
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:56 AM
#novel:Chand _Asmano Sy _Lapata.
#episode:24
امرام شیر اور زخرف سپیشل 👩❤️👨
#hina_ Asad.
Don't _copy_paste _without my permission.
"آپ بہت بڑے جھوٹھے ہیں کچھ کر ہی نہیں سکتے صرف باتیں بنانا آتیں ہیں آپکو ۔۔۔
وہ پنجابی میں محاورہ ہے نا "گلاں دی لہر بہر تہ ہتھاں دی ہڑتال .." تیکھے لہجے میں بولتی وہ اس کے اشتعال کو ہوا دینے لگی ۔۔۔۔
"اچھا پنجابی سمجھ نہیں آئی تو اردو میں بھی ایک محاورہ ہے میرے پاس ایسی سوچویشن کے لیے ۔۔۔۔
",جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں "...
وہ اسکے پاس آکر اسے خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، نیلی شفاف پانیوں سی آنکھوں کی چمک آج بالکل منفرد ہی تھی..
"میں جھوٹ نہیں بولتا اور نہ ہی میں وعدہ خلاف ہوں، اس کا احساس میری سنگت میں رہ کر بہت جلد ہو جائے گا.."وہ بستر پہ اسکے قریب بیٹھتے ہوئے ذومعنی انداز میں بولا۔
"جائیں جائیں کچھ نہیں ہونے والا آپ سے ۔۔۔"
زخرف کہتے ہوئے بستر سے پاؤں نیچے کیے اٹھ کر کھڑی ہوئی ایسا کرنے سے اسکی چوڑیوں کھنک اور پائل کی جھنکار سے پورا کمرہ جھنجھجنا اٹھا۔۔۔۔
سارے کمرے میں پھیلی گلاب اور موتیے کی محسور کن مہک نے فسوں خیز سماں باندھ رکھا تھا ۔۔۔
"You silly girl.....!!!!
Are you challenging me ????""
وہ اس کا دوپٹہ اپنے ہاتھ میں لیے لہجے میں زبردستی درشتگی لائے بولا ۔۔۔
تو زخرف نے اٹیٹیوڈ دکھاتے ہوئےایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے اپنے دوپٹے کو کھینچا اور اپنا بھاری ڈریس سنبھالتی آگے بڑھنے لگی ..
"کہاں ؟؟؟؟
"اب کہاں بھاگ رہی ہو آگ لگا کر ۔۔۔۔جو آگ لگائی ہے ،اس آگ میں جھلسے بنا یہاں سے ایک قدم آگے بڑھا کر تو دکھاؤ .."
خلافِ معمول آج اس کا انداز کافی نرم تھا، عموماً تو وہ ایسی باتوں پر غصے سے آگ بگولہ ہو جایا کرتا تھا، لیکن اپنے سامنے کھڑی اس عروسی لباس میں ملبوس سجی سنوری ہوئی بھاری کامدار دوپٹے کو مضبوطی سے تھامے اس معصوم سی ضدی لڑکی کو دیکھ کر اس کا سارا غصہ کافور ہو گیا تھا، وہ اس لڑکی پر غصہ کرنے کی ہمت خود میں مفقود پا رہا تھا، اس کی مسکراتی ہوئی گہری آنکھیں اس کی ناک میں جھولتی سادہ سی نتھلی پر ٹکی ہوئی تھی جو اس کے بولنے یا حرکت کرنے پر اس کے سرخ لپ اسٹک سے رنگے ہونٹوں سے مس ہو جاتی، اس کی نتھلی اور ہونٹوں کا یہ ملن اس کے جذبات کو اتھل پتھل کر رہا تھا، اس کا دل کیا ہاتھ بڑھا کر اس کی حرکت کرتی نتھلی کو چھو کر محسوس کرے ، پہلی بار اس کا دل اسے دیکھ کر باغی ہو رہا تھا، وہ بھی اس لڑکی کو دیکھ کر جسے وہ ہمیشہ نظر انداز کرتا آیا تھا اس کے بچکانہ روئیے کی وجہ سے مگر اب وہ اس پہ اپنا پورا حق رکھتا تھا، ایک لمبی سانس کھینچ کر اپنے باغی دل کو لگام لگانے کی کوشش کی،..
