Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:56 AM
#novel:Chand _Asmano Sy _Lapata. #episode:26 long 💞 #hina_ Asad. Don't _copy_paste _without my permission۔ واشروم سے فریش ہو کر باہر آئی تو ذخرف کمرے میں تفصیلی نگاہ دوڑائی مگر وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دیا ۔۔۔ وہ دوپٹہ بستر پہ رکھے اب اپنے گیلے بالوں کو سلجھانے لگی ۔۔۔ڈریسر سے لپ گلاس اٹھا کر لبوں پہ لگایا ۔۔۔کمرے سے ملحقہ ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلا تو ذخرف چونک کر پلٹی ۔۔۔امرام شیر اپنا آرمی یونیفارم پہنے جانے کو تیار تھا ۔۔۔۔ "آپ ایک ہی رات میں مجھ سے تنگ آگئے ۔۔۔ بڑی جلدی ہےآپ کو مجھ سے دور بھاگنے کی۔" وہ خفگی بھرے انداز شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ "ایسی بات نہیں ۔۔۔۔یار ۔۔۔۔آج ڈیوٹی جوائن کرنی ہے۔۔" وہ شیشے میں دیکھا کر اپنے سر سے یونیفارم کیپ ٹھیک کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ زخرف نے اسے نظر بھر کر اپنی آنکھوں کے راستے دل میں اتارا ۔۔۔۔۔وہ تھا ہی اتنا ہینڈسم مگر آرمی یونیفارم میں تو بات ہی الگ تھی ،ایسا لگتا تھا کہ یہ یونیفارم بنا ہی اسکے لیے تھا ۔۔۔۔ "یونہی دور دور سے آنکھوں کی پیاس بجھانے کا ارادہ ہے یا قریب آکر ان رسیلے ہونٹوں سے ۔۔۔۔۔وہ ذومعنی انداز میں کہتے ہوئے خاموش ہوا مگر نگاہوں میں چھپا جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔۔وہ دھیرے دھیرے اس کے قریب ہی آرہا تھا۔زخرف کی سانسیں خشک ہوگئی۔اس نے باقاعدہ اپنی مومی انگلیاں چٹخائیں۔ "اب ڈر کس بات کا ؟ وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے حصار میں لیے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے بولا ۔۔۔ "میں کوئی ڈرتی ورتی نہیں کسی سے ۔۔۔۔ناراض ہوں میں " وہ امرام شیر کے سینے پہ سر رکھ کر بولی ۔۔۔۔ اسکے اتنے قریب آکر دور چلے جانے کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کی جان جا رہی تھی ۔۔۔۔ "یہ کیسی ناراضگی ہے ؟؟؟ "جس میں خود سپردگی کے بعد بھی شکوے ہیں ' "یہ ذخرف کا سٹائل ہے " وہ سر اٹھا کر بولی ۔۔۔۔ "چلیں نیچے ؟"امرام شیر نے گھڑی پہ لگے وقت کو دیکھتے کہا ۔۔۔ "چلتے ہیں ،،،، ورنہ سب نے کہنا زخرف نے میجر پہ نجانے کیسا جادو کیا ۔۔۔جو ایک ہی رات میں اسکے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ گیا ۔۔۔کہ ابھی تک باہر ہی نہیں آیا ۔" ڈرامائی اندازمیں کہتے زخرف نے اس کے تاثرات دیکھے جو مسکراتی ہوئی نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا ۔ "میں شکل سے زن مرید لگتا ہوں ؟؟؟ "لگتے تو نہیں ،بن بھی جائیں تو مضائقہ ہے ۔۔۔ ۔" اس نے بستر پہ پڑا اپنا دوپٹہ اٹھا کر اپنے شانوں پہ پھیلایا ۔۔۔۔تو وہ متبسم سا مسکرایا اسکی مزاحیہ باتوں پہ ۔اور ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کھینچتے اپنے حصار میں لیا اور اس کے چہرے پہ ایک پرشدت لمس چھوڑا۔وہ شرم سے کپکپا کر رہ گئی۔ "اگلی بار میں واپس آؤں تو کچھ ایسا کرنا جس سے میں زن مرید بننے پہ مجبور جاؤں ۔" وہ اسکے دوسرے گال کو چوم کر دھیمے آنچ دیتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔ ذخرف نظریں چرانے لگی ۔۔۔۔ امرام وقت کا خیال کرتے اس کا ہاتھ تھام کر دروازے کی جانب بڑھا ہی تھا کہ ذخرف رکی ۔۔۔ "ادھر آئیں "زخرف نے اسے جھکنے کے لیے کہا ۔۔۔۔ اس نے ناسمجھی سے دیکھا ۔۔۔ پھر اسکے اشارہ کرنے پہ جھکا ۔۔۔ زخرف نے اسکی گردن میں دونوں بانہیں ڈال دیں ۔۔۔۔اور اسکے ساتھ چپک گئی ۔۔۔ "یہ کیا تھا ؟" وہ واپس اوپر ہوا تو زخرف کے پاؤں زمین سے اوپر ہوگئے ۔۔۔ "چلیں اب " "یار پاگل ہو ایسے جائیں گے باہر ؟؟؟ "تو کیا ہوا اگر آپ مجھے اٹھا کر لے گئے باہر ۔۔۔ "اچھا تو تم چاہتی ہو میں تمہیں اٹھا کر لے کے جاؤں " "جی بالکل" اچھا تو پھر بازوؤں میں اٹھا لیتا ہوں ۔۔۔یار یہ کیا طریقہ ہوا باہر جانے کا "؟ "مجھے ایسے ہی جانا ہے باہر "وہ بضد ہوئی ۔۔۔ "کچھ نہیں ہوسکتا زخرف تمہارا ۔۔۔وہ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔ "اگر آپ نے میری بات نہیں مانی تو میں نیچے ہیر پھپھو کو آپکی شکایت لگاؤں گی ۔۔۔کہ آپ نے مجھے کتنا تنگ کیا اور یہاں گردن پہ کاٹا بھی " وہ دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔۔ "میرے پاس آپکے دانتوں کے نشان بھی ہیں ثبوت کے طور پہ ۔۔۔۔ "اچھا تو میں بھی تمہارا کارنامہ شیمپو والا بتاؤں گا سب کو ۔۔۔