Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:56 AM
#novel:Chand _Asmano Sy _Lapata. #episode:23long epi #hina_ Asad. Don't _copy_paste _without my permission. "زخرف کیسی ہے ہیر ؟۔۔۔"شیر زمان نے فکرمندی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ وہ اس وقت سے پریشان تھا جب سے اس نے ذخرف کو گولی لگنے کا سنا تھا ۔۔۔ "آپ جانتے ہیں اسے گولی کیوں لگی ؟؟۔۔۔" "کیوں ہیر "؟ "شیردل نے بتایا مجھے کہ وہ گولی امرام کو لگنے والی تھی مگر زخرف سے اسے بچا لیا ۔۔۔ "میں تو اس کی ساری زندگی احسان مند رہوں گی " ہیر آنکھوں میں آئی نمی اندر اتارتے ہوئے بولی۔۔۔ امرام اور شیردل کے سامنے تو ہمت دکھا دی تھی لیکن اب تنہائی میں یہی سوچ سوچ کر کہ اگر گولی لگنے سے امرام شیر کو کچھ ہوجاتا تو یہ سوچ کر کی اسکی روح کانپ جاتی ۔۔۔شیر زمان کو سامنے دیکھ کر اسکے حوصلے پست ہورہے تھے۔۔۔۔۔وہ اس کے سامنے رو کر اپنے اندر کا درد ہلکا کرنے لگی ۔۔۔۔ "مائی لٹل وائفی !!! آپکو پتہ بھی آپکے یہ آنسو مجھے کتنی تکلیف دیتے ہیں ،پھر بھی آپ جان بوجھ کر انہیں میرے سامنے بہاتی ہیں ۔۔۔۔وہ ہیر کے آنسو اپنی پوروں سے پونچھ کر بولا ۔۔۔ ہیر جو کافی دیر سے ایک بات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔ اس نے دل کی وہ بات زبان پہ لانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔ جس پر انہوں نے فوری عمل کرنے کا سوچا ۔۔۔ "مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی "ہیر نے شیرذمان کے سینے پہ سر رکھے آہستگی سے کہا ۔۔۔ "ایک چھوڑ ہزار باتیں کریں ۔۔۔بندہ حاضر ہے ،مگر اس کے بعد آپکو میری بھی بات سننی پڑے گی " "اس عمر میں بھی آپ ایسی باتیں کریں گے اب "ہیر خفگی بھرے انداز میں چہرہ اٹھا کر بولی ۔۔۔۔ "ارے عمر کو کیا ہوا ہے ،دل جوان ہونا چاہیے ۔۔۔۔ "اچھا نا چھوڑیں یہ سب پہلے میری بات سنیں ۔۔۔ "سنائیں " "میرے ذہن میں ایک بات کافی عرصے سے ہے ،میں نے پہلے بھی آپ سے اس سلسلے میں بات کی تھی ۔۔۔لیکن اس بار میں اور دیر نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔اپنے اس فیصلے پہ میں جلد از جلد عمل کرنا چاہتی ہوں۔۔۔" "کہیں تم ذخرف اور امرام کے رشتے والی بات تو نہیں کر رہی ۔۔۔" انہوں کے اب کے تشویش سے پوچھا۔۔۔ ""آپ کو کیسے پتہ چلا ؟ ہیر نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ "اچھا میں چاہ رہی تھی کہ ہم امرام شیر کا نکاح ذخرف کے ساتھ کردیں میں تو پہلے بھی ایسا چاہتی تھی ،مگر امرام نہیں مانا ۔۔۔مگر اس بار ذخرف نے اپنے عمل اور بہادری سے ثابت کردیا کہ وہ کتنا پسند کرتی ہے امرام کو ۔۔۔میں نے اسکی آنکھوں میں امرام شیر کے لیے پسندیدگی دیکھی ۔۔۔" انہوں نے اپنی بات مکمل کرکے شیرذمان کی طرف دیکھا جو کسی گہری سوچ میں نظر آرہے تھے۔۔۔ "لیکن مجھے لگتا ہے کہ امرام شیر نہیں مانے گا ۔مجھے تو پہلے بھی کبھی کوئی اعتراض نہیں تھا اس رشتے سے ۔۔۔میرا خیال ہے کوئی بھی سٹیپ لینے سے پہلے ایک بار امرام سے پوچھ لو ۔۔۔ "یہ تو میں نہیں جانتی کہ امرام شیر اس رشتے کے لیے کیسے مانے گا۔۔۔ لیکن میں ایک بار پھر سے کوشش ضرور کرنا چاہتی ہوں اور اس بار مجھے پوری امید ہے کہ وہ میری بات نہیں ٹالے گا۔۔۔" انہوں نے پر یقین انداز میں کہا ۔۔۔ " جی مام۔۔۔۔۔۔بلایا آپ نے "؟ " جی بیٹا جی آپکو ہی بلایا تھا کہاں غائب ہیں آج کل ۔"؟. ہیر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔ "میں یہیں گھر پہ ہی ہوں اس ویک ۔۔۔ نیکسٹ ویک واپسی ہے ۔کیوں کوئی کام تھا آپکو۔۔۔۔۔" امرام شیر تھوڑا حیران ہوتے ہوئے استفسار کرنے لگا ۔۔۔۔ "ہاں اندر آؤ مجھے اور تمہارے بابا کو کچھ ضروری بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔۔۔" امرام شیر کا ماتھا ٹھنکا ۔انکے بات کرنے کے انداز پہ ۔۔ "آپ بات کریں گے یا میں بات کروں ؟ ہیر نے شیر زمان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "کیا ہوا بابا ۔۔۔۔"