"میں چینج کر کہ آؤں .." اس کی نظروں کی تپش سے خود کو بمشکل آزاد کراتی وہ واش روم کے دروازے کی طرف مڑنے لگی تھی کہ امرام شیر نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پانے کی وجہ سے اس کے اوپر لڑھک گئی، یہ حملہ بالکل اچانک ہوا تھا، اسے امرام شیر سے ایسی کسی حرکت کی امید نہیں تھی..
"یہ ۔۔۔ک۔۔۔کہ۔۔۔۔۔کیا کر رہے ہیں آپ..؟" اسے اتنے قریب دیکھ کر وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی..
"اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں.." یونہی بستر پہ لیٹے ہوئے اس کی کمر پر اپنے بازوؤں کا گھیراؤ مزید تنگ کیا تو مزید اس کے قریب ہوگئی تھی،
پہلی بار وہ امرام شیر کے اتنا قریب تھی کہ اس کے سینے میں تیزی سے دھڑکتے دل کی آواز وہ باآسانی سن رہی تھی۔۔۔
وہ بیوقوف سی لڑکی اسکے عشق مبتلا۔اسکے پیار کی دعوے دار اس کے اتنے قریب تھی کہ وہ اسکی بےترتیب سانسوں کے زیر و بم کو بخوبی ِگن سکتا تھا،
امرام شیر اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کے وجود سے اٹھتی کلون کی مہک اپنی سانسوں میں اترتی ہوئی محسوس کررہی تھی ۔۔۔۔اس کے سانسوں کی تپش اس کے وجود کو جھلسا رہی تھی۔۔
وہ اس کے اتنا قریب تھا کہ اس کے ناک سے جھولتی نتھلی کو اپنے ہونٹ کی ذرا سی حرکت سے چھو سکتا تھا، اس کی قربت کی وجہ سے اس کے چہرے پر آتے جاتے حیا کے رنگ اس سے چھپے نہ رہ سکے تھے،اس نازک سی صنف نازک کی گھنی پلکوں کی لرزش، ہونٹوں کی کپکپاہٹ، رخساروں پر پھوٹتی حیا کی لالی، نیز کچھ ہی منٹوں کی قربت میں وہ اتنا کچھ دیکھ چکا تھا کہ تا زندگی وہ اس کے اتنے ہی قریب رہنے کی تمنا کر بیٹھا تھا، یہ وہ پہلی لڑکی تھی جو، اس کے اتنا قریب آئی تھی،
اتنا قریب کہ وہ اپنے ہوش و حواس گنوانے لگا تھا ۔ وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا کہ کیسے اتنی جلدی اس کے احساسات ،محسوسات، بدل گئے ۔۔۔۔ جس کے سامنے وہ ہر وقت سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے رکھتا تھا ، آج اس کے چہرے پر پھیلے حیا کے رنگ مزید اس کا اسیر بنا رہے تو کیا یہ نکاح کے پاکیزہ بولوں کا اثر تھا کہ اسکا دل اس بیوقوف سی لڑکی کا اسیر ہونے لگا تھا ۔۔۔۔ اسکے قرب کا خواہاں ہونے لگا تھا
اس کے جھکے سر کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے بے اختیار ہو کر امرام شیر نے اپنا پہلا حق اس پر استعمال کیا..
اپنے ہونٹوں پر اس کے گرم ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے ذخرف نے شرم سے آنکھیں میچ لیں، امرام شیر کے چوڑے سینے پر جمے اس کے نرم مخملیں ہاتھوں نے بےاختیار ہو کر اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں قید کر لیا، اس کا تیزی سے دھڑکتا دل جیسے باہر نکلنے کو بےتاب تھا، وہ کسی طور بھی ان لمحوں سے آزاد نہیں ہونا چاہتی تھی، بس تاعمر اس کی دلنشین قید میں رہنا چاہتی تھی..مگر سانسیں زیادہ دیر متحمل نہ رہیں ،،،وہ مدھم پڑنے لگیں ۔۔۔۔
اتنی شدت اتنا جنون ۔۔۔اسے امرام شیر کی اس جنونیت آمیز انداز کا قطعا اندازہ نہیں تھا ۔۔۔۔اس کا تنفس بگڑنے لگا تو اس نے امرام شیر کے سینے پہ اپنے حنائی ہاتھوں سے دھاوا بول دیا ۔۔۔اور پوری قوت سے مکے برسانے لگی تاکہ وہ اسے اپنی جنونیت آمیز قید سے رہائی دے ۔۔۔۔
جتنا وہ احتجاج کر رہی تھی اسکی گرفت میں مزید سختی در آئی ۔۔۔۔
"چھوڑو ۔۔۔۔!!!