میرے پاس بھی ابھی تک وہی ٹوتھ پیسٹ موجود ہے ثبوت کے طور پہ " "چلو نا یار ابھی سب سے ملنا بھی ہے ،بہت وقت ہوگیا ۔۔۔ "اچھا چلیں چھوڑیں۔۔۔آپ بھی کیا یاد کریں گے کس سخی دل سے پالہ پڑا آپکا " وہ فرضی کالر اچکا کر بولی ۔۔۔ تو دونوں ایک دوسرے کی ہمراہی میں دروازہ کھول کر نیچے اترنے لگے ۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 "گھبرانے کی بات نہیں ،،،پری جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔۔ وہ اس وقت جسمانی کمزوری اور کسی دماغی کنڈیشن کی وجہ سے ابھی تک بےہوش ہے۔۔ بخار بھی ہے۔ میں نے انجیکشن لگادیا ہے ان شاء اللہ وہ جلد ٹھیک ہوجائے گی ۔۔۔ آپ ان کے کھانے پینے میڈیسن اور ذہنی سکون کا خیال رکھیں۔۔" ڈاکٹر نے پری کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد پریشان کھڑے ہوئے آریان شیر سے کہا تھا جو اپنی پری کی بند آنکھوں کو دیکھ اندر سے ٹوٹ چکا تھا ۔ نجانے کب وہ آنکھیں کھول کر اسے پہچانے گی ۔۔۔ "کوئی پریشانی والی بات تو نہیں ہے نا ڈاکٹر۔۔؟"آریان نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا تھا۔ "نہیں پریشانی والی بات نہیں ہے۔اگر انکی یاداشت واپس نہیں آتی تو ہمیں ان کے کچھ ٹسیٹ کرنے پڑیں گے۔۔" ڈاکٹر نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو آریان نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ "بہت بہت شکریہ۔۔" وہ اخلاقاً زبردستی مسکرانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔مگر مسکراہٹ نے اسکا ساتھ نا دیا ۔۔۔۔ ڈاکٹر چیک اپ کرنے کے بعد وہاں سے چلے گئے تو آریان شیر نے پری کی جانب دیکھا جو آنکھیں موندے گہری بےہوشی کے زیراثر تھی ۔ "میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا پری ۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔تم نے کہا تھا تمہارے جانے کے بعد مجھے تمہاری محبت کا احساس ہوگا ۔۔۔لو ہوگیا احساس ۔۔۔۔اب بار بار مجھے چھوڑ کر چلی جاتی ہو کیوں سزا دے رہی ہو اتنی !!!!؟" اس نے پری کا کینولہ لگا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔ یہ لمحات قیامت خیز تھے اسکے لیے ۔۔۔۔ اس کی زندگی میں رشتے تو بہت تھے مگر وہ اپنی وجہ سے انہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈال سکتا تھا ۔۔۔ اس لیے ان سے دوری اختیار کی ہوئی تھی ۔۔۔۔ فی الوقت اسکے پاس ایک ہی قریبی رشتہ پری کے صورت میں تھا جسے وہ کسی بھی حال میں خود سے دور نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ "جلدی سے ہوش میں آجاؤ مجھے شیرو کہہ کر پکار لو ایک بار ۔" کان ترس گئے ہیں یہ الفاظ سننے کو ۔۔۔ پری کی آنکھیں آہستگی سے کھلیں ۔۔۔ اس نے اپنے بستر کے قریب پڑے سٹول پہ آریان شیر کو آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑاتے ہوئے پایا ۔۔۔۔ "ش۔۔۔ش۔۔شیرو ۔۔۔۔" وہ نقاہت زدہ آواز میں بولی۔۔ جیسے ہی پری کو تھوڑا ہوش آیا اسکی زبان سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ایک جملہ برآمد ہوا تھا۔ "پری ۔۔پری تم ٹھیک ہو۔۔نا ؟" اسکی آواز سن کر آریان نے آنکھیں کھولیں اور اسکا گال تھپتھپاکر پوچھا "شیرو ۔۔۔میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ "شیرو مجھے وہ شادی نہیں کرنی تھی ۔ " "پری وہ سب ایک برا خواب سمجھ کر بھول جاو۔۔۔ "سب ختم ہوچکا ہے ،مروان بھی ۔۔۔۔ "اب جو تم چاہو گی وہی ہوگا ۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں ۔۔۔ وہ اسکا ہاتھ تھام کر اسے یقین دلانے لگا ۔۔۔ آریان شیر نے اس کا خوبصورت چہرہ دیکھا جو اس حادثے میں خون بہہ جانے کی وجہ سے پیلا پڑ چکا تھا ۔ ایک انسان کیلیے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا محبوب اسکے سامنے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو۔۔۔۔ "مجھے آپ کا ساتھ چاہیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔میری خواہش پوری کرنے کا وعدہ کر رہے۔۔۔ ہیں۔۔۔ آپ ۔۔کریں گے نا پوری ؟؟" اس نے مان بھرے انداز میں التجا کی تھی۔ "ہمممم۔۔ وہ مدھم آواز میں بولا۔۔۔ "سچی " اسکی آواز میں جو نقاہت تھی آریان شیر کی ہاں سن کر پرجوش آواز میں بدل گئی ۔۔۔۔۔۔" "پری آرام سے ابھی تمہیں اپنا اچھے سے خیال رکھنا جلدی سے ٹھیک ہوجاو پہلے ۔۔" اب کی بار آریان شیر کا لہجہ سخت ہوگیا تھا ۔۔۔ پری کے چہرے سے مسکراہٹ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔ یہ مسکراہٹ کتنی دیر تلک قائم رہنے والی تھی یہ تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلنا تھا ۔۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 "کہو کس لئے بلایا ہے..؟" ریسٹورنٹ کے قدرے علیحدہ حصے میں موجود ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس نے بےچینی سے فرزام کی طرف دیکھا جو آرام سے بیٹھا کافی کے سپ لے رہا تھا.. "میں نے بلایا ہے تمہیں..مجھ پہ توجہ دو ؟" شیردل نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔۔۔ فرزام نے اسے ایک نظر دیکھا پھر دوبارہ اپنے کام میں بزی ہو گیا.. "فرزام زیادہ اٹیٹیوڈ مت دکھاؤ ، مجھے بتاؤ کیا پتہ چلا اسکے اڈے کا .." وہ ضبط سے بولا، اگر وہ ریسٹورنٹ میں نہ ہوتا تو کب کا اس کے منہ پر دو تین مکے جڑ چکا ہوتا.. اے ۔ایس۔پی فرزام اسکا بچپن کا دوست تھا ۔ "کیا یار فرزام کیوں بیچارے کو پریشان کر رہے ہو، نئی نئی شادی ہوئی ہے جناب کی، انجوائے کرنے دو، آخر یہی تو دن ہیں انجوائے کرنے کے..جو میں نے بتایا بتا بھی دو اسے تاکہ وہ اپنا مسلہ سلجھا کر واپس اپنی بیوی کے پاس جائے " اپنے پشت سے آتی جانی پہچانی آواز پر اس نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا پھر حیرت سے کھڑا ہو گیا.. "علی تم..؟ اس وقت..؟ تم تو اسلام آباد میں تھے .." آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے اسے گلے سے لگایا.. "ہاں وہیں تھا ،لیکن فرزام نے بتایا تو آنا پڑا ۔۔۔۔علی کا تعلق سائبر کرائم برانچ سے تھا ۔۔۔ "تم نے جس ویب سائٹ کا نام بتایا تھا اس کو کری ایٹ کرنے والا رچرڈ جانسن ہے ۔۔۔۔" علی نے اسے رچرڈ کے بارے میں کافی کچھ کلئیر کیا ۔۔۔ "شیردل ! میں نے رچرڈ کے بارے میں ساری معلومات لیں ہیں ۔۔۔وہ کبھی پاکستان میں ہوتا ہے ،اور کبھی امریکہ ۔۔۔ مختلف کالے دھندوں میں اسکا ہاتھ پایا گیا ہے ۔مگر کبھی بھی کوئی ثبوت اسکے خلاف نہیں ملا ۔۔۔۔ کافی چالاک ہے وہ اس کام کا ماہر کھلاڑی ۔۔۔ "تمہیں اس ویڈیو کو اس سے حاصل کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا " فرزام نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔۔۔ "تم پریشان مت ہو میں سب سنبھال لوں گا.خودی." وہ ہلکے پھلکے انداز میں بولا، انداز ٹالنے والا تھا.. "ہاں جیمس بانڈ جو ٹھہرے.." فرزام منہ بنا کر بولا.. "اسے کیا ہوا ہے، یہ کیوں منہ پھلائے بیٹھا ہے..؟" علی نے حیرانی سے پہلے فرزام کو پھر اسے دیکھ کر کہا۔۔۔ ",اس کی بیوی نے اسے گھر سے نکال دیا ۔۔۔اس کا غصہ مجھ پہ نکال رہا ہے "شیردل نے مسکرا کر کہا ۔۔۔ تو فرزام نے اسے گھور کر دیکھا ۔۔۔۔ "میں نے اسے بتایا بھی ہے کہ وہ رچرڈ کا گینگ بہت خطرناک ہے ۔اس کی جان کو خطرہ ہے۔۔۔۔مگر شیردل صاحب کو اکیلے ہی ہیرو بننے کا شوق ہوا ہے ۔۔۔۔میری مدد لینے کو تیار نہیں ۔۔۔۔فرزام ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولا ۔۔۔ علی ان دونوں کو دیکھ کر سنجیدہ ہوا ۔۔۔ شیردل واقعی فزام ٹھیک کہہ رہا ہے ۔۔۔تمہیں اسکی مدد لینی چاہیے ۔۔۔۔ "اس نے جتنی مدد کی ۔۔۔اتنا ہی کافی ہے ۔میں اپنی وجہ سے اپنے دوست کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا ۔۔۔اگر فرزام کو میری وجہ سے کچھ ہوا تو میں زندگی بھر خود کو معاف نہیں کر پاؤں گا ۔۔۔۔اگر مجھے ضرورت محسوس ہوئی تو تم دونوں کو کال کروں گا ۔۔۔تھینکس تم دونوں کا ۔۔۔۔ "اگر اب تھینکس کہا تو ایک گھونسہ ماریں گے تیرے منہ پہ۔ ۔۔۔علی اور فرزام دونوں نے ایک ہی وقت میں پنچ بنا کر شیردل کے منہ کی طرف کرتے ہوئے کہا تو وہ تینوں بیک وقت ہنس دئیے ۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 "کس نے ہیک کی ہماری ویب سائٹ ؟؟؟." لیپ ٹاپ پہ آج اپنی ویب سائٹ کو نا پا کر وہ غصے سے دہاڑا تھا.. اور ایک ہاتھ مار کر ایپل کا لیپ ٹاپ زمین بوس کردیا ۔۔۔ "جانتے بھی ہو اس ویب سائٹ سے کتنا کماتے تھے ہم ؟؟؟ "تم جیسے کتوں کے آگے اسی کے پیسے کا گوشت ڈالتا تھا میں ۔۔۔۔ "اور تم ۔۔۔۔۔(گالی )، ایک کام بھی تم (گالی ) سے ڈھنگ سے نہیں ہوتا، ایک ہیکر کا پتہ نہیں لگا پائے اور وہاں وہ آریان شیر اس لڑکی سے عشق معشوقیاں لڑا رہا ہے ، مجال ہے اس لڑکی کے ہوتے اسے کسی کام کا ہوش ہو ۔۔۔۔ سارا کام چوپٹ ہورہا ہے صرف اور صرف تم لوگوں کی کاہلی کی وجہ سے.." قہرآلود نظروں سے اس نے ایک نظر اپنے ان آدمیوں کو دیکھا جو پرسنالٹی سے غنڈے کم دھرتی کا بوجھ زیادہ لگ رہے تھے.. "ہماری کیا غلطی ہے باس، ہم تو آپ کے غلام ہیں، آپ جیسا کہتے ہیں ویسا کرتے ہیں.." ایک آدمی نے ہمت کرکے منہ کھولا تو وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا اور جاندار لات اسکے سینے میں ماری .. "صرف ٹھونسنے کا کام تم لوگوں سے ڈھنگ سے ہوتا ہے، میرا آرو شیر ۔۔۔۔