؟ شیرذمان کو تذبذب کا شکار ہوتے دیکھ کر امرام شیر نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔۔ "کچھ خاص بات ہی ہے ۔۔۔۔"۔ شیر زمان نے اسے کلو دیا ۔۔۔ "امرام ہم نے تمہارے لیے ایک فیصلہ لینے کا سوچا ہے ۔۔۔ امرام شیر انکے انداز و اطوار پہ ٹھٹھکا ۔۔ "وہ میں نے تمہارا نکاح ذخرف سے کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔۔۔" انہوں نے بغیر کسی تہمید کے سیدھا بول دیا۔۔۔ "واٹ مام یہ کیا کہہ رہی ہے آپ۔۔۔۔" امرام شیر ماتھے پہ بل ڈال کر پریشانی سے بولا۔۔۔۔۔ یہ ٹھیک تھا کہ زخرف اسے اپنی بچکانہ حرکتوں کی وجہ سے کچھ خاص پسند نہیں تھی ۔۔۔۔مگر جب سے اس نے اپنی انا کو بالائے طاق رکھ اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا ۔اپنی جان کی پرواہ کیے بنا اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی تھی ،،،اس وقت امرام شیر کے دل میں بھی ایک بیٹ مس ہوئی ۔۔۔۔مگر وہ اسے نظر انداز کر رہا تھا ۔۔۔۔ جس (چاندنی ) لڑکی کے لیے اس نے کچھ عرصہ سوچا تھا اسی نے دغا دیا ۔۔۔۔ وہ اب زخرف کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا تھا ۔۔۔۔وہ اس دن وہاں سے خاموش نکل آیا تھا ۔۔۔زخرف کو بنا جواب دئیے ۔۔۔ یہ اس کی عادت نجانے کس پہ گئی تھی کہ وہ اپنی فیلنگز کا کبھی بھی کھل کر اظہار نہیں کرتا ۔۔۔۔ ابھی وہ خود بھی اندازہ نہیں لگا پارہا تھا اپنے دل کی حالت کا ۔۔۔۔ "اسلام وعلیکم مام ڈیڈ ۔۔۔ "کیا ہوا مام ڈیڈ آج لالہ کہ پیشی کیوں لگی ہے آپکی عدالت میں ۔۔۔" شیردل جو انکے کمرے میں داخل ہوا تو انہیں سلام کیے ان سب کے سنجیدہ چہرے دیکھ کر بولا۔۔۔۔ "میں اسے شرم دلا رہی ہوں تم سے چھوٹے کی شادی ہوگئی ہے تم بھی کچھ عقل سے کام لو ۔۔اور زخرف کے بارے میں اپنی رائے دو ۔۔" "کیا ذخرف ؟" شیردل جو شیرذمان کے قریب بیٹھ کر اب ان کے پاؤں دبا رہا تھا ۔۔۔چونک کر بولا۔۔۔ "ارے مام آپ سے پہلے میں بھی لالہ کو یہ مشورہ دے چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔" "شیردل تم تو چپ ہی رہو اس معاملے میں " امرام شیر اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے تنبیہی انداز میں دانت کچکچا کر بولا۔۔۔۔ "امرام تم اسے کچھ مت کہو۔ مجھے صاف صاف جواب دو ۔۔۔۔" انہوں نے پریشانی سے استسفار کیا۔ "مام آپ کو اچھی طرح پتہ ہے ۔۔۔میں کیسے۔۔۔اس بیوقوف لڑکی سے " اس سے پہلے کے امرام شیر اپنی بات مکمل کرتا ۔۔۔ہیر بول اٹھی ۔۔۔۔ "اپنی ماں کی خواہش کو پورا کرنا تمہارے بس میں ہے مگر تم کرو گے نہیں ۔۔۔۔یہی بات ہے نا ؟؟؟ وہ دکھ بھرے انداز میں نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔ ۔۔۔ "مام آپ اب مجھے جذباتی بلیک میل مت کریں ' وہ بے بسی سے بولا ۔۔۔اب اپنی مام کو روتے ہوئے بھی تو نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔ "ٹھیک ہے ۔مجھے منظور ہے "وہ ڈھیلے سے انداز میں بولا ۔ "لالہ بارات گھوڑی پہ جائے گی یا گاڑی میں ۔۔۔۔؟؟؟آپ کہیں تو بگھی کروا لوں ؟؟؟۔۔۔" شیردل پرجوش آواز میں شرارت سے بولا۔۔۔ "لالہ بولیں بھی ۔۔۔۔کہیں شادی کی خوشی میں زبان تو گنگ نہیں ہوگئی ۔۔۔۔" "شیردل !!!" امرام شیر نے اپنے چھوٹے بھائی کو تند نگاہوں سے دیکھتے ہوئے گُھرکا۔۔۔۔ "چلیں اب جب امرام نے رضامندی ظاہر کردی ہے تو میں بالکل بھی دیری نہیں کروں گی اسی ہفتے نکاح کرلیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔" "لٹل وائفی آپ خودی سارے منصوبے بنا رہی ہیں پہلے لڑکی کے والدین سے تو پوچھ لیں " شیرذمان نے اصل مدعے کی طرف اسکی توجہ دلائی۔۔۔۔ "ابتسام بھائی اور منت بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔ اور ماشاءاللہ سے میرا بیٹا لاکھوں میں کیا بلکہ کروڑوں میں ایک ہے ، چراغ لے کر بھی ڈھونڈھیں گے نا تو میرے بیٹے جیسا داماد نہیں ملنے والا ۔۔۔۔ وہ خاموش کھڑے اپنی جان سے پیارے بیٹے کو دیکھتے ہوئے محبت بھرے انداز میں بولی ۔۔۔ "دنیا کی سب ماؤں کو انکے بیٹے یونہی قابل لگتے ہیں " شیرذمان نے اسے چھیڑا۔۔۔ "آپ پلیز چلیں نا میرے ساتھ ہم ابھی چل کر ان سے بات کرتے ہیں ۔۔۔وہ شیرذمان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بستر سے اٹھنے کے لیے بولی ۔۔۔ "لٹل وائفی صبح تو ہو لینے دو ۔۔۔۔ "آپ مجھے تنگ مت کریں اور ابھی چلیں میرے ساتھ ۔۔۔وہ بستر سے اٹھ کر چپل پاؤں میں اڑستی ہوئی بولی ۔۔۔۔ "اچھا رکو ۔۔۔ ہیر اور شیر زمان دونوں باہر نکل گئے تو ۔۔۔۔ "تیرے گھر آیا ۔۔۔ "میں آیا تجھ کو لینے ۔۔۔ دل کے بدلے میں دل کا نذرانہ دینے ۔۔۔۔ میری ہر دھڑکن کیا بولے ہے سن سن سن ۔۔۔ شیردل اس کے شانے سے اپنا شانہ مارتے ہوئے شرارت آمیز نظروں سے اسے تنگ کرتے ہوئے گنگنایا ۔۔۔۔ "اپنی بیوی کے پاس سلامت واپس جانا ہے آج رات ؟' امرام شیر نے شیردل کو سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔ "نہیں ۔۔۔بھائی دراصل مجھے کسی ضروری کام کے سلسلے میں کہیں جانا ہے کچھ دنوں کے لیے ۔۔۔۔ شیردل اپنے ازلی سنجیدہ انداز میں واپس لوٹ آیا ۔۔۔۔ "کیا بات ہے ؟ اس نے سوال کیا شیردل کے سپاٹ انداز کو دیکھ کر ۔۔۔ "کچھ خاص بات نہیں آپ پریشان مت ہوں ۔۔۔ایک مسلہ ہے مگر میں اسے خودی حل کرلوں گا " "شیر دل اگر کوئی ٹینشن والی بات ہے تو مجھے بتاؤ ہم ملکر اس کا سولوشن ڈھونڈھ لیں گے ۔۔۔امرام شیر اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔۔۔ "نہیں لالہ ۔۔۔ایسی کوئی خاص بات نہیں ۔۔۔۔اگر ہوئی تو ضرور بتاؤں گا ۔۔۔ شیردل نے یہ بات اس سے کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔۔ "آپ اپنے نکاح کی تیاری کریں ۔۔۔۔ "مام تو چاہے کل ہی یہ نکاح کروادیں جتنی وہ ایکسائیٹڈ ہیں ۔۔۔۔امرام نے کہا ۔ "ہممم ہو بھی سکتا ہے ،میں دو تین دن کے لیے زرا آؤٹ آف کنٹری جا رہا ہوں " "اچھا ۔۔۔کب تک نکلنے کا ارادہ ہے ۔۔۔ "لالہ پرسوں صبح نکلوں گا " "اچھا ٹھیک ہے ،آو باہر چلتے ہیں اور کبھی بھی کوئی مسلہ ہوتو بلا جھجھک مجھ سے شئیر کر لینا " جی لالہ آپ سے نہیں کہوں گا تو اور کس سے کہوں گا " 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 آج صبح سے ہی اسکی طبیت کچھ گری گری سی تھی ،،،جی متلا رہا تھا ۔۔۔۔ صبح سے کتنی بار وہ واش بیسن پہ جھکی ہوئی وومٹنگ کر چکی تھی ۔۔۔۔ پھر ہانپتی ہوئی واپس بستر پہ آکر گر جاتی ۔۔۔۔ دعا اور شاہ من اسے یوں صبح اچانک اپنے روم میں دیکھ کر بہت حیرت زدہ ہوئے کہ وہ اتنی جلدی واپس کیسے آگئی اور کیوں ۔۔۔۔ ماھی نے انہیں پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا اس لیے اس نے کہا کہ لکی اسے صبح ہوتے ہی خود واپس چھوڑ کر گیا تھا ۔۔۔۔شاہ من اور دعا مطمئن تو نہیں تھے ۔۔۔۔مگر خاموش رہے ۔۔۔اور اس بارے میں سوچ بچار کرنے لگے ۔۔۔۔ دعا صبح کی دو بار اسے ناشتے کے لیے پھر دوپہر کے کھانے کے لیے بلانے آچکی تھی ۔۔۔۔مگر ماھی بستر پہ لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔ "کیا ہوا ماھی ؟؟؟ تم صبح سے باہر نہیں آ رہی ۔۔۔۔۔طبیعیت ٹھیک ہے نا ۔۔۔۔ دعا نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔ "جی مما سب ٹھیک ہے ۔۔۔بس سانس لینے میں تھوڑی دشواری ہو رہی ہے ۔۔۔۔ "ماھی بیٹا کمرے سے باہر نکلو ۔۔۔ٹھنڈی ہوا میں سانس لو بہتری محسوس کرو گی ۔۔۔ دعا نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔ "اچھا ایسا کرو چھت پہ چلی جاؤ تھوڑی دیر کے لیے ۔۔۔۔ "جی مما "وہ کہتی ہوئی کسلمندی سے وہاں سے اٹھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔۔۔۔ چھت پہ کھلی فضا میں اسے کافی بہتر محسوس ہوا ۔۔۔ ساتھ والوں کے چھت پہ ڈھیروں کبوتر تھے ۔۔۔۔ انہوں نے کبوتروں کو اڑان بھرنے کے لیے کھلا چھوڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ لوگ روزانہ یونہی کرتے تھے ۔۔۔۔کبوتر کچھ دیر کے لیے آسمان میں اڑتے پھر واپس آجاتے ۔۔۔۔ انہیں کبوتروں میں سے ایک کبوتر زخمی ہوکر انکی چھت پہ آبیٹھا ۔۔۔۔ ماھی جو بنیرے پہ کھڑی آس پاس کا جائزہ لے رہی تھی اس کی نظر جیسے ہی اس کبوتر کے زخمی ہوئے پاؤں پہ پڑی ۔۔۔ جس میں سے خون کو بوندیں ٹپک رہی تھیں ۔۔۔وہ کبوتر زخمی ہونے کی وجہ سے شاید ان کی چھت پہ آگیا تھا ۔۔۔۔ ماھی کی نظریں یکدم بدلیں ۔۔۔۔ اس نے اس زخمی کبوتر کو اپنی مٹھی میں دبوچ لیا۔۔۔ پھر اسکے زخمی ہوئے پاؤں کے ساتھ اپنا منہ لگائے اس کے خون کو پینے لگی ۔۔۔۔ وہ کبوتر ماھی کی مضبوط ترین گرفت میں پھڑپھڑانے لگا تھا اور شور مچانے لگا تھا ۔۔۔مگر ماھی اپنے کام میں مشغول رہی ۔۔۔۔ "یہ کیا کر رہی ہو ماھی ؟؟؟.. پیچھے سے آتے ہوئے حذیفہ نے جب ماھی کو عجیب و غریب سی حرکت کرتے دیکھا تو اسے زور سے جھٹکا دے کر ہوش میں لانا چاہا ۔۔۔ حذیفہ نے اسکے ہاتھ میں سے زخمی کبوتر کو پکڑا ۔۔۔۔ مگر وہ کبوتر اپنی آخری سانس لیتے ہوئے وہیں دم توڑ گیا ۔۔۔۔ حذیفہ نے حیرت انگیز نظروں سے ماھی کا خون آلود چہرہ دیکھا تو بھونچکا رہ گیا۔۔۔۔ "کیا کر رہی تھی تم ؟ وہ درشت آواز میں بولا۔۔۔۔ "میں ۔۔۔۔میں نا ۔۔۔وہ ۔۔۔۔ وہ اپنا منہ اپنے دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے آہستگی سے بولی ۔۔۔ مگر ماھی ہوش میں ہوتی تو کچھ ٹھیک سے بولتی نا ۔۔۔ وہ لہرا کر چھت کے فرش پر گری ۔۔۔۔ حذیفہ نے دعا اور شاہ من کو آوازیں دینا شروع کیں تو وہ پلک جھپکتے ہوئے فورا اوپر آئے ۔۔۔۔ "کیا ہوا ماھی کو "؟ شاہ من نے حذیفہ سے غصے میں پوچھا ۔۔۔۔ "میں نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔وہ ماھی خود ہی بیہوش ہوگئی ۔۔۔۔ جو اس نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا تھا ابھی تک وہ خود بھی یقین نہیں کر پا رہا تھا تو انہیں کیا بتاتا ۔۔۔۔ "آج وہ ماھی سے ملکر اسے دل سے اس کے مستقبل کے لیے دعا دینا چاہتا تھا ۔۔ شاہ من اور دعا دونوں ماھی کو سہارا دئیے اسے نیچے لے گئے ۔۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 میری پری وہاں اندر زندگی کی بازی ہار رہی ہے اور میں کتنا بے بس ہوں اسکے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہا ۔۔۔۔ پری نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس نے اذیت و تکالیف دیکھیں ۔۔۔۔ اتنی مصیبتیں اسی کی زندگی میں کیوں لکھی گئیں تھیں ۔۔۔ آریان شیر اسے اس حالت میں۔ کہاں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔ وہ تو سے اپنی زندگی کا اثاثہ لگتی تھی ۔۔۔ اسے کچھ ہوجائے گا یہی سوچ اسکی جان نکال رہی تھی ۔۔۔ ڈاکٹر آئی سی یو سے نکل کر باہر کی جانب کو آیا ۔آریان شیر فورا ڈاکٹر کی طرف لپکا ۔۔۔ "آپ کیا لگتے ہیں پیشنٹ کے ؟ "ڈاکٹر نے آتے ہی پوچھا "مجھے پیشنٹ کا گارڈین ہی سمجھیں "آپ یہ بتائیں پری ٹھیک تو ہے ۔۔۔اسے کچھ ہوا تو نہیں نا ۔۔۔ڈاکٹر اسے کچھ ہوگا تو نہیں پلیز بتائیں ۔۔۔ اس نے کئی سوال ایک ہی سانس میں کر ڈالے۔ڈاکٹر نے سر جھکا کر ایک طویل سانس اندر کھینچا اور آریان شیر کے کندھے کو تھپک کر اسے حوصلہ دیا۔۔۔۔۔آریان شیر کو اب اپنی زندگی ختم ہوتی محسوس ہوئی۔ اسکے اردگرد ہر شے اسے گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ وہ اسوقت پری کے لیے کوئی بھی انتہائی خبر سننے کا متحمل نہیں تھا۔۔۔۔ "پیشنٹ کا بہت سیریس ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔اور انکا کافی خون بہہ چکا ہے اور تو اور سر پرکافی سیرئیس چوٹیں آئیں ہیں۔ فلحال ہم نے انہیں خون لگا دیا ہے مگر مزید خون کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ آپ جلد ازجلد بندوبست کریں۔ میں آپ جو زیادہ امید نہیں دے سکتا بس اتنا کہوں گا اللّٰہ سے دعا کریں "یہ خبر سن کر آریان شیر پر پہاڑ ٹوٹا تھا۔ شہریار کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔۔ "میری پری کو کچھ ہو گا تو نہیں؟ ‘‘آریان شیر نے پھر ایک امید سے پوچھا " آپ حوصلہ رکھیں ۔۔۔ابھی اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا ۔۔۔ آپ بس جلد از جلد خون کا بندوبست کریں۔"وہ اسکے کندھے کو تھپکتے ہوئے ایک طرف سےنکل کر آگے چلے گئے۔اس کے چہرے پر آئے سنجیدہ تاثرات در آئے ۔۔۔۔ دو دن بیت چکے تھے مگر ڈاکٹرز کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں مل پا رہا تھا۔ آریان شیر دو دن سے مسلسل کاریڈور کے میں موجود کبھی اندر کبھی باہر بے چینی سے گھوم رہا تھا ۔ سر پر گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے پری کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔ جبکہ دو خون کی بوتلیں چڑھا چکے تھے ۔۔۔اور ابھی ایک لگی ہوئی تھی ۔۔۔ آریان شیر سے اسکی بند آنکھیں دیکھی نہیں جاتیں اسے پل پل ماضی یاد آتا ہے۔وہ تمام باتیں یاد آتی اور گزارے لمحات یاد آتے جو انہوں نے ساتھ گزارے تھے " اس نے پہلی بار تب اتنے آنسو بہائے تھے جب وہ اپنے والدین سے جدا ہوا تھا ،اور ایک ان دو ِدنوں میں ۔۔۔۔ وہ سجدے میں گر گیا ۔۔۔۔ اسکا ماسٹر رچرڈ جس نے اس کے دماغ میں ڈالا تھا کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے اسکی پری کی جان لینے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ رچرڈ نے آریان کو مسلمانوں کے خلاف ورغلا کر اس سے مساجد میں خود کش دھماکے کروائے ۔۔۔۔ آریان شیر اس وقت پری کی موت پہ ٹوٹ کر رہ گیا تھا ۔۔۔اس نے بند آنکھوں سے اپنے ماسٹر کی باتوں پہ عمل کیا ۔۔۔۔ وہ پری کی موت پہ ہی اسلام کا دشمن بنا ۔۔۔ اور آج وقت پڑنے پہ وہی آریان شیر اپنے یکتا خدا کے حضور سر بسجود ہوا ۔۔۔ بے شک وہ ہر چیز پہ قادر ہے ۔ وہ جس کا چاہے دل بدل دے ۔۔۔۔جسے چاہے ہدایت عطا فرمائے۔۔۔۔ جس طرح اللہ تعالٰی کسی کو زبردستی ہدایت نہیں دیتا بالکل اسی طرح گمراہ بھی نہیں کرتابلکہ سب سے پہلے غافلوں اور گناہگاروں کو بذریعہءپیغمبر انکے سوءِ اعمال پر متنبہ کرتا ہےایسا نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کوایک یا دو بار نصیحت کرنے اور اسکو قبول نہ کرنے کے نتیجے میں انکے دلوں پر اسی وقت مہر ثبت کر دیتا ہےبلکہ ایک خاص مدت تک ان کو اپنے آپ کی اصلاح کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کرتا ہے اور اگر ایسے لوگ کسی شک و شبہ کا شکارہوتےہیں اور پیغمبر سے اسکی نبوت ورسالت کی کسی دلیل یا معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالٰی اپنی حکمتِ کاملہ کے تحت انکے اس مطابے کو بھی پورا کردیتا ہے تاکہ ان پر حجت پوری طرح سے قائم ہو جائےاور وہ مزید کسی شک میں مبتلاء نہ ہوں اگر پیغمبر کی طرف سے اسکی نبوت ورسالت کی دلیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد بھی وہ حق کو قبول کرنے اور اپنی سابقہ غلط روش کو بدلنے کی بجائے اسی پر جمےرہیں یا بے جا شک کریں تو اللہ تعالٰی ایسے شکی مزاج لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے یہ خود تو اللہ تعالٰی کے راستے سے ہٹے ہوتے ہی ہیں دوسروں کوبھی راہ ِ ہدایت کو قبول کرنے سے روکتے ہیں پھر جب انکی گمراہی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی آیات کو نیچا دکھانےیا ان سے ناحق جھگڑنے لگیں تو گویا یہ بات پوری طرح کھل جاتی ہےکہ اب ان میں حق کو قبول کرنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی اورانکا ضمیر بالکل مردہ ہو چکا ہے تب اللہ تعالٰی کا ان کے حق میں آخری فیصلہ ان کے دلوں پر مہر کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات میں بھی اللہ تعالٰی نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے :- وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ ﴿٣٤﴾ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ ﴿٣٥﴾ اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے، پھر بھی تم ان کی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہو گئی تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں اسی طرح اللہ گمراه کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک و شبہ کرنے والا ہو جو بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، اللہ کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ تو بہت بڑی ناراضگی کی چیز ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر ایک مغرور سرکش کے دل پر مہر کردیتا ہے۔ قرآن ، سورت غافر ، آیت نمبر 35-34 آج کئی سالوں بعد اس نے وہ ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے تھے۔ آج کتنے برسوں بعد اس کا دل ایک بار پھر کرب سے گزر رہا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔وہ اپنے دین سے غافل ہوچکا تھا مگر خدا نے اسے موقع دیا مغفرت کا ۔۔۔۔ اور اس نے صدق دل سے گڑگڑا کر اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کی ۔اس کے بہتے ہوئے اشکوں میں فریاد تھی کسی کی زندگی کے لیے بھیک تھی ایک تڑپ تھی ایک آس تھی "یا اللّه یہ امتحان نہ لینا مجھ سے۔میں تو ایک ادنی سا گنہگار انسان ہوں ،آپ تو بن مانگے عطا کرتے ہیں ،مجھے بھی اسکی زندگی عطا کردیں ،،، اب اسکو مجھ سے جدا نہ کرنا۔ اب مجھ میں اتنی ہمت باقی نہیں رہی میرے مالک کے اس کے نازک وجود کو یوں زخموں سے چور دیکھوں۔۔۔۔اللّه رحم فرما دے اپنا ۔۔" آریان شیر نے بھیگی پلکوں کو صاف کرنا چاہا۔ ابھی اس نے دعا ختم کر کے اٹھنا چاہا ہی تھا کہ سامنے سے آتی ہوئی نرس نے اسے خبر دی۔ "سر ! آپکے پیشنٹ کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔ انہیں ہوش بھی آ گیا ہے۔" "اے میرے پروردگار تو بہت رحیم و کریم ہے،تو اپنے گنہگاروں کی بھی اتنی جلدی سنتا ہے ،تو اپنے پرہیزگاروں کی کتنی سنتا ہوگا ۔۔۔ اے میرے مولا مجھے بھی ہدایت دے اور اپنے خاص بندوں میں سے کردے ۔۔۔۔ اس نے سجدے میں جھک فوراََ سے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر ڈاکٹر سے ملکر اسکی حالت کے بارے میں جاننے کے لیے ان کے کیبن کی طرف بڑھا۔۔۔۔ "ڈاکٹر پری کے بارے میں بتائیں مجھے " "آپکے پیشنٹ کے ریکوری پراسیس میں ایک یہ خوش آئند بات ہوئی ہے کہ ان کی جو میموری لاس ہو چکی تھی ۔۔۔ وہ اب بالکل ٹھیک ہے ،انہیں نئی باتوں کے ساتھ پچھلی سب باتیں بھی یاد آجائیں گی ۔۔۔ اب پیشنٹ ہوش میں آچکی ہیں آپ ان سے مل لیں " ڈاکٹر نے آریان شیر کو تسلی بخش جواب دیا۔۔۔۔ تو وہ پری سے ملنے اسے دیکھنے کے لیے تیز رفتار قدموں سے چلنے لگا ۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙 ”خبردار جو تم نے ایک قدم بھی آگے بـڑھایا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔“ ہانیہ کسی ناگن کی طرح پھنکاری تھی۔ وہ اس وقت اپنے ریسیپشن کے کپڑوں میں ملبوس تھی۔سکن اور سی گرین امتزاج کی دیدہ زیب میکسی میں وہ ہم رنگ ہی دوپٹہ جو کندھے پر جھول رہا تھا ۔ بالوں کا ہئیر سٹائل بنایا گیا تھا جو اب وقت گزرنے کے ساتھ چڑیا کا گھونسلا بنا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں میں چوڑیاں تھی۔ جبکہ کانوں میں چھوٹے چھوٹے سے ڈائمنڈ کے آویزے نمایاں تھے۔ اسکے چہرے پر پھیلا خوف اور غصہ چہرے کو سرخ بنا رہا تھا۔ اعیان کا شدت سے دل چاہا تھا کہ وہ اسے خود میں سمو لے اس کا چہرہ رنجیدہ اور حزن و ملال کی کیفیت میں بھی غضب ڈھا رہا تھا ۔۔۔۔ اعیان اس پہ اپنی ملکیت کے احساس سے بہکنے لگا ۔۔۔ ”میری ایک بات یاد رکھنا اعیان تم چاہ کر بھی مجھے حاصل نہیں کر سکتے، اور اگر تم نے ایسی ویسی کوئی کوشش بھی کی تو یاد رکھنا میں خود کو ختم کرلوں گی ۔۔۔مجھے گھن آتی ہے تم سے تمہارے وجود سے ۔۔“ وہ شدت جذبات سے کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔ اعیان اسکی باتیں سن کر اشتعال میں آیا ۔۔۔۔ اس کے دماغ میں ہانیہ کے بولے گئے الفاظ ہتھوڑے کی مانند بجنے لگے ۔۔۔۔ مجھے گھن آتی ہے تم سے تمہارے وجود سے ۔۔“ باہر تیز طوفان آنے کا اندیشہ تھا ۔۔۔۔اور اندر اعیان کے دل و دماغ میں تیز طوفان آچکا تھا ۔۔۔۔ ”تم میری ہو ہانیہ ۔۔