Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:56 AM
#novel:Chand _Asmano Sy _Lapata. #episode:25 #hina_ Asad. Don't _copy_paste _without my permission. دعا کی بھابھی کا اچانک ہارٹ اٹیک آجانے کی وجہ سے انتقال ہوگیا ۔۔۔دعا اور شاہ من کو وہاں جانا تھا ۔۔۔مگر ماھی کی طبیعت پچھلے ایک ہفتے سے خراب تھی ۔۔۔فوتگی پہ جانا بھی ضروری تھا ۔۔۔ انکے گھر کی انیکسی میں انہوں نے گھر کے کاموں کے لیے ایک بیوہ عورت کو رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ انہیں کے حوالے ماھی کو کیے خود کراچی چلے گئے ۔۔۔۔ مگر وہاں جا کر کسی ریلی نکلنے کی وجہ سے روڈ بلاک ہوگئے اس لیے ان کی واپسی میں تاخیر ہوگئی ۔۔۔۔ ماھی اپنے بستر میں پژمردگی سے لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔ اچانک اس کے پیٹ میں شدید درد اٹھا ۔۔۔۔ وہ جو اپنے نکاح کے بعد ایک دن بھی ٹھیک نہیں رہی اسی دن سے کالج بھی نہیں گئی ۔۔۔ ہر وقت اپنے بستر میں لیٹی رہتی ۔۔۔دعا اسکے لیے کھانا اسے کمرے میں ہی دے جاتی ۔۔۔کہ شاید اسے ویکنیس ہوگئی ہے ۔۔۔کچھ دن آرام کرے گی کھائے پیئے گی تو ٹھیک ہو جائے گی ۔۔۔۔ مگر ماھی کی حالت سدھرنے کی بجائے مزید بگڑنے لگی ۔۔۔۔ماھی کو کچھ عجیب سا لگا کہ ایسا کیوں ۔۔۔وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی اپنے وجود کی تبدیلی کی وجہ ۔۔۔۔اپنی مما سے اور وہ آنٹی جو اسکی انیکسی میں رہتی تھی وہ ان کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنے اوپر کمفرٹر درست کرلیتی خود کو اس میں چھپا لیتی ۔۔۔اب تک کسی نے اس کے وجود کی تبدیلی کو نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ لیکن اب جب اس کے پیٹ میں شدید قسم کا درد اٹھا تو اس نے خود سے کمفرٹر اتار کر پیچھے کیا ۔۔۔۔ اور پیٹ پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔ ایسے لگا کہ جیسے پیٹ میں کچھ زور زور سے گھوم رہا تھا ۔۔۔ماھی سے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہوا ۔۔۔وہ بے آواز رونے لگی ۔۔۔۔ اس کی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں ۔۔۔۔ "مما !!!! بابا !!!! "وہ درد سے کراہ رہی تھی۔۔۔ کہ اسے پھر سے متلی ہونے ہوگی وہ واش روم کی طرف جانے لگی تو کمزوری کے باعث چلا ہی نہیں جا رہا تھا وہ دیوار کا سہارا لیے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اندر گئی اور واش بیسن پہ جھک گئی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد چہرہ دھو کر اوپر اٹھایا اور خود شیشے میں دیکھا۔۔۔۔ سرخ و سفید رنگت میں زردیاں گھل چکی تھیں ،آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے جو اب گالوں تک آرہے تھے ۔۔۔۔آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی ۔۔۔بکھرے ہوئے بال نجانے کتنے دنوں سے اس نے بالوں میں برش نہیں کیا تھا ۔۔۔۔ملگجا سا حلیہ وہ صدیوں کی بیمار لگی ۔۔۔۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگی وہ تو پہلے ہی کمزور سی تھی ،اس دھان پان سی لڑکی کے وجود میں جو تبدیلی آئی تھی اسے سہارنے کی ہمت اس میں نہیں تھی ۔۔۔۔وہ اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھے باہر نکلی تو وہیں دروازے میں گر گئی ۔۔۔۔ "لکی !!!! وہ زور سے چلائی .... "ماھی !!!! لکی جو دروازے کے راستے اندر آیا تھا اسے باتھ روم کے دروازے کے پاس گرا ہوا دیکھا تو دوڑتے ہوئے اس کے قریب آیا ۔۔۔ "تم ٹھیک ہو نا ماھی ؟" وہ اس کا گال تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔۔ ماھی نے اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔ لکی نے اسی اپنی مضبوط بانہوں میں بھرتے ہوئے بستر پہ لیٹا دیا ۔۔۔۔ "چلو جلدی سے اٹھو۔اپنے حواس بحال کرو ،،،مجھے تم سے بہت اہم بات کرنی ہے ۔۔" "کیوں چلے گئے مجھے چھوڑ کر ۔۔۔کتنا یاد کیا میں نے آپکو ۔۔۔۔ایسا کیا گناہ کیا میں جسکی سزا آپ نے مجھے جدائی کی صورت میں دی ۔۔۔۔ "اس سب کی ایک وجہ تھی وہی بتانے آیا ہوں " وہ فسوں خیز آواز میں کہتے ہوئے اسے اپنے حصار میں لے گیا ۔۔۔۔ وہ اس کے وجود پہ اپنی چھاپ چھوڑ چکا تھا۔جسکی صورت میں ایک نیا وجود دنیا میں آنے والا تھا ۔۔۔ "آپ نے یہ سب ٹھیک نہیں کیا۔میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔" وہ سب کچھ یاد کرتے ایک جھٹکے سے اس کا حصار توڑتے ہوئے سسک کر بولی ۔ "لکی نے ماھی دھنسی ہوئی آنکھوں پہ لب رکھے اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا ۔۔۔۔ "نہیں چاہیے آپکا پیار " "نہیں چاہیے ؟؟؟وہ اسکے گالوں کو اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھر کر مدھم آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا ۔۔۔۔ اس کی گولڈن شیڈڈ آنکھیں لو دینے لگی۔جبکہ اس کی موجودگی اپنے آس پاس محسوس کرتے ماھی کا چہرہ شرم سے تپ اٹھا تھا۔ہاتھوں کا لرزنا لکی کی نگاہوں سے مخفی نہیں تھا۔ماھی کو خود پہ شدید غصہ آرہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے کچھ کرڈالے ۔۔۔۔ لکی کو تو وہ ایک ہی رات میں اتنا جان چکی تھی کہ وہ اپنی چلانے کے معاملے میں وہ کس قدر ضدی اور اکھڑ مزاج ہے لیکن وہ خود جو اس سے نفرت کے دعوے کرتی پھررہی تھی اس کی شکل نہ دیکھنے کی قسم کھائی تھی ،کیوں وہ سب ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔کیوں وہ کسی قسم کی سخت مزاحمت نہیں کرپا رہی تھی اس کی قربت حاصل ہونے پہ ۔۔۔ اس کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس کرتے ماھی کی سانسیں خشک ہوگئی جبکہ گردن میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔ پیٹ میں ایسا لگا جیسے اندر سے کسی نے زور سے لات ماری ۔۔۔۔ماھی نے تڑپ کر پیٹ پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔ وہ درد کی شدت پہ زور سے چلائی ۔۔۔۔ "ماھی ۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ "تم چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔اب یہاں رہنا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ۔۔۔۔ "چلو گی نا میرے ساتھ ؟ "م۔۔۔مگر ۔۔کہاں "؟ وہ اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر بمشکل بولی۔۔۔ "اتنا بتاؤ میرے بنا رہ سکتی ہو ؟؟؟ ماھی نے فورا نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔ "اگر میں تمہیں اپنی سچائی بتاؤں تو کیا تم مجھے چھوڑ دو گی ماھی ؟؟؟ ",یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔میں آپ کے نکاح میں ہوں ،کیوں علیحدگی لوں گی بلاوجہ " وہ ٹوٹے ہوئے شکستہ آواز میں بولی۔۔۔۔