۔۔۔
"آج صرف محسوس کرنے کی رات ہے ۔۔۔
Lucky's Luck"
وہ اسکی تھوڑی کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر بولا ۔۔۔
وہ مضطرب انداز میں اسے دیکھنے لگی ۔۔۔
لکی اس کے معصومیت سے بھرے نقوش کو آنکھوں کے زریعے دل میں اتارتے ہوئے ۔۔۔
اس کے شانوں سے میکسی سرکا چکا تھا ۔۔۔
"ماھی !!!
"یاد رکھنا میں تمہیں کبھی خود سے دور نہیں ہونے دوں گا پہلے تم میری ضرورت تھی مگر اب تم میری چاہت میرا جنون بن چکی ہو ۔تمہاری محبت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔تم مجھے نشے کی مانند لگنے لگی ہو ۔جس دن تمہیں نا دیکھوں دن نہیں گزرتا۔اس رات کا سویرا نہیں ہوتا ۔اگر تمہاری دید کا نشہ نہ ملے تو میں کسی اڈکٹ کی طرح تڑپنے لگتا ہوں ،تمہاری چاہت کا خمار میری رگ رگ میں اتر چکا ہے ۔"
لکی نے سرگوشی نما آواز میں کہا۔لکی کے لب اسکے کان کی لو سے مس ہوئے تو اسکے وجود میں پھریری سی دوڑ گئی ۔۔۔۔
"میں اپنے اس جنون کو تم میں انڈیل کر تمہیں بھی اس جذبے سے آشنا کروانا چاہتا ہوں ۔۔۔تمہیں بھی تو پتہ چلے جس عشق کی آگ میں لکی جل رہا ہے،اس میں جھلسنا کیسا ہوتا ہے ،اس کی آنچ تم تک بھی تو پہنچے ۔۔۔۔"لکی کی سرسراتی ہوئی انگلیاں اب اپنے پیٹ پہ محسوس کرتے ماھی کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوئے ۔۔۔۔۔
"ماھی جسطرح میں تمہیں پیار کر رہا ہوں تم بھی میرے پیار کا جواب پیار سے دو گی ؟۔"
وہ اس کے پیٹ پہ لب رکھتے فسوں خیز آواز میں بولا۔۔۔
ماھی نے اسکے جان لیوا لمس پہ تڑپ کر سختی سے اپنی آنکھیں میچ لی۔
"م۔۔۔۔مجھے نہیں آتا ۔۔۔پ۔۔۔پیار کرنا ۔
وہ بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔۔
"پھر مجھے اجازت دو خود میں ڈوب جانے کی ۔۔۔اجازت ہے ؟؟"
اس کی فرمائش پر ماھی کے گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔
لکی کو یہ منظر بہت بھایا تو اس نے ماھی کی شہ رگ پہ اپنے سلگتے لب رکھے ۔۔۔۔
ماھی کی سانسوں کی رفتار مدھم ہوئی ۔۔۔۔
"ماھی میں تمہیں عنقریب سب بتا دوں گا مجھ پہ بھروسہ رکھنا ۔تمہارا لکی کبھی بھی غلط نہیں ہوگا۔بس کبھی مجھ سے منہ مت پھیرنا ورنہ ساری دنیا کو آگ لگا دوں گا ۔"
ماھی نے آنکھیں کھول کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔۔وہ اس کی طلسم زدہ نظروں میں ڈوبنے لگی ۔۔۔۔اپنی نظروں کے حصار میں لیے وہ اسے جیسے اسے کسی اور دنیا میں لے جارہا تھا۔
ماھی نے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دیا ۔وہ اب اس کے وجود پہ جابجا اپنا محبت بھرا لمس چھوڑرہا تھا۔۔۔۔
اس کی شدت بھری جسارتوں پہ ماھی کا چہرہ شرم سے خون چھلکانے لگا ۔
چاہا جانا کبھی کسی کو برا لگا ہے کیا ،،یہی ماھی کے ساتھ بھی ہوا ۔۔۔وہ اس کے روئے روئے کو اپنے عقیدت بھرے لمس سے چھو کر معتبر کر رہا تھا ۔۔۔۔ماھی اس کی قربت میں خود کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔پہلے وہ اس ماحول سے ڈری ہوئی تھی مگر جب لکی نے اسے اپنے ساتھ کا مان بخشنا شروع کیا ماھی سب بھلائے مسرور ہوئی ۔۔۔۔اسے بالکل بھی برا نہیں لگ رہا تھا لکی کا چھونا ۔۔۔۔شاید یہ نکاح کے پاکیزہ بولوں کا اثر تھا کہ اسے اس کی قربت میں سکون محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔
"بہت جلد تم بھی مجھ سے ایسا ہی عشق کرنے لگو گی جیسا مجھے تم سے ہے ۔"
وہ پریقین لہجے میں بولا تھا
ماھی حیرت انگیز نظروں سے سانس روک کر اس کا یقین بھرا انداز دیکھا۔
"مجھے تمہارا ساتھ چاہیے ،یقین رکھنا ،تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے دوں گا ۔"
وہ اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی لگائے فسوں خیز آواز میں بولا۔
دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کو جھلسا رہی تھیں ۔۔۔
لکی نے اسکے مخروطی انگلیوں میں اپنی انگلیاں الجھائیں پھر ان پہ اپنے لب رکھے ۔۔۔۔
ایک بار پھر تیز ہوا چلی درختوں کے پتوں نے ان دونوں کے وجود کو ڈھانپ دیا ۔۔۔۔
ماھی کی مدھم سی سسکیاں ہوا کے چلنے کی سرسراہٹ میں مدغم ہورہیں تھیں ۔۔۔۔چاروں طرف اندھیرا مزید گہرا ہوگیا تھا ۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙
ذخرف کی بازو میں گولی لگی تھی , بروقت ہسپتال پہنچنے کی وجہ سے ڈاکٹرز نے بلٹ اسکے بازو میں سے نکال لی تھی۔ ۔۔اب وہ خطرے سے باہر تھی۔
زخرف کو اب پرائیویٹ روم میں منتقل کردیا گیا تھا ۔۔۔
احتشام زخرف کے پاس کافی دیر بیٹھا۔۔۔۔پھر سب کو گھر اطلاع دی اور بتایا کہ وہ سب کچھ دیر میں واپس آجائیں گے کیونکہ ذخرف کی طبیت اب سنبھل چکی ہے ،وہ باہر کوریڈور میں کھڑا فون پہ سب سے بات کررہا تھا,
شیر دل امرام شیر کے کہنے پہ سب لڑکیوں کو گھر چھوڑنے کا چکا تھا ۔۔۔۔
زخرف کو ہوش آچکا تھا۔۔۔۔
اس نے آنکھیں کھولیں تو خود کو ہاسپٹل کے بستر پر لیٹے ہوئے پایا ۔۔۔۔
"اچھا ہوا فسادن ،نظر باز ،لڑکی گاڑی کے نیچے آگئی ۔۔۔۔
میرے امرام شیر کو تاڑتی تھی ،
اگر آج وہ گاڑی کے نیچے نہ آتی تو میں نے اسے گلا دبا دینا تھا ۔۔۔۔
دھوکے باز گھٹیا لڑکی ۔۔۔میرے میجر کو مارنے چلی تھی اسے پتہ نہیں میجر کی دیوانی اس کی بوٹیاں نوچ لے گی ۔۔۔۔"
وہ دانت پیس کر جلن سے بولی ۔۔۔۔
"ہائے او ربا ذخرف !!
"تو اچھی بچی ہے ،یہ کیسی باتیں کر رہی تھی ،کسی کو موت کی آغوش میں دیکھ کر اسے صلواتیں سنا رہی ہے ،یاد رکھ تو خود بھی ہسپتال کے بستر پہ پڑی ہے "
اس نے خود کو ڈپٹا ۔۔۔۔
وہ منہ میں بڑبڑا رہی تھی کہ دروازے سے امرام شیر اندر آیا ۔۔۔۔
"کیا ضرورت تھی اتنی ہیروئن بن کر بیچ میں آنے کی "؟
امرام شیر نے بنا لگی لپٹی رکھے اس کے منہ پہ ہی اسکی بیعزتی کی ۔۔۔
"اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ؟"
امرام شیر نے کڑے تیوروں سے اس کو گھورتے ہوئے تلخ انداز میں کہا۔۔۔
"اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو ؟؟؟
"کیا فایدہ ایسی زندگی کا جو اپنے پیار کے کام نا آسکے۔۔۔۔"
وہ نقاہت زدہ آواز میں بولی۔۔۔
"زخرف ہر وقت بچکانہ باتیں مت کیا کرو "
"میں بچکانہ کرتی ہوں تو تم بڑوں والی کرلو ۔۔۔۔
"Control your tongue"
وہ درشت آواز میں بولا۔۔۔
"ایسا کیا کہا میں جو اتنی آگ لگی ",؟
"تم نا !!!
