Novels Ki Duniya📚🌐🖤
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:56 AM
#novel:Chand _Asmano Sy _Lapata. #episode:28 #hina_ Asad. Don't _copy_paste _without my permission۔ "سر دیکھیں یہاں " کمپیوٹر آپریٹر نے امرام شیر کی توجہ سکرین پہ دلائی ۔جو اب روشن ہوئے فارم ہاؤس کے باہر کا منظر بخوبی دکھا رہی تھی ۔۔۔ امرام شیر نے خون آشام نظروں سے وہ مناظر دیکھے پھر کیپ اٹھا کر بنا ایک لمحہ بھی ضائع کیے باہر کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙 آریان شیر نے پہ در پہ اس پہ وار کیے ۔۔۔۔ وہ اس افتاد کے لیے تیار نہیں تھا ۔۔۔۔لہرا کر فرش پہ گرا ۔۔۔ کبھی وہ اس زخمی شخص کو دیکھتا تو کبھی سامنے موجود شخص کو ان دونوں میں رتی برابر بھی فرق نہیں تھا ۔۔۔ فیاض کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں ۔۔۔۔ اگر اس نے کچھ دیر پہلے آریان شیر کو مارا تھا تو یہ کون تھا جو اسے بری طرح پیٹ رہا تھا ۔۔۔۔ "ک..ک۔۔.کون ہو تم؟" وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا۔۔۔ "جو بھی ہوں تمہیں اس سے مطلب نہیں ہونا چاہیے۔تمہیں اگر اپنی جان کی پرواہ ہے ،تو اپنے ساتھیوں سے کہو ہتھیار پھینک دیں۔"فیاض کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ آریان شیر کا ہم شکل کہاں سے ٹپک پڑا۔جو اس فارم ہاؤس تک پہنچ گیا تھا ۔اور اسے ہتھیار ڈالنے کا کہہ رہا تھا۔ "زیادہ مت سوچو تمہاری اپنی جان اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے۔میرا نشانہ تم پر ہے۔اگر کہو تو یقین دلا دوں؟"اس کے لہجے میں اعتماد اور درشتگی تھی۔ "مم.....میں کیسے یقین کر لوں؟"وہ ہکلایا۔ "ایسے؟"آریان شیر نے ہولڈر سے گن نکال کر ٹریگر دبا دیا اور گولی اڑتی ہوئی فیاض کے دائیں بازو میں پیوست ہو گئی۔وہ درد کی شدت سے بلبلا اٹھا ۔۔ آریان کی گن میں چھ گولیاں تھیں جبکہ اس وقت فیاض کے تقریبا تیس چمچے اسکے پیچھے تھے جو آریان شیر پہ گن تانے کھڑے تھے ۔۔۔ "سب ہتھیار پھینک دو۔ورنہ اسے مارنے میں ایک لمحہ بھی بھی نہیں لگاؤں گا ۔"ان کے ہتھیار ڈالنے کی دیر تھی کہ آریان نے اپنی پسٹل اپنے پیچھے کھڑی پری کے ہاتھ میں دی ۔۔۔۔پری اسکی آنکھ کا اشارہ سمجھ چکی تھی ۔۔۔ اب پری فیاض پہ گن تانے کھڑی تھی ، آریان شیر ،اپنے چھوٹے بھائی زخمی شیردل کو اٹھا کر واپس باہر کھڑی کییب میں ڈال چکا تھا ۔۔۔۔اس ڈرائیور کو وہ شیردل کو ہاسپٹل لے جانے کا بول کر واپس آیا ۔۔۔جہاں پری فیاض پہ گن تانے کھڑی تھی۔۔۔۔ آریان شیر نے پری کو اپنے پیچھے کیا اور فیاض کے دل کے مقام پہ نشانہ لیا ۔۔۔ یہی وہ انسان تھا جس نے مساجد میں خود کش دھماکے کروائے ۔۔۔۔ جو اپنے کارندوں کے زریعے لڑکیوں کی نیوڈ ویڈیو بنوا کر رچرڈ کو اسکی ویب سائٹ کے لیے دیتا تھا ۔۔۔۔ دنیا کا ہر برا کام کرنے والے کو آج آریان شیر نے ابدی نیند سلا کر دھرتی سے گناہوں کا بوجھ کچھ ہلکا کر دیا تھا۔۔۔ فیاض کے آدمی اب بوکھلا گئے تھے۔اپنے بچاؤ کیلیے انہوں نے گرائے ہوئے ہتھیار واپس اٹھا لیے تھے۔۔۔ ان سب نے پری اور آریان شیر پہ گن تان لیں ۔۔۔ مگر آریان شیر کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی۔جب پری نے مردہ فیاض کے پاس پڑی رائفل اٹھا کر ان لوگوں پہ اندھا دھند فائرنگ کردی ۔۔۔۔ اس کہاں فائرنگ کرنی آتی تھی ۔۔۔۔وہ بنا دیکھے فائر کھول چکی تھی ۔۔۔۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ پورے فارم ہاؤس کے باہر خاموشی میں گونج رہی تھی۔ آریان نے پری کے ٹریگر دبانے والے انگلیوں پہ اپنی انگلیاں رکھیں ۔۔۔ پری نے مڑ کر آریان شیر کو دیکھا ۔۔۔۔جو بالکل اسکے قریب تھا دونوں کا چہرہ ایک دوسرے سے مس ہو رہا تھا ۔۔۔ آریان شیر کی نظریں اپنے شکار پہ تھیں ۔۔۔ جنہیں وہ چند سیکنڈز میں ڈھیر کر چکا تھا ۔۔۔۔ آریان نے دیوار کے پیچھے کھڑے ایک شخص کو گولی ماری وہ دیوار کے پیچھے ہو گیا۔۔۔۔۔ پری نے آریان شیر کو وہاں سے بھاگنے کے لیے کہا کیونکہ اب رائفل کا میگزین خالی ہونے والا تھا ۔۔۔۔ پری آگے بڑھی ہی تھی کہ دیوار کے پیچھے چھپے ہوئے شخص نے اس گولی چلائی۔۔۔ آریان شیر نے پیچھے مڑ کر اس پہ فائر کیا جو ٹھیک نشانے پہ لگا ۔۔۔۔ پری نے ڈر سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور اپنا چہرہ اس کے چوڑے سینے میں چھپا لیا تھا۔جب اسے سمجھ آئی کہ وہ مرنے سے بچ گئی ہے تو آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔آریان کا چہرہ اپنے قریب دیکھ کر اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔ آریان نے پری کی آنکھوں میں بے یقینی، حیرت، خوف، اور خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ یہ وہی تھا ، جس نے سب کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا۔وہ وہی تھا جس نے اس کی طرف آنے والے ہر دشمن کو گرا دیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر اسے اپنے بازوؤں میں لیے اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا تھا۔پری بھی اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ڈھیروں پیار کی چمک دیکھ رہی تھی۔اس کا چہرہ اس کے سینے کے قریب ہی تھا اور اس کے شاندار ملبوس کی خوشبو اس کی دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر رہی تھی۔لیکن وہ جلد ہی سنبھل گئی۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 آریان شیر پری کو اپنے ساتھ لیے ہاسپٹل کیںطرف جارہا تھا غصے سے اسکا جسم لرز رہا تھا سانسیں رک سی رہی تھیں بس کیسے بھی کرکے اسے اپنے بھائی کی زندگی چاہیے تھی۔شیردل میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔۔ تم بہت جلد ٹھیک۔ہو جاؤ گے ۔۔۔۔ میں تمہیں کچھ بھی نہیں ہونے ۔۔۔۔۔۔ دوں۔۔۔۔۔گا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ "شیرو وہ آپکا بھائی ؟ "بالکل آپ کے جیسا ہے ؟۔ "وہ میجر بھی ۔۔۔۔کیا ۔۔۔۔آپکا بھائی ہے ۔۔۔۔؟ پری کے زہن میں مختلف سوالات گردش کرنے لگے ۔۔۔جنہیں وہ زبان پہ لائی ۔۔۔ "ہاں وہ دونوں میرے بھائی ہیں " وہ دلگرفتگی سے بولا ۔۔۔ پتہ نہیں کس حال میں ہوگا میرا بھائی ۔۔۔۔۔۔!!! پری ۔۔۔۔۔۔میرے اس چہرے کی وجہ سے آج میری وجہ سے میرے بھائی کی جان ۔۔۔۔ میں وجہ ہوں اسکی اس حالت کا ۔۔۔۔ میں کبھی بھی اپنی وجہ سے کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ پھر بھی وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا ۔۔۔ آاااااااہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سر کو دونوں ہاتھوں سے جکڑے کرب زدہ آواز میں بولا۔۔۔ "کچھ نہیں ہوگا اسے ۔۔۔۔" وہ تسلی آمیز انداز میں بولی ۔۔ بادل زور سے گرجنے لگ گئے تھے تیز ہو آئیں چل رہیں تھیں ہر طرف جیسے طوفان سا اٹھ رہا تھا آریان شیر کے دل کی دنیا کی طرح۔۔۔۔۔ رچرڈ اب وقت آچکا ہے تمہاری موت کا ۔۔۔۔جو میرے ہاتھوں لکھی گئی ہے ۔۔۔۔ تمہیں تو میں چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔۔ چاہے قبر میں ہی کیوں نہ چلے جاؤ تم وہاں سے بھی کھینچ نکالوں گا میں موت سے بدتر سزا دوں گا تمہیں کہ خود اپنے منہ سے موت کی بھیک مانگو گے تم تباہ کردوں گا میں تمہیں ۔۔۔۔ تمہارا نام و نشان صفحہ ہستی سے نہ مٹا دیا تو میرا نام بھی آریان شیر نہیں ۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 آرمی کی چار گاڑیاں رچرڈ کے فارم ہاؤس کے سامنے مین سڑک پر رکی تھیں۔امرام شیر اپنے آرمی یونیفارم میں ملبوس بھاری بوٹوں سے قدم اٹھا کر چلتے ہوئے اپنے ماتحتوں کو ہدایات دے رہا تھا ۔ان کی کل تعداد پینتیس تھی۔جن میں آئی ایس آئی کے بندے پانچ تھے ،دس رینجر کے لوگ تھے۔باقی آرمی کے ۔۔۔امرام شیر کی ہدایت پر انہوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے تھے۔ فارم ہاوس سے باہر نکلنے والے دونوں راستوں کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ لوگ جو پارٹی اٹینڈ کرنے کے لیے اندر جا رہے تھے ۔۔۔۔