
Novels Ki Duniya📚🌐🖤
February 14, 2025 at 04:56 AM
#novel:Chand _Asmano Sy _Lapata.
#episode:29سیکنڈ لاسٹ
#hina_ Asad.
Don't _copy_paste _without my permission۔
”اعیان کے ساتھ حادثہ ہو گیا ہے اس کی جان اس وقت شدید خطرے میں ہے۔۔“ مومن مزید بھی کچھ بول رہا تھا لیکن جنت کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا۔ اسے حویلی کی چھت اپنے اوپر گرتی محسوس ہوئی تھی۔ اسکے چہرے کی رنگت ایک پل کے اندر زرد رنگ ہوگئی ۔۔۔
”جنت کیا ہوا؟“ اسکی حالت دیکھ کر زیان اسکی جانب آیا ۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ہوش کھو کر نیچے گر جاتی زیان نے اسے اپنی مضبوط بانہوں میں سمیٹ لیا ۔۔۔
"زیان ۔۔۔وو۔۔وہ ۔۔۔میرا اعیان .....وہ شکستہ لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔۔
اعیان کے ساتھ ہوئے حادثے کی خبر حویلی میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی۔ جنت کی دلدوذ چیخیں ساری حویلی میں گونج اٹھی تھیں۔ ہیر ،عیش دونوں تو اس خبر پر گنگ رہ گئی تھی۔ ۔۔۔ہانیہ نے موقع پہ ہی اعیان کا فون اٹھائے اپنے بھائی مومن کو کال کی تو وہ ایمبولینس لیے جائے حادثہ پہ آیا ۔۔۔اعیان اور ہانیہ کو اپنے ساتھ اپنے ہاسپٹل لے گیا۔۔۔۔۔ہانیہ تو اعیان کی حالت دیکھ کر بےہوش ہو چکی تھی۔
اسکے بے اختیاری میں منہ سے نکلے الفاظ آج سچ ثابت ہو رہے تھے ۔۔۔۔
"اللّٰہ کرے تم مر جاؤ اعیان "
اسکے اپنے ہی بولے گئے الفاظ اس کے کانوں میں سنائی دینے لگے ۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں پہ رکھے ۔۔۔۔روتے ہوئے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی ۔۔۔
”یا اللہ رحم کر میرے بیٹے پر اسکو صحت و تندرستی والی زندگی عطا کردے ۔اس سے اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تو میں معافی مانگتی ہوں ۔۔۔۔۔یا اللّٰہ ایک دکھی ماں کے دل کی فریاد سن لے “ جنت دونوں ہاتھوں کو دعا کی صورت اوپر اٹھائے گریہ و زاری کر رہی تھی۔
”آپ سب پریشان مت ہوں،اللہ تعالیٰ سب بہتر کریں گے ۔۔۔کچھ نہیں ہوگا اعیان کو پلیز جلدی چلیں میرے ساتھ ہمیں ابھی ہسپتال کیلیے نکلنا ہوگا۔۔“ احتشام انکے کندھے کو زور سے دباتا انہیں حوصلہ دے رہا تھا جبکہ دماغ سخت الجھن میں مبتلا تھا ۔۔۔
شیرذمان اور ضامن بھی چیخیں سن کر باہر نکلے اور پھر پریشانی کے عالم میں ایک ساتھ گھر سے ہاسپٹل کے لیے روانہ ہوگئے ۔۔۔۔
اعیان کو بری حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔ وہ اس وقت شدید زخمی تھا اسکا کافی خون بہہ گیا تھا۔ ابتسام ،حسام اور شاہ من کو جب ضامن سے خبر ملی تو وہ بھی فورا ہاسپٹل کے لیے نکلے ۔۔۔۔۔
جنت اور زیان پہ وقت تو قیامت ٹوٹنے جیسا تھا۔
ہانیہ اپنی مما عیش کے گلے لگتے پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی ۔۔۔۔اس کا دل پھٹنے کو تھا۔ عیش تو اپنی جوان بیٹی کے سر پہ منڈلاتے ہوئے غم کے بادلوں کے چھٹ جانے کے لیے دعا گو تھی ۔۔۔
ہانیہ اپنا لرزتا وجود لیے ہاسپٹل لے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔جہاں اعیان موجود تھا ۔۔۔سب اس سے ملکر گھر واپس جا چکے تھے ۔۔۔۔صرف ہانیہ اور زیان ہی وہاں رکے تھے ۔۔۔زیان میڈیسن لینے گیا تو ہانیہ پرائیویٹ روم میں چلی آئی ۔۔۔۔ اسکے وجود میں کپکپاہٹ واضح تھی جبکہ چہرہ جذبات کی حدت سے سرخ تھا۔۔ بے شک اعیان نے اسکے ساتھ جو بھی کیا بھلایا نہیں جا سکتا تھا ،مگر اس نے جب آخری وقت میں اس سے معافی مانگی تھی ،ہانیہ اسکی وہ سچے دل سے مانگی گئی معافی کے الفاظ اور جذبات کو بھلا نہیں۔ پا رہی تھی ۔۔۔
اسے اپنا غم تھوڑا ہلکا ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔ابھی وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں لے پا رہی تھی ۔۔۔مگر دل اسکی زندگی بچ جانے پہ مطمئن تھا ۔۔۔۔
دروازے پہ آہٹ محسوس کیے اعیان نے آنکھیں کھول کر دیکھا ۔۔۔۔۔ ہانیہ سہمی دروازے کے قریب کھڑی تھی۔ وہ جذبے لٹاتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔
ہانیہ نے پلکیں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔ہر چیز دھندلی سی دکھائی دینے لگی ۔۔۔۔کیونکہ آنکھوں میں آنسو جو بھرنے لگے تھے ۔۔۔۔۔