"اب کیا بچی کی جان لو گے "
وہ اپنے جلتے ہوئے لبوں پر انگلی رکھ کر بولی ۔۔۔کبھی اپنی انگلی پہ لگی خون کی بوند کو دیکھتی تو کبھی امرام شیر کے چہرے کو ۔۔۔۔
"یہ بچی اب اتنی بھی بچی نہیں ۔۔۔۔
وہ اسکے چہرے پہ جھولتی ہوئی لٹ کو اپنی انگلی پہ گھمائے ہوئے بولا ۔۔۔۔
"مجھ جیسے انسان کو بہکایا ہے تم نے ،اپنے اس ہوشربا سراپے سے ورغلانے کی کوشش کی ۔۔۔جان بوجھ کر چیلنج کیا نا تاکہ تمہارے حسن کو خراج و تحسین پیش کرسکوں ۔۔۔
اور خراج چاہیے کیا ۔۔۔۔یا یہیں پہ دم نکل گیا ۔۔۔۔"؟
وہ اسکے گلال پھوٹتے گلابی رخساروں پہ اپنے لب شدت سے رگڑتے ہوئے بولا تو ۔۔۔۔
ذخرف کی سانسیں ساکن ہوئیں۔۔۔۔
اس کے ہونٹ اب اس کے رخسار سے پھسل کر شہ رگ پر پہنچ گئے تھے ۔۔۔
وہ اسے بستر پہ گرائے اس پہ جھکا ۔۔۔ ایک ایک کر کہ اسکے آویزے نکالے پھر نیکلس ۔۔۔۔ایک بازو اس کی گردن کے نیچے تھا جبکہ دوسرا اس کی کمر کے گرد.. وہ اس کی قید میں سسک اٹھی.. اس کی گردن میں منہ گھساۓ اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگا .. اس کے نرم ملائم ہونٹ لرز رہے تھے...
اس کے گالوں پہ آنسو پھسلنے لگے وہ یک ٹک اسے دیکھتا رہا.. اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ رو کیوں رہی ہے..
"پلیز مجھے جانے دیں.." اس کی سرگوشی کو نظرانداز کر اس نے اپنے ہونٹ اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے.. اس کے آنسو اور اس کا دل بخوبی جانتے تھے کہ وہ صرف اس کی ہے.. اس پر صرف اس کا حق ہے..
"پلیز امرام .!" اس بار اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ تھی.. وہ تھوڑی دیر اس کی میچی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں کو دیکھتا رہا پھر غصے سے ایک مکا بیڈ کراؤن پر اتنی زور سے مارا کہ بیڈ لرز اٹھا۔۔۔
اور جھٹکے سے اٹھ کر اس کو چھوڑتا ہوا بیڈ سے اتر گیا..
ذخرف نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر اس کی غیر موجودگی کو محسوس کیا اور جلدی سے اٹھ بیٹھی.. اسے پتہ تھا وہ غصے میں ہے اور اس کا انداز اس کے غصے کو صاف ظاہر کر رہا تھا.. اسے امید نہیں تھی کہ وہ اسے اتنی آسانی سے چھوڑ دے گا... اس نے گہری سانس لے کر اپنی تیز چلتی سانسوں کو ہموار کیا اور ڈرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا جو اسے ہی گھور رہا تھا..
"تم ہی چاہتی تھی نا یہ سب تو پھر یہ فضول کا رونا دھونا کس لیے ؟.."