وہ مٹھی بھینچ کر خود پہ ضبط کرنے لگا ۔۔۔۔
"تم کبھی سدھر نہیں سکتی ۔۔۔۔
"کتنا بڑا ہوں تم سے یہ "تم کیا ہوتا ہے ؟؟؟
"مجھے بدتمیزی پسند نہیں "
وہ اسکے تم کہنے پہ تلملایا ۔۔۔
"بھئی جس رشتے سے میں نے تمہیں تم بولا ہے ۔۔۔۔وہ رشتہ برابری کا ہے ۔اس میں تم بھی چلتا ہے ۔۔۔۔
وہ کیا ہے نا زرا اپنا اپنا سا فیل ہوتا ہے "
وہ اتنی تکلیف میں بھی دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
",ایسا کونسا رشتہ ہے زرا مجھے بھی بتانا پسند کریں گی ۔۔۔۔"
وہ ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں بولا
"پیار کا !
وہ کہہ کر مسکرانے لگی ۔۔۔۔
اور اسکی مسکراہٹ نے امرام شیر پر جلتی ہوئی پہ تیل کا کام کیا ۔۔۔
وہ مزید بھڑکا ۔۔۔
زخرف نے اس آگ بگولہ ہوتے ہوئے شیر کی دھاڑ سے بچنے کے لیے فورا لہجہ بدلا ۔۔۔
"آپ بتائیں مجھے کچھ ہوجاتا تو آپ کو برا لگتا ؟؟"
وہ مان بھرے انداز میں پوچھنے لگی ۔۔۔۔
"میرے پاس تمہارے فضول سوالوں کا کوئی جواب نہیں "
وہ سپاٹ انداز میں بولا ۔
"میں بتاتی ہوں اگر آپکو کچھ ہوجاتا تو میں تو جیتے جی مر جاتی ۔۔۔۔میں نے ایک لمحہ بھی آپکے بغیر زندہ رہنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا اور نا کبھی کرنا چاہتی ہوں "
وہ ہمت مجتمع کیے بمشکل لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی حالانکہ زخم ابھی تازہ تھا اسے درد ہو رہا تھا۔۔۔۔
"میں تمہارا حال پوچھنے آیا تھا ۔۔۔۔
وہ سپاٹ انداز میں بولا۔
"تو پوچھیں پھر ۔۔۔۔مگر پیار سے ۔۔۔۔اتنے لٹھ مار انداز میں آپ کے سوا اور کوئی حال پوچھ بھی نہیں سکتا میرا ۔۔۔
وہ اس کے روڈ انداز میں حال پوچھنے پہ جل کر بولی ۔۔۔
"کیسی ہو ؟
"زیادہ درد تو نہیں ہو رہا؟
وہ اسکی حالت کے پیش نظر تشویش بھرے انداز میں بولا۔
"کیسی ہوسکتی ہے اس کی حالت جس کو کو نظر بھر کر دیکھتا نا ہو ۔۔۔۔
اس کے دل کا درد تم کیا جانو رمیش بابو ۔۔۔۔؟؟؟؟
امرام شیر جو اسکی ساری بات کو غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے سن رہا آخری لفظ پہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی مسکراہٹ کو روک نہیں پایا ۔۔۔۔
اسے پتہ تھا وہ مویز کی شوقین نے ضرور کسی مووی کا ڈائلاگ اپنے انداز میں بولا تھا ۔۔۔۔
"دیکھ لیا اپنی اس ہوتی سوتی کو جسکے آگے پیچھے کبھی پھول لے کر گھومتے تھے کبھی انگوٹھیاں پیش کی جارہی تھیں ۔۔۔بدلے میں اس نے گولیاں چلائیں ۔۔۔۔
زخرف نے بھی ہاتھ آیا ہوا موقع جانے نہیں دیا اس کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ۔۔۔۔
امرام شیر تو حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھنے لگا کہ اسے کیسے پتہ چلا یہ سب ۔۔۔
زخرف نے جیسے اسکی آنکھوں میں سوال پڑھ لیے تھے ۔۔۔
اسی لیے وہ خود بولی ۔۔۔
",میں نے اس دن ہوٹل میں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔
"اور تم کیا کر رہی تھی اس وقت اس ہوٹل میں ؟؟؟
"زرا وہ بتانا مجھے ۔۔۔
وہ اپنی شرٹ کے بازو فولڈ کرتے ہوئے مزید دو قدم اسکے قریب آیا ۔۔۔۔
"آ۔۔۔آپ مجھے ایسے ڈرا نہیں سکتے ۔۔۔۔آپ کو کیا میں جو بھی کرتی اس ہوٹل میں "
وہ اس سے بچنے کے لیے پیچھے تو نہیں ہٹ سکتی تھی لیکن ڈر سے آنکھیں میچ گئی۔۔۔
"میں کوئی نہیں ڈرتی آپ سے سمجھے آپ ؟
وہ اسے دھمکی آمیز انداز میں بولی۔۔۔۔
"اچھا !!!