نقاہت کے باعث اس سے بولا نہیں جا رہا تھا ۔۔۔ "میری بات پہلے پوری سننا پھر ہی کوئی فیصلہ کرنا ۔۔۔میں تمہارے فیصلے کا احترام کروں گا " وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولا تو ماھی نے چونک کر اسکی طرف دیکھا نجانے وہ ایسا کیا بتانے والا ہے ۔۔۔۔ "تم نے ویپمائر کے بارے میں سنا ہوگا " "سنا ہے نا ..؟وہ سوالیہ نظروں سے اس سے پوچھنے لگا "ہممم۔۔۔جی ۔۔۔سنا ہے . "میں ویمپائر ہوں " "جو زندگی بچانے کے لیے خون پیتے ہیں " اسکے انکشاف پہ ماھی کی درد سے بند ہوتی ہوئی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔ ۔۔۔ "یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟؟ "ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟؟ "آ۔۔۔آپ ۔۔۔مذاق کر رہے ہیں نا میرے ساتھ ؟؟؟ وہ روہانسی آواز میں بولی ۔۔۔ دونوں ہاتھوں سے کمفرٹر کو مٹھیوں میں زور سے بھینچ لیا ۔۔۔۔ "یہ مذاق نہیں ماھی جلد از جلد تمہیں سب سچ بتا کر اس درد سے آزادی دلانا چاہتا ہوں ۔۔۔ ماھی نے درد سے بلبلاتے ہوئے آنکھیں موند لیں ۔۔۔ "ماھی میں انسان ہوں یا ویمپائر سب بھول جاؤ بس اتنا یاد رکھنا تم سے بے پناہ عشق کرتا ہوں ۔۔۔۔خود کو مٹا دوں گا اگر تم نا ملی ۔۔۔۔" وہ جنونیت آمیز انداز میں بولا۔۔۔ ماھی کے منہ سے گھٹی گھٹی سسکیاں نکلیں جسے اس نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر روکنے کی کوشش کی ۔۔۔۔وہ اتنی جلدی اتنا بڑا سچ سننے کی حالت میں نہیں تھی ۔۔۔۔ دل حدرجہ گھبرا رہا تھا ۔۔۔۔دماغ سب ماننے سے انکاری تھا ۔۔۔ "ماھی میرے فادر ایک ویمپائر ہیں ۔اور میری ماں تمہاری طرح ایک انسان ۔۔۔ جب ویپمائر اور انسان کا ملن ہوتا ہے تو ان سے ایک امورٹل ویپمائر جنم لیتا ہے ۔ جیسے کہ میں ہوں ۔۔۔۔ "میرے فادر نے اپنے قبیلے سے تعلق ختم کر لیا وہ سب رات کی تاریکی میں انسانوں کا خون پیتے تھے ۔۔۔ مگر میرے فادر کسی انسان کا خون نہیں پیتے ۔۔۔۔ ہمارا اب ایک الگ قبیلہ ہے ۔جو صرف جانوروں کا خون پیتے ہیں زندہ رہنے کے لیے ۔۔۔۔ جنگل میں جانوروں کی تعداد نا ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ہمارے قبیلے والوں کو شکار کی تلاش میں دن کے وقت بھی باہر نکلنا پڑتا ہے ۔۔۔ لیکن وہ نہیں نکل سکتے ۔۔۔ کیونکہ سورج کی روشنی ان کے لیے جان لیوا ہے ،اس لیے وہ صرف رات کو نکلتے ہیں ۔۔۔ میں امورٹل ہوں ۔اس لیے دن کی روشنی مجھ پہ اثر نہیں کرتی ۔۔۔۔ مجھ میں پاورز ہیں ۔ مجھے میرے قبیلے نے بتایا تھا کہ اماوس کی رات کو جب چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوگا تب چاند کے مانند چکمتی روشنی مجھ پہ پڑے گی ۔اور جس کے باعث یہ روشنی مجھ پہ پڑے گی ،وہہی انسان میرے لیے بنی ہے،اور ہمارے قبیلے کے لوگوں کے لیے اہم کردار ادا کرے گی ۔۔۔۔ "۔۔۔م۔۔۔مگ۔۔گر می۔۔ممم۔۔میں ۔۔۔کیسے ۔۔۔۔؟؟ وہ حیرت زدہ رہ گئی اسکی باتوں کو سن کر تو لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں استفسار کرنے لگی ۔۔۔ "ہمارابچہ جو اس دنیامیں آنے والا ہے ،اسکے زریعے ۔۔۔ لکی نے اسکے پیٹ پہ اپنا ہاتھ رکھا تو ماھی کو درد سے تھوڑا سا سکون ملا ۔۔۔ اس نے فق نگاہوں سے اپنی بدلتی حالت دیکھی ۔۔۔۔ "اسکی خالی خالی نظروں میں چھپے سوالوں کو وہ پہچان چکا تھا اسی لیے وہ مزید اسے بتانے لگا ۔۔۔۔ "میں اپنے قیبلے والوں کو روزانہ اپنی طاقت دیتا ہوں تاکہ وہ دن کی روشنی میں نکل کر اپنا شکار تلاش کرسکیں اور انسانوں کا خون نہیں پیئیں ۔۔۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ہمارے ویپمائر قبیلے کی تعداد میں اضافی ہوتا جا رہا ہے اور میری طاقت ان سب کے لیے ناکافی ہوتی جا رہی ہے، ہمارا بیٹا اور میں ملکر ان سب کی زندگی بچا سکتے ہیں ۔۔۔ "تم سب کی زندگی کو بچانے کے لیے ہمارا ساتھ دو گی ماھی ۔۔۔ ؟" وہ التجائیہ۔۔۔مگر مان بھرے انداز میں بولا۔۔۔ اس نے ہاتھ ہٹایا تو ماھی ایک بار پھر سے تڑپنے لگی ۔۔۔۔ "ماھی میرا مقصد نیک تھا مجھے کبھی غلط مت سمجھنا ۔۔۔۔تمہی وہ پہلی لڑکی ہو جس نے لکی کے دل میں اپنی جگہ بنائی ہے ۔اور تمہاری یہ جگہ نا تو کبھی کوئی لے سکتا ہے ۔اور نہ میں کبھی کسی کو دوں گا ۔۔۔۔ "Lucky ۔۔۔۔Really love you۔۔۔ so much۔۔۔" "دو گی میرا ساتھ ۔۔۔۔؟؟؟ "میری دنیا میں چلو گی میرے ساتھ ؟؟؟ "آپ کی محبت نے نجانے کیسا جادو کیا ہے مجھ پہ اب آپ اپنے ساتھ آگ میں جلنے کو بھی کہیں گے تو ہنسی خوشی۔۔۔۔جل جاؤں گی ۔۔۔۔ وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔ پتنگا جو ہوجائے آگ میں فنا، یہ اس کی ادا ہے یا آگ کا گناہ ، لکی نے جوابا مدھم لہجے میں کہا۔۔۔ کوئی آگ سے بھی تو پوچھے اسکے دل کی ، جسے پیار سے چھوا اس کی بس راکھ ہی ملی ، "اگر تم انسان رہی تو کبھی ایک ویمپائر کے بچے کو پیدا نہیں کر پاو گی ۔۔۔۔ "یہ ویمپائر کا بچہ ہے جو مہنیوں کی بجائے دنوں میں پیدا ہو رہا ہے ،تمہاری سوچ سے بھی تیز اور ذہین ہوگا ۔۔۔بہت طاقتیں رکھتا ہوگا وہ ۔۔۔ "مممم مجھے چکر آرہے ہیں " ماھی نے اپنے چکراتے ہوئے سر کو تھام کر کہا ۔۔۔۔ "یہ کمزوری کی وجہ سے ہیں کیونکہ تم نے خون نہیں ۔۔۔۔پیا ۔۔۔ وہ رک رک کر بولا ۔۔۔۔ "مگر میں تو انسان ہوں میں کیسے خون پی سکتی ہوں ۔۔۔۔؟ ماھی نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔ "خون پینے کی طلب تمہاری نہیں ہمارے بچے کی ہے " "کیونکہ وہ ایک ویمپائر ہے۔ اس نے تمہارے جسم کا سارا خون چوس لیا ہے،اسی لیے تمہیں کمزوری ہو گئی ہے۔۔۔۔ اگر وقت رہتے تم نے خون نہیں پیا تو تمہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔میں تمہارے لیے خون لایا تم اسے پی لو ٹھیک ہوجاو گی ۔۔۔۔ "نہ۔۔۔نہیں ۔۔۔میں ۔۔۔ایسا نہیں کروں گی ۔۔۔۔ وہ گھبرا کر نخوت سے بولی ۔۔۔ "ماھی اگر تم خون پی لو گی تو انسان رہو گی ۔۔۔۔یہ تمہیں تب تک پینا ہے جب تک ہمارا بچہ اس دنیا میں نہیں آجاتا۔۔۔۔ "تم انسانوں کی زندگی جیو گی اور انسانوں کی موت ۔۔۔ اس سے آگے بولا نہیں جا رہا مجھ سے ۔۔۔۔ وہ گہری سانس لیتے ہوئے بولا ۔۔۔ لیکن اگر تم مجھے اجازت دو تو میں تمہیں اپنے اور ہمارے بچے کی طرح امورٹل بنا سکتا ہوں ۔۔۔جو کبھی نہیں مرتے " "اس کے لیے کیا کرنا ہوگا ؟ وہ سہمی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔ "اس کے لیے مجھے اپنا خون تم میں منتقل کرنا ہوگا ۔۔۔" "کیا جواب ہے تمہارا ؟؟؟ وہ اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ "جتنی عمر ملے اس کا ہر لمحہ بس آپ کے ساتھ گزرے اور کچھ صیحیح غلط میں نہیں جانتی " وہ تھکاوٹ ذدہ انداز میں اسکے شانے پہ اپنا سر رکھ گئی ۔۔۔ لکی نے اس کا سر بیڈ کراؤن سے لگایا ۔۔۔ "تھوڑی سی تکلیف ہوگی ،برداشت کرلینا ۔۔۔ اتنی سی تکلیف ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک کردے گی " فسوں خیز آواز میں کہتے ہوئے وہ اس کی گردن پہ جھکا ۔۔۔ لکی کے دو نوکیلے دانت باہر نکلے۔۔۔۔ وہ ماھی کی صراحی دار نازک سی گردن پہ گاڑھ گیا ۔۔۔۔ ماھی کی چیخ نکلی ۔۔۔۔ لکی نے دوسرے ہاتھ سے اسکی پشت کو سہلایا ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ماھی طاقتور خون کے اثر سے بیہوش ہوچکی تھی ۔۔۔۔ لکی نے اس کے بیہوش وجود کو اپنی بانہوں میں بھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔۔ (نوٹ !!!ہم سب مسلمان ہیں ایک بار کی زندگی اور فانی زندگی پہ یقین رکھتے ہیں۔صرف آخرت کی زندگی لافانی ہوگی )یہ صرف فینٹسی بیسڈ ہے اس لیے سب لکھا ۔اسے ناول سمجھ کر پڑھئیے ) 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 صبح کے سورج نے جب چہار سو اپنی کرنیں بکھیریں تو ہر ذی روح،اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا ،پنچھی اڑان بھرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے ،ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی ،کھلی ہوئی کھڑکی میں سے ہوا اور روشنی اندر آرہی تھی ۔۔۔۔کھڑکی کا پردہ پھڑپھڑا رہا تھا۔۔۔ آنکھ کھولتے ہی جو پہلا منظر اس نے دیکھا ،اس منظر کو دیکھنے کی اس نے نجانے کتنی دعائیں کیں تھیں۔کہ جب بھی اسکی آنکھیں کھلیں تو وہ سامنے ہو اور جب اسکی آنکھیں بند ہوں تب بھی وہی ۔۔۔آج اسکی خواہش پوری ہوچکی تھی ،وہ اپنے پروردگار کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا ۔۔۔ اس کے مخملیں لب خوبصورت مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔آنکھوں کے سامنے اپنے من پسند شخص کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسکی آنکھوں میں الوہی چمک امڈ آئی ۔ اسکی ستواں چمکتی ہوئی ناک ،اسکی مونچھوں تلے عنابی لب،اسکی صبیح پیشانی پہ بکھرے بال ،ہلکی سی بئیرڈ اسکی نیلی آنکھیں اس وقت بند تھیں ۔۔۔جو کل رات اسکی من پسند کہانی سنا رہی تھیں ۔۔۔ اسے دیکھتے ہی زخرف کا شرارتی موڈ آن ہوچکا تھا ۔۔۔ وہ صبح فجر کی نماز ادا کر کہ سویا تھا ،،اسی لیے ابھی تک اٹھا نہیں تھا ۔۔۔ زخرف نے آہستگی سے اپنے پاؤں بستر سے نیچے اتارے پھر دبے قدموں سے چلتے ہوئے کھڑکی کے پاس پہنچی جسکے پردے پہلے ہی ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے ۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر سفید رنگ کے پردوں کو ہٹادیا۔چھن سے پڑتی دھوپ نے سوئے ہوئے امرام شیر کی نیند میں خلل ڈالا تھا۔زخرف اسے تنگ ہی تو کرنا چاہتی تھی ۔مگر اسکی رات والی دھمکی یاد آئی ۔۔۔۔ تو اس نے جھرجھری لی بستر پہ موجود امرام شیر کی آنکھوں میں چبھتی ہوئی دھوپ اور روشنی پڑی تو اس نے ناگواری سے بنا آنکھیں کھولے دوسری جانب کروٹ لے لی ۔۔۔۔ زخرف دھیمی سی مسکان لیے اسکے قریب آئی ۔۔۔ اور تکیے پہ ہاتھ رکھے اس پہ جھکی پھونک مار کر اسکے بالوں کو اسکی صبیح پیشانی سے پیچھے کیا پھر آہستگی سے اس پہ اپنے لب رکھے ۔۔۔ ",صبح بخیر !!! وہ ہلکی سرگوشی نما آواز میں بولی۔۔۔ اسکی ستواں ناک کو اپنی پوروں سے دبا کر اسکی چلتی ہوئی مدھم سانسوں کو روک کر اسے نیند سے جگانا چاہا ۔۔