وہ اسکی حرکت پہ سخت برہم ہوا ۔۔۔۔
"آپ نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔۔آپ مجھے میرے چیلنج کی سزا دے رہے تھے نا "
وہ خوفزدہ ہرنی جیسی نم آنکھوں سے بولی ۔۔۔
"تمہیں لگا کہ یہ سب جو بھی ہوا یہ میری فیلنگز نہیں چیلنج تھا ؟؟؟
You are such a silly girl....
اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہا ۔۔۔۔
ذخرف نے اپنے آنسو صاف کئے اور بالوں پر ہاتھ پھیرتی وہ بیڈ سے اتر گئی اور بستر پر سے دوپٹہ اٹھا کر اپنے ارد گرد اچھے سے لپیٹ کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور آئینے میں خود کا جائزہ لینے لگی.. آنسؤوں کی وجہ سے کاجل بری طرح پھیل گیا تھے.. ٹشو اٹھاکر اس نے اپنی آنکھوں اور چہرے کو صاف کیا اور باقی بچی جیولری اتارنے لگی.. بالوں کو برش کرکے جوڑے کی شکل میں باندھا اور اٹھ کر وارڈروب کی طرف آگئی اور اس میں سے امرام شیر کا ڈھیلا ڈھالا کرتا اور ٹراؤزر نکال کر باتھروم میں گھس گئی.. تھوڑی دیر بعد وہ نکلی. اس نے حیرت سے کمرے میں اٹھتے ہوئے سیگریٹ کے دھوئیں کو دیکھا ۔۔۔امرام شیر سامنے رکھے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بیٹھا ۔۔۔سگریٹ کے گہرے کش لیتا پھر دھوئیں کے مرغولے بناکر فضاء میں خارج کر رہا تھا ..
"I am sorry "
زخرف نے اس کی طرف دیکھ کر اسے دھیرے سے کہا...امرام شیر نے ایک گہرا کش لے کر کچھ سیکینڈ کے لئے اپنی نیلی شعلہ بار آنکھوں سے اسے دیکھا پھر نظریں پھیر لیں...
زخرف اس کے انداز سے سمجھ گئی کہ وہ اسے سن چکا ہے..
اسے جیولری ڈریسر کے ڈراور میں رکھتے ہوئے دیکھ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا اور اسے لاک کر دیا،
"منہ دکھائی لی تھی تو دینے کا رواج نہیں ۔۔۔۔وہ امرام شیر کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی تھی جب سے اسکا خفا چہرہ دیکھا تھا ۔۔۔دل اسے ڈپٹ رہا تھا اسکی تھوڑی دیر پہلے کی گئی کاروائی پہ ۔۔۔۔
اس لیے اس نے ہی اپنے روٹھے ہوئے شوہر کو منانے میں پہل کی ۔۔۔
"سارے رواج "تم "مجھے سکھانے آئی ہو ؟؟؟
"تم سے زیادہ بہتر طریقے سے جانتا ہوں سب ۔۔۔۔
وہ سیگریٹ کو زمین پہ پھینک کر اسے جوتے کی ایڑی سے رگڑ کر بجھاتے ہوئے کرخت انداز میں بولا ۔۔۔
"پہلے خود میں ہمت پیدا کرلو ۔۔۔۔مجھ سے نپٹنے کی ۔۔۔
بندے کو اتنے ہی بڑے پنگے لینے چاہیے جتنی اس میں بھگتنے کی سکت ہو "
اس نے زخرف کے ہاتھ میں موجود مخملیں جیولری باکس اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔
"اچھا زیادہ باتیں نا بنائیں چلیں کچھ کر کہ بھی دکھائیں !!!
اس کا اشارہ اس جیولری باکس کو کھول کر اسے منہ دکھائی دینے کا تھا ۔
"کچھ کر ہی رہا تھا ۔۔ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی تھا ۔۔اتنا ہی شوق چڑھا تھا ۔۔تو پہلے روکا کیوں ؟؟؟
وہ ابرو اچکا کر بولتے ہوئے اسے بار بار حیران کر رہا تھا ۔۔۔
زخرف نے شرم سے لال پیلے ہوتے ہوئے چہرے سے اسکو دیکھا ۔۔۔۔
اس نے باکس کھول کر اندر سے ایک لاکٹ نکالا جس میں ہیرے کا خوبصورت سا پینڈینٹ لٹک رہا تھا، لاکٹ ہاتھ میں پکڑے وہ اس کی طرف بڑھا جو آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی..