میں تمہیں خود سے کبھی بھی دور نہیں جانے دوں گا ۔۔۔۔ میری محبت ہو تم ۔۔۔۔میرا طریقہ غلط تھا ۔۔۔مگر دیکھو نا کوئی بھی انسان اپنی محبت میں شراکت داری برداشت نہیں کرسکتا ۔۔۔تو میں کیسے کر لیتا ۔۔۔۔مجھے تم چاہیے تھی اسی لیے تو سارے زمانے سے لڑ کر تمہیں اپنا بنایا ۔۔۔۔ساری دنیا سے چھپا کر تمہیں یہاں کے آیا ۔۔۔۔اس فارم ہاؤس پہ ۔۔۔تم مجھے موقع دو میں سب ٹھیک کردوں گا ۔۔۔۔“ اس نے اپنی جسم کی بچی کھچی طاقت کو جمع کیا اور الفاظ اسکے خشک ہونٹوں سے الفاظ پھڑپھڑا کر نکلنے لگے ۔۔۔ "مجھے معاف !!! اس سے پہلے کہ اعیان کچھ کہتا ہانیہ نے اسے وہیں روک دیا ۔۔۔ "دور رہو مجھ سے اعیان ۔۔۔تم جب جب مجھے چھوتے ہوئے میرا دل کرتا ہے اپنے اس وجود کو آگ لگا دوں ۔۔۔۔ اسی وجود کے لیے تم نے میری عزت کی دھجیاں بکھیر دیں ،مجھے میرے پیار کو میری ہی نظروں میں بے مول کردیا ۔۔۔۔مجھے احتجاج کرنے کا موقع بھی نہیں دیا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں سب گھر والوں پہ تمہاری یہ گھناؤنی حرکت ظاہر کرتی تم مجھے بیہوش کیے چپکے سے یہاں لے آئے ۔۔۔۔ "تمہیں کیا لگتا تمہاری قید میں رہ کر میں تمہارے سامنے گڑگڑاوں گی ۔۔۔۔تو یہ بھول ہے تمہاری ۔۔۔۔ "ایسی زندگی جینے سے بہتر تو مار دو مجھے اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔۔ کیونکہ اگر میں زندہ رہی تو تمہارے ساتھ تو قطعا نہیں رہوں گی ۔۔۔۔ "ہانیہ ۔۔۔۔ہانیہ ۔۔۔میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔ میں شوہر ہوں تمہارا میں نے کچھ انوکھا نہیں کیا تمہارے ساتھ ۔۔۔۔سب ایسا ہی کرتے ہیں ۔۔۔۔ہوگئی غلطی اب کیا جان دے دوں ؟؟؟؟ وہ اس کے جبڑے کو اپنی مٹھی میں دبوچ کر جھٹکا دیتے ہوئے دھاڑا ۔۔۔۔ "اللّٰہ کرے مر جاؤ تم اعیان ۔۔۔۔" اس نے روتے بلکتے ہوئے اسے ٹوٹے دل سے بدعا دی ۔۔۔۔۔ اعیان اسکی تھوڑی کو جھٹکے سے چھوڑتے ہوئے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔۔ اور باہر نکلتے ہوئے دروازہ دھاڑ سے بند کرگیا ۔۔۔۔ آیت سناؤ صبر کی کوئی قرآن سے ۔ ورنہ الجھ پڑوں گا میں سارے جہاں سے ۔۔۔ وہ شام آج تک میرے سینے پہ نقش ہے ، اک شخص جب پھر گیا تھا اپنی زبان سے ۔ وہ اسے ولیمے کی رات وہاں سے بیہوش کیے اپنے فارم ہاؤس پہ لے آیا ۔۔۔اسے پتہ تھا کہ ہانیہ ضرور سب گھر والوں سے اسکی بات کرے گی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کا پول کھولتی وہ اسے سمجھا بجھا کر راضی کرنے کے لیے اپنے فارم ہاؤس لے آیا تھا ۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 "آنًا فانًا نکاح کی ڈیٹ فکس ہوگئی کیونکہ اگلے ہفتے امرام شیر نے واپس ڈیوٹی جوائن کرنی تھی ،اس کی چھٹیاں اسی ہفتے ختم ہونے والی تھیں ۔۔۔۔ زخرف تو اس وقت ہواؤں میں اڑ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کے تو خوشی کے مارے پاؤں ہی زمین پر نہیں پڑ رہے تھے ۔۔۔۔ بالآخر اسکی دیرینہ خواہش پوری ہونے جا رہی تھی ۔۔۔۔ اس نے اپنی پسند کی ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کرڈالی ۔۔۔۔ اور آج وہ خوش قسمت دن اسکی زندگی میں آہی گیا تھا جب وہ امرام شیر کی زندگی میں داخل ہونے جا رہی تھی ۔۔۔ اس وقت وہ ڈیپ ریڈ دیدہ زیب بھاری کامدار لہنگے میں ملبوس ڈیپ ریڈ میک اپ کیے ۔۔۔۔کندن کی جیولری پہنے ۔۔۔۔سر کے ایک طرف جھومر لگائے ۔۔۔اپنی ستواں ناک میں بڑی سی نتھ پہنے ۔۔۔ بالوں میں چھوٹی چھوٹی گلاب کی کلیاں لگائے ہاتھوں میں بھر بھر کر سرخ چوڑیاں پہنے اور گجرے بھی پہن رکھے تھے ۔۔۔۔اسکے دونوں ہاتھ ۔۔۔ہورے بازوؤں تک مہندی کے ڈیزائن سے بھرے ہوئے تھے ۔۔۔پاوں پہ بھی مہندی کے دلفریب ڈیزائین بنائے گئے تھے ۔۔۔۔ اس نے اپنی ساری خواہشات پوری کیں ۔۔۔کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اپنی تیاری میں ۔۔۔۔۔شہر کے سب سے اعلی بیوٹی سیلون سے تیار ہو کر آئی تھی ۔۔۔۔ میک اپ آرٹسٹ نے اس کے دلکش نقوش کو اپنے آرٹ سے مزید خوبصورت بنا دیا تھا ۔۔۔ اس کا دو آتشہ روپ دیکھنے والے کی نظروں کو خیرہ کر رہا تھا۔۔۔۔ انہوں نے گھر میں کی ایک چھوٹی سی تقریب رکھ کر نکاح کا پاکیزہ فریضہ انجام دیا۔۔۔۔۔سب اس اچانک شادی اور رخصتی پہ ابھی تک شاک کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔۔۔۔مگر خوش بھی بہت تھے ۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسے ہیر امرام شیر کے کمرے میں بیٹھا کر گئی تھی ۔۔۔۔ زخرف نے گھونگھٹ اٹھا کر اس کمرے کا جائزہ لیا ۔۔۔۔ کتنی خواہش تھی اس کمرے میں اسکی دلہن بن کر بیٹھنے کی اور آج اسکی یہ خواہش پوری ہوگئی تھی تو وہ خود پہ اپنی قسمت پہ نازاں تھی۔۔۔۔ وائٹ بے داغ بیڈ شیٹ ،وائٹ پردے ۔۔۔۔وائٹ سنگ مرمر کا چکمتا ہوا فرش ،،، ڈریسر اور فرنیچر بھی وائٹ تھا ۔۔۔۔ یہاں تک کہ دیوار پہ لگا کلاک بھی ۔۔۔۔ زخرف نے ناک سکوڑی۔۔۔۔ "ہائے یہ بندہ خود جتنا خشک مزاج اور روکھا پھیکا ہے ،اس کا کمرہ بھی اسی کے جیسا بے رنگ ۔۔۔۔ "میں نے بھی اس کے بے رنگ کمرے اور زندگی میں رنگ نا بھر دئیے تو میرا نام بھی زخرف نہیں " وہ اٹل انداز میں ارادہ باندھ کر خود سے مخاطب ہوئی ۔۔۔۔ باہر سے کمرے کے دروازے کے ہینڈل سے اس کے کھلنے کی آواز سنائی دی تو اس نے جھٹ سے گھونگھٹ اوڑھ لیا۔۔۔۔ اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ امرام شیر دروازہ کھول کر اندر۔ داخل ہوا اور دروازے کو بند کردیا ۔۔۔۔ وہ ڈریسر کے پاس کھڑا اپنا موبائل اور والٹ نکال کر اس پہ رکھنے لگا ۔۔۔۔پھر کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی اتار کر رکھی ۔۔۔۔اب وہ اپنا کوٹ اتار کر کبرڈ کے ساتھ لٹکے ہوئے ہینگر میں ہینگ کرنے لگا ۔۔۔ وہ بہت اصولوں ضوابط کا پابند تھا ۔۔۔۔کمرے میں زرا سی بھی بے ترتیبی اسے پسند نہیں تھی ۔۔۔اس کی سلجھی ہوئی زندگی کتنی الجھنے والی تھی اس بات کا اندازہ اسے آگے چل کر ہونے والا تھا ۔۔۔۔ زخرف سے اتنی دیر کی خاموشی کچھ ہضم نہیں ہوئی ۔۔۔۔ بالآخر اس نے روایتی دلہنوں والا دلہناپے کا چولا اتار پھینکا۔۔۔۔اپنا گھونگھٹ اٹھا کر اسے تیکھی نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ اور خودی بات کی شروعات کی ۔۔۔۔ "آپ میں سلام کا رواج نہیں " امرام شیر جو اپنے آرام دہ سوٹ نکال کر واش روم کی طرف بڑھنے لگا تھا اپنی نئی نویلی دلہن کی آواز سن کر وہیں رکا ۔۔۔۔ اور رک کر اپنے بستر کی طرف دیکھا جہاں وہ اپنا ہوشربا سراپا لیے پورے طمطراق سے براجمان تھی ۔۔۔۔ اسکے حسین چہرے کو دیکھ کر امرام شیر کچھ لمحوں کے لیے ساکت رہ گیا ۔۔۔مگر وہ اپنے حواسوں پہ قابو پانا اچھے سے جانتا تھا ۔۔۔۔وہ واپس اپنے خول میں سمٹ گیا ۔۔۔۔ "تم نے کیا خاص ِکیا جو تمہیں سلام پیش کرتا پھروں "؟ وہ کپڑے جارہانہ تیوروں سے صوفے کی اتار پھینکتے ہوئے ۔۔۔اب اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ اور سینے پہ ہاتھ باندھے اسکے جواب کا منتظر تھا ۔۔۔۔ "سلام پیش کریں بلکہ آپ تو میجر ہیں سیلوٹ پیش کریں ۔۔۔۔ "اس ناچیز میں ہی یہ حوصلہ تھا جو آپ جیسے کھڑوس ،بدمزاج ،سڑے ہوئے انسان کے ساتھ محبت کی ۔۔۔۔ کتنے سالوں سے آپکی بے رخی کو جھیلا۔۔۔۔ اور اب آگے بھی مجھے پوری امید ہے کہ آپ بدلنے والے نہیں تو پھر بھی ۔۔۔۔سب جانتے ہوئے آپ سے شادی کی ۔۔۔۔ میرے حوصلے کو داد دینے کے لیے سلامی پیش کرنا تو بنتی ہے نا ۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے ابرو اچکا کر بولی ۔۔۔۔ امرام شیر جارہانہ تیوروں سے اس کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ "بہت چلتی ہے نا زبان تمہاری۔۔۔۔انہیں لگامیں لگانا اچھے سے جانتا ہوں ۔۔۔۔ ابھی ساری سلامیاں ایک ساتھ نا پیش کیں تو میرا نام بھی امرام شیر نہیں ۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙 آج ہی سرپرائز قسط چاہیے تو پیارے پیارے کمینٹس کیجیے اور ون کے لائکس پورے کریں ۔جیسے ہی ون کے لائکس پورے ہوگئے میں نیکسٹ قسط اپلوڈ کردوں گی 😍
❤️ 👍 😂 🌺 🙏 🫀 38

Comments