وہ کسمسایا اور جھٹ سے اپنی نیند سے بوجھل نیلی آنکھیں کھولیں اس سے پہلے کہ وہ پیچھے ہوتی ۔۔۔ امرام شیر نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے بستر پہ گرا لیا ۔۔۔۔وہ اس افتاد کے لیے تیار نا تھی ۔۔۔گرتے ہی فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ "ہمت ہے تو جاگتے میں کرو پیار نہیں تو کرنے دو " وہ اس کے چہرے کے نقوش کو نرمی سے اپنی لبوں سے مہکا رہا تھا ۔ "ہائے او ربا !!!۔" اپنی گردن پہ اس کی چبھتی ہوئی شیو سے اسکی چیخ نکل گئی ۔۔۔۔ "زرا سا پیار کیا کر لیا میجر صاحب آپ تو شوخے ہی ہوگئے ۔۔۔" وہ گھورتے ہوئے بولی ۔۔۔ اسکی بات سن کر امرام شیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔۔ زخرف نے حیرت بھری نگاہوں سے اسے کھل کر ہنستا ہوا دیکھا تھا،تو دل میں اسکی مسکراہٹ پہ صدقے واری جانے لگی ۔۔۔۔۔ جیسے ہی اسکی جسارتوں میں اضافہ ہونے ہونے لگا ذخرف تو بوکھلا کر رہ گئی ۔۔۔ "ہائے اللہ ۔۔۔یہ آپ میں صبح صبح کون سا رومینس کا کیڑا پھڑکنے لگا ؟ ذخرف کے چہرے سے مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی ۔وہ خود میں سمٹتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ پلکیں شرم سے لزرتے عارض پہ سایہ فگن تھیں ۔۔۔۔ "یہ بدلا تھا میری نیند خراب کرنے کا " وہ ایک بار پھر سے اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپا گیا ۔۔۔ "میجر پیچھیں ہٹیں ۔" وہ شرم سے کپکپاتے روہانسے لہجے میں گویا ہوئی۔پلکیں حیا سے بوجھل ہورہی تھیں۔ "میجر اس بار کاٹا نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں گا ۔۔۔" "قسم سے ایسا بدلا لوں گی نا یاد رکھیں گے " وہ اسکی بڑھتی ہوئی شدتوں بے حال ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔ "لو بدلہ ۔۔۔۔وہ چہرہ اٹھا کر بولا ۔۔۔۔ "کھڑوس میجر م۔۔۔میں ۔۔۔آ۔۔۔آپ کو اتنا بے شرم نہیں سمجھتی تھی ۔۔۔۔" اسکے چہرے پہ بکھرے ہوئے قوس قزح کے رنگوں نے اسکا چہرہ دہکا رکھا تھا ۔۔۔ "اب کیا بدلہ بدلہ ہی کھیلتے رہنا ہے یا اٹھنا بھی ہے ۔۔۔ "وقت دیکھیں سات بج گئے ہیں سب باہر ناشتے پہ انتظار کر رہے ہوں گے " ذخرف نے اسے دیوار پر لگا ہوا وال کلاک دکھا کر وقت کا احساس کروایا ۔۔۔۔ "ہم سے بڑھ کر وقت کی پابندی اور کسے آتی ہے" "لیکن ابھی وقت کسی اور کام کا ہوا چاہتا ہے ،اس پہ توجہ دیں " "نہیں میجر صاحب پلیز یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں صبح ہوچکی ہے " وہ اس خود سے پیچھے دھکیلتے ہوئے بولی ۔۔۔ "پیار کرنے کے لیے کوئی بھی وقت مقرر نہیں ہوتا ۔۔۔ اور رہی بات صبح کی تو اسے رات میں بدلنا میرا کام ہے ۔۔۔" وہ کہتے ہوئے بستر سے اٹھا کھڑکی کے پٹ بند کیے اور پردے برابر کیے ۔۔۔جاکر کمرے کی لائٹس آف کیں تو کمرے میں ملگجا سا اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔ "اسے کہتے ہیں دن کو رات میں بدلنا " کیوں کیسی رہی "؟ وہ ابرو اچکا کر ذو معنی نظروں سے دیکھتے ہوئے جیسے جیسے اسکی طرف قدم بڑھا رہا تھا زخرف کو اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ وہ بیڈ کے کراؤن کے ساتھ لگی اپنے خرافاتی دماغ میں بچنے کے لیے کوئی طریقہ سوچنے لگی ۔۔۔۔اور کچھ سمجھ نہیں آیا تو پاس پڑا تکیہ امرام شیر کی طرف اچھال دیا ۔۔۔۔