"اگر میں مرجاتا تو۔۔؟
"ہانیہ کا خیال کون رکھتا "؟
یہ خیال ہی اسکے لیے جان لیوا تھا ۔۔۔۔سوچتے ہوئے اعیان کی آنکھوں میں بھی نمی اترنے لگی ۔۔۔۔
”بے شک میرے کیے کے لیے مجھے ساری زندگی معاف نا کرنا ۔۔۔۔میں تمہیں معاف کرنے کے لیے مجبور نہیں کروں گا ۔۔۔۔مگر دور رہ کر مجھے اذیت نا دو ۔۔۔میں جیتے جی مر جاؤں گا ۔۔“ وہ اپنی پوری ہمت مجتمع کیے بولا ۔۔۔
ہانیہ ڈبڈبائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے شکستہ قدموں سے آگے بڑھی اور بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
”کاش میں مر ہی جاتا ۔۔اتنی بے رخی کیسے برداشت کروں گا ۔؟“ وہ بےساختہ شکوہ کرگیا تھا۔ ہانیہ نے تڑپ کر اسکی جانب دیکھا تھا جو نم آنکھیں لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”آپ ٹھیک ہیں اعیان ۔۔“ ہانیہ اس کے قریب کھڑی ہوکر پوچھنے لگی ۔۔۔
”ہانیہ ۔۔میں تمہیں خود سے دور جاتے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔میرے ہوتے ہوئے اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاتا ۔جانتا ہوں غلطی کی میں نے ،مگر جہاں تک میرے سوچنے کی صلاحیت تھی اسی سے کام لیا میں نے اپنے حقوق کا ناجائز فایدہ اٹھایا ۔۔۔۔مگر غلطیاں بھی تو انسانوں سے ہی ہوتی ہیں،انسان خطاوں کا پتلا ہے ۔جب ٹھوکر لگتی ہے تب ہی سیکھتا ہے مجھے جدائی کا غم مت دینا ۔بے شک مجھے معاف مت کرنا ۔۔“ وہ گہری اذیت سے کہہ رہا تھا۔
”مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہانیہ مجھے معاف کردینا ۔میرا فرض ہے کہ میں تم سے بار بار معافی مانگوں ۔۔آگے یہ تم پہ منحصر ہے تم مجھے معاف کرو یا نہیں ۔۔“
اعیان نے اپنے دونوں ہاتھ ہانیہ کے آگے جوڑ دئیے ایسا کرنے سے اسکو شدید قسم کی تکلیف ہوئی اور اسکے آثار اسکے نقاہت زدہ چہرے پہ بھی نمایاں تھے ۔۔۔۔
ہانیہ نے اپنے نازک سے دونوں ہاتھوں اسکے ہاتھ تھام لیے ۔ وہ رودی تھی۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گالوں پر بہنے لگے تھے۔
”روتے ہوئے تو اور بھی حسین ہوجاتی ہو ۔۔“ اعیان نے شرارت سے کہا تاکہ ماحول میں چھائی ہوئی تلخی کم ہو جائے ۔۔۔۔
”کیسے ہیں آپ۔۔؟“ اسکے بےساختہ سوال پر وہ مسکرادیا تھا۔
”کیسا ہوں گا بھلا ،جسکی اتنی حسین بیوی سامنے ہو اور بندہ کچھ کر بھی نہیں سکتا ہو ۔۔؟“ وہ ذومعنی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔
"آپ نہیں سدھر سکتے۔۔۔بیماری کی حالت میں بھی ہری ہری سوجھ رہی ہیں "
ہانیہ نے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
۔۔
وہ کچھ کہہ نہ پائی بس آنسو آنسو ٹپ ٹپ گرتے رہے تھے۔
”میں نے بہت دکھ دئیے نا تمہیں ۔۔۔ایک موقع دو ان تمام دکھوں کا مداوا کر دوں گا "
اعیان نے ہاتھ بڑھا کر اپنی پوروں سے اسکے آنسو پونچھے ۔۔۔
”آپ ٹھیک ہوجائیں پھر ہی ایسا ممکن ہے ۔۔“ وہ روتے روتے حامی بھر گئی تھی۔
اعیان کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
”مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہانیہ کہ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں ۔۔وہ پرجوش آواز میں بولا۔۔۔اسکے لہجے میں خوشی کا عنصر نمایاں تھا۔۔۔۔
"مجھے آج ہی گھر لے چلو پھر اچھے سے شکریہ ادا کروں گا "
وہ اپنے ازلی موڈ میں واپس آچکا تھا ۔۔۔۔
”خبردار جو ایک بھی لفظ اور بولا تو۔لیٹے رہیں یہیں چپ کر کہ ابھی لے کر جاتی ہوں اچھے آپ کو گھر ۔“ ہانیہ نے غصے سے اسکی بات کاٹی تھی۔ اور اسے گھورنے لگی ۔۔۔
"ہائے قربان جاؤں ایسی پیار بھری سختی پہ "
وہ ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے لبوں سے لگاگیا تو ہانیہ جھینپ سی گئی۔۔۔۔
اعیان کے چہرے پہ آسودہ سی مسکراہٹ بکھر گئی ۔۔۔۔
بلاشبہ آنے والی زندگی ان کے لیے بہت بہترین ثابت ہونے والی تھی سارے گلے شکوے مٹ گئے تھے ،ان کی جگہ خوشیاں اپنے ڈیرے جمانے والی تھیں ۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙
"ماھی کہاں ہے "؟
دعا اور شاہ من گھر آئے تو ماھی کا کمرہ خالی دیکھا ۔۔۔
وہ بوکھلا کر رہ گئے جب انہیں پورے گھر میں میں ماھی کہیں بھی دکھائی نہیں دی ۔۔۔
صغراں !!!
"آؤ صغراں !!!