"ٹرن .."
امرام شیر کی آواز اسے بہت قریب سے سنائی دی ۔
"میں.. میں خود پہن لوں گی.."وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی..
"میں نے کہا پیچھے گھومو..پہلے شکوے ختم نہیں ہوتے بعد میں نخرے ۔۔۔" تحکم بھرے لہجے میں بولا تو وہ چار و ناچار پیچھے گھوم گئی، ہاتھ میں پکڑا لاکٹ اس کے گلے میں ڈال میں سامنے آئینے میں اس کے عکس کو دیکھا، وہ بھی آئینے میں اسے ہی دیکھ رہی تھی، لمحے بھر کو نظروں کا ملن ہوا، پھر اس نے نظریں جھکا لیں..
زخرف نے پلٹ کر امرام شیر کو دیکھا ۔۔۔۔
وہ اپنے انداز میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی ۔۔۔
زخرف نے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا ۔۔۔
تو امرام شیر نے اپنے چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ لیا ۔۔۔
"یہ کیا بات ہوئی خود چاہے جو مرضی کریں ۔۔۔۔اور میری باری ۔۔۔۔
وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولتے ہوئے اسے بہت پیاری لگی ۔۔۔۔
اپنے کرتے میں دیکھ کر(جو اسے پاؤں تک آرہا تھا ۔۔۔) اس کی ہنسی جسے وہ کب سے ضبط کیے ہوئے تھے آخر کار نکل ہی گئی ۔۔۔۔
وہ قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے اسے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔۔۔۔
"جاؤ جا کرکے سو جاؤ.." مسکرا کر کہتے ہوئے اپنے بازوؤں کی قید سے اسے آزاد کیا ۔۔۔
"اب آرام سے سو جاؤ، کوئی ڈرامہ مت کرنا ۔۔۔مس ڈرامہ کوئین ۔۔۔
وہ جو کمفرٹر اور تکیہ اٹھا کر صوفے کی طرف بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔جاتے ہوئے رکی ۔۔۔
" صوفے پر سونے کی کوشش بھی مت کرنا ورنہ میں بہت بری طرح سے پیش آؤں گا.."
"ارے آپ کو کیا لگا یہ تکیہ میں اپنے لیے لے کر جارہی تھی ؟؟؟
"ہائے او ربا اننننننی۔۔۔۔۔۔خوشفہمیاں !!!!!
",مائی ہینڈسم ہزبینڈ ،اوہ سوری مائی کھڑوس میجر !!!
وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر بولی ۔۔۔۔
"یہ تکیہ آپکے لیے صوفے پہ رکھ رہی تھی ۔۔۔۔
"یہ میرا بستر ہے ،تو میں بھلا اپنا بستر چھوڑ کر پاگل ہوں جو صوفے پہ جاکر لیٹوں گا ؟"
وہ تن کر سامنے آیا ۔۔۔
"سلی گرل !!!
اوہ سوری بونی میڈم !!