حیرت سے رک کر انہیں دیکھ رہے تھے۔اور باہر گری لاشوں کو بھی ۔۔۔۔ آرمی نے انہیں اندر جانے سے روک دیا اور ایک طرف کھڑا کردیا۔۔۔۔ لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ۔۔۔۔ ایک آدمی جو بظاہر اپنی گاڑی میں بیٹھے واپس جا رہا تھا وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر رچرڈ کو کال کرنے لگا۔ "رچرڈ فوج یہاں پہنچ گئی ہے۔کسی بھی وقت اندر آسکتی ہے ۔آپ جلدی سے نکلنے کی کوشش کریں یہاں سے ۔"اس کا اتنا ہی کہنا تھا کہ رچرڈ ہڑبڑا کر اٹھا ۔۔۔۔۔وہاں موجود کچھ لگ شراب نوشی میں مشغول تھے اور کچھ لوگ ایک طرف بیٹھے جوا کھیل رہے تھے۔ "Oh basterd stop this nonsense.... اس نے ڈی جے کو لاؤڈ میوزک بند کرنے کا کہا ۔۔ میوزک اتنا تیز تھا کہ انہیں باہر کا کچھ بھی سنائی نہیں دیا ۔۔۔ ورنہ کچھ دیر پہلے چلنے والی گولیوں کی آوازیں سن کر وہ ضرور چوکنا ہوکر بھاگ سکتے تھے۔۔۔۔ "سب اٹھو جلدی......باہر فوج آ چکی ہے۔اپنے اپنے اسلحے پکڑو اور ان کا مقابلہ کرو۔.....جلدی کرو میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔"وہ حواس باختہ سا کہتا ایک کمرے کی جانب بھاگا ۔۔۔۔ پاکستانی فوج کا سن کر اس کے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔پاکستانی فوج کی دلیری سے وہ واقف تھا ۔وہ جلدی سے اٹھ کر باہر بھاگا۔جوا کھیلنے والے لوگ اب اسلحہ لے کر اوپر چلے گئے تھے۔وہ جلدی سے اپنا سامان پکڑ کر تہ خانے کی طرف آیا ۔۔۔ اسے اب گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔وہ خفیہ راستے سے سیڑھیوں کی طرف بھاگا ۔۔ایمرجنسی کے لیے اس نے باہر نکلنے کا خفیہ راستہ بنا رکھا تھا ۔دائیں طرف پہ دروازہ تھا جو فارم ہاؤس سے دور ایک خالی مکان میں کھلتا تھا ۔اس کے ساتھ ہی ایک دیوار تھی جس کے دوسری طرف ایک فیکٹری تھی۔وہ جلدی سے اس مکان کے دروازے سے نکل کر دیوار سے دوسری طرف فیکٹری میں کود گیا۔لوگ گولیوں کی وجہ سے ادھر ادھر چھپ گئے تھے۔وہ بھی بچتا بچاتا فیکٹری میں آ گیا اور وہاں کھڑکی سے اس نے پاکستانی فوج کے جوان دیکھے تھے۔وہ ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے۔اس کے پاس پسٹل تھی لیکن وہ یہاں سے کسی پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔کیونکہ پھر انہوں نے اس فیکٹری کو بھی گھیر لینا تھا۔اب وہ اکیلا تو کچھ نہیں کر سکتا تھا سوائے بھاگنے کے۔اس لیے وہ فیکٹری کے پچھلے دروازے سے نکلا ۔۔۔۔ دوسری طرف رینجرز نے اس فارم ہاؤس کو پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔۔ ۔ایک بھی فوجی زخمی نہیں ہوا تھا جبکہ رچرڈ کے تین آدمی ہلاک ہو گئے تھے۔۔ "رچرڈ کہاں ہے؟" امرام شیر نے رچرڈ کے ایک آدمی کو زوردار پنچ مار کے فرش پہ گرایا اور اسکی گردن پہ اپنا بھاری بوٹ رکھتے ہوئے اسکی سانسیں بند کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ "وہ ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔ "وہ ۔۔۔بھاگ ۔۔۔گیا ۔۔۔ہے۔"اس نے امرام شیر کو بوٹ اپنی گردن سے پیچھے ہٹانے کی سعی کرتے ہوئے بمشکل کہا ۔۔۔ "کہاں گیا ہے ؟ اس بار اس کا جبڑا اپنی مٹھی میں دبوچ کر غرایا ۔۔۔۔ "وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔ مگر وہ کچھ نہیں بولا تو ۔۔۔ امرام شیر نے ایک مکا اس کے منہ پر مارا تو وہ لہرا کر نیچے گرا۔باقی ارمی کے لوگ اندر جا کر مختلف کمرے چیک کرنے لگے تھے جنہیں امرام ہی لیڈ کر رہا تھا۔۔ "وہ شاید اپنے گھر بھاگ گیا ہے۔"اس نے دو تین مکے کھانے کے بعد جلدی سے کہا۔دوسرے لوگوں نے بھی ہر جگہ چیک کر لیا تھا لیکن یہاں کوئی اور نہیں تھا۔ "ڈیم اٹ۔"وہ جھنجھلا کر رہ گیا ۔۔۔۔ "پتہ بتاؤ اسکے گھر کا ؟" امرام شیر نے اسکا کالر دبوچ کر جھٹکا دیا ۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙 "آہ !!! بھاری لرزتی آنکھیں دھیرے سے کھولتے شیر دل نے بے ساختہ کراہ لی تھی اسے اپنا بازو اکڑا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ شدید درد محسوس ہو رہی تھی اس وقت اسے ۔۔۔ آہ ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیردل نے پوری آنکھیں کھولیں تو چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ کہاں ہوں۔۔۔۔۔ میرا بازو ۔۔۔ شیردل کو پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی مگر جیسے ہی حواس بحال ہوئے اسے آہستہ آہستہ سب یاد آنے لگا ۔۔۔ وہ آج رچرڈ سے ملکر اس سے وہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے قیمت پوچھنے آیا تھا تاکہ آرام سے یہ معاملہ نپٹا سکے ۔۔۔ مگر رچرڈ کے آدمی نے بنا اسکی کوئی بات سنے اس پہ فائر کردیا ۔۔۔ شیردل تو حیران رہ گیا بھلا بنا بات کیے اس سے کسی کی کیا دشمنی تھی جو یوں اسے مارنے کی کوشش کی گئی ۔۔۔ ابھی وہ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسے روم میں کوئی آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔۔شیردل کے بازو میں سے گولی نکال لی گئی تھی اسکی حالت اب پہلے سے بہتر تھی ۔اسے ہوش آچکا تھا ۔۔۔اسی لیے آریان شیر اسے ہاسپٹل سے اپنے ہوٹل میں لے آیا ۔۔۔۔ شیردل نے کمرے میں داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھا تو حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھتا ہی رہ گیا ۔۔۔۔ "آ۔۔۔۔ر۔۔یان لالہ آپ ؟؟؟ "آپ ۔۔۔ہی ہیں نا ۔۔۔۔؟" وہ اپنے اندر کی بے چینی کو کم کرنے کے لیے تصدیق کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔وہ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔ "لیٹے رہو ",وہ گھمبیر آواز میں بولا۔۔۔۔مگر ایک بار جیسے شیردل میں خواہش تھی اسکے سینے سے لگنے کی ویسے ہی خواہش آریان شیر کے سینے میں بھی ہلچل مچا رہی تھی ۔۔۔ آریان شیر نے آگے بڑھ کر اسکے بازو کو بچاتے ہوئے اسے سینے سے لگایا ۔۔۔۔ "اب کیسے ہو ؟" "میں ٹھیک ہوں "وہ گہرا سانس لیتے ہوئے بولا ۔۔۔ اسکے پیچھے پری کھڑی تھی ۔۔۔ شیردل اسے آریان شیر کے ساتھ دیکھ کر چونک گیا۔۔۔ "بھابھی ہے تمہاری ! آریان شیر نے اسکی سوالیہ نظروں کا ارتکاز دیکھ کر جوابا کہا ۔۔۔۔ "تم وہاں کیا کر رہے تھے ؟" آریان شیر نے شیردل سے فارم ہاؤس پہ آنے کی وجہ دریافت کی ۔۔۔۔ "پتہ بھی ہے وہ رچرڈ کتنا خطرناک ہے ،تم اکیلے اسکے غنڈوں سے مقابلہ کرنے نکلے تھے ۔۔۔۔؟ "نہیں لالہ میں مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔میں تو بس اس سے ملکر کچھ لے دے کر ایک ویڈیو ڈیلیٹ کروانا چاہتا تھا ۔۔۔ "کونسی ویڈیو ؟" اس نے ابرو اچکا کر سپاٹ انداز میں پوچھا ۔۔۔ "لالہ نیوڈ ویڈیو تھی اسکے پاس ۔۔۔یہ نہیں بتا سکتا کس کی تھی " وہ نظریں چرا کر بولا ۔۔۔ "تم بزنس میں ہو ،لین دین اور پیسوں کے زریعے لوگوں کو خرید کر اپنا کام کروانا جانتے ہو ۔۔۔اور یہاں بھی وہی فارمولا آزمانے آئے ۔۔۔۔مگر تمہیں پتہ نہیں رچرڈ کتنی ٹیڑھی چیز ہے ۔۔۔۔وہ لاتوں کا بھوت ہے باتوں سے نہیں مانتا " "بس بہت ہوا ۔۔۔۔آج اسکی زندگی کا آخری دن ہے میرے ہاتھوں " وہ جبڑے سختی سے بھینچ کر بولا ۔۔۔ اسکی پیشانی کی رگیں پھولیں ہوئی تھیں۔۔۔۔ "لالہ پر آپ کہاں چلے گئے تھے ۔۔۔اور کبھی لوٹ کر کیوں نہیں آئے ؟" شیردل اب اٹھ کر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔ آریان شیر نے گہرا سانس لیتے ہوئے اسے دیکھ کر بولنا شروع کیا ۔۔۔پری بھی پورے انہماک سے اسکی بات سننے لگی ۔۔۔ اسے بھی بہت دلچسپی تھی آریان شیر کے ماضی کی ۔۔۔۔کہ اسکے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنے دونوں بھائیوں اور گھر والوں سے بچھڑ گیا ۔۔۔۔ ",یہ اس دن کی بات ہے شیر دل جس دن ڈیڈ ہمیں اپنے فارم ہاؤس لے کر گئے تھے اور ہم تینوں بھائیوں کو گن سے نشانہ لگانے کی پریکٹس کروا رہے تھے ۔۔۔۔۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم سیلف ڈیفنس کرنا سیکھیں ۔۔۔۔ "ہممم ۔۔۔یاد آیا لالہ ۔۔۔۔ میرا نشانہ سب سے خراب تھا بلکہ لگا ہی نہیں ۔۔۔ امرام لالہ کا ٹارگٹ سے تھوڑا سا دور لگا ۔۔۔مگر لگ گیا ۔۔۔ لیکن آپکا نشانہ بالکل پرفیکٹ لگا ۔۔۔۔ "ہممم۔۔۔۔اسی دن رچرڈ بھی شکار کھیلنے اس فارم ہاؤس کے قریب آیا ہوا تھا اس نے کہیں ہمیں پریکٹس کرتے دیکھ لیا تھا ۔۔۔ میں سو رہا تھا ،کہ اچانک کسی کا بھاری ہاتھ میرے منہ پہ محسوس ہوا ۔۔۔میری سانسیں رکنے لگیں ۔۔۔ میں نے اپنے آپ کو اس سے چھڑوانے کے لیے بہت کوشش کی مگر ناکام رہا ۔۔۔ وہ میرا منہ بند کیے مجھے رات کے اندھیرے میں فارم سے لے گیا ۔۔۔۔ اسے لگتا تھا کہ میں اس کے دھندے میں اسکے بہت کام آسکتا ہوں ۔۔۔ میں نے اسکے بتائے کام کرنے سے انکار کیا تو اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ میرے گھر والوں کو اچھے سے جانتا ہے ،اگر میں نے اسکی بات نہیں مانی تو وہ میرے گھر والوں کو ختم کردے گا ۔۔۔۔ میں اس سے ڈرتا تو نہیں تھا مگر بات جب تم سب کی آئی تو خاموش رہ گیا ۔۔۔ اور اسکے کام سر جھکائے کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ مجھے اپنے دھندوں کے بارے میں سکھانے لگا ۔۔۔۔ ایک دن اس نے مجھے کسی برگیڈیئر آصف کو مارنے کے لیے بھیجا ۔۔۔۔ شاید اسے پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی ۔۔۔وہ چوکنا تھا ۔۔۔ میرے فائر کرنے سے پہلے ہی وہ مجھے پکڑ چکا تھا ۔۔۔ اس نے مجھے پکڑ کر میری گن چھین لی ۔۔۔۔ مجھ پہ ٹارچر کرنے کی بجائے ،مجھ سے پیار سے بات کی ۔۔۔ اتنے عرصے میں پہلی بار کسی نے مجھ سے پیار سے بات کی تھی ۔۔ورنہ رچرڈ تو مجھ سے کام کرواتا اور کھانے کو دوڑتا تھا چوبیس گھنٹے۔۔۔۔ "انہوں نے مجھے صحیح غلط کی پہچان کروائی ۔۔۔۔تب میری آنکھیں کھلیں ۔۔۔۔ میں واقعی ملکی دشمنوں کا ساتھ دے رہا تھا ۔رچرڈ کا حکم مان کر ۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ مجھ میں ہنر ہے اور اس ہنر کو ملک کی حفاظت کے لیے استعمال کرو ۔۔۔۔ انہوں نے مجھے اپنی گن دی اور میرا نشانہ دیکھنا چاہا ۔۔۔۔ انہوں نے ایک ٹارگٹ سیٹ کردیا ۔۔۔۔اگر میری اپنی گن ہوتی تو یہ ہدف نہایت آسان تھا مگر کسی دوسرے کی گن سے ہدف کو نشانہ بنانا نہایت مشکل تھا ۔تین سو گزکا فاصلہ ایک سنائپر کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے لیکن گن نشانہ بازی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔نشانہ لینے کے لیے جہاں ایک سنائپر کا مہارت یافتہ ہونا ضروری ہے ویسے ہی اس کی گن کا ماڈل کا جدید ہونا بھی ضروری ہے ۔ہمیں ہتھیار کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ گولیاں صحیح نشانے پر لگ سکیں ۔ ۔یقینا ایک اچھے نشانہ باز کے لیے ٹارگٹ کی پوزیشن کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔ مجھے اپنے آپ پر بھروسا تھا ۔میں نے ان کے سیٹ کیے گئے ٹارگٹ پہ نشانہ باندھا اور سانس روکتے ہوئے ٹریگر دبا دیا ۔گولی عین ٹارگٹ پہ لگی ۔۔۔۔ میرے لیے اس وقت سب سے اچھی بات یہ تھی۔ہوا نہیں چل رہی تھی ،ورنہ ہوا کارخ میرے نشانے پہ اثرانداز ہوسکتا تھا ۔۔۔میرے ہاتھ میں آرمی میں استعمال ہونے والی رائفل جی تھری تھی جس کی رینج تین سو میٹر تھی ۔اگر اسی جی تھری کے ساتھ ٹیلی سکوپ سائیٹ لگا دیں تو اس کی رینج چھ سو میٹر ہو جاتی ہے ۔میرا پرفیکٹ نشانہ لگانے پہ وہاں موجود آرمی آفیسرز کے لبوں سے تحسین آمیز آوازیں بلند ہوئیں ۔ ”شاباش !“برگیڈئیر آصف نے جذبات سے بوجھل آواز میں کہا۔ انہوں نے مجھے پاک آرمی میں۔بھرتی کرلیا ۔۔۔دورانِ ٹریننگ ہی میری نشانہ بازی کی صلاحیت کھل کر سامنے آ گئی تھی ۔یونٹ میں جانے کے بعد نشانہ بازی کے مقابلوں میری اس صلاحیت میں مزید نکھار پیدا ہوگیا اور پھر اسی صلاحیت کو دیکھ کرمجھے سنائپر کورس کے لیے جانا پڑا ۔ وہ کورس میں نے شاندار نمبروں سے پاس کیا اور اس کورس میں اچھی پوزیشن لینے کی وجہ سے مزید ٹریننگ کے لیے مجھے سپیشل سروس گروپ میں بھیج دیا گیا ۔