دعا بےچینی سے اپنے گھر میں موجود ملازمہ کو آواز دینے لگی ۔۔۔۔
""جی بی بی جی !
وہ اس کے پاس آکر مؤدب آواز میں بولی ۔۔۔۔
"ماھی کہاں ہے ۔۔۔؟"
"میں اسے تمہارے حوالے کر کہ گئی تھی۔۔۔نا ۔۔۔
"تمہیں اسکا خیال رکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی ۔۔۔
"تو بتاؤ اب کہاں ہے ماھی ؟؟؟."تمہیں میں نے بتایا بھی تھا نا کہ دو ہفتے ہوگئے وہ نا تو ٹھیک سے کچھ کھا پی رہی تھی ۔نا کالج جا رہی تھی ۔۔۔۔اس کا اچھے سے خیال رکھنے کی تاکید کر کہ گئی تھی نا میں دو دن میں واپس نہیں آئی اور ماھی کہاں چلی گئی ۔۔۔۔
یہ خیال رکھا تم نے ماھی کا ؟"
وہ تلخ انداز میں پیش آئیں تو صغراں آر جھکائے ہوئے کھڑی رہی ۔۔۔
"بی۔بی۔جی ۔۔۔وہ ۔۔۔وک ۔۔مجھے نہیں پتہ کہ ماھی جی کدھر گئیں ۔۔۔
کل تک تو کمرے میں ہی تھی ۔۔۔آج صبح ان کے کمرے میں گئی تو وہ کہیں بھی نہیں تھیں ۔۔۔میں نے سارے گھر میں انہیں تلاش کیا مگر وہ کہیں بھی نہیں ملیں ۔۔۔
"اس نے ساری بات ان کے سامنے گوش گزار کی ۔۔۔
دعا اور شاہ من اسے لے کر بہت پریشان تھے ۔۔۔۔
انہوں نے لکی کے دئیے گئے نمبر پہ کال کی ۔۔۔
مگر وہ نمبر مسلسل بند آرہا تھا ۔۔۔۔انہوں نے سوچا کہیں لکی تو نہیں اسے اپنے ساتھ لے گیا گھمانے پھرانے ۔۔۔مگر اسکا مسلسل آف نمبر دیکھ کر وہ مزید پریشانی میں مبتلا ہوگئے ۔۔۔
دعا اور شاہ من نے لکی کے دئیے گئے ایڈریس پہ جانے کا سوچا ۔۔۔وہ بنا وقت ضائع کیے اسکے دئیے گئے ایڈریس پہ پہنچے ۔۔۔
مگر یہ کیا وہاں سوائے جنگل کے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔
ایک کھنڈر نما پرانا سا گھر تھا جو کہ آس پڑوس کے لوگوں سے پوچھنے پہ پتہ چلا کہ نجانے کتنے سالوں سے وہ بند پڑا ہے ۔۔۔
وہ تھک ہار کر خالی ہاتھ پریشان واپس لوٹ آئے ۔۔۔۔
"شاہ من ہم نے بہت بڑی غلطی کردی ۔۔۔۔
اپنی اکلوتی بیٹی کا رشتہ کسی انجان کے ساتھ جوڑ کر "
دعا نے رنجیدہ لہجے میں کہا۔
"ہمممم۔۔۔۔شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو ہم نے جذبات میں آکر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا ۔۔۔۔نجانے ہماری بچی کہاں ہوگی اس وقت نجانے کس حال میں ہوگی ۔۔۔۔شاہ من افسردہ آواز میں بولا ۔۔۔
"میں پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرواتا ہوں ماھی کی گمشدگی کی "
"یہی ٹھیک رہے گا ۔۔۔۔"وہ آہستگی سے بولا ۔۔۔۔
شاہ من میری بیٹی !!!
"بہت بڑی بھول ہوگئی مجھ سے ۔۔۔ایک ماں ہوکر بھی میں نے اپنی بیٹی کا اعتبار نہیں کیا ۔۔۔۔کیسی ماں ہوں میں اپنی بیٹی کے دل کی بات نہیں جان سکی ۔۔۔
"میں اسکے بغیر کیسے رہوں گی ۔۔۔؟
مجھے نہیں پتہ ۔۔۔جہاں سے مرضی اسے ڈھونڈھ کر لائیں ۔۔۔میں مر جاؤں گی اپنی بچی کے بغیر ۔۔۔۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔
"آپ حویلی سے پتہ کریں شاید کسی کو پتہ ہو ۔۔۔زخرف کو یا کسی اور کو "
دعا نے شاہ من کو ایک نئی راہ سجھائی۔۔۔
"کیا منہ لے کر جاؤں گا سب کے سامنے ۔۔۔ ؟؟؟
"سب نے مجھے کتنا منع بھی کیا تھا ماھی کا رشتہ طے کرنے پہ ۔۔۔۔
"شاہ من اب تو جو ہونا تھا ہوگیا ۔۔۔نا ۔۔۔
جائیں جا کر پتہ کریں اس کا کہیں سے بھی مرضی ڈھونڈھ کر واپس لائیں میری بیٹی کو ۔
وہ تڑپ کر بولی۔۔۔۔
شاہ من اپنا نڈھال وجود لیے باہر نکلا تو دعا سے اکیلے گھر میں رہ کر صبر کرنا مشکل ہوا وہ بھی شاہ من کے پیچھے پیچھے باہر نکل گئی۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙🌙
"بھائی آپ اندر چلیں ہم سامان لے کر آتے ہیں "
امرام شیر نے آریان شیر سے کہا ۔۔۔۔
امرام شیر گاڑی کی ڈگی کھولے اس میں سے سامان باہر نکال رہا تھا جبکہ شیردل اپنا بازو سنبھالے اب گاڑی کو لاک لگانے لگا ۔۔۔۔
پری اپنا کلچ اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹا سا سفری بیگ پکڑ کر باہر نکلنا چاہا ۔۔۔
"لاؤ مجھے دو میں پکڑ لیتا ہوں "
امرام شیر نے پری کے ہاتھ میں بیگ دیکھا تو پیشکش کی ۔۔۔
"اوہو ۔۔۔و۔۔۔بھابھی کی اتنی خدمتیں !!!