یہ صوفہ خاص کر آپ جیسے چھوٹے قد والے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے ۔۔۔میری تو ٹانگیں بھی پوری نہیں آنے والی ۔۔۔
وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔۔۔
ذخرف کے تو سر پر لگی پیروں پر ُبھجی ۔۔۔
اسکے چھوٹے قد پہ چوٹ کر کہ وہ اسے غصہ دلا گیا تھا ۔۔۔۔
"ہاں نا اگر میں بونی ہوں تو آپ لمبے بالکل زرافے کی طرح ۔۔۔۔"
وہ بنا سوچے سمجھے بولی تو امرام شیر کے ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا۔۔۔۔
"میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اپنی بچکانہ حرکتوں پہ قابو کرو ۔۔۔۔خاص کر اپنی زبان بند رکھا کرو ۔۔۔۔
"لیکن ۔۔۔میری ۔۔۔بات ۔۔۔تو۔۔۔
اسے لگا کہ واقعی اس بار اس نے کچھ زیادہ ہی بول دیا ہے تو اس نے معافی مانگنے کا سوچا ۔۔۔۔
"مجھے فضول لوگوں کے منہ لگنے کا کوئی شوق نہیں"
وہ ہاتھ اٹھا کر اسکی بات درمیان میں کاٹ کر بولا ۔۔۔
"ابھی تھوڑی دیر پہلے جو کیا تھا وہ کیا تھا ۔۔۔
وہ سر جھٹک کر منہ میں بڑبڑائی ۔۔۔کیونکہ اونچی آواز میں بول کر وہ اپنی شامت نہیں بلانا چاہتی تھی ۔۔۔
"یہ مجھے منہ لگانا پسند نہیں کرتے نا دیکھنا ایسی چیز کو منہ لگواوں گی ۔۔۔دوبارہ کسی چیز کو منہ لگانا بھول جائیں گے "
وہ چٹکی بجاتے ہوئے دماغ میں نیا آئیڈیا سوچنے لگی۔۔۔
امرام شیر اپنا آرام دہ سوٹ لیے واش روم کی طرف بڑھنے لگا تو وہ راستے میں آئی ۔۔۔
"ایک منٹ۔ ایک منٹ پہلے مجھے جانے دیں ۔۔۔
"تم ابھی تو چینج کر کہ آئی تھی تو اب کیا ؟؟
وہ ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں بولا۔۔
"وہ نا اندر میری کچھ پرسنل والی چیزیں رہ گئیں ہیں ۔۔۔
"سمجھتے ہیں نا آپ ؟؟؟
وہ شرارتی انداز میں ہنستے ہوئے اندر چلی گئی ۔۔۔
وہ باہر کھڑا تاسف سے سر دائیں سے بائیں ہلانے لگا ۔۔۔
کتنی دیر ہوچکی تھی اسے اندر ۔۔۔۔مگر وہ باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔
"زخرف باہر آؤ گی یا میں آؤں ؟؟؟
وہ دانت پیس کر درشت آواز میں بولا۔۔۔۔
اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں زخرف نے دروازہ کھولا۔ ۔۔
اور سر جھکائے ہوئے خالی ہاتھ باہر آئی ۔۔۔۔امرام شیر نے اس کا سرتا پا جائزہ لیا۔۔۔
"کہاں ہیں تمہاری پرسنل چیزیں ۔۔۔جنہیں ڈھونڈھنے میں تمہیں اتنی دیر لگی ۔۔۔۔
"بہت ہی Naughtyہیں آپ !!!
وہ اسکے گال پہ انگلی رکھ کر بولی ۔۔۔
پھر سر جھٹکتے ہوئے جا کر ۔اس بیڈ پہ لیٹی اور سر تک کمفرٹر اوڑھ لیا ۔۔۔
امرام شیر اسے گھورتے ہوئے واش روم میں چلا گیا ۔۔۔
اس نے فریش ہوکر چینج کیا ۔۔۔امرام شیر کی یہ عادت تھی وہ روزانہ رات سونے سے پہلے برش کرکہ سوتا تھا ۔۔۔
اب بھی وہ حسب عادت برش پکڑ کر اس پہ پیسٹ لگاتے ہوئے ۔۔۔شیشے میں دیکھ کر گنگنا رہا تھا ۔۔۔اور کچھ دیر پہلے کے مناظر یاد کیے اس کے لبوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی ۔۔۔
مگر اسکی مسکراہٹ زیادہ دیر قائم نا رہ سکی ۔۔۔۔
اس کے ہنستے ہوئے لب فورا سمٹے ۔۔۔۔