وہاں بھی میرے نشانہ بازی کی صلاحیت نے دوسروں کو متاثر کیے رکھا ۔اور پھر اس کورس میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرنے بعد مجھے خصوصی سنائپر ٹیم کی زیر نگرانی تربیت دی جانے لگی ۔ اس کورس میں بھی میری کارکردگی پچھلے کورسوں کی طرح شاندار رہی اور مجھے اپنے اساتذہ کے ساتھ ہی پیشہ ور سنائپر بننے کا موقع مل گیا ۔اور پھر ایک دن مجھے اپنے پہلے مشن کے لے چنا گیا ۔۔۔۔ جس میں امریکہ کا وہی شخص رچرڈ تھا ۔جو اصل میں میرا ہی دشمن تھا جس نے مجھے میرے والدین سے دور کردیا تھا ۔پاک فوج کو بھی اسکی تلاش تھی ۔۔۔۔ جو پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا ۔۔۔اسکی یہاں پھیلیں ہوئیں جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ۔۔۔۔۔میں ایک مشن کے تحت اس گینگ کے سرغنہ رچرڈ کا رائیٹ ہینڈ بن گیا ۔۔۔ اسے بتایا کہ اس نے جس کام سے مجھے بھیجا تھا (ایک برگیڈئیر کو مارنے کے لیے )اس برگیڈیئر نے مجھے اتنے سال اپنی قید میں رکھا ۔اور جب کوئی ثبوت اسے میرے خلاف نہیں ملا تو میں واپس آگیا ۔۔۔ رچرڈ نے میری بُنی ہوئی کہانی پہ یقین کرلیا ۔۔۔۔اور مجھے واپس اپنے گینگ میں شامل کرلیا ۔۔۔میں آہستہ آہستہ اسکے سارے کالے دھندوں کو جاننے لگا تاکہ سب جڑ سے اکھاڑ دوں ۔۔۔۔ بقول اسکے میں اسکا کام کرتا تھا ۔۔۔مگر اسکی پیٹھ پیچھے میں اپنے ہی ملک میں چھپے دشمنوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت ختم کررہا تھا ۔۔۔۔ مساجد میں دھماکے بھی اس رچرڈ نے کروائے ۔۔۔۔ میں نے انہیں بہت روکنا چاہا مگر اس نے وہ کام میری بجائے فیاض سے کروائے ۔مگر نام میرا لیا جو لوگ مجھے سفید موت کے نام سے جانتے تھے وہ میری دہشت سے خاموش رہ جاتے ۔۔۔ اس دن جب ایگزیبیشن میں سیکیورٹی آفیسر کو مارا تھا وہ بظاہر تو سیکورٹی آفیسر تھا مگر اصل میں وہ ایک کرپٹ آفیسر تھا ،جو معلومات دشمنی عناصر تک پہنچا رہا تھا ۔۔۔۔اس لیے اسے ختم کرنا پڑا ۔۔۔۔وہ کام مجھے رچرڈ نے نہیں دیا تھا ۔آئی ۔ایس آئی نے دیا تھا ۔۔۔۔ ہم سب رچرڈ کے خلاف ملکر کام کرتے ہیں ۔ "لالہ آپ ہم سے ایک بار ملنے تو آتے ۔۔۔۔!!! "جانتے ہیں مام کتنا تڑپتی ہیں آپکو یاد کر کہ ۔۔۔۔ وہ رنجیدہ لہجے میں بولا ۔ "تم سب تو ساتھ تھے ۔۔۔میں تو اکیلا تھا ۔۔۔میری تنہائی کا اندازہ لگا پاؤ گے ۔۔۔۔؟؟؟ "میں نے اکیلے زندگی کیسے گزاری ؟؟؟؟ "میں بھی اتنا ہی تڑپا ہوں جتنا تم سب " اس نے گہری سانس بھر کر فضا میں خارج کی ۔۔۔ "میں تم سب کو اپنی وجہ سے کسی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔۔۔ایک بار اس رچرڈ کا کام تمام کرلوں پھر آؤں گا واپس " وہ شیردل کے شانے پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے بولا ۔۔۔ "سچ لالہ آپ آئیں گے نا "؟ وہ پرجوش آواز میں بولا۔ "ہمممم۔۔۔۔ "میں جا کر آتا ہوں تم ریسٹ کرو "وہ شانہ تھپتھپاکر کر بولا ۔۔۔۔ "لالہ مجھے اس رچرڈ سے وہ ویڈیو چاہیے کسی بھی صورت میں "۔ "میں جا رہا ہوں تمہارا کام بھی کردوں گا " "نہیں لالہ میں اپنا کام خود کروں گا " وہ بضد ہوا اور بستر سے نیچے اترنے لگا ۔۔۔۔ "شیردل تم اس حالت میں نہیں ۔۔۔۔رکو یہیں ۔۔۔ "نہیں لالہ مجھے بھی جانا ہے ۔ ابھی اتنا بھی کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔شیر کا دل ہے ،مجھ میں ۔۔۔۔اور جن کا دل شیروں کا ہو وہ کبھی تھک کر ہارا نہیں کرتے ۔۔۔ "Let's go...." آریان شیر اور شیر دل دونوں ایک ساتھ باہر نکلے ۔۔۔۔ پری نے ان دونوں کے جاتے ہی دروازے کو لاک کرلیا ۔۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 رات کا سوا ایک بج چکا تھا ۔رچرڈ کے عالیشان بنگلے کے کئی رومز کی لائٹس بند تھی۔۔اسکے اندر جانا اتنا آسان نہیں تھا۔اسکے بنگلے کا سیکورٹی سسٹم بہت پاور فل تھا۔جگہ جگہ پر گارڈ کھڑے نظر آتے تھے۔ان کے حملہ کرنے پر انہوں نے بھی جواب دینا تھا اور اس طرح آرمی کے لوگ بھی نشانہ بن سکتے تھے۔