"خیر تو ہے ۔۔۔۔کہیں پرانے بدلے چکانے کا ارداہ تو نہیں "
پری نے دل جلانے والی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالتے ہوئے کہا ۔۔۔
تو پیچھے کھڑا شیردل بھی مسکرایا امرام شیر کے غصے سے لال پیلے چہرے کو دیکھ کر ۔۔۔
"شٹ اپ "
کئی لوگوں کو واقعی عزت راس نہیں ہوتی "
وہ دانت پیس کر خود پہ ضبط کیے بولا ۔۔۔
"اوئے ۔۔۔زرا تمیز سے ۔۔۔۔بڑی بھابھی ہوں ۔۔۔
وہ انگلی اٹھا کر دھمکی آمیز انداز میں بولی ۔۔۔
"ابھی سکھاتا ہوں تمیز "وہ اس کی طرف بڑھا ۔۔۔
"لالہ ۔۔۔۔!!!!
سٹاپ اٹ پلیز ....
شیردل نے درمیان میں آکر صلح جو انداز میں کہا ۔۔۔
امرام شیر بیگ اٹھا کر اندر کی طرف بڑھا ۔۔۔۔
"آئیں بھابھی اندر چلیں "
شیردل اسے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگا ۔۔۔
زخرف جو گاڑی رکنےکی آواز سن کر سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آرہی تھی ۔۔۔
لاونج میں امرام کو داخل ہوتے دیکھ اسکے چہرے پہ خوشیوں بھرے رنگ بکھر گئے ۔۔۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا لاونج میں اس وقت اسکے اور امرام شیر (بقول زخرف کے )کوئی نہیں تھا ۔۔۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں پھیلانگتے ہوئے نیچے آئی ۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ بھاگتی ہوئی آریان شیر کے گلے لگتی۔۔۔۔
"Wait ... Wait.... Wait..."
امرام شیر جو بیگ اٹھائے پیچھے سے داخل ہوا ۔۔۔
ذخرف کو آریان شیر کی طرف دوڑتے دیکھ تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے ان دونوں کے بیچ حائل ہوا ۔۔۔۔
آریان شیر نے نا سمجھی سے ان دونوں کو دیکھا ۔۔۔
"بھائی یہ غلطی سے میری وائف ہے ۔۔۔
وہ چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے بولا ۔۔۔
مگر زخرف کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنا نہ بھولا ۔۔۔
امرام شیر کے پیچھے جیسے ہی پری اندر داخل ہوئی ۔۔۔
زرخرف کی تو سر پہ لگی تلوں پہ بجھی ۔۔۔
وہ پری کو خون آشام نظروں سے گھورتے ہوئے ۔۔۔۔
امرام شیر کی طرف مڑی ۔۔۔
اسکی آنکھوں میں تنبیہ تھی ۔۔۔مگر زخرف کو کون سمجھائے جس پہ اسکی وقت حسد کا بھوت سوار ہوچکا تھا ۔۔۔
"ہائے او ربا !!!
"میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی ۔۔۔۔
وہ زمین پہ آلتی پالتی مارے بیٹھی اور پیشانی پہ ہاتھ رکھے اونچی آواز میں دہائی دینے لگی ۔۔۔۔
"کرلی نا اس خوبصورت چڑیل فسادن سے دوسری شادی ۔۔۔۔
کیا کمی تھی مجھ میں ؟؟؟
میں پوچھتی ہوں کیا کمی تھی مجھ میں ایک زرا سا قد کیا چھوٹا تھا ۔۔۔
مجھے چھوڑ کر ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید گل افشانیاں کرتی ۔۔۔۔امرام شیر نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا ۔۔۔۔
"ایک آواز بھی نا نکلے تمہارے منہ سے ۔۔۔۔ورنہ دوبارہ بولنے کے قابل نہیں رہو گی ۔۔۔اندر چل کر بات کریں گے "
وہ اسکے کان کے قریب چہرہ کیے سرگوشی نما آواز میں بولا۔۔۔۔
ذخرف اٹھ کر کھڑی ہوئی اور ناک سکوڑی۔۔۔۔
پری کی طرف تیکھے چتونوں سے گھورتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔
"ماں !!!
"ماں !!!
آریان شیر کی بھاری آواز ساری حویلی میں گونجی ۔۔۔۔
ہیر جو اپنے کمرے میں تسبیح پڑھ رہی تھی۔
چونک گئی۔۔۔۔
اس آواز اور اس بلانے کے انداز کو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی ۔۔۔امرام شیر اور شیردل دونوں ہیر کو مام کہتے تھے مگر آریان شیر اسے بچپن سے ماں کہتا آیا تھا ۔۔۔
اس کے کان کتنے سالوں سے یہ لفظ سننے کے لیے ترس گئے تھے یہ بس اسکا دل جانتا تھا یا خدا ۔۔۔۔
وہ تسبیح کو چوم کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکلی ۔۔۔۔
اسکی پیاسی آنکھیں سیراب ہوتے ہوئے ساکت رہ گئیں ۔۔۔
وہ وہیں کھڑی رہ گئی۔۔۔
"ماں !!