جب اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی ۔۔۔۔
اس نے برش نل کے نیچے رکھ اور فل ٹیب کھولے اسے دھونے لگا ۔۔۔مگر اس میں سے جھاگ ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھی ۔۔۔پھر اس نے بیسن میں برش زور سے پھینکا اور منہ میں مٹھی بھر کر پانی ڈالے کلی کرنے لگا ۔۔۔مگر منہ کی بھی وہ حالت تھی جو کچھ دیر پہلے برش کی تھی ۔۔۔
اسکا منہ جھاگ سے بھر چکا تھا ۔۔۔۔
جو ختم ہونے کو نہیں آرہی تھی ۔۔۔منہ حدردجہ کڑوا ہوچکا تھا ۔۔۔
اسے مخصوص مہک آئی ۔۔۔
اس نے تھوک پھینکی ۔۔۔
پھر اسکی نظر ٹوتھ پیسٹ پہ گئی ۔۔۔
اس پہ نظر پڑتے ہی اس کی نیلی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔۔۔
اس ٹوتھ پیسٹ کو پیچھے سے کاٹ کر اس میں کچھ ڈالا گیا تھا پھر اسے فولڈ کردیا گیا تھا ۔۔۔۔اسکی جہاندیدہ نظریں فورا سے بیشتر سب پہچان گئیں ۔۔۔۔کہ یہ کس کی حرکت ہے ۔۔۔۔
اس نے ٹوتھ پیسٹ کو کھول کر سونگھا ۔۔۔۔
وہی ہوا جو وہ سوچ رہا تھا ۔۔۔
اس نے ٹوتھ پیسٹ میں سے پیسٹ نکال کر اس میں پیچھے سے شیمپو بھر دیا تھا ۔۔۔
اب اسے پتہ چلا کہ یہ مخصوص مہک پیسٹ کی نہیں شیمپو کی تھی ۔۔۔۔
"زخرف !!!!
وہ چلاتے ہوئے واش روم سے باہر آیا ۔۔۔۔
مگر وہ اپنی جگہ ساکت لیٹی رہی ایک انچ بھی نہیں ہلی ۔۔۔
"ڈرامے بند کرو ۔۔۔اٹھو ۔۔۔
یہ تمہیں نے کیا ہے نا "
وہ اس کے اوپر سے کمفرٹر کھینچ کر اتار چکا تھا ۔۔۔وہ آنکھیں بند کیے لیٹی رہی ۔۔۔
"اب تم ایسے اٹھو گی ۔۔۔
وہ غصے میں آکر واپس واش روم میں گیا اور پانی سے بھری ہوئی بکٹ لاکر سونے کا ڈرامہ کرتی ہوئی ذخرف پہ انڈیل دی ۔۔۔۔
وہ ٹھنڈا پانی پڑتے ہڑبڑا کر اٹھی ۔۔۔۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے ؟
وہ اونچی آواز میں چلائی ۔۔۔
"اور وہ جو تم نے کیا وہ کس زمرے میں آتا ہے ۔۔۔
وہ بدتمیزی نہیں ۔۔۔
"کیا ِکیا ہے میں نے ہے ؟
وہ کمر پہ ہاتھ رکھے لڑاکا انداز میں بولی ۔۔۔
"ابھی بتاتا ہوں کیا کیا ہے تم نے ؟"
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ واش روم میں لے گیا
"یہ پیسٹ میں شیمپو تم نے ڈالا ؟؟؟
وہ اسکا ہاتھ چھوڑ کر دھاڑا ۔۔۔
"ہاں ڈالا تو کیا کرلیں گے ۔۔۔
وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر بولی ۔۔۔
آپ نے ہی کہا تھا میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔
یہ اسی کا بدلہ تھا ۔۔۔
وہ مسکرا کر کہتے ہوئے باہر نکلنے لگی ۔۔۔
"میرے منہ لگنے کا اتنا شوق ؟؟؟؟وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگا چکا تھا ۔۔۔۔
زرخرف کی پشت اسکے سینے سے لگ رہی تھی ۔۔۔۔
"میں نے ایسا تو نہیں کہا "
وہ اسکی مضبوط گرفت میں پھڑپھڑانے لگی ۔۔۔
امرام نے ایک ہاتھ سے شاور کھول دیا ۔۔۔اور دوسرے سے اسکے بالوں کا بنا رف سا جوڑا۔۔۔
"یہ۔۔۔یہ۔۔ک۔۔۔کیا ۔۔۔کررہے ہیں ؟؟؟اسکے گلے سے گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔
وہ اسے کھینچ کر دیوار سے پن کرگیا ۔۔۔
شاور سے پانی ان دونوں پہ گر رہا تھا ۔۔۔
"اپنی بیوی سے پیار !!!