اسے کچھ ایسا کرنا تھا کہ وہ کوئی ہنگامہ کیے بنا خاموشی سے رچرڈ تک پہنچ جائیں ۔اور زیادہ خون خرابا نا ہو ۔امرام شیر نے کچھ لوگوں کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ اس نے سب کو خود سے اتنا دور رہنے کا کہا ۔۔۔ کہ کسی کو ان پر شک نہ ہو۔ایک دفعہ وہ اندر داخل ہوجائگ گا تو باقی سب بھی اسکی تقلید میں اندر داخل ہو جائیں گے۔۔ان لوگوں کی تعداد پندرہ تھی۔ چار لوگوں کو امرام شیر کے پیچھے اندر جانا تھا۔باقیوں کو اس بنگلے کو اپنے محاصرے میں لینا تھا۔امرام شیر کا پہلا کام تھا گارڈز کو راستے سے ہٹانا۔۔۔۔۔ وہ بکتر بند گاڑیوں کی بجائے دو وینز میں وہاں پہنچے تھے۔وینز کو اس کے بنگلے کے سامنے کھڑی کرنے کی بجائے سڑک کے دوسرے کنارے تھوڑا دور ہی کھڑا کر دیا تھا۔تاکہ کسی کو شک نا ہو ۔۔۔امرام شیر نے باہر کھڑے گارڈز پہ پیچھے سے حملہ کیا ۔۔۔اور انکے منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ۔۔۔ انکے کان کے پیچھے مخصوص رگ دبائی تو وہ بیہوش ہوکر باری باری گرتے چلے گئے ۔۔۔۔۔ جیسے ہی امرام شیر نے اندر قدم رکھا ۔۔۔ اندر موجود سیکورٹی پہلے سے ہی بیہوش ملی۔۔۔۔ اس نے چونک کر دیکھا ۔۔۔کہ یہ اندر موجود سیکورٹی گارڈز کیسے بیہوش ہوئے ۔۔۔۔۔ شیردل اور آریان شیر جو پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔ وہ دونوں جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے۔اوپر جیکٹس بھی تھیں جن کی اندرونی جیبوں میں پسٹلز موجود تھی۔آریان اور شیردل کے کانوں میں آڈیو ڈیوائس بھی تھیں جس سے وہ دور ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بات کر سکتے تھے۔ "ریڈی؟"آریان نے کہا ۔۔۔ "یس ریڈی ۔"وہ داخلی دروازہ عبور کیے راہداری میں آئے ۔۔۔۔ "سامنے ہی انیکسی میں جاتے دائیں جانب کے پہلے روم میں رچرڈ نے نیٹ ورک لگا رکھا ہے ،جہاں سے وہ اپنی ویب کو آپریٹ کرتا ہے ،اسکے نیٹ ورک کو اڑا دو ۔۔۔ساری بیہودہ سائیٹس ختم ہو جائیں گی ۔۔۔۔ سب کچھ اسی کمرے میں موجود ہے " آریان شیر کی بھاری آواز شیردل کو آڈیو ڈیوائس کے ذریعے اپنے کان میں سنائی دی ۔۔۔۔اسے اپنے راستے میں دو گارڈز کھڑے نظر آئے۔ "ارے آریان تم یہاں کیسے ؟"انہوں نے اسے آریان سمجھ کر خوشدلی سے پوچھا ۔۔۔۔کیونکہ وہ رچرڈ کا خاص آدمی جو تھا ۔۔۔۔ ""ایسے " شیردل نے گن نکال کر ان پہ فائر کرنے کی بجائے ۔۔۔ان کے سر پہ گن کو زور سے مارا ۔۔۔۔ وہ درد سے بلبلاتے ہوئے نیچے گرے ۔۔۔۔ اس بنگلے میں جگہ جگہ کیمرے لگے تھے ۔۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے رچرڈ اس آپریٹر کو تاکید کر کہ گیا تھا کہ ہر جگہ نظر رکھے ۔۔۔۔ کنٹرول روم میں بیٹھے آپریٹر نے آریان شیر کو اپنے سامنے لگی سکرین میں دیکھا تو دوسری طرف بالکل آریان شیر کے ہمشکل کو دوسرے کیمرے میں کسی کمرے میں داخل ہوتے دیکھا ۔۔۔۔ اور اس کے جیسے بالکل تیسرے کو بنگلے کے اندر آتے یکدم بوکھلا گیا۔ وہ ان تینوں ہم شکل کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ کچھ نا کچھ گڑبڑ ضرور تھی ۔۔۔۔ وہ سب رچرڈ کیلیے بہت خطرناک ثابت ہونے والے تھے ۔ "سر آریان یہاں پہنچ چکا ہے۔اور اس کے ساتھ اسکے دو ہم شکل بھی ہیں "اس نے بتایا تو رچرڈ کی حالت بھی غیر ہوئی تھی۔اس کی چھٹی حس نے کہا تھا کہ ضرور کچھ نہ کچھ غلط ہونے والا ہے . "باقی دونوں کون ہیں ؟" "سر میں نہیں جانتا مگر وہ ہو بہو آریان شیر کی کاپی ہیں ۔" "نہیں ۔۔۔۔ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ کہیں آریان کے باقی دو بھائی تو نہیں مل گئے اسے ۔۔۔۔۔؟اس کے ذہن میں یکلخت جھماکا سا ہوا۔۔۔۔ماضی یاد آتے ۔۔۔۔ آریان شیر کے پاس وقت کم تھا اسے جلد از جلد اندر پہنچنا تھا۔وہ مسلسل آگے بڑھتے ہوئے اب وہ دوسری منزل کی کھڑکیوں کو دیکھنے لگا ۔ایک کھلی کھڑکی نظر آ گئی تھی اور اندر کمرے کی لائٹ بھی آن تھی۔وہ کچھ سوچے بنا نیچے والی کھڑکی کی نچلی سطح پر چڑھا۔