آریان شیر کی آواز سن کر ہوش میں آئی ۔۔۔
”یا الــلّــہ تیرا شکر۔۔۔۔“ ہیر نے اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر سب سے پہلے اس خداوند کا شکر بجا لایا ۔۔۔۔
ممتا کی پیاس آج بجھی تھی جا کر ۔۔۔۔ہیر کو درد سے اپنا سینا پھٹتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
وہ کسی طرح اسے اپنے سینے سے لگا کر اپنی ممتا کو قرار دینا چاہتی تھی ۔۔۔
آریان شیر ،ہیر کی طرف بھاگا جو اسے دیکھ پتھر کی مورت بنی کھڑی تھی ۔۔۔
آریان شیر نے اپنی ماں کو اپنی بانہوں میں بھر کر گول گول گھمایا ۔۔۔۔
ہیر تو اپنے بیٹے کے گال پہ ہاتھ رکھ کر اسکی موجودگی کو محسوس کر رہی تھی ،خواہ کہیں یہ اسکا خواب تو نہیں ،
مگر وہ حقیقت میں تھا ۔۔۔
"Miss you Maaaaaa.....
" Love you sooooooo much"
وہ پرجوش بھاری آواز میں بولا۔۔۔۔
"مجھے اتارو آریان میں گر جاؤں گی "
ہیر نے اسکے دونوں چوڑے شانوں کو اپنے ہاتھوں سے زور سے پکڑ رکھا تھا گرنے کے ڈر سے ۔۔۔۔
"ماں آپکے بیٹے میں اتنا دم ہے کہ اپنی ماں کو ساری زندگی اٹھائے رکھوں "
وہ ہیر کے ڈر کو سمجھتے ہوئے اسے صوفے پہ بیٹھانے لگا ۔۔۔
آریان کی آواز سن کر سب وہاں اکٹھا ہونے لگے ۔۔۔۔
"میں زرا آتا ہوں کچھ لوگوں کی زبان پھسل رہی ہے اسے کنٹرول میں کرنا ہے "
وہ زخرف کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے کی طرف لے جانے لگا ۔۔۔
زخرف سب کی موجودگی کی وجہ سے چپ چاپ اسکے ساتھ چلتی رہی ۔۔۔
امرام شیر نے کمرے میں لاکر اسکا ہاتھ چھوڑا ۔۔۔
اور دروازے کو اندر سے لاک لگایا ۔۔۔
"آنکھوں کی جگہ کیا ٹچ بٹن فٹ کیے ہیں جو ٹھیک سے دکھائی نہیں دیا ۔۔۔
ویسے تو بڑے بڑے دعوے کرتی نہیں تھکتی تھی اپنی محبت کے ۔۔۔ اب چلی تھی کسی اور کو اپنا شوہر مان کر ۔۔۔
وہ سر جھٹک کر غصے سے آگ بگولہ ہوا ۔۔۔
زخرف کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔۔۔
وہ شرمندگی سے سر جھکائے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔۔
واقعی اس سے غلطی تو ہوگئی تھی ۔۔۔
مگر زخرف نے اپنی غلطی ماننا سیکھا کہاں تھا ۔۔۔
"ہاں تو میں کیا کرتی ان کے بال بھی آپ جیسے تھے فوجی ہئیر کٹ،ویسی آنکھیں سارا ناک نقشہ ویسا ۔۔۔اب اس میں میرا کیا قصور؟؟
بتائیں بھلا ؟"وہ اپنی کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں بولی۔۔۔
"یہ کیا فضول ہانک رہی تھی باہر ؟؟؟
وہ کڑے تیوروں سے اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔
زخرف نے پیچھے کی جانب الٹے قدم لیے ۔۔۔
"ہاں تو کیا غلط کہا میں نے کیوں لے کر آئے اسے یہاں "؟
وہ اپنے ازلی انداز میں واپس آکر بولی ۔۔۔
"وہ آریان بھائی کی بیوی ہے "امرام شیر نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا ۔۔۔
زخرف کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے سچائی سن کر ۔۔۔
"اچھا ۔۔۔
وہ پژمردگی سے بولی ۔۔۔
امرام شیر نے کوٹ اتار کر صوفے پہ پھینکا اب وہ کبرڈ کھول رہا تھا آرام دہ سوٹ نکالنے کے لیے ۔۔۔
"لائیں میں نکال دیتی ہوں "
وہ اسکے پاس آکر نرمی سے بولی ۔۔۔چہرے پہ ابھی بھی شرمندگی کے آثار نمایاں تھے۔۔
"دور رہو مجھ سے میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔چھوڑ دو مجھے میرے حال پہ ۔۔۔اپنا کام میں خود کرسکتا ہوں ۔۔۔میرے ہاتھ سلامت ہیں ابھی "
وہ تلخ انداز میں بولا۔۔۔
"اچھا سوری نا۔۔۔۔
وہ معصومیت سے کان پکڑ کر بولی ۔۔۔
امرام شیر نے لبوں پہ آتی ہوئی مسکراہٹ کو زبردستی پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔
اور چہرہ سنجیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی۔۔۔۔
کپڑے لیے کھٹاک سے کبرڈ بند کرتے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
"ابھی بتاتی ہوں دور رہنے کا کہا ہے نا ۔۔۔۔ایسا چپکاوں گی ۔۔۔کہیں دور نہیں جا پائیں گے "وہ چٹکی بجاتے ہوئے ذہن میں نیا پلان ترتیب دینے لگی ۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙
شیردل جو تب سے کھڑا اپنے بھائی اور ماں بابا کے ملن کا منظر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
رمشاء ٹرے میں پانی کا گلاس لیے اسکی طرف آئی ۔۔۔
اور اسکی بازو اور گردن میں کالر دیکھ کر پریشان ہوئی ۔۔۔
"اسلام وعلیکم!
وہ پانی کا گلاس آگے کیے بولی ۔۔۔
"وعلیکم السلام!