"زرا تمہیں بھی تو پتہ چلے اس شیمپو کا ذائقہ جو تم نے مجھے چکھایا ۔۔۔
اب تمہاری چکھنے کی باری ۔۔۔'
وہ اسکے لبوں کو فوکس کیے انہیں اپنے لبوں میں مقید کرگیا ۔۔۔۔
زخرف نے نفی میں سر ہلانا چاہا ۔۔۔۔
مگر اسکی گرفت مضبوط تھی ۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ اس پہ ترس کھاتے ہوئے اسے چھوڑ گیا تو پھر جھک کر اسکی گردن پر اپنے لب رکھے۔۔۔
پھر اسے یاد آیا کہ وہ اسے کس مقصد سے اندر لایا تھا ۔۔۔
اس نے اپنے دانت اسکی گردن پہ گاڑے تو زخرف کے منہ سے بلا ساختہ چیخ نکلی ۔۔۔
آہ ۔۔۔۔!!!
"ہائے او ربا آپ تو پورے کے پورے جنگلی نکلے ۔۔۔۔
وہ اسے خود سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
اور اپنی گردن کو ہاتھ سے رگڑنے لگی ۔۔۔جہاں اب جلن محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔وہ باہر جانے کے لیے پر تولنے لگی ۔۔۔
"اور جو جنگلی پن تم نے دکھایا اس کا کیا ؟؟؟
"انہہہہ۔۔۔۔
وہ اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسکی پشت پہ باندھ گیا ۔۔۔
اور دانتوں سے اسکا کرتا شانے سے ہٹایا ۔۔۔۔
"یہ۔۔۔۔کیا ۔۔۔۔۔نہیں پلیز ۔۔۔۔
وہ اسکے بھیگے ہوئے نشیب و فراز میں کھونے لگا ۔۔۔۔
"تمہاری پرسنل چیزیں ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہا ہوں شاید یہیں کہیں سے مل جائیں ۔۔۔۔
"پھپھو آپ !!!
وہ زور سے چلائی ۔۔۔
امرام شیر نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔۔
یہی موقع اسے لمحہ ِ غنیمت لگا ۔۔۔۔وہ اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے واش روم سے باہر بھاگی ۔۔۔۔اور دوسرے کپڑے لیے ڈریسنگ روم میں بند ہوگئی ۔۔۔۔
اسے اپنے بھیگے شانوں اور لبوں پہ اسکے جان لیوا لمس ابھی تک محسوس ہو رہے تھے ،وہ ڈریسنگ روم کی دیوار سے لگے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔۔
گیلے کپڑے تبدیل کیے باہر آئی اور وہیں کھڑی انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔۔
اگر وہ سیر تھی تو مقابل سوا سیر ۔۔۔۔
"آکر اپنی جگہ پہ لیٹو "آگے سے مجھ سے بدلہ لینے سے پہلے اسکا انجام بھی سوچ لینا "
سخت لہجے میں تنبیہہ کرتا وہ دوبارہ اپنی طرف بیڈ پر جا بیٹھا تو وہ بھی صوفے سے تکیہ لیے واپس بیڈ کی طرف آئی ۔۔۔۔پھر تکیے پہ سر رکھے لیٹ گئی ۔۔۔۔ اس کی بات نہ ماننے کی صورت میں وہ کیا کچھ کر سکتا ہے اس کا ٹریلر وہ کچھ دیر پہلے ہی دیکھ چکی تھی، مزید فلم دیکھنے کی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ابھی کے لیے اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا اس نے جسے چاہا پا لیا ۔۔۔آج وہ اس کے پہلو میں تھا ۔۔۔اسکے قریب تھا ۔۔۔۔اس پہ کچھ دیر پہلے اپنی چھوٹی موٹی شدتیں نچھاور کر چکا تھا ۔۔۔
وہ مسرور انداز میں مسکراتے ہوئے آنکھیں موند گئی ۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙🌙
کیسی لگی آج کی قسط اپنی رائے دینا نہ بھولیے گا پیارے دوستوں اور اتنی جلدی لائکس پورے کرکہ مجھے سرپرائز کرنے کا بھی بہت شکریہ 😁
❤️
👍
🌺
👌
😂
😮
🙏
🥰
🫀
🫣
41