صحیح کہتا ہے، میں نے غنڈوں کی نہیں بے وقوف گدھوں کی فوج پال رکھی ہے جو ہر وقت کھانے کے ہی بارے میں سوچتے رہتے ہیں.." "اب ایسا بھی نہیں ہے باس، ہم کام بھی بہت کرتے ہیں.." "اچھا، کیا کام کیا ہے اب تک، کوئی ایک کام ایسا بتا دو جو میرے فائدے کے لئے کیا ہو.." "اس لڑکی پری کو ہم نے ہی خودکش بم دھماکے میں اڑانے کی کوشش کی تھی ۔تاکہ آریان شیر کا دھیان اس لڑکی سے ہٹ کر صرف کام پہ لگے ۔۔۔۔ لیکن وہ تو اسکے مرنے پہ مجنوں کی اولاد بن گیا ۔۔۔ مگر اس لڑکی کی قسمت اچھی تھی بچ گئی سالی ۔۔۔۔یہ سب ہم نے ہی کیا تھا آپ کے کہنے پہ ۔۔۔ آپ شاید بھول رہے ہیں باس.." "کہتے ہیں تو ایک بار پھر سے ٹپکانے کی کوشش کرتے ہیں سالی کو " "تو کیا تمہاری گولی سے وہ مر گی ۔۔۔۔؟؟،نکمے کہیں کے سارے کے سارے ۔۔۔۔ " اگر وہ اس دن مر جاتی تو آج آریان سنبھل کر صرف کام پہ توجہ کرتا ۔۔۔۔ اگر اب آریان کو پتہ چلا کہ یہ سب تم لوگوں کا کیا دھرا تھا تو وہ لوگوں کو اوپر پہنچانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائے گا ۔۔۔۔" "باس آپ آریان شیر کی اس لڑکی سے شادی کروا دو خود پھر دیکھنا وہ کتنا خوش ہوگا اور آپکا ہر کام کرے گا " اس کے دوسرے آدمی نے اسے مشورہ دیا ۔۔۔ "اگر تجھے ایسا لگا تھا تو مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا.." وہ اس کے منہ پر زوردار طمانچہ مار کر بولا ۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح آریان شیر کو شوٹ کر کے قصہ ہی ختم کر دے، کیونکہ آریان شیر اس کے لئے سب سے بڑی پریشانی تھا.. ہمیشہ باس آریان شیر کو زیادہ قابل سمجھتا تھا اس پہ فوقیت دیتا تھا ۔۔۔ "ارے باس میں بھی تو دماغ رکھتا ہوں ."وہ اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ "اچھا، اتنی سمجھداری والی بات تو کب سے کرنے لگا، "وہ گن کی نال پہ پھونک مار کر بولا ۔۔۔۔ "باس ابھی تک جتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا وہ کیا تھے، تیرے دشمن، نا ۔۔۔۔ آیا بڑا فلسفہ جھاڑنے والا، آخری الفاظ وہ دل میں بولا ۔۔۔ "ایک سیاستدان کو مارنے کی سپاری ملی ہے یہ کام تجھ سے تو کروانے سے رہا " رچرڈ اس کو گھور کر اسے دیکھتاہوا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا.. "کیوں غصہ کرتے ہیں باس، جس طرح باقیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اسی طرح اس سیاستدان کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیں گے نا، ٹینشن کیوں لیتے ہیں، سب آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہوگا.." "تم سے نہیں ہوگا یہ کام آریان شیر ہی کرے گا میرے لیے " رچرڈ نے فیصلہ کن انداز میں کہا ۔۔۔۔ تو سامنے کھڑا فیاض جو کب سے اپنی جگہ بنانے کے لیے اسکی چاپلوسیاں کر رہا تھا دانت پیس کر رہ گیا ۔۔۔۔ رچرڈ باس کے وہاں سے اٹھ کر جاتے ہی فیاض نے کرسی کو زوردار ٹھوکر ماری۔۔۔کرسی الٹ کر دور جاگری ۔۔۔۔ دوسرے آدمی نے اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی.. "مرضی کے مطابق، ہاں مرضی کے مطابق ہی ہونا چاہئے اب سب کچھ، اور اس بار میں خود میدان میں اتروں گا اور اس بار جیت میرے یعنی فیاض کے مقدر میں ہوگی اس آریان شیر کے نہیں ۔۔۔۔آج اس کو میرا سامنا کروں گا، بہت شاطر سمجھتا ہے نا خود کو، دیکھتے ہیں میرے سامنے کیسے اس کی چالاکی چلتی ہے.." اندر ہی اندر وہ کسی زبردست پلان کو ترتیب دیتے ہوئے شاطرانہ انداز میں بولا، آنکھوں میں مخصوص درندگی تھی.. 🌙🌙🌙🌙 رمشاء بہت خوش تھی وہ شیردل کے بارے میں سوچ سوچ کے ہی گلنار ہورہی تھی۔۔ جبکہ شیرذمان اور ہیر ،دونوں رمشاء کو خوش دیکھ کے خوش تھے۔۔ ہیر نے پیار بھری نظروں سے رمشاء کو دیکھا جو دھیرے دھیرے ان کے بیٹے کی زندگی بنتی جارہی تھی۔۔ "مما آج ڈنر میں میں بناؤں ؟" رمشاء نے دھیمے لہجے میں ہیر سے کہا ۔۔۔ "بالکل کیوں نہیں بیٹا اگر تمہارا دل ہے تو ضرور بناؤ ہم بھی تو دیکھیں ہماری بہو کم بیٹی کیسا کھانا بناتی ہے۔۔ ہیر نے محبت سے رمشاء کا گال چھو کے کہا۔۔ "چلو شکر ہے کچھ اچھا کھانے کو ملے گا "شیر زمان نے مسکرا کر کہا تو اسکے ڈمپل ظاہر ہوئے ۔۔۔۔ "کیا میں نے کبھی آپ کو اچھا کھانا بنا کر نہیں کھلایا ؟" ہیر منہ پھلا کر خفگی بھرے انداز میں دیکھتے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی ۔۔۔ "میری لٹل وائفی کے ہاتھ میں تو جادو ہے " شیرذمان نے اسکے روٹھے ہوئے انداز کو دیکھ کر کہا ۔۔۔ "رہنے دیں ۔۔۔پہلی بار زبان سے جو بھی نکلتا ہے وہ سچ ہوتا ہے ۔۔۔۔ ان دونوں کی ہلکی پھلکی نوک جھوک جاری تھی ۔۔۔۔ "مما کیا بناؤں ڈنر میں ؟" رمشاء نے صلح جو انداز میں کہا ۔۔۔تاکہ انکی بات زیادہ بڑھے نہیں ۔۔۔ "بیٹا جو مرضی بنا لو "ہیر نے اسے پیار سے کہا تو ۔۔۔ "جی ٹھیک مما " رمشاء خوش ہوکر بولتے ہوئے کچن کی طرف چل دی۔۔ کچن میں آکر اسنے سامان چیک کیا جو جو منگوانا تھا اسکی لسٹ بنا کر اسنے ہیلپر کو دی سامان لانے کیلئے پھر خود باقی کام کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔ کچھ گھنٹوں کی مسلسل محنت کے بعد رمشاء نے بریانی کے ساتھ شامی کباب بنائے ،سالن میں نرگسی کوفتے، چائنیز رائس ،کے ساتھ منچورین بھی بنالیا ۔۔۔ میٹھے میں اسنے فروٹ ٹرائفل بنایا اور سلاد رائتہ بھی تیار کرکے وہ وہ کاؤنٹر ٹیبل پر رکھ دیا تھا ۔۔۔ اب وہ روٹیاں بناکر ہاٹ پاٹ میں رکھنے لگی ۔۔۔۔ سب جب ڈائیننگ ٹیبل پر آئے تو کھانے کے لوازمات دیکھ کے تھوڑا حیران رہ گئے۔۔ "آج یہ دعوت کس سلسلے میں ؟ذخرف نے حیرانگی سے سب لوزامات دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔ شیردل جو ابھی واپس آیا تھا رمشاء کو اپنے مشترکہ کمرے کے میں نا پایا تو واپس الٹے قدموں نیچے آیا ۔۔۔ اور ارد گرد نگاہیں دوڑائیں اسے ڈھونڈھنے کے لیے ۔ "بھائی آپکی نظروں کو جسکی تلاش ہے وہ کچن میں ملیں گی ...زخرف کا اسے دیکھ شرارتی موڈ آن ہو چکا تھا۔۔۔ "میں ابھی پانی پی کر آیا " وہ ہیر اور شیر زمان سے نظریں چرائے سادہ انداز میں کہتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔ وہ پانی پینے کے بہانے کچن میں گیا جہاں رمشاء جگ میں پانی بھر کر ٹرے میں رکھ رہی تھی اب گلاس بھی رکھنے لگی۔ شیردل نے اسکے ٹرے میں سے جب اٹھا کر ایک گلاس میں پانی ڈال کے پینے لگا جبکہ نظریں رمشاء پر مرکوز تھیں۔۔ وہ سر جھکائے کھڑی تھی مگر شیردل کی نظروں کا ارتکاز خود پہ بخوبی محسوس کر رہی تھی۔ اسکے پسندیدہ ڈارک بلیو اور یلو امتزاج کے لانگ فراک اور چوڑی دار پاجامہ میں ملبوس وہ تھکی ہوئی لگی ۔۔ اسکی پیشانی پہ پسینے کی بوندیں نمایاں تھیں ،سفید گال کچن میں کام کرنے سے حرارت کی وجہ سے سرخی مائل دکھائی دے رہے تھے۔۔۔ شیردل کا دل کیا کے ہاتھ بڑھا اسکی عرق آلود پیشانی کو صاف کرے۔۔۔مگر کچن میں ملازمین کی موجودگی دیکھ کر خاموش رہا ۔۔۔ پھر اسکے ساتھ چلتے ہوئے باہر آیا ۔۔۔۔ "آؤ شیر دل ہمارے ساتھ کھانا کھالو ۔۔۔۔ہماری بہو نے پہلی بار کھانا بنایا ہے "ہیر نے محبت بھرے انداز میں کہا ۔۔۔ ",نہیں مام ابھی بھوک نہیں " سب لوگوں نے کھانا شروع کیا تو سبھی گھر والے کھانے کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے سبھی کھانے ایک سے بڑھ کر ایک ذائقے دار تھے "مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے۔۔ شیردل نے بات کا آغاز کیا تو سبھی اسکی طرف متوجہ ہوگئے بس رمشاء نے اسے نہیں دیکھا۔۔کیونکہ وہ شیردل کے یہاں بیٹھ کر کھانا نا کھانے کی وجہ سے ناراض ہوگئی تھی ۔۔۔۔ "ہمممم بتاؤ ۔۔ شیرذمان نے اسے بولنے کا کہا۔۔ "میں ایک ہفتے کیلئے آؤٹ آف کنٹری جا رہا ہوں مجھے کام ہے۔ "بھائی آپ کہیں رمشاء کو ہنی مون پہ تو نہیں لے کر جارہے ؟؟؟زخرف چہک کر بولی ۔۔ "نہیں ۔۔۔میں وہاں کام سے جارہا ہوں گھومنے نہیں۔۔۔ اور ویسے بھی کچھ پتا نہیں مجھے وہاں کچھ زیادہ دن بھی لگ سکتے ہیں۔ شیردل نے بات کرتے ہوئے کن آنکھیوں سے رمشاء کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک سایہ سا آکر گزر گیا تھا۔۔ جو چہرا اسے کھانا بناتے وقت اتنی تھکن کے باوجود بھی کھلا ہوا لگ رہا تھا وہ ایک دم مرجھا گیا تھا۔۔ شیردل کو اسکے محسوسات کا احساس ہوا ۔۔۔مگر وہ سب کے سامنے اسکی چارہ جوئی نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔ "شیردل ایسے جانا مناسب نہیں اپنی نئی نویلی دلہن کو اکیلے چھوڑ کر ۔۔۔۔ ہیر نے رمشاء کا بجھا چہرہ دیکھ کر شیردل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ "مام شادی کو ایک ماہ ہوگیا ہے ۔۔۔اب اتنی بھی نئی شادی نہیں ۔۔۔ میرا جانا ضروری ہے۔۔واپس آکر ہنی مون ٹرپ پلان کریں گے ۔۔۔سو ڈونٹ وری ۔۔۔ وہ کہتے ہوئے اٹھ کر روم میں چلا گیا ۔۔۔ اسے پتہ تھا وہ جاننے کے لیے ضرور کمرے میں اسکے پیچھے آئے گی کہ وہ کہاں جا رہا ہے ۔۔۔اسی لیے مطمئن تھا ۔۔۔۔ اس ایک ماہ میں وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے تھے کہ بنا کہے ایک دوسرے کے دل کی بات سمجھ لیتے تھے ۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 "ہم گھر واپس جا رہے ہیں ہانیہ .. " "امید ہے تم خاموش رہو گی ،جو ہوا اسے بھول جاؤ ،نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں ،" ہانیہ اس فارم ہاؤس میں سے نکل کر اسکی تقلید میں باہر آئی ۔۔اورسر اٹھاکر تاروں بھرے سیاہ آسمان کو دیکھا پھر چاروں طرف پھیلی ویرانی میں نظریں گاڑدیں.. گاڑی کے داہنے سمت دیکھنے پر دور دور ویرانی تھی جبکہ بائیں جانب تھوڑے فاصلے پر ایک بڑی سی فیکٹری نما بلڈنگ کھڑی دکھائی دے رہی تھی جو روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی.. یہ فیکٹری انڈر کنسٹرکشن تھی جس وجہ سے اکا دکا مزدور اندر باہر کرتے ہوئے نظر آرہے تھے.. کچھ مزدور اور ایمپلائز اپنی ڈیوٹی ختم کرکےگھر جانے کی تیاری کر رہے تھے.. اس نے اپنے ساتھ کھڑے اعیان کے موبائل کی چکمتی ہوئی سکرین پہ نظر ڈالی جہاں رات کے نو بج رہے تھے ..یہ پہلی مرتبہ تھا جب وہ گھر سے اتنا عرصہ باہر رہی،،، وہ جس کے رحم و کرم پر یہاں تھی ..وہ آج اس پہ ترس کھاتے ہوئے واپس لے جا رہا تھا ۔۔۔۔ کافی دیر سے بجتے فون کو اس نے جھنجھلا کر دیکھا، جنت کا فون تھا، اسکرین پر دکھتے سبز رنگ کے دائرے کو انگلی سے اوپر کی طرف کھسکایا اور موبائل کان سے لگا لیا.. "اعیان تم ابھی تک آئے نہیں ۔میں کب سے تم دونوں کا انتظار کررہی ہوں ،تم نے تو کہا تھا کہ آج تمہاری واپسی ہے " جنت کی جھنجھلائی ہوئی پریشان کن آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی . "مام مجھے معاف کر دینا ۔۔۔ "آئی لو یو سو مچ ", وہ دل میں بولا ۔۔۔ نجانے کیوں اس نے وہ الفاظ دل میں ادا کیے ۔۔۔۔شاید اسکے دل کو کسی انہونی کا احساس ہوچکا تھا ۔۔۔ "اب کچھ بولوگے بھی اعیان ..؟" دوسری طرف سے جنت نے ٹوکا.. "مام ..میں بس آرہا ہوں " "اعیان جلدی آجاؤ نجانے کیوں صبح سے میرا دل پریشان ہے ، ٹائم دیکھا کتنا زیادہ ہو گیا ہے، مجھے تمہارے ساتھ ہانیہ کی بھی فکر ہے جلدی آو .."اپنا اور اسکا خیال رکھنا وہ تمہاری ذمہ داری ہے بیٹا .." انہوں نے تاکید کی "جی مام !....." فون رکھ کر جب وہ گاڑی کی طرف مڑا تو ہانیہ کو گاڑی کے ساتھ لگے کھڑا پایا .. "مجھے جتنی گالیاں دینے کا دل کر رہا ہے اچھی طرح دے لو آج ،یہیں سب ختم کر کہ جانا گھر اپنے دل سے سارے گلے شکوے دور کر دو .." گاڑی کا دروازہ اس کے لیے کھولا تو ہانیہ خاموشی سے اندر بیٹھ گئی ۔۔۔ "چلق گاڑی میں بیٹھ کر، باقی باتیں راستے میں کرتے ہیں.." ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ اندر بیٹھ گیا ۔۔۔ اس کی کہی گئی بات ہانیہ کےذہن میں گونج رہی تھی .. اعیان نے گاڑی سٹارٹ کی اور زن سے آگے بڑھا دی .. "ہانیہ تم میرے ساتھ نئی شروعات کرو گی نا .." گاڑی میں پھیلی خاموشی کو اعیان نے ہی توڑا کیونکہ ہانیہ کے لبوں پہ تو قفل لگ چکے تھے ۔۔.. "مجھ سے نہیں جی جائے گی یہ دوغلی زندگی ،میرے دل میں تمہارے لیے کچھ نہیں بچا اعیان " سوچ سوچ کر دھیمے انداز میں بولتے ہوئے ڈرائیونگ کرتے اعیان کو دیکھا جو ونڈ اسکرین پر نظریں جمائے بہت سکون سے اس کی بات سن رہا تھا، چہرے کی سرد مہری خلافِ معمول آج غائب تھی.. "میں شاید نہیں سمجھ سکتا لیکن کبھی کبھی سیچویشن ایسی ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے بیتی باتوں کو بھلا دینا پڑتا ہے ۔۔۔۔ایک بار سب بھلا کر تو دیکھو یقین جانو سب ٹھیک ہو جائے گا دھیمی آواز میں بولتا وہ اسے یقین دلا رہا تھا.. "مجھے تم پہ تمہاری کسی بھی بات پر بھی بھروسہ نہیں ہے.." اس کی بات پر اعیان نے ونڈ اسکرین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا جس نے بظاہر عام سے لہجے میں بہت بڑی بات کہہ دی تھی.. "گھر میں کسی کو مت بتانا وہ سب جو ہمارے درمیان ہوا اس میں ہم دونوں کی بیعزتی ہے .." ذہن میں کوئی بات ترتیب دیتا وہ پرسوچ انداز میں بولا.. "اور جو بیعزتی تم نے میری کی شادی کی پہلی رات ڈاکٹر کے پاس لے جاکر ..کیا میری بیعزتی نہیں ہوئی اسکے سامنے میں تو خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی" وہ تلخ انداز میں بولی . "تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہاری باتوں میں آکر وہ سب بھول جاؤں ۔۔۔