"آپکے بازو کو کیا ہوا ؟؟؟
سب ٹھیک تو ہے نا ؟؟؟
وہ کشمکش میں مبتلا ہو کر پوچھنے لگی ۔۔۔
ہیر کی نظر بھی اچانک اسی وقت شیردل پہ پڑی ۔۔۔
"یہاں آؤ شیردل ۔۔۔
کیا ہوا ہے ؟
اس نے بےچینی سے پوچھا ۔۔۔
"کچھ نہیں مام زیادہ پریشانی کی بات نہیں ایک چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا۔۔۔اب ٹھیک ہوں "
ہیر نے بازو پھیلائی تو شیردل ان کے پاس گیا اور انکے شانے سے لگا ۔۔۔
"شیر ہے میرا اسے کیا ہوگا "
ساتھ بیٹھے ہوئے شیر زمان نے اسکا شانہ تھپتھپاکر کر کہا ۔۔۔
"بیٹا تم میڈیسن لے کر آرام کرو ۔۔۔۔تھک جاؤ گے بیٹھ کر ۔۔۔
ہیر نے متفکر لہجے میں کہا۔۔۔
"جی مام میں واقعی تھک گیا ہوں پھر صبح ملاقات ہوگی ۔۔۔
وہ انکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تو رمشاء اس کے پیچھے پیچھے اندر آئی ۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙🌙
آریان شیر نے سب سے پری کا اپنی بیوی کی حیثیت سے تعارف کروایا ۔۔۔
سب اس سے خوشدلی سے ملے ۔۔۔۔عیش ،ضامن،جنت زیان ،ہانیہ ،اعیان ،مومن اور آیت ،سب وہیں موجود آپس میں ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے اور آریان شیر سے اسکے ساتھ ہونے والے واقعات دلچسپی سے سننے لگے
"کافی رات ہوگئی ہے میرے خیال میں اب بچوں کو آرام کرنے دینا چاہیے "
شیر زمان نے ہیر سے کہا ۔۔۔
"ہم ٹھیک ہے پھر صبح ملتے ہیں ۔جاو آریان اپنی دلہن کو اپنے روم میں لے جاؤ ۔۔۔
تم نہیں بھی تھے تب بھی تمہارے روم کی روزانہ صفائی کرواتی رہی ہوں ۔تمہاری ایک ایک چیز وہیں رکھی ہے ۔جہاں تم رکھ کر گئے تھے ۔۔۔
ہیر نے پیار بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بتایا ۔۔۔
"Thanks...love you maaa....
وہ انکے ہاتھ کی پشت پہ بوسہ لے کر اٹھا ۔۔۔
"آئیں ماں پہلے آپ کو آپکے روم میں چھوڑ دوں ۔۔۔
"ارے بھئی ابھی تمہاری ماں کو اٹھا کر لے جانے والا موجود ہے ۔۔۔تم جاؤ ۔۔۔میں خودی دیکھ لوں گا اپنی لٹل وائفی کو"شیر زمان ہلکا سا مسکرایا۔۔۔
آریان شیر اپنے بابا کے گلے لگا ۔۔۔۔
نجانے کونسی تشنگی تھی جو مٹنے نہیں پا رہی تھی۔۔۔
شیرذمان نے پیار سے اسکے بال بگاڑے ۔۔۔
وہ پیچھے ہوتے ہوئے مسکرا کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا پری نے اسکی تقلید کی ۔۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙🌙
امرام شیر باہر آیا تو ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس تھا ۔۔۔
زخرف کو کمرے میں بے چینی سے ادھر ادھر چکر لگاتے ہوئے پایا ۔۔۔
مگر اسے نظر انداز کیے بستر پہ بیٹھ گیا ۔۔۔
پھر اپنا موبائل لیے نیم دراز ہوا اور میسجز چیک کرنے لگا ۔۔۔
زخرف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اسکے قریب آئی ۔۔۔
"جان جی ۔۔۔سوری ۔۔۔
وہ معصومیت کی انتہا کرتے ہوئے آنکھیں پٹپٹا کر بولی ۔۔۔
امرام شیر اسکے طرز تخاطب پر چونکا ۔۔۔
اور نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔
"جاؤ مجھے آرام کرنے دو ابھی تم سے مزید دماغ لڑانے کی ہمت نہیں مجھ میں "
"میں کیوں جاؤ ؟؟
میرا کمرہ ...میرا بستر ...میرا پرسنل شوہر ...
"کون نکالے گا مجھے یہاں سے ۔۔۔
بلکہ کون مائی کا لعل اٹھائے گا مجھے یہاں سے "
زخرف ایک کی جست میں اسکے پیٹ پہ آلتی پالتی مارے کر بیٹھی ۔۔۔
"مارنے کا ارادہ ہے "؟
امرام شیر اسکے یوں اپنے اوپر بیٹھ جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
"ایک تو ویسے ہی پیٹ میں چوہے دوڑ ہیں ۔۔۔۔آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں اوپر سے تم بیٹھ گئی ۔۔۔
",نہیں کچھ ہوتا آپکو اب اتنا بھی وزن نہیں میرا ۔۔۔پھول سی تو ہوں "
ہاں پھول سی نہیں دس من پھولوں کا وزن "
وہ دانت کچکچا کر بولا۔۔۔
"توبہ توبہ جھوٹ کی بھی کوئی اخیر ہوتی ہے میجر صاحب۔۔۔۔آپکو یہ پھولوں سی لڑکی دس من می لگتی ہے "
وہ اسکی شرٹ کا بٹن کھولنے لگی ۔۔۔
امرام شیر نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر اسے روکا ۔۔۔
"یہ کیا کر رہی ہو ؟؟؟
"آپ نے کہا تھا نا کہ اپنے شوہر کو زن مرید بنانا ۔۔۔تو اسی لیے یہ ٹرک لگارہی۔۔۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے کہ اسطرح کرنے میں زن مرید بن جاؤں گا ۔۔۔
"اچھا تو پھر کیسے بنیں گے ؟.