اس کی اوپر والی شیڈ پر ہاتھ ٹکائے اور پاؤں کھڑکی کی جالی دار لوہے کی ڈیزائننگ میں پھنساتے ہوئے شیڈ کے اوپر چڑھ گیا ۔پھر احتیاط سے دیوار پر ہاتھ جما کر اندر کودگیا ۔۔وہ رچرڈ کا ہی بیڈ روم تھا۔جو تیزی سے اپنا سامان کبرڈ سے نکال رہا تھا ۔۔۔۔کسی کو اندر کودتے دیکھ کر چند لمحوں کے لیے تو حیران رہ گیا اور اگلے پل وہ کبرڈ کا دروازہ دھاڑ سے بند کیے ۔۔۔اس میں سے گن نکال کر آریان شیر کی طرف بڑھا ۔۔۔ آریان شیر نے ایک ہی جاندار پنچ مارا کہ گن رچرڈ کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جاگری ۔۔۔ "سالا ۔۔۔۔جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے نمک حرام ۔۔۔۔ ",وہ تنفر زدہ آواز میں بول کر دروازے کی طرف بھاگا ۔۔۔۔ کیونکہ وہ آریان شیر کی آگ اگلتی نظروں میں بغاوت دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔ "اپنی موت کو سامنے دیکھ کر بھاگ کیوں رہا ہے " اوہ !! "یاد آیا انگریزوں ڈرپوک دل میں اتنا دم نہیں کہ مسلمان فوجی کا مقابلہ کرسکیں ۔۔۔۔ وہ استہزایہ انداذ سے ہنکارا بھر کر بولا۔۔۔۔ آریان شیر نے تیزی سے پلٹ کر اس کا بازو پکڑ گرفت میں لے کر اسکی بازو کو یوں گھمایا کہ اسکی بازو چٹخ گئی اور کڑک کی آواز سے اسکے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔۔۔۔ "مجھے چھوڑ دو ۔۔۔۔ وہ درد سے بلبلاتے ہوئے چیخنے لگا ۔۔۔ ۔اس نے مٹھی زور سے بھینچی اور اپنا پورا زور لگا کر اس رچرڈ کے ناک پر دے مارا۔اس کی انگلی میں موجود پلاٹینم کی انگوٹھی نے رچرڈ کے ناک کی ہڈی ہلا کر رکھ دی۔ وہ درد کو سہارنے کیلیے ہاتھ ناک پر رکھ کر کراہا تھا۔۔ "میں چاہوں تو میری ایک بلٹ کی مار ہوتم " مگر اپنے ملک کی ہڈیاں کھوکھلی کرنے والے کی جب تک ساری ہڈیاں توڑ نہیں دیتا ۔۔۔ سکون نہیں ملے گا ۔۔۔ "مجھے مارے گا ۔۔۔۔", رچرڈ اپنی ناک چھوڑ کر اس پر جھپٹا۔ آریان شیر پھرتی سے گھوم کر پیچھے ہٹا۔۔۔۔۔۔۔ اور تمسخر سے رچرڈ ک دیکھا رچرڈ ایک بار پھر طاقت کے نشے میں چور آگے بڑھا تھا۔مگر آریان شیر نے اپنی ٹانگ اٹھا کر ایک جاندار کک اسکے سینے پہ ماری ۔۔۔۔۔رچرڈ پیٹھ کے بل نیچے گرا تھا ۔ آریان نے ایک پاؤں اس کے سینے پر ٹکایا اور دوسرا زمین پر رکھا۔۔اس کے سینے پہ اپنی کہنی سے ایسا وار کیا کہ وہ کئی لمحے اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا ۔ وہ چھ فٹ کا کڑیل جوان اتنا طاقتور تھا کہ مقابل کو ایک منٹ میں اپنے سامنے ڈھیر کر دیتا تھا۔۔۔ آریان شیر نے بنا ایک بھی لمحے کی دیری کیے اپنی جیکٹ کے نیچے موجود گن ہولڈر میں سے گن نکالی ۔۔۔ اور اسکی نال کا رخ اسکی طرف کیا ۔۔۔۔۔ تب ہی کمرے کا دروازہ دھاڑ کی آواز سے کھلا ۔۔۔۔ امرام شیر جو آرمی یونیفارم میں ملبوس تھا ۔۔۔۔ "رک جاؤ مجھے اسے زندہ پکڑنے کے آرڈر ملے ہیں ؟ میجر امرام شیر دھاڑا ۔۔۔۔ "ہنہہ۔۔۔۔آرڈر ۔۔۔۔۔!!!! وہ استہزایہ انداذ سے ہنسا۔ "لیفٹیننٹ کرنل آریان شیر ۔۔۔۔۔کے پاس اسے مارنے کی اتھارٹی ہے ".... امرام شیر نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔جو رچرڈ کو ایک ہی پرفیکٹ شاٹ سے جہنم واصل کر چکا تھا۔۔۔۔ اب اسکا وجود ساکت پڑا تھا ۔۔۔۔ باہر ایک زور دار دھماکے کی آواز سن کر امرام شیر اور آریان شیر دونوں نے بیک وقت کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھا ۔۔۔۔ سامنے انیکسی کے کمرے میں سے آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے ۔۔۔۔ یعنی کہ شیردل اس کمرے کی ہر چیز کو تہس نہس کیے ہر ثبوت مٹا چکا تھا ۔۔۔۔ اس نے رمشاء کے ساتھ ساتھ ان بے گناہ لڑکیوں کی عزت کو بھی پامال ہونے سے بچا لیا تھا جن کی ابھی تک ویڈیوز لیک نہیں ہوئیں تھیں ۔اور اس نیٹ ورک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہ کردیا تھا ۔۔۔ 🌙🌙🌙🌙🌙🌙 آج کی قسط پہ اپنی رائے دینا مت بھولیے گا پیارے دوستوں میں نے بہت محنت سے لکھا ہے ۔باقی سب کا اگلی قسط میں ماضی لکھ کر تھک گئی میں ۔
❤️ 👍 🌺 🎉 😮 🫀 🫣 34

Comments