"ڈرتی نہیں تو آنکھیں کیوں میچ لیں ۔۔۔۔؟
وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔۔
زخرف نے اسے ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر اسے دیکھا ۔۔۔اسے ہنستے ہوئے دیکھ کر جھٹ پوری آنکھیں کھول دیں۔۔۔
"ہائے صدقے اگر میری گولی لگوانے سے روزانہ ایسی مسکراہٹ دیکھنے کو ملے تو روزانہ شوق سے ہزاروں گولیاں
کھا لوں "
وہ پرجوش انداز میں بولی ۔۔۔
You are such a mad girl....
"وہ اپنی ہنسی کو بریکس لگاتے ہوئے سادہ انداز میں بولا ۔۔
"ہمممم پاگل تو ہوں مگر آپ کے پیار میں "
امرام شیر نے اس کی فضول گویائی پہ اسے گھوری ڈالی۔۔۔
"ویسے پاگل میں نہیں آپ ہیں ۔۔۔اچھی خاصی سویٹ سی لڑکی آپ پہ مرتی ہے ۔۔۔پر مجال ہے جو آپ کے سر پہ جوں بھی رینگتی ہو ۔۔۔
"ایکچولی وہ کیا ہے نا مجھے جوئیں پسند نہیں "
وہ ہلکا سا طنز و مزاح کا پہلو لہجے میں لائے بولا تو ذخرف کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔اور منہ تو کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔مذاق اور وہ بھی امرام شیر ۔۔۔۔
"بونٹ تو بند کر لو ورنہ مکھی چلی جائے گی ۔
وہ اسکی تھوڑی کو چھو کر اس کا منہ بند کرتے ہوئے ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں بولا ۔۔۔
"بہت بڑی ایکٹر ہو تم "
وہ تاسف سے سر دائیں سے بائیں ہلائے بولا ۔۔۔۔
"شکریہ شکریہ اس تعریف کے لیے ۔۔۔۔مگر آپ بھی کچھ کم ایکٹر نہیں ۔۔۔۔مجال ہے جو کبھی اپنے چہرے کے تاثرات سے پتہ لگنے دیا ہوکہ آپکے دل میں کیا چل رہا ہے "۔
"چھوڑو یہ سب فضول کی باتیں ۔۔۔۔میں اصل میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا واقعی آج اگر تم نا ہوتی تو ضرور مجھے بلٹ لگ جاتی ۔۔۔میرے حصے پہ آنی والی مصیبت تم نے خود پہ لے لی ۔۔۔۔
"اچھا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں نا تو کریں پھر شکریہ ۔۔۔۔
"کر تو رہا رہوں اور کیسے کروں تم بتا دو "
"آپکے خیال میں ایسے شکریہ ادا کیا جاتا ہے ؟؟؟
وہ الٹا اسی سے سوال پوچھ گئی ۔۔۔
"بتاؤ کیسے کروں ؟
زخرف نے اپنا کینولے والا ہاتھ آگے بڑھایا اور امرام شیر کا فولادی پھولی ہوئی رگوں والا ہاتھ اپنے نازک سے ہاتھ سے تھام لیا ۔۔۔۔
"مجھے اپنی زندگی میں ہمیشہ کے لیے شامل کرکہ ۔۔۔۔
وہ آنکھیں میچ کر بولی ۔۔۔۔
کیونکہ اپنی آنکھوں کے سامنے اس کا انکار کرنا وہ برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔۔
آج اسنے اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر اپنی خواہش کا اظہار کر دیا ۔۔۔۔
صرف پیار و محبت ہی ایسا جذبہ ہے جس میں انا کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔۔ اس میں عزت بیعزتی محسوس نہیں ہوتی بس محبوب کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے ،
کئی لوگ چپ چاپ محبت کرتے ہیں ،اور اپنی خاموش محبت کو ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں دفن کرلیتے ہیں ۔