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔
"پیچھے ہٹو مجھے سانس نہیں آرہی "
اس نے زخرف کو خود سے پیچھے دھکیل کر اٹھنا چاہا۔۔۔
مگر وائے رے قسمت وہ ایسا کر نہیں پایا ۔۔۔
اسکے کپڑے بستر سے چپک چکے تھے ۔۔۔۔
اس نے حیرت سے اپنے کپڑوں کو بستر پہ چپکا دیکھا تو واپس بیٹھ گیا ۔۔۔
"میری فوٹو کو سینے سے یار چپکا لے سئیاں فی وی کول سے ۔۔۔۔
یہ گلو ایسے چپک گئی ہے جیسے میجر سے زخرف ۔۔۔
وہ اسکی گود میں بیٹھ کر شرارت سے گنگناتے ہوئے بولی ۔۔۔
"اب دور جاکر دکھائیں۔۔۔
"زخرف میرا دل کر رہا ہے کہ اس وقت میں ۔۔۔۔
وہ مٹھیاں بھینچ کر اپنے آپ پہ ضبط کیے دانت پیس کر بولا ۔۔۔
"آپ رہنے دیجیے ۔۔۔میں بتاتی ہوں کہ میرا دل کیا کر رہا ہے ۔۔۔
وہ اسکی بئیرڈ پہ اپنی انگلی پھیر کر ذومعنی انداز میں بولی۔۔۔۔
"دل چاہتا ہے آپکے دل میں نا ایک مائیکرو چپ لگادوں۔۔۔۔
"وہ کیوں "؟
امرام شیر نے ابرو اچکا کر اسکی بے تکی بات سن کر پوچھا ۔۔۔
"بھئی مجھے سننا ہے نا آپکا دل کتنی بار میرا نام لیتا ہے ۔۔۔
امرام اسکی بات سن کر مسکرائے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔اس لڑکی کی ہر بات ہمیشہ انوکھی ہی ہوتی تھی ۔۔۔
"ٹھیک ہے تو پھر تم مجھے چپ لگادو ۔۔۔میں تمہیں چپ لگادوں گا ۔۔۔
"امرام شیر اسکے گلے میں سے دوپٹہ نکال بستر پہ رکھتے ہوئے شرٹ شانوں سے کھسکانے لگا ۔۔۔
"یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ ۔۔۔کیا ۔۔۔کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔
اس کی گھگھی بندھ گئی۔۔۔۔
"چپ فٹ کر رہا ہوں ۔۔۔۔
"ہٹیں پیچھے۔۔۔۔
"کوئی چپ نہیں آپکے پاس ۔۔۔وہ اسکی تھائی سے اٹھنے لگی تو امرام شیر نے اس کی کلائی سے کھینچ کر اسے خود پہ گرا لیا ۔۔۔۔
"اب سنو دل کی دھڑکنوں کو کس کا نام لے رہی ہیں ؟
وہ اسکا سر اپنے سینے سے لگائے بولا ۔۔۔
"مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ۔۔۔
وہ اسکی قربت پہ پگھلنے لگی ۔۔۔تو انکاری ہوئی ورنہ اسکی دھڑ دھڑ کرتی دھڑکنیں کانوں میں سنائی دے رہی تھیں ۔۔۔
"اچھا چلو یہ بتاؤ اور کیا سوچا تھا مجھے زن مرید بنانے کے لیے ۔۔۔
وہ اسکے چہرے پہ آئے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اسکے ریشمی گیسووں میں انگلیاں چلانے لگا ۔۔۔
"وہ نا میں نے سنا ہے لڑکیاں اپنے شوہر کو اپنی اداؤں سے رجھاتی ہیں "
"اچھا جی تو پھر رجھائیں!!!
زخرف نے اٹھنا چاہا مگر اس نے زخرف کی کمر کے گرد اپنی بانہوں کا گھیرا تنگ کر دیا۔۔۔۔
"You are mine ".!!!!
وہ فسوں خیز آواز میں بولا۔
ذخرف جو اسکی گرفت میں پھڑپھڑا رہی تھی ،اسکی آواز میں اتنی نرمی اور ٹہراؤ محسوس کیا کہ وہ اپنا سارا غصہ بھول گئی ۔۔۔۔
"ویسے ایک بات پوچھوں ؟وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا ۔۔۔
کیا ؟
وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھے بولی ۔۔۔
"تم پری سے جلیس ہوتی ہو ؟؟؟
وہ اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ گیا ۔۔۔
"ہاں اگر یہ جیلسی کے زمرے میں آتا ہے تو میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں جیلس ہوتی ہوں ۔
میں جانتی ہوں کہ میں کسی کو زبردستی اپنے ساتھ باندھ کر نہیں رکھ سکتی ،میں آپ کو اپنے ساتھ رہنے پہ مجبور نہیں کر سکتی ،کہ آپ میرے علاؤہ کسی کو نا سنیں یا کسی سے بات نا کریں ،ایسا ممکن نہیں ۔مگر یہ جاننے کے باوجود بھی میرا دل چاہتا ہے کہ آپ میرے سوا کسی سے اپنے دل کی بات نہ کریں ،میں آپکی سب سے بہترین دوست بننا چاہتی ہوں ،جب آپکو اپنا دکھ شئیر کرنا ہو مجھے ایک بہترین دوست سمجھ کر شئیر کریں ،
جب محبت کی ضرورت ہوتو مجھے محبوب سمجھ کر محبت کریں ۔
یہ میرے دل کی ننھی سی خواہشیں ہیں ،
اگر !!!