اسکے ارادے اس پہ تکیہ پھینک کر اسے چھٹکارہ پاتے ہوئے واش روم میں جانے کا تھا ۔۔۔مگر امرام شیر نے حد درجہ پھرتیلے انداز میں تکیہ کیچ کیے نیچے پھینکا اور بیڈ پہ گرنے کے انداز میں لیٹ کر اسکی گود میں سر رکھ لیا ۔۔۔ "کیا ارادے ہیں "؟ اس نے ذخرف کی تھوڑی سے چھو کر چہرہ اٹھاتے اس سے استفسار کیا۔۔۔۔ "میرے ارادے تو بہت نیک ہیں باہر جانے کے لیکن آپ کے ارادے بہت خطرناک " "اب فوجیوں سے پنگا لو گی تو مہنگا تو پڑے گا نا ۔۔۔ہمارے ہاتھوں سے بچ کر نکل لانا ناممکن ہے ، میڈم ۔۔۔ وہ اسکی نچلے ہونٹ کو اپنی پوروں سے سہلاتے ہوئے خمار زدہ آواز میں بولا ۔۔۔۔ "آپ اپنے ارادے موقوف نہیں کرسکتے "؟ وہ جھنجھجلا کر بولی ۔۔۔ "مجھے اپنے ٹارگٹ سے آج تک کوئی نہیں ہٹا سکا ۔۔۔ "میں بھی آخر اسی میجر کی بیوی ہوں ٹکر برابر کی ہوگی ۔۔۔ وہ فرضی کالر اچکا کر بولی ۔۔۔ "Let's see" وہ اسکا بازو کھینچ کر اسے گراتے ہوئے اس پہ جھکا ۔۔۔ "ن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگی کیونکہ اسکی بئیرڈ کی چبھن سے اب اسے ہنسی آنے لگی تھی ۔۔۔ جہاں اس نے اپنے ہاتھ رکھتے زخرف کے تو ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔۔۔۔وہ خود کو خود سے چھپا لینا چاہتی تھی ۔۔۔۔تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔اس کی خجالت اور شرمانا امرام شیر کو اپیل کر رہا تھا ۔۔۔۔ زخرف کی کوئی بھی مزاحمت کام نہیں آئی اس دیو ہیکل وجود کے سامنے وہ خود کو ہار گئی اسکے سامنے دل تو بہت عرصہ پہلے ہی ہار چکی تھی اب اپنا آپ بھی وار گئی اس پہ ۔۔۔۔۔ زرخرف کروٹ بدلے کمفرٹر میں چہرہ چھپائے ہوئے تھی ۔۔۔ "میری شیرنی جو اس وقت بالکل بھیگی بلی بن کر چھپی ہوئی ہیں،کیا فائدہ چھپنے کا ۔۔۔۔ اب تو جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔" وہ اس سے کمفرٹر کھینچ کر اس میں اپنا چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔۔ "بہت ہی کوئی ڈیش انسان ہیں آپ " وہ شرم کے باعث آنکھیں کھول ہی نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔ "ہا۔ہا۔۔ہا۔۔۔۔اس کا قہقہ چھوٹا ۔۔۔ "اب اس ڈیش میں کیا ہے "؟ وہ اسکی پشت پہ اپنی انگلی پھیر کر اس پہ انگلی سے اپنا نام لکھ رہا تھا امرام شیر ۔۔۔۔زخرف نے بخوبی محسوس کیا ۔۔۔۔ "آپکے ہاتھ نا بہت فضول جگہوں پہ پہنچتے ہیں " وہ دانت پیس کر بولی ۔۔۔ "قانون کے ہاتھوں کی پہنچ ہے یہ ۔۔۔۔۔اور سنا تو ہوگا ،قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں ۔اور کسی کو روکنے کی ہمت بھی نہیں ۔۔۔۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو اپنا چھپا ہوا چہرہ دکھائے وہ " وہ اسے کھینچ کے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے مدھم آواز میں بولا ۔۔۔ "آپ نے چہرہ دکھانے لائق چھوڑا کہاں ہے " وہ میچی ہوئی آنکھوں سے ہی لرزتے ہوئے بولی ۔۔۔ "ایسا بھی کیا کردیا یار ۔۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں بولا ۔۔۔تو ذخرف کا سارا خون جیسے چہرے پر سمٹ آیا ۔۔۔ وہ مسمرائز ہوا ۔۔۔۔ "ایک ہی رات میں تم میرے لیے اتنی لازم و ملزوم ہو جاؤ گی میں نے کبھی سوچا نہیں تھا " وہ اس کے نازک ہاتھ کی مخروطی انگلیوں پہ لب رکھتے ہوئے خمارآلود لہجے میں بولتے جیسے اسے باور کروارہا تھا۔ زخرف نے اس کی طرف سے پہلی بار اظہار محبت کا الفاظ سنے تو ساکت رہ گئی ۔۔۔۔ اس نے پلٹ کر امرام شیر کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ "میں تم سے کوئی دھواں دھار عشق ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا مگر تم میرے لیے بہت اہم ہوتی جا رہی ہو ۔۔۔ میرے اتنے قریب آچکی ہو کہ تم سے دور جانے کا تصور ہی مجھے سوہان روح لگنے لگا ہے ۔۔۔۔ زخرف کی آنکھیں لبالب آنسوؤں سے بھریں۔۔۔۔اس اظہار پہ ۔۔۔۔ وہ اسکے لبوں کو نرمی سے چھو کر بولا تو ذخرف نے دوبارہ کمفرٹر میں اپنا چہرہ چھپایا ۔۔۔ "پہلے تو بڑے کھلم کھلا بلند و بانگ محبت کے دعوے کیے جاتے تھے ۔۔۔۔اب جب وقت آیا تو زبان کیوں بند ہوگئی ۔" ذخرف کی جان سرے سے ہوا ہوئی تھی اسکے انداز پہ ۔۔۔ "آئی ہیٹ یو " وہ خفگی بھرے لہجے میں بولتی اپنی بائیں جانب سے تکیہ پکڑتے اس کے چہرے پہ اچھال گئی۔ امرام شیر نے اسے زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔وہ مشکل اپنا قہقہہ ضبط کیے اس کے ہاتھ سے تکیہ کیچ کر گیا ۔۔۔ "ارے اتنی جلدی اپنی محبت سے منحرف ہوگئی ۔" "کوئی بات نہیں اس بار آپ کو واپس پیار کرنے پہ مجبور کر دیں گے ۔۔۔۔وہ اسکا موڈ پھر سے آن دیکھ کر بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔۔ "ن۔۔۔نہیں میجر ۔۔۔۔۔" وہ اسکی منمانیاں دیکھ کر جھٹپٹانے لگی ۔۔۔ "اوکے جسٹ ری لیکس وہ اسے اپنی بانہوں میں بھینچ کر اسکی کمر کو سہلانے لگا۔۔۔جیسے اسے پرسکون کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ وہ مزید اس کے سینے میں ہی چھپتے جیسے پناہ تلاش کررہی تھی۔ "اب باہر جانے کا ہوش نہیں ؟؟؟وہ اسکی توجہ وال کلاک کی طرف دلاتے ہوئے بولا ۔۔۔ زخرف نے وقت دیکھا تو نیند سے بند ہوتی آنکھیں پٹ سے کھل گئیں ۔۔۔ جاؤ فریش ہوجاو "تھوڑی دیر بعد وہ اسے آزادی بخشتے ہوئے بولا۔۔۔۔ "ایسے کیسے جاؤں " اسکی بات پہ زخرف کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں ۔۔۔۔ "مطلب ؟", وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔ "بڑے معصوم ہیں نا آپ ؟وہ دانت پیس کر گھورتے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی۔ "ہممم میری اس خوبی کو تم نے بالکل ٹھیک پہچانا ".وہ اسکی ناک کو اپنی پوروں سے دباتے ہوئے بولا ۔۔۔ امرام شیر نے اپنی شرٹ اٹھا کر اسکی طرف بڑھائی ۔۔۔۔ "برائے مہربانی اپنی ان بہکی ہوئی نظروں کا زاویہ تبدیل کریں بلکہ چہرہ دوسری طرف کریں ۔۔۔ "یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ یہ آنکھیں اور چہرہ پورا حق رکھتا ہے ،سب دیکھنے کا ۔۔۔اسے ابھی کل ہی نکاح نامے کی صورت میں سارے حقوق مل چکے ہیں ۔۔۔ "شرم کرلیں کچھ "اس نے گھرکا ۔۔۔ "شرم کرنا آپ کا کام ہے ۔میرا نہیں " "صیحیح کہا تھا میں آپ بہت ڈیش انسان ہیں" وہ اسکے بائیسیپس والے بازو پہ زور سے چٹکی کاٹ کر بولی ۔۔۔ "آہ ۔۔۔۔۔جنگلی بلی "وہ کراہ کر بولا ۔۔۔ اس بار ذخرف ہنسنے لگی۔۔۔۔ دونوں کی خوشگوار زندگی کی شروعات ہوچکی تھی ۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 قسط چھوٹی لگے تو معزرت ۔اتنا ہی وقت ملا لکھنے کا ۔آج کی قسط پہ اپنا ریویو دینا مت بھولیے گا پیارے دوستوں 🥰
❤️ 👍 😢 🙏 🌺 😂 😮 🫀 🫣 37

Comments