مگر زخرف ان لوگوں میں سے تھی جس کی سوچ یہ تھی کہ زندگی ایک بار ملتی ہے ،تو اسے چپ رہ کر سسک سسک کر کیوں گزاریں ایک بار کوشش تو کرکہ دیکھیں ۔۔۔۔تاکہ بعد میں پچھتاوا نا ہوکہ میں نے تو کوشش بھی نہیں کی تھی ،اگر کوشش کرتی تو آج وہ میرا ہوتا ۔۔۔
"اس لیے اس نے اپنے تئیں ایک آخری مرتبہ کوشش کرنی چاہی ۔۔۔۔اگر آج وہ انکار کردیتا تو اسے اپنا مقدر سمجھ کر خود کو سمجھا لیتی ۔۔۔۔
زخرف کا رواں رواں کان بنا اس کی آواز سننے کا اسکے جواب سننے کا متمنی تھا ۔۔۔
اسے اپنے ہاتھ میں سے امرام شیر کا ہاتھ نکلتا ہوا یوں لگا جیسے ہاتھ میں سے ریت پھسل گئی۔۔۔۔
اور اسکا ہاتھ خالی رہ گیا ۔۔۔
زخرف نے جب کچھ دیر تک کوئی آواز یا قریب کوئی ہلچل محسوس نہیں کی تو اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔
روم کا دروازہ ہل رہا تھا ۔۔۔جیسے وہ کچھ لمحے پہلے اس دروازے سے خاموشی سے باہر نکل گیا ہو ۔۔۔
زخرف کی آنکھوں میں سے آنسو نکل کر اسکے گالوں کو بھگونے لگے۔۔۔۔۔
اس نے واپس زور سے آنکھیں میچ لیں ۔۔۔۔اور اپنے دل میں اٹھتے ہوئے درد کو دل میں دبانے لگی ۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙🌙
سورج کی روشنی چہار سو پھیل چکی تھی ۔۔۔
کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی نے اس کی گہری نیند میں خلل ڈالا تو ماھی نے آنکھیں کھول کر دیکھا ۔۔۔
سارا منظر اس کا دیکھا بھالا تھا ۔۔۔۔
وہ اپنے چکراتے ہوئے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اٹھی ۔۔۔۔
اور ارد گرد نگاہ دوڑائی وہ اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھی ۔۔۔۔اپنے بستر پہ ۔۔۔۔
وہ یہاں کب اور کیسے آئی ۔۔۔
اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔۔۔
مگر رات کے مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے ۔۔۔۔
اس کے لبوں پہ دلکش مسکراہٹ آن ٹہری۔۔۔۔
وہ واپس بستر پر لیٹے ہوئے اپنا مسکراتا ہوا چہرے تکیے میں چھپا گئی ۔۔۔
اس کا رواں رواں کپکپا رہا تھا لکی کی شدتیں یاد کیے اس کے جذبات سے لبریز انداز،اس کی میٹھی میٹھی کانوں میں رس گھولتی ہوئی مدھم سرگوشیاں ۔۔۔۔اس کا چہرہ سرخ روشنائی سے نہا گیا ۔۔۔
"آپ اتنی محبت کرتے تھے مجھ سے ۔۔۔۔
مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا ۔۔۔
وہ آہستہ آواز میں خودی سے مخاطب ہوئی۔۔۔
"آپ ظاہری طور پہ جتنے پیارے ہیں،اندر سے اس بھی کہیں زیادہ ۔۔۔۔
"آپکا ہر انداز مجھے مغرور بنا رہا ہے ،،،آپ جیسا انسان مجھے اتنا پیار بھی دے سکتا ہے ،
وہ اسکے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔۔
"مگر آپ مجھے بنا ملے یہاں کیوں چھوڑ گئے ؟؟؟
اس نے چہرے سے تکیہ ہٹا کر سوچا ۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙
کیسی لگی آج کی قسط ضرور بتائیے گا زخرف کے فینز 😍
❤️
👍
😂
🌺
😢
🥰
🫀
🫠
🫣
38