یہ خواہشات جیلسی کے زمرے میں آتی ہیں تو میں برملا اعتراف کرتی ہوں ہاں میں جیلس ہوتی ہوں ۔
امرام شیر ہولے سے مسکرایا ۔۔۔
اسکے واضح بیان پہ۔
"دیکھا لے آئی نا میں آپ میں انقلاب "
وہ اپنی آوارہ لٹ کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے اسکی گرفت میں مچل کر بولی ۔۔۔
"کیسا انقلاب ؟"وہ ابرو اچکا کر بولا ۔۔۔
"یہی جو ہر وقت کھڑوس بنے رہتے تھے اب میری طرح شرارتی بن گئے ہیں ،میری ہر شرارت کا بدلہ لیتے ہیں ،وہ بھی ذخرف کے سٹائل میں ۔۔۔۔
"کیونکہ اب میں ،میں نہیں رہا تم بن گیا ہوں ،یہ دل تمہارے بن اب دھڑکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔۔۔
"میری بونی باس "
وہ اسکی چھوٹی سی ناک کو ہلکا سا دبا کر مسکرایا۔۔۔
"میجر یہ روٹھنا منانا شرارتیں سب اپنی جگہ ۔۔۔
مگر خدارا ہماری محبت میں کوئی تیسرا جس دن شریک ہوا نا وہ دن میری زندگی کا آخری دن ہوگا ۔۔۔۔"
وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔۔۔
اس وقت وہ امرام شیر کو جنونی لگی ۔۔۔۔جو اپنی محبت میں شراکت داری برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔۔۔۔
"زخرف تم میری حیات کا وہ خوبصورت عنوان ہو
جسے میں نے روح کے صفحات میں درج کیا ہے ،
یہ جسم مٹی سے ملکر مٹی ہوجانا ہے ۔مگر روح تو آخرت کی لافانی زندگی تک رہنی ہے نا ۔۔۔
میری اس روح نے تمہیں اس لافانی زندگی کا ساتھی چن لیا ہے ۔
ہمارا ساتھ دونوں جہانوں میں برقرار رہے گا ۔۔۔
تمہارا ساتھ پانے کے بعد کسی بھی قسم کی کوئی طلب یا تشنگی باقی نہیں رہی ۔۔۔۔وہ محبت سے چور آواز میں بولا۔
"شکر ہے میرے کھڑوس میجر کو بھی محبت بھری باتیں آئیں ورنہ میں نے سوچا تھا ہمیشہ یہ منہ پھلا کر گھومنے والا سڑیل میجر کہاں اتنی رومینٹک باتیں کریں گے ۔۔۔انہیں تو گن اور گولیوں کے علاؤہ کچھ سوجھتا ہی نہیں ہوگا ۔۔۔
کہاں آپ گولہ باری کرنے والے ۔۔۔اور،،،
میں ٹہری چوڑیوں کی شوقین ،
گجروں کی اسیر ،،،
جھمکوں کی دیوانی ،،،
وہ اٹھلا کر بولی ۔۔۔
"میری محبت !!!
"میری بھی اک خواہش ہے ،،،
تمہیں اپنے ہاتھوں سے گجرے پہناؤں ۔۔۔
وہ اسکی کلائی کو اپنے لبوں سے چھو کر بولا ۔۔۔
"چلیں پھر پہلے گجرے لائیں گے تو میرے پاس آئیے گا "
وہ اسکا حصار توڑ کر اٹھی ۔۔۔
امرام شیر اسے پکڑنے کے لیے اٹھا ۔۔۔مگر اسکے کپڑے بیڈ شیٹ کے ساتھ چپکے تھے ۔۔۔
زخرف کی کھکھلاہٹ سارے کمرے میں گونجی ۔۔۔
امرام شیر نے اسکے مذاق کا بدلہ اپنا اپنے انداز میں لینا تھا ۔۔۔اسکی ہنسی کو بریکس لگانے کے لیے ۔۔۔
اس نے سائیڈ ٹیبل پر موجود لیمپ آف کیا اور اسکی طرف بڑھا ۔۔۔
ذخرف کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔اس سے پہلے کے وہ کمرے سے بھاگتی ۔۔۔
امرام شیر نے ایک جھٹکے سے بیڈ شیٹ کھینچ کر پھینکی ۔۔۔اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اسکی بولتی بند کردی اپنے جان لیوا انداز میں ۔۔۔۔
اب زخرف کی کھکھلاہٹ اور دھمکیوں کی آوازیں تھیں اور امرام شیر کے محبت بھرے بدلے تھے ۔۔۔۔
"سنو نا جاناں ۔۔۔!!!میں خاموش تھا ہونٹوں پہ باتیں نہیں تھیں۔وہ اسکے لبوں کو سہلاتے ہوئے بولا ۔۔۔کوئی نہیں تھا میرا من اکیلا تھا ۔۔۔تم ملی ہو تو چاروں طرف پیار کا جادو چھا گیا ،واقعی تم نے مجھے میرے من کو بدل دیا ۔۔۔
تمہارے آجانے سے مجھے جینا آگیا ۔۔۔ہے۔۔۔
تم ملے تو ہم گئے کام سے ۔۔۔"وہ آنکھ ونگ کیے شرارت سے بولا ۔۔۔۔
"اب تمہاری باری کام سے جانے کی ۔۔۔
Baby !!!!
my sweet heart ....
Romance in air ....
Let's break all the boundaries"
وہ اسے اپنے ساتھ رومینس کی ایک الگ دنیا کی سیر کروانے کے جا چکا تھا ۔۔۔۔
جہاں زخرف جیسی ہر وقت پٹر پٹر بولنے والی لڑکی کی کبھی زبان گنگ ہوگئی تھی۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کی ہمراہی میں خوش اور مطمئن تھے ۔۔۔
🌙🌙🌙🌙🌙🌙
❤️
👍
🙏
🌺
💞
🤗
🫀
32