کیا سب بھول جانا اتنا آسان ہے ..؟" اس کا لہجہ کڑوا تھا.. گاڑی میں دوبارہ سے وہی خاموشی چھا گئی جو ان دونوں کے بیچ ہمیشہ ہوتی تھی، اس نے گردن موڑ کر اعیان کو دیکھا جو ہونٹ بھینچے ونڈ اسکرین پر نظریں جمائے ڈرائیونگ کر رہا تھا, ہمیشہ کی طرح وائٹ شرٹ اورسیاہ پینٹ میں ملبوس، آستین کہنیوں تک چڑھائے، کھڑکی سے آتی ہوا سے پیچھے کی طرف سیٹ کئے گئے بال اب بکھر کر پیشانی اور آنکھوں پر گرے ہوئے تھے، گلابی ہونٹ اس بات کی گواہی تھے کہ وہ کسی بھی طرح کے نشے کا عادی نہیں ہے.. "بتاؤ تمہیں اپنے کیے کا زرا بھی پچھتاؤا نہیں ..؟" اس کے سوال پر اعیان نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر دوبارہ نظریں اپنے سامنے گزرتے منظروں میں گاڑھ دیں.. "تمہیں کیا لگتا ہے .." اس کے مختصر جواب پر ہانیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا جو اس کی طرف متوجہ نہیں تھا.. "مجھے کیسے پتہ ہوگا ..؟" "میرے انداز و اطوار سے کیا لگتا تمہیں .." وہی سرد انداز جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھا.. "مجھے کوئی ابہام کا علم نہیں..؟" اس نے ہونٹ بھینچ کر خود کو مزید بولنے سے روکا.. وہ دونوں ہی اپنی اپنی سوچ میں کھوئے ہوئے تھے اس بات سے بے خبر کہ ایک گاڑی کافی دیر سے ان کی گاڑی کے پیچھے ہے.. "آئی ایم سوری ہانیہ.." اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتا پیچھے موجود گاڑی نے ان کی گاڑی کو ایک زوردار ٹکر دی جس سے ہانیہ کا سر ڈیش بورڈ سے جا ٹکرایا.. "ہانیہ تم ٹھیک ہو..نا " وہ پریشانی سے اس کی طرف مڑا.. ایک نظر بیک ویو مرر سے پیچھے آتی گاڑی کو دیکھا پھر سر جھٹک کر گاڑی کی اسپیڈ تیز کر دی.. لیکن کچھ دور جاکر اسے احساس ہوا کہ انہیں ٹریپ کر لیا گیا ہے کیونکہ ایک گاڑی ٹھیک ان کے سامنے بیچ روڈ پر ایسے کھڑی تھی کہ ان کے نکلنے کا راستہ بلاک ہو گیا تھا.. "یہ کون لوگ ہیں اعیان ..؟" ہانیہ نے ڈرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا جس کے ہونٹ سختی سے آپس میں پیوست تھے جبکہ چہرے پر پریشانی کی جھلک نمایاں تھی . "میں نہیں جانتا ہوں یہ کون لوگ ہیں.." غصے سے اس کے ہاتھ کی رگیں تن گئی تھیں..کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو انہیں یوں روک رہے تھے ۔۔۔ " باہر نکل آؤ، تم پوری طرح سے ہمارے جال میں پھنس چکے ہو.." ایک کرخت آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی جو سامنے والی گاڑی سے آرہی تھی.. "یہ آپ کو جانتے ہیں.." اس نے حیرانی سے اسے دیکھا.. "مجھے نہیں پتہ .." اس کی نظریں سامنے کھڑی گاڑی پر جمی ہوئی تھیں.. "اب ہم کیا کریں گے؟؟.." وہ ڈرتے ہوئے بولی.. "تم انکی بات سن رہی ہو نا کہ وہ کیا چاہتے ہیں ہمیں ویسا ہی کرنا پڑے گا کیونکہ فی الحال ہم نہتے ہیں .." ہانیہ نے فق نگاہوں سے اسے دیکھا.. "تم پاگل تو نہیں ہو گئے، ہم غنڈوں کی بات کیوں مان کر گاڑی سے باہر نکلیں ؟.." "باہر نکل آؤ دونوں .." دوبارہ وہی آواز سنائی دی.. وہ دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ اس نے جھپٹ کر اعیان کو بازو سے پکڑ لیا.. "نہیں تم باہر نہیں جاؤ ، وہ غنڈے ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں..." وہ ڈرتے ڈرتے بولی.. جیسا بھی تھا وہ اس کا شوہر تھا ۔۔۔جسے فی الوقت وہ ماننے سے انکاری تھی ۔۔۔شوہر کے علاؤہ وہ اس کا کزن بھی تھا ۔بچپن ان دونوں نے ساتھ گزارا تھا ،شوہر کی محبت دل میں نا رہی ہو مگر کزن کی حیثیت سے انسیت تو تھی نا ۔۔۔وہ کیسے اسے خود موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ سکتی تھی ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اعیان اسے کچھ کہتا کسی شخص نے دوسری طرف سے گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے بےدردی سے پکڑ کر باہر کھینچا.. "چل ادھر.." وہ ایک بدصورت اور سیاہ سا آدمی تھا جو اندھیرے کی وجہ سے اور بھی زیادہ سیاہ لگ رہا تھا.. "اے! چھوڑ..اسے " اعیان غصے سے اس کی طرف بڑھنے ہی لگا تھا کہ تین آدمی اسے مضبوطی سے پکڑ کر واپس گاڑی کی طرف لے جانے لگے.. "چھوڑو مجھے.. اعیان !!!!!!.." روتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ اس مضبوط آدمی کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگی.. "میں کہہ رہا ہوں میری بیوی ہے وہ ۔۔۔ چھوڑ دو اسے ۔۔۔تم جو کہوگے میں وہ دینے کو تیار ہوں.." ".. کیا ہوا ساری اکڑ باہر نکل گئی کیا..؟؟؟؟ چل پیسے نکال سارے " وہ آدمی کینہ توز نظروں سے اعیان کو گھورتا ہوا بالکل اس کے سامنے جا کھڑا ہوا.. "لڑکی کو گاڑی میں ڈال آج رات رنگین کریں گے .." اپنے لیڈر کا حکم سن کر وہ آدمی جس نے ہانیہ کو پکڑ رکھا تھا اسے کھینچتا ہوا گاڑی کی طرف لے جانے لگا.. "اعیان .. مجھے بچا لو ۔۔۔۔ "نہیں پلیز.. مجھے جانے دو.. چھوڑو میرا ہاتھ.." ہانیہ ،،،اعیان سے کہتی ہوئی احتجاج کرتی چیخے جا رہی تھی.. "اسے ہاتھ بھی لگایا نا تو تم سب کی جان لے لوں گا .." اتنا کہہ کر اعیان نے پوری قوت سے اپنا دایاں پاؤں اس کے پیٹ میں مار دیا, حملہ اتنا اچانک ہوا تھا کہ اس آدمی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا اور وہ چھٹک کر دور جا گرا.. وقت ضائع کئے بنا اعیان نے اپنے داہنے طرف موجود بندے کے پیٹ میں زوردار کوہنی مار کر اپنا بازو اس سے آزاد کرایا اور جھک کر پاس پڑا ڈنڈا پھرتی سے اٹھا لیا.. اب وہ تھا اور اس کے ہاتھ میں موجود ڈنڈا، جو بھی اس کے راستے میں آتا اسے توڑ کر رکھ دیتا.. اتنے میں زمین پر گرے ہوئے ان کے لیڈر نے اپنے پینٹ کی جیب سے گن نکال کر اعیان کا نشانہ لیا اور شوٹ کر دیا.. "اعیان .!"ہانیہ کی دلخراش چیخ پوری فضا میں گونج اٹھی.. تیزی سے لیڈر کے چمچوں کو مارتے ہوئے اعیان کا ہاتھ لمحے بھر کو رکا، پھر وہ لڑکھڑایا، ڈنڈا چھوٹ کر زمین پر گر گیا، اس نے سر جھکا کر اپنے آپ کو دیکھا شرٹ پر پھیلتا ہوا خون جو تیزی سے بہتا ہوا اب سینے سے نیچے کی طرف آرہا تھا.. " اب بول، کس نے کس کی جان لی ؟؟؟.." وہ خباثت سے ہنسا۔۔۔اور تمسخرانہ انداذ سے بولا ۔۔۔ اعیان نے نظروں کا زاویہ بدل کر کچھ فاصلے پر موجود کھڑی ہوئی ہانیہ کو دیکھا جو آنسوؤں سے تر بتر چہرہ لئے ساکت نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی، اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اس کا سارا وجود بھی ساکت و جامد تھا..اس نے لمحے بھر کو آنکھیں بند کیں.. "ہانیہ تمہاری ذمہ داری ہے اعیان .." کچھ دیر پہلے بولا گیا جنت کا جملہ اس کے ذہن میں گونجا، اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں.. "اب کیسے بچائے گا تو اپنی بیوی کو.." خباثت سے کہہ کر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا.. اعیان نے جبڑا بھینچ کر غصے سے اس کے گن والے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں مضبوطی سے لے کر جھٹکا دیا جس سے گن پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو گئی، پھر ایک زوردار دھکے سے اسے زمین پر گرا کر اس کے ہاتھ سے گن جھپٹ لی، پھر اپنا بایاں گھٹنا اس کی پسلی کی ہڈی میں اتنی زور سے مارا کہ کراہ کر زمین پر دہرا ہونے لگا.. "چھوڑ دو اسے ورنہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا.." ہاتھ میں پکڑی بندوق سے ایک فائر کیا جو ہانیہ کو پکڑے آدمی کے پیٹ میں لگا.. وہ کراہتا ہوا زمین پر گر گیا اور ہانیہ اپنا ہاتھ آزاد ہونے پر تیزی سے اعیان کی طرف بھاگی..جو خون سے لت پت ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔ "تم .. آپ ٹھیک ہو نا.." خون سے داغدار ہوتی اس کی شرٹ کو اس نے سہم کر دیکھا.. "ہانیہ مجھے معاف کر دینا پلیز ." .. "ہانیہ م۔۔۔میں س۔۔۔سچے د۔۔۔د ل سے تم سے م۔۔۔م ۔۔عافی مانگت۔۔۔تا ہو۔۔۔ں۔۔۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بمشکل بولا ۔۔۔۔ "مجھے معاف ۔۔۔۔ ",اعیان اٹھو ۔۔۔ہم ہسپتال چلتے ہیں ۔۔۔تم ٹھیک ہوجاو گے ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا تمہیں ۔۔۔۔ وہ مدد کے لیے کبھی ادھر ادھر دیکھتی تو کبھی زخمی اعیان کو ۔۔۔۔ وہ سب غنڈے ابدی نیند سو چکے تھے ۔۔۔۔ اعیان زندگی اور موت کی کشمکش میں جھول رہا تھا ۔۔۔۔ "اعیان اٹھو "وہ اسکی بند ہوتی آنکھوں کو سیکھ کر اس کی شرٹ کو جھنجھوڑتی ہوئی چلائی ۔۔۔۔ "مجھے معاف !!!! اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ "میں نے تمہیں معاف کیا اعیان ۔۔۔۔۔وہ کرب زدہ آواز میں روتے ہوئے تڑپ کر بولی۔۔۔۔ اعیان کی آنکھ سے پچھتاوے کا آنسو نکل کر اسکے گال پہ پھسل گیا ۔۔۔۔ "لاالہ الااللہ محمد رسول اللّٰہ" یہ آخری کلمات تھے جو اسکے پھڑپھڑاتے ہوئے لبوں سے نکلے ۔۔۔۔ ساتھ ہی اسکی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوگئیں ۔۔۔۔ ہانیہ اس کے جامد وجود پہ سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔۔۔ وقت وہیں تھم سا گیا ۔۔۔۔ ہانیہ کے سارے گلے شکوے اعیان کی زندگی کے ختم ہوتے ساتھ ہی ختم ہوگئے ۔۔۔ رات کی تاریکی میں وہ اس سنسان جگہ پر دھاڑیں مارتے ہوئے رو رہی تھی ۔۔۔۔ اس ایک ماہ میں اس نے کیا کیا نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اسکی زندگی شروع ہونے سے پہلے آج ختم ہوگئی تھی ۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙 اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازئیے گا 🥰😍
❤️ 😢 👍 🙏 🌺 🖐️ 😂 😭